یہ غزہ ہے!یہاں زمین کی نہیں، بقاء کی جنگ لڑی جارہی ہے! | (حصہ سوم)

کچھ قابلِ ذکر نکات

ہمارے ملکوں میں آزادملک کہلانے کے لائق وہی ہیں جنہیں طاقت کے ذریعے دشمن سے آزادی دلائی گئی ہے، قابض حکمرانوں اورعالمی صہیونیت کے پنجوں سے انہیں چھڑانے والے ابطال ہی ان پر حاکم ہیں، ان صفات کے حامل حکمران ہی امریکہ و یورپ کے آگے کھڑے ہوسکتے ہیں اور وہی حقیقی معنوں میں آزاد ہیں، باقی حکمران تو انہی کے غلام ہیں جن کی کمائی سے ان کے آقا حصہ وصول کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر پوری کمائی بھی لے لیتے ہیں، جیسا کہ ٹرمپ نے ریاض کے حکمران کے ساتھ کیا۔

یہ آزاد مسلمان حکام ہی اس لائق ہیں کہ امتِ مسلمہ کو اس کے موجودہ بحران سے نکال کر اس کی عظمتِ رفتہ واپس اسے دلائیں،انہوں نے جس طرح غاصبوں سے اپنی زمین چھڑا کر اپنی حکومت قائم کی، اس میں ہمارے لیے بڑی رہنمائی ہے جسے سامنے رکھ کر ہمیں اپنی زمین اور قوم کے حال کے مطابق حکمتِ عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے، امت مسلمہ کے جو مخلص بیٹے اپنی زمینوں میں تبدیلی کےخواہاں ہیں، ان کے لیے افغانستان جانا، وہاں کے حالات سے واقفیت پیدا کرنا اور وہاں کے تجربے سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔

اپنی شناخت اور اصول طے کیے بغیر ہم کسی بھی کشمکش کا حصہ نہیں بن سکتے، کیونکہ جب تک ہمارے پاس وہ پیغام و دستور نہ ہوجو انسانیت کو اس کے موجودہ مسائل کا حل بتائے، محض اقتدار کی کشمکش میں ہماری شرکت کیونکر ممکن ہے؟ ہمارا تشخص اور پیغام ہی مغرب پر طاری اور صہیونیت کو حرکت میں لانے والی ’عالمی درندگی‘سے ہمارے بچاؤ کی ضمانت ہے۔ یہ ہمارے دینی اصول ہی ہیں جو ہماری جنگ کو مادی کے بجائے اخلاقی بناتے ہیں، ان پر عمل پیرا ہوکر ہی ہم اس قابل ہوسکتے ہیں کہ دنیا ہمیں ’رحم دل فاتح‘ کا لقب دے، یہ ہمارا دینِ اسلام ہی تھا جس کی دعوت لے کر ہم چودہ سو پینتس سال قبل دنیا کی طرف آئے تھے اور عقیدے کے اختلافات کے باوجود انسانیت اس کے سائے میں امن وسلامتی کے ساتھ ہنسی خوشی وقت گزارتی رہی۔

جس گروہ میں فی الوقت مکمل وجامع جنگی حکمت عملی بنانے کی صلاحیت نہ ہو اسے چاہیے کہ ابتدائی طور پر وہ اپنے دشمن کی حکمتِ عملی کے بالکل الٹ اپنی حکمتِ عملی بنائے،مثلاً اگر وہ یہ کہے کہ وہ جنگ کا دائرہ پھیلانا نہیں چاہتا تو ہمارے لیے لازمی ہے کہ ہماری توجہ جنگ کا دائرہ پھیلانے کی طرف ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ دشمن کے لیے ایک وقت میں کئی محاذ سنبھالنا مشکل ہے،اس لیے وہ چاہتا کہ بقیہ محاذ ابھی ٹھنڈے رہیں اور وہ گرم محاذ سے فارغ ہوکر بعد میں ان سے نمٹے، امتِ مسلمہ کی اقوام پر اس کھلی جنگ میں حصہ لینا ضروری ہے، اس سے ان غلام حکومتوں کی افواج اور ماہرین میں سے کچھ کے بغاوت کرکے امت سے آملنے کے قوی امکانات ہیں، جنگ کا دائرہ پھیلانا اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ امارتِ اسلامی افغانستان کے ابطال مغربی دشمن کو ذلیل کرکے اپنی سرزمین سے نکال چکے ہیں، یقیناً دشمن اب بھی بھاری بھرکم عسکری آلات سے لیس ہے، لیکن وہ مختلف محاذوں پر اقتصادی کمزوری کا شکار ہے، داخلی انتشار اور سماجی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، کسی بھی جنگ میں شمولیت سے اس کی یہ شکست وریخت اور بڑھے گی اور وہ جلد اپنے انجام کو پہنچ جائے گا (ان شاء اللہ)، چونکہ افریقہ کے کئی ملکوں نے بھی یورپی استعمار کی بالادستی کی چادر اپنے اوپر سے اتار پھینکی ہے اس لیے ہم پر لازم ہے کہ صہیونی مغرب کو عالمِ اسلام کے متعدد محاذوں پر ایک نئی جنگ میں الجھائیں، اس کی قوت نچوڑ کر اسے ایسی شکست دیں کہ وہ دوبارہ اپنی بالادستی کا خواب بھی نہ دیکھے۔

عالمِ اسلام پر مسلط حکمران صہیونی مشینری کا حصہ ہیں اور ان میں بھی سرِ فہرست عالمِ عرب کے حکمران ہیں، دکھاوے کے طور پر بھی مغرب کے خلاف کچھ کہہ کر ہیرو بننا ان کے لیےمحال ہے، یہ تو دشمن کا وہ ہاتھ ہیں جو اس کے مفادات کا محافظ، دین سے برسرِ جنگ اور ہم پر ظلم کرکے ہم سے ہماری عزت وآزادی کا غاصب ہے، یہ حکمران ہمیں یہ باور کراتے ہیں کہ عزت کی راہوں پر چلنے میں ہمارے لیے رسوائی وعار کا سامان ہے، یہ کوئی حکمت و عقلمندی نہیں کہ ہم ان کے خلاف بغاوت نہ کریں اور خفیہ جنگ میں ان کا اور ان کے چیلوں کا ہدفی قتل نہ کریں، یہ سارے بلااستثنا جائز ہدف ہیں، ہر ممکن طریقے سے انہیں ہٹائے اور ختم کیے بغیر نہ تبدیلی آسکتی ہے اور نہ دین کی نصرت ہی کی جاسکتی ہے۔ خبریں دیکھتے رہنا، منہ بسورنا اور شہداء پر اظہارِ افسوس کرنا یہ آزادی اور نجات کا راستہ نہیں، بلکہ آزادی کا راستہ یہ ہے کہ خود کو منظم کیا جائے، حکمتِ عملیاں بنائی جائیں اور ہتھیار حاصل کرکے جنگ میں کودا جائے۔

حکمرانوں کے مددگاروں کا ایک بڑا طبقہ جو ان کا اوّلین دفاعی خط ہے، غیر عسکری ہے، یعنی زرخرید اہلِ علم اور ان کے بھائی بند سیاسی اور کاروباری لوگ، نیز ذرائعِ ابلاغ اور فلمی صنعت سے وابستہ کچھ گروہ، یہ عوام کے دماغوں سے کھیل کر انہیں فتنے میں ڈالتے ہیں، حقائق اور تاریخ کو مسخ کرتے ہیں، ان کو فی الحال اپنے حال پر چھوڑدیں، لیکن جب صفیں چھٹ جائیں اور عام لوگوں کی نگاہوں میں بھی ایمان اور کفر کا خیمہ الگ ہوجائے تو ان کے بارے میں یہی کہاجائے گا کہ ہر ممکن طریقے سے ان کا شر ختم کیا جائے۔

ایک ایسی جنگ میں جس میں دشمن اپنے اتحادیوں کی کمک سے مضبوط ہوتا ہے، اتحادیوں کو دشمن کی کمک کے لیے یونہی بلامحاسبہ نہیں چھوڑا جائےگا، اتحادیوں کو خواہ کمک کے لیے آتے ہوئے نشانہ بنایاجائے یا ان کی اپنی زمین پردونوں میں کوئی فرق نہیں، اور اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہدف نے فوجی وردی پہن رکھی ہے یا نہیں، اور خواہ ہدف سیاسی ہو یا معاشی، البتہ یہ ضروری ہے کہ یہ ضربیں اتحادی حکومت کے لیے تکلیف کا موجب ہوں، اس کی کمزوری کو ظاہرکریں، ان کے خوف سے دیگر اتحادی دشمن کی کمک سے باز آجائیں، اتحادی حکومت کی عوام کو دباؤ میں لاکر انہیں مشتعل کردیں تاکہ وہ اپنی قیادت کو دشمن کی کمک سے رکنے، اسلامی زمینوں سے انخلا اور مسلمانوں کی تبدیلی کی کوشش میں مداخلت نہ کرنے پر مجبور کرے۔

امریکی،برطانوی اور دیگر صہیونی ریاستوں کے حکام جو فلسطین میں قاتلوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، نیز وہ سیاسی نظام جس کے ذریعے یہ سب حکومت کرتے اور جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، ہمارے لیے جائز ہدف ہیں، یہ حکمران وہ بیان بازیاں کرتے ہیں جن پر خود ان کا اپنا عمل نہیں ہوتا، سارا ملبہ نیتن یاہو پر ڈال کر اس پر نرم الفاظ میں تنقید کرتے ہیں، اور اپنے سیاسی مواقف، اسلحہ بارود، انٹیلی جنس معلومات اور محاصرہ کے ذریعے اہلِ غزہ کو بھوک پیاس کا شکار کرکے اس کی مدد بھی کرتے ہیں، سو یہ سبھی انسانیت کشی کی اس مہم اور اسلام کے خلاف جنگ میں پورے پورے شریک ہیں۔ نیتن یاہو ،بائیڈن اور اسلام کے خلاف یکجا بقیہ یورپی سڑاند میں کوئی جوہری فرق نہیں۔

ہولوکاسٹ(نازیوں کے ہاتھوں یہود کا قتلِ عام) جو فلسطین کی طرف یہود کی ہجرت کا سبب بنا، اسے بے نقاب کرنا ضروری ہے کہ یہ محض ایک افسانہ ہے، ہولوکاسٹ کے وقوعے کے انکار میں کئی کتابیں نشر ہوچکی ہیں، جن میں پہلی کتاب امریکی وکیل فرانسیس پارکر یوکی (Francis Parker Yockey) کی کتاب: امپیرئم1 تھی، اس موضوع پرہیری ایلمر بارنیس (Harry Elmer Barnes)،جیمس مارٹن(James J. Martin) ، ویلس کارٹو(Willis Carto)،فرانسیسی مورخ پال راسینیہ (Paul Rassinier)، ڈیوڈ ایرونگ(David Irving)، رچرڈ ویرل (Richard Verrall) اور راجر گاروڈی (Roger Garaudy) نے بھی لکھا ہے اور سب نے ہولوکاسٹ کے وقوع پذیر ہونے کی نفی کی ہے2،کیونکہ زندہ جلائے جانے کے واقعات، گیس چیمبرز اور حراستی کیمپوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے، تفصیل کے لیے مذکورہ بالا کتب کی طرف رجوع کریں۔

امت ابطال سے عشق کرتی ہے اور انہیں دیکھنے کا شوق رکھتی ہے، سو غزہ کے مجاہدین کو چاہیے کہ اپنے جنگی ابطال کو سامنے لائیں، امت کو ان کی آواز سنائیں جس میں وہ اپنے جنگی کارنامے بیان کریں، ضروری ہے کہ امت اپنے صبح وشام ان کے ساتھ بِتائے، ان کے رنج والم سے بھی واقف ہو اور ان کے قہقہوں، ہنسی مذاق سے بھی، یہ بھی ضروری ہے کہ امت شہداء کی کچھ نہ کچھ سیرت پڑھے، خواہ وہ شہداء مجاہدین ہوں یا ثابت قدم عوام کے افراد۔

کیمرے کی آنکھ میں اتفاقیہ محفوظ ہوجانے والے ایک منظر کی وجہ سے امت نے ’سیاہ چادر پوش‘ مجاہد کو اپنا ’ہیرو‘ مان لیا،سجدے میں شہید ہونے والے مجاہد کے ساتھ بھی اپنی محبت کا خوب خوب اظہار کیا اور ان دونوں کو ایک رمز و علامت بنا لیا، مجاہدین کو چاہیے کہ وہ اپنے متعدد ابطال کو سامنے لائیں، کچھ خاموشی سے دشمن کے ساتھ اسی کی زبان یعنی طاقت کی زبان میں بات کریں، کچھ دشمن کو نشانہ بناکر غزہ کی شاموں اور راتوں میں آگ کی روشنی میں کارروائی کا احوال بیان کریں، کچھ دشمن کو ضربیں لگائیں اور اپنی حکیمانہ گفتگو سے امت کو بھی جوش دِلائیں، سو کہاں ہے آپ کا ٹینکوں کا شکاری مجاہد؟ کہاں ہے دشمن کے فوجیوں کا شکاری؟ کہاں ہیں وہ مجاہد جو دشمن کے زیرِ قبضہ علاقوں میں ہدفی قتل کرتے ہیں؟ کہاں ہیں وہ شاعر جو اپنی شاعری سے قوموں کے جذبات کو ثریا کا ہمسر بنادیں؟ کہاں ہیں؟ کہاں ہیں؟ بے شمار جواب طلب ’کہاں‘ امت اور مجاہدین کو تک رہےہیں۔

ایٹمی ہتھیاروں کی غیرموجودگی کی صورت میں مغرب میں ایسے سلیپر سیلز(Sleeper cells)3 اور انفرادی مجاہدین کا ہونا ضروری ہے جو جنگ کو دشمن کی زمین پر منتقل کریں، بالخصوص دشمن کی معیشت اور امن کو خراب کریں اور ان کی قیادت کو ہدف بنائیں، ایسے سلیپر سیلز اور انفرادی مجاہدین کے نہ ہونے سے جہادی محاذوں پر تکتیکی سطح(Tactical level) کے ایٹمی حملے کی تلوار ہمیشہ لٹکتی رہے گی، لیکن سلیپر سیلز کا وجود اور وقتاً فوقتاً ان کی کارروائیاں ہماری وہ جوابی قوت ہیں جس کا خوف دشمن کو انتہائی قدم اٹھانے سے باز رکھے گا۔

ایسا دشمن جس کی سرے سے کوئی اخلاقیات ہی نہ ہوں اور وہ اپنے مدِ مقابل کو انسان ماننے پر ہی تیار نہ ہو، ایسے دشمن کے خلاف فیصلہ کن معرکے میں جنگ کی حدود وقیود اور اصول نہیں طے کیے جاسکتے، وہاں جنگی اخلاقیات پر بات کرنا درست نہیں ، بلکہ معاملہ بالمثل (جیسے کو تیسا،ادلے کا بدلہ) پر بات ہونی چاہیے،جنگ کے اصولوں کی بات معاصر دنیا میں وہیں کی جاتی ہے جہاں فریقین جنگ کو حتمی انجام تک پہنچانے سے قاصر ہوں یا گھبراتے ہوں، ایسے میں وہ داخلی غیظ وغضب کو بے قابو ہونے سے روکنے کے لیے یہ راگنی الاپتے ہیں۔ چلیں! مان لیتے ہیں کہ ’جنگی اخلاقیات‘ نامی کوئی چیز واقعتاً موجود ہے، لیکن تب بھی ہمیشہ کسی عمل کے جواب میں زبانی ردِّ عمل دینا بھی ہیبت ودہشت کو ختم کردیتا ہے، کہ چونکہ تم نے ایسا کیا ہے تو میں بھی اس کا جواب دوں گا، رعب وہیبت قائم کرنے کا اصول یہ ہے کہ دشمن پر بھرپور ضرب لگانے میں پہل کی جائے۔

دشمن جنگ سے پہلے، جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد بھی نفسیاتی جنگ اور خوف کے ہتھکنڈوں سے کام لیتا ہے، لیکن جنہیں اپنے رب پر بھروسہ ہو، ان پر یہ حربے کارگر نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ مولوی احسان اللہ احسان4 پر رحم فرمائے، جب سعودی سفیر عامری نے انہیں دھمکایا کہ جو امریکہ سے دشمنی مول لیتا ہے وہ زمین پر چل سکتا ہے نہ زندہ رہ سکتا ہے (ہمارے سامنے مولوی صاحب نے اپنی خوبصورت عربی میں یہی الفاظ نقل کیے)۔ مولوی صاحب نے اسے جواب دیا کہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ تم امریکہ کے سفیر بن گئے ہو، یاد رکھو! میرے دین نے مجھے سکھایا ہے کہ بہت سے کا م ایسے ہیں جو اللہ کے سوا ور کوئی نہیں کرسکتا، عزت بھی وہی دیتا ہے ذلت بھی، اگر اس میں سے کسی کا اختیار امریکہ کے پاس ہے تو وہ کر گزرے۔

تحفظِ خوشحالی آپریشن‘5 اس جنگ کی سب سے تعجب خیز چیز ہے، مغرب غزہ میں ہونے والی انسانی خلاف ورزیوں کے خلاف ہر روز الفاظ کی جگالی کرتا ہے تاکہ خطے کی صورتحال قابو سے باہر نہ ہوجائے، لیکن بجائے اس کے کہ وہ صہیونیوں کو غزہ میں درندگی سے بزور باز رکھے، وہ اس درندگی کو جاری رکھنے کے لیے اسے ہر قسم کی امداد فراہم کررہا ہے، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اس نے اپنے جنگی جہاز بھیج کر یمن میں بھی ایک محاذ کھول دیا ہے، تاکہ فلسطین پر قابض صہیونیوں تک مشرق کی جانب سے آنے والے سازوسامان کی ترسیل متاثر نہ ہو! یہ کیسا نفاق،کھلواڑ اورذلالت ہے؟ یہ اس وجہ سے اتنے بے باک ہوگئے ہیں کہ خطے کے حکمرانوں میں کوئی بھی غیرت مند نہیں؟ جی! سارے ہی صہیونی ہیں، ان سے کوئی امید نہیں، اب عوام کا وقت ہے کہ وہ کچھ کردکھائیں۔

تحفظِ خوشحالی آپریشن‘ سے بھی زیادہ تعجب خیز بحرین کے صہیونی نوکر کا موقف ہے! اس نے سات اکتوبر کے ابطال پر درندگی کی تہمت لگائی اور ’تحفظِ خوشحالی آپریشن‘کا حصہ بن گیا، یہ بیچارہ اس اتحاد کی کیا خدمت بجا لاسکتا ہے سوائے اس کے کہ عربی لباس پہن کر اس اتحاد میں ایک ناکام عرب جزیرے کی نمائندگی کرے؟ خلیج کے شمال میں واقع بحرین بیچارے کے وسائل ہی کیا ہیں؟ اس کا محلِ وقوع بھی اتنا دوردراز ہے کہ بحرِ احمر سے اس کا کوئی لینا دینا ہی نہیں، ان شاءاللہ جزیرۂ بحرین کے مخلص لوگ خود ہی مغرب کے اس نوکر کے خلاف عملی اقدام کریں گے۔

افغانستان، یمن، صومالیہ اور مغربِ اسلامی کے تجربات ایک بنیادی چیز کی طرف ہماری امت کی رہنمائی کررہے ہیں یعنی مسلح عوام جسے نہ کوئی بیرونی دشمن جھکاسکتا ہے اور نہ اندرونی آمر، جو بھی خوش فہم فرد یا نظام ان پر مسلط ہونا چاہتا ہے، یہ اس کی خوش فہمی بہت جلد دور کردیتے ہیں، مسلح عوام ہی غلط فیصلوں کو نافذ ہونے سے روکتے ہیں، وہی ریاست اور اس کے اداروں کی اصل قوت ہوتے ہیں جس سے دشمن ڈرتے ہیں، بھلا اس قوم پر چڑھائی کرنے کی جرأت کس میں ہے جس کی فوج وہاں کی عوام ہو؟ لہٰذا مسلمانوں پر بطورِ خاص لازم ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے پاس اپنا ذاتی ہتھیار ہو، اور اسے چلانے کی پوری تربیت بھی حاصل کرے، کچھ کے پاس خصوصی ہتھیار بھی ہونے چاہئیں، ہماری قوموں کو جنگی تربیت دینا ضروری ہے، انہیں جنگی حربے پڑھانا اور ان کی عملی مشق کروانا ضروری ہے، انہیں سٹریجیٹی کا شعور دینا ضروری ہے، سمجھدار حکومت اپنے عوام کو مسلح کرتی ہے، اس بات کی اہمیت سے انکار نہیں کہ اسلامی حکومت میں سرحدات کی حفاظت اور معاشرے میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے مستقل ادارے ہونے چاہییں ۔ لیکن عوام کو مسلح کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے، کیونکہ مسلح عوام ایسا حفاظتی حصار ہیں جس میں نقب لگانا ناممکن ہے۔

ایک وقت میں شہیدی حملے بہترین جوابی قوت تھے، لیکن افسوس کہ جب عراق وشام میں مجاہدین نے کم اہمیت کے حامل اہداف پر بھی ان کا استعمال شروع کردیا توا ن کی اصل ہیبت ختم ہوگئی، نابود ہونے سے بچاؤ کے لیے ایک ایسا اسلحہ ہونا ضروری ہے جس کا خوف دشمن کو آخری حد تک جانے سے روکے رکھے، ہمارے پاس یہ اسلحہ مسلح عوام کی صورت میں موجود ہے اور اسی کو ہمیں دنیا کے سامنے اپنی قوت کے طور پرپیش کرنا ہے۔ ایک آزاد اور اہلِ افغانستان، یمن، صومالیہ اور مالی وغیرہ کی طرح مکمل مسلح عوام سے لڑنے کاجگرا کس کا ہے؟ پھر بھی کسی بڑی یا ’’چھوٹی‘‘ طاقت کو ایسی عوام سے لڑنے کا شوق چرائے تو وہ اپنے مردوں کی تدفین کے لیے کفن اور تابوت ہمراہ لائے، ان قوموں کی زمین پر بھلا کون قابض رہ سکتا ہے جن کی عوام ہی ان کی فوج ہو!

مغربی استعمار بعد ازاں عالمی صہیونیت ہمارے عالمِ اسلام بالخصوص عالمِ عربی کی حکومتو ں پر پوری طرح قابض ہے، لیکن ہمارے عوام کی بہت کم تعداد ان کے زیرِ اثر ہے، سو ہمارے لیے ہرگز روا نہیں کہ انہیں یونہی چھوڑ کر دشمن کی ترغیب وترہیب کے لیے لقمہ تر بننے دیں، ہمیں پوری کوشش کرکے اپنے عوام کو انقلاب کا شعور دینا ہے، اس کا طریقِ کار بتانا ہے، انہیں حکام کو روند ڈالنے کی ترغیب دینی ہے، اور اس پورے عمل کے لیے بڑی باریک بینی سے لائحہ عمل مرتب کرنا ہے۔

رمضان کے ماہِ مقدس میں بھی غزہ میں ظلم وسربیّت کا جاری رہنا ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ اسلامی زمینوں پر صہیونیوں (مغربیوں اور یہودیوں) کے تما م مفادات کو نشانہ بنایا جائے، یہ بالخصوص ان اداروں اور کمپنیوں میں کام کرنے والے اہلِ اسلام کا فریضہ ہے، اور یہ وار ایسا بھرپور ہو کہ اس کی تکلیف صہیونیوں کو پوری طر ح محسوس ہو، کیونکہ اقصیٰ کی نصرت کا خود پر عائد شدہ فریضہ ادا کرنے میں پہلے ہی بہت تاخیر کرچکے ہیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِيْعًا؀(سورۃ النساء: ۷۱)

’’ اے ایمان والو! (دشمن سے مقابلے کے وقت) اپنے بچاؤ کا سامان ساتھ رکھو، پھر الگ الگ دستوں کی شکل میں (جہاد کے لیے) نکلو، یا سب لوگ اکٹھے ہو کر نکل پڑو (لیکن نکلو ضرور)۔‘‘

اللہ جل شانہ حکم دے چکے ہیں:

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ؀(سورۃالتوبۃ: ۴۱)

’’(جہاد کے لیے) نکل کھڑے ہو، چاہے تم ہلکے ہو یا بوجھل، اور اپنے مال و جان سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘‘

سو اب کس کا انتظار ہے؟

٭٭٭٭٭

سات اکتوبر کے مبارک حملوں کے جائز وشرعی اہداف کی تکمیل کے لیے ہم سبھی قیدی یہودیوں اور ان کی حفاظت کی مسئلے میں مشغول رہے، جبکہ دشمن نے جنگ کے قریبی ہدف:فلسطینیوں کا قتلِ عام اور غزہ سے مجاہدین کا انخلا،کے حصول کے لیے مذاکرات کی میز اور قیدیوں کے مسئلے کو چنداں اہمیت نہیں دی ۔

قیدیوں کے ذریعے مطالبات منوانے میں ہم نے سابقہ تجربات کوہی پیشِ نظر رکھا اور اس جانب توجہ نہیں کی کہ صہیونی دشمن پہلے کے مقابلے میں زیادہ نسل پرست اور مغرور ہوگیا ہے، اب اسے اپنے عوام کے مطالبات اور اپنے قیدیوں کی زندگی کی کوئی پروا نہیں رہی، کیونکہ جس خطرے کا اسے سامنا ہے، وہ اس کا حقیقی حجم جان چکا ہے اور موجودہ صورتحال کو خطے میں خود کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک سنہری موقع گردانتا ہے، ان کی دیدہ دلیری اس وجہ سے بڑھ گئی ہے کہ وہ دنیا کو ایک ایسے باڑے میں بدل چکے ہیں جس کے تمام جانور (یہود بقیہ تمام غیر اقوام کو جانور ہی سمجھتے ہیں) ان کی خدمت میں لگے ہیں، امریکہ اور یورپ کی حکومتیں بھی حضرت مسیح ﷤کی واپسی کی پیشین گوئیوں کے تناظر میں ان کا ساتھ دے رہی ہیں، لہٰذا یہود بلاجھجک اس وقت جنگ کا ایک مرحلہ وار ہدف یعنی خطے کی نئی سیاسی تشکیل کے حصول کے لیے کام کررہے ہیں، جوکہ آخری ہدف یعنی عالمی سطح پر نئی سیاسی تشکیل (نئے ترین عالمی نظام) کی تمہید ثابت ہوگا، یہ ان کی آرزوئیں ہیں جو ان شاء اللہ ہرگز پوری نہیں ہوں گی۔

قیدیوں کے موضوع پر گہرائی کے ساتھ تحقیق کرنے کی ضرورت ہے، معرکوں کے دوران ہمیں اللہ جل جلالہ کے اس ارشاد پر عمل کرنے کی ضرورت ہے:

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ؀ لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِــيْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ؀ (سورۃ الانفال: ۶۷، ۶۸)

’’یہ کسی نبی کے شایانِ شان نہیں کہ اس کے پاس قیدی رہیں جب تک کہ وہ زمین میں (دشمنوں کا )خون خوب اچھی طرح نہ بہا چکا ہو (جس سے ان کا رعب ودبدبہ خاک میں مل جائے) تم (فدیے کی صورت میں) دنیا کا ساز وسامان چاہتے ہو اور اللہ (تمہارے لیے) آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے اور اللہ صاحبِ اقتدار ہے حکمت کا مالک ہے ۔‘‘

دشمن کے شکست کھانے اور جنگی عمل ختم ہونے کے بعد جب غنیمت اور اسلحہ سمیٹا جاتا ہے، اسی وقت بقیۃ السیف دشمنوں کو قید کیا جاتا ہے، البتہ دورانِ جنگ بھی خاص کارروائیاں کرکے دشمن کے اہم افراد کو گرفتار کرکے دشمن سے بزور اپنے مطالبات منوائے جاتے ہیں، مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل تک پہنچنے کے لیے اقدامی جنگ کو بڑھانا اور تقویت دینالازم ہے، محض دفاع میں شجاعت دکھانا کافی نہیں، لازم ہے کہ دنیا بھر کے مجاہدین اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لیں، پھر اصل بات کی طرف آتے ہیں، گرفتاری اور اغوا کاری کا موضوع بحث طلب ہے، ایسی کارروائیوں سے ہدف کے حصول میں کافی زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔

تمام دنیا کے مجاہدین کو چاہیے کہ وہ جنگ ختم ہونے کے بعد اپنی ساری کارکردگی پر نظر ڈال کر اس کا ایک خلاصہ تیار کریں، تاکہ ہم اس کی روشنی میں اپنے آئندہ لائحے تشکیل دیں، ہم پر لازم ہے کہ دشمن کی محض عسکری معلومات کے حصول پر اکتفا نہ کریں، بلکہ اس کے آئندہ اقدامات اور مہم جوئیوں کو جاننے کے لیے ہمیں اس کی مکمل داخلی صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے، میں اللہ جل شانہ سے دعاگو ہوں کہ سات اکتوبر کی اس کارروائی کے سب منصوبہ بندی کرنے والوں، اسے انجام دینے والوں، دشمن کے ردّعمل پر صبر کرنے والوں، سب کچھ قربان کردینے والوں اور مقدور بھر اسباب اختیار کرنے والوں کو پورا پورا اجر دے، اس میں کوئی کمی نہ کرے، ان سے اگر کوتاہی ہوئی ہے تو میں انہیں معذور سمجھتا ہوں، کیونکہ پورے خطے کے نام نہاد اسلامی لشکروں نے انہیں بے یارومددگار چھوڑ دیا، نیز عوام کو بھی ایسی کوئی قیادت میسر نہ ہوئی جس کے تحت وہ غزہ کے مسلمانوں کی نصرت کرتے۔

٭٭٭٭٭

دشمن کے مظالم کاجواب باتوں سے نہیں عمل سے دینا چاہیے،تاکہ وہ مزید جری نہ ہوا ور مظالم سے باز آجائے، کمزور ردِّعمل تنظیموں اور ریاستوں کی کمزوری کو مزید گہرا کرتا ہے، اس لیے کمزور جواب دینے سے بہتر ہے کہ جواب دیا ہی نہ جائے، جب آپ بیرونی دشمن کے حملے کا جواب دیتے ہیں تو داخلی مخالفین گھبرا کر باز آجاتے ہیں اور طے کردہ حدود سے تجاوز نہیں کرتے، بیرونی حملے کا جواب نہ دینا داخلی مخالفین کو بھی سرکشی پر اُکساتا ہے، سو جب دشمن کی طرف سے پے درپے حملے ہوں تو سمجھ جائیں کہ آپ نے ہی کمزور ردِّعمل دِکھا کر اسے شہ دی ہے، ا س سے داخلی مشکلات بھی بڑھیں گی، کیونکہ تنظیم یاریاست کی ہیبت و دبدبہ تو ختم ہوچکا، اور اس کا بحال کرنا کوئی آسان کام نہیں، اللہ رب العالمین نے ہمیں پہلے ہی یہ سب بتادیا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ ۚ اَللّٰهُ يَعْلَمُهُمْ ۭوَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ يُوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ؀ (سورۃ الانفال: ۶۰)

’’اور (مسلمانو!) جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی چھاؤنیاں تم سے بن پڑیں ان سے مقابلے کے لیے تیار کرو، جن کے ذریعے تم اللہ کے اور اپنے (موجودہ) دشمن پر بھی ہیبت طاری کرسکو، اور ان کے علاوہ دوسروں پر بھی جنہیں تم ابھی نہیں جانتے، (مگر) اللہ انہیں جانتا ہے۔ اور اللہ کے راستے میں تم جو کچھ خرچ کروگے وہ تمہیں پورا پورا دے دیا جائے گا اور تمہارے لیے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔‘‘

لازم ہے کہ ہمارے معاشروں کی فطری حالت ،ہماری آب وہوا اور ماحول ہی طے کریں کہ ہمارے یہاں کا تمدن کیسا ہو! اس کے ساتھ اگر یہ بات بھی شامل کردی جائے کہ ہمیں ایک ایسے دشمن سے بھی پالا ہے جس کی مجرمانہ فطرت کسی قاعدے قانون اور اخلاقیات کی پابند نہیں، تو اس کامطلب یہ ہوا کہ ہمارے تمدن کی بنیاد سادگی پر ہونی چاہیے، لیکن صدافسوس کہ ہم بلا سوچے سمجھے محض مغرب کی اندھی تقلید میں انہی کے تمدن، خوارک و پوشاک کے دیوانے ہیں، یہ فکر کیے بغیر کہ کیا یہ تمدن ہماری شناخت کی نمائندگی کرتا ہے؟ یا کم ازکم اس سے کوئی مناسبت رکھتا ہے؟ تمدن کے یہ مظاہر تہذیبی ترقی کی علامت نہیں، بلکہ یہ تو دین و فطرت اور ماحول و آب وہوا کے تقاضوں کی جھلک ہیں۔

ٹیکنالوجی میں مغرب کی برتری اس کی تہذیبی برتری کی دلیل نہیں،ٹیکنالوجی کی یہ ترقی صدیوں سے جاری انسانی کوششو ں کا نتیجہ ہے، جن میں ہر قوم نے اپنا حصہ ڈالا ہے، سو کسی بھی امت کی حقیقی برتری کا پیمانہ اس کی اقدار و اخلاقیات ہیں اور وہ پیغام ہے جو وہ انسانیت کے سامنے پیش کرے، اور ان باتوں میں مسلمانوں کا کوئی مدِ مقابل نہیں۔ خلاصہ یہ کہ شہر بسانے کی مہم میں سادگی پیشِ نظر رہے، تعمیرات میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے، تاکہ ہم دشمن کے ہاتھ اپنی کوئی ایسی کمزوری نہ دیں جس سے وہ فائدہ اٹھائے۔

نیز مغربی نظام ہائے حکومت (جمہوریت، دستوری بادشاہت) کی درآمد اور قومی ریاست، قومیت اور علاقائیت کے فلسفے کی ترویج بھی ہمارے دین و ثقافت، عادات و اطوار سے میل نہیں کھاتی، یہی دین اور یہی ثقافت تھی جس کی بدولت ہم دنیا پر حاکم ہوئے، جب سے ہم نے درآمدشدہ افکار کو اپنایا اور یہ آلہ کار حکمران ہم پر مسلط ہوئے ہم مسلسل زوال کا شکار ہیں، واپس اپنے دین و ثقافت کی طرف لوٹنے کے سوا ا س بحران سے نکلنے کا اور کوئی راستہ نہیں۔

خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد عالمِ عرب کی فوجوں نے کوئی قابلِ ذکر مکمل فتح حاصل نہیں کی، البتہ عوامی انقلابات کی کامیابی کی صورت میں اس کے ثمرات ضرور سمیٹے ہیں، ہماری منظم عوامی قوتوں نے ہی انقلاب کی اکثر مسافت طے کی جس کے نتائج دوررس ہیں، کیونکہ ہم اپنی تمام کوششوں میں موجودہ صورتحا ل سے سبق حاصل کرکے اگلا قدم اٹھاتے ہیں، لازم ہے کہ انقلاب لانے کے لیے ہم اپنے عوام کی حوصلہ افزائی کریں، انہیں انقلاب کا فلسفہ اور سٹریٹجی سمجھائیں، اس کے وسائل و ذرائع سے روشناس کروائیں، تاکہ عوامی قوتیں یہ طے کرسکیں کہ کون سی حکمتِ عملی ان کی زمین، عوام اور خود ان کے مطابق ہے، اور انہوں نے اپنی قیادت کیسے تیار کرنی ہے، عوام کو اپنے ساتھ ملاکر آگے بڑھنے کے لیے اپنی صف بندی کیسے کرنی ہے، اپنے اصولوں کی مناسبت سے اپنے اداروں کی تاسیس کس طرح کرنا لازم ہے، تبدیلی کے مشہور طریقوں (دعوت، بغاوت، گوریلا جنگ، خفیہ کارروائیاں اور انقلاب) میں سے کون سا ان کے حال کے مناسب ہے، یا پھر اپنے خصوصی حالات کے پیشِ نظر انہیں ایک نیا طریقہ ایجاد کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ اپنا سیاسی مستقبل بنا کر اپنا نظام کھڑا کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔

باریک بینی سے دیکھنے والوں پر روشن ہے کہ تبدیلی کا عمل صحیح راستے پر قدم بقدم چل کر مکمل ہوتا ہے، ارشادِ باری ہے:

اِذْ يُرِيْكَهُمُ اللّٰهُ فِيْ مَنَامِكَ قَلِيْلًا ۭوَلَوْ اَرٰىكَهُمْ كَثِيْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ سَلَّمَ ۭ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ 43؀ وَاِذْ يُرِيْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَيْتُمْ فِيْٓ اَعْيُنِكُمْ قَلِيْلًا وَّ يُقَلِّلُكُمْ فِيْٓ اَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا ۭوَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ؀ (سورۃ الانفال: ۴۳، ۴۴)

’’اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ تمہیں خواب میں ان (دشمنوں) کی تعداد کم دکھارہا تھا اور اگر تمہیں ان کی تعداد زیادہ دکھادیتا تو (اے مسلمانو) تم ہمت ہار جاتےاور تمہارے درمیان اس معاملے میں اختلاف پیدا ہوجاتا لیکن اللہ نے تمہیں (اس سے) بچالیا۔ یقیناً وہ سینوں میں چھپی ہوئی باتیں خوب جانتا ہے۔ اور وہ وقت یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے مقابل آئے تھے تو اللہ تمہاری نگاہوں میں ان کی تعداد کم دکھارہا تھا اور ان کی نگاہوں میں تمہیں کم کرکے دکھا رہا تھا تاکہ جو کام ہوکررہنا تھا اللہ اسے پورا کردکھائے، اور تمام معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔‘‘

دشمن کو حقیقت کی نگاہ سے جانچنا ضروری ہے، اس کی طاقت کی بابت ایسا مبالغہ درست نہیں جو خوف کا باعث ہو، اسی حقیقی تجزیے کی نتیجے میں گیارہ ستمبر کی مبارک کارروائیاں، افغانستان کی جنگ اور سات اکتوبر کا مبارک طوفان پایہ تکمیل کو پہنچا۔ مجاہدین نے مغرب اور یہود کا رعب ختم کردیا، ان کی فوجوں کی طاقت کا وہم زائل کردیا، عامۃ المسلمین کے سامنے آزادی کے سنگِ میل واضح کردیے اور استعمار اور اس کے غلاموں سے نمٹنے کا طریقہ سکھا دیا۔ طاقت سے جو چیز چھینی جائے وہ آستانوں پر پیشانیاں ٹیکنے اور آہ و بکا سے واپس نہیں ملتی، بلکہ صرف قوت سے ہی اس کا دوبارہ حصول ممکن ہے۔

تبدیلی کے عمل کی اہم ترین پیش رفت حقیقی دشمن کی پہچان ہے، بعض دشمن ایسے ہوتے ہیں جو اصل دشمن نے اپنے آپ کو چھپانے کے لیے اپنے سامنے کیے ہوتے ہیں، آج کے دور میں دشمنوں کی فہرست بڑی طویل ہے، اس میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح کے دشمن شامل ہیں، جنگ کو اچھی طرح لڑنے کے لیے اسی فہرست کی روشنی میں انقلاب کی حکمتِ عملی طے کرناضروری ہے کہ کس سے ہمیں جنگ کرنی ہے، کس کو غیر جانبدار رکھنا ہے، کس کو ڈرا کر رکھنا ہے اور کس کے ساتھ اتحاد کرنا ہے۔ ناممکن کچھ بھی نہیں، کیونکہ اللہ جل جلالہ ہی جنگ کو چلارہا ہے، وہی ہر مرحلے کے لیے رجالِ کار فراہم کرتا ہے، اہم یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اللہ کے عطا کردہ موقع پر اپنا کردار ادا کرے، ہرایک وہی کام انجام دے گا جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے، سو امت کے معاملات کے امین، کہنہ مشق ومعتبر اہلِ علم وفکر وسیاست وغیرہ اپنا وہ کردار ادا کریں جس کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔

٭٭٭٭٭

تبدیلی کے راستے پر:

یہود کے ساتھ جنگ ہمیشہ ہی بقا کی جنگ رہے گی، نہ کہ محض سرحدات کی۔ اور ان کا آخری انجام تب ہوگا جبکہ درخت وپتھر بھی ان کے خلاف بولیں گے، اور اس وقت کے آنے سے پہلے بھی اللہ ان پر اپنے ایسے بندے مسلط کرے گا جو ان یہود کو سخت سزا دیں گے، میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ اس جہادی نسل کے فرزند ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں اللہ نے یہود اور یہود کی صف میں موجود لوگوں کو سزا دینے کے لیے چن لیا ہے۔

سفاک نتن یاہو کے انجام کی یہ چند صورتیں ممکن ہیں: ایک یہ کہ قیدیوں کے اہلخانہ میں سے یا اس سے نفرت کرنے والا کوئی اور یہودی اسے قتل کردے، دوسرا یہ کہ وہ کہیں بھاگ کر اپنی جان بچالے، تیسرا یہ کہ اس پر مقدمہ چلایا جائے اور اسے عمر قید ہوجائے، چوتھا یہ کہ کسی غیور مسلمان نوجوان کے ہاتھوں قتل ہوجائے، پانچواں یہ کہ وہ عام آدمیوں کی طرح طبعی موت مرے لیکن نہایت حسرت وپریشانی کے ساتھ، کیونکہ طوفان الاقصیٰ نے اس کی حکومت کے بالکل آخری دنوں میں اسے ذلت وعار سے دوچارکرکے حکومت کے سارے مزے پر پانی پھیر دیا۔

سات اکتوبر کی وجہ سے یہود کا داخلی انتشار اور اس کے لوازمات یہود کے داخلی سقوط و تباہی کی ایک اچھی اور مضبوط علامت ہے، ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ یہ انتشار و خلفشار نتیجہ خیز ثابت ہو اور صہیونی ریاست کو اپنے انجام تک پہنچادے، اللہ رب العزت نے سچ فرمایا:

لَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ جَمِيْعًا اِلَّا فِيْ قُرًى مُّحَصَّنَةٍ اَوْ مِنْ وَّرَاۗءِ جُدُرٍ ۭ بَاْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيْدٌ ۭ تَحْسَبُهُمْ جَمِيْعًا وَّقُلُوْبُهُمْ شَتّٰى ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُوْنَ؀ (سورۃ الحشر: ۱۴)

’’یہ (یہودی )سب اکٹھے ہوکر بھی تم سے جنگ نہیں کریں گے، مگر ایسی بستیوں میں جو قلعوں میں محفوظ ہوں یا پھر دیواروں کے پیچھے چھپ کر، ان کے آپس میں اختلافات بہت سخت ہیں، تم انہیں اکٹھا سمجھتے ہو، حالانکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں۔ یہ اس لیے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن میں عقل نہیں ہے۔‘‘

اگر ٹرمپ قتل ہوجاتا ہے تو ان شاء اللہ امریکہ خانہ جنگی کا شکار ہوکر اپنی وحدت کھو بیٹھے گا، امریکی سلطنت کا خواب چکنا چور ہوجائے گا، بشرطیکہ قاتل نامعلوم رہے یا یہ معلوم ہو کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کا ہے، سو وہ مسلم ہاتھ بڑا بابرکت ہے جو یہ کارنامہ انجام دے اور نقاب پوش مجاہد کی طرح اسے بھی کوئی جاننے والا نہ ہو، اور اگر قاتل غیر مسلم ہو تو اللہ اپنے دین کی مدد گناہگار سے بھی لیتا ہے اور ان لوگوں سے بھی جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔

یہودی صہیونی بلنکن سے مصافحہ کرنے اور اس کے آگے ہنسنے والے سبھی غزہ و بیرونِ غزہ مسلمانوں کے قتل میں شریک ہیں، عملاً کچھ نہ کرنے کے باوجود مسلمانوں پر مسلط حکمران اہلِ غزہ کے حق میں بیان بازی سے کیوں نہیں اُکتاتے، جبکہ یہودی صہیونیوں کے حق میں کچھ بھی نہ کہنے کے باوجود سب سے زیادہ وہ انہیں کی خدمت بجا لاتے ہیں، تبدیلی کے لیے کوشاں عوامی تحریکات پر لازم ہے کہ ایسے حکمرانوں کی تذلیل کریں، عوامی دباؤ اور حالات پر فوری ردِ عمل کے بغیر یہ اپنی حرکتوں میں اور دلیر ہوجائیں گے، گویا کہ وہ بالکل ٹھیک کام کررہے ہیں، جب ان حکمرانوں کو اپنے عوام کی طرف سے قوی ردِّ عمل کا سامناہوگا تو اعلانیہ درکنار خفیہ ملاقاتوں سے بھی باز آجائیں گے، عوام کی مادی قوت اور نفسیاتی دباؤ کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لَاَانْتُمْ اَشَدُّ رَهْبَةً فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنَ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ؀ (سورۃ الحشر: ۱۳)

’’(اے مسلمانو!)تمہارا خوف ان کے دل میں اللہ (کے خوف)سے بھی زیادہ ہے،یہ اس لیے ہے کہ یہ سمجھ نہ رکھنے والی قوم ہیں )۔‘‘

ہماری بیشتر مشکلات کا حل اسلحے کے دوبارہ حصول سے وابستہ ہے،پچھلی صدی کے نصف میں حکومتوں نے ہم سے اسلحہ لے لیا تھا،مسلح امت ہی معزز ہوتی ہے، لوگ اس کا احترام کرتے ہیں، اس زمانے میں اور ہر زمانے میں ہماری امت کے افراد پر مسلح رہنا لازم ہے، ان کے پا س گولیوں کا بھی وافر ذخیرہ ہونا چاہیے، ہم جہاد کرنے والے، شکار کھیلنے والے اور نشانہ بازی کرنے والے ہیں، ہمیں ایک بار پھر اپنے اندر کے شکاری کو جگانا ہے تاکہ اپنے دشمن کو ہم شکار میں بدل سکیں، بالکل ویسے جیسے کالی چادر والا مجاہد کرتا ہے۔

اپنی مشکلات کے حل کے لیے یہ بھی ضرروی ہے کہ ہم باہمی رابطوں کے قیام کے لیے کوشش کریں6، تاکہ ہم مقابلے کے ہر میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ عسکری اور ٹیکنالوجی کی مہارتوں کا تبادلہ کریں، ہم مسلمانوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے اور مضبوط کرنا چاہیے، رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:

مَا مِنْ امْرِئٍ يَخْذُلُ امْرَأً مُسْلِمًا عِنْدَ مَوْطِنٍ تُنْتَهَكُ فِيهِ حُرْمَتُهُ وَيُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ إِلَّا خَذَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ فِيهِ نُصْرَتَهُ وَمَا مِنْ امْرِئٍ يَنْصُرُ امْرَأً مُسْلِمًا فِي مَوْطِنٍ يُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ وَيُنْتَهَكُ فِيهِ مِنْ حُرْمَتِهِ إِلَّا نَصَرَهُ اللَّهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ فِيهِ نُصْرَتَهُ. (مسند احمد)

’’جو بھی آدمی ایسے موقع پر مسلمان کی مدد سے ہاتھ کھینچتا ہے جہاں اس کی عزت وحرمت کو پامال کیا جارہا ہو تو اللہ اسے اس موقع پر بے یار ومددگار چھوڑتے ہیں جہاں وہ چاہتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے، اور جو ایسے موقع پر مسلمان کی مدد کرے جہاں اس کی عزت وحرمت پامال کی جارہی ہو تو اللہ بھی اس کی وہاں مدد کرتا ہے جہاں وہ چاہتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے۔‘‘

جو بھی حکومت اپنے عوام کو مسلح نہیں کرتی یا مسلح ہونے سے روکتی ہے وہ خائن حکومت ہے، ہماری امت پوری انسانیت کے لیے ایک پیغام رکھتی ہے، اگر امت مسلح نہیں ہوگی تو یہ پیغام حفاظت کے لیے اوروں کا محتاج ہوجائے گا، یہ پیغام اپنی پاکیزگی اور شفافیت کی وجہ سے ذاتی طور پر اتنی قوت رکھتا ہے کہ اللہ جس کی ہدایت کا ارادہ کرلیں وہ اسے مان لے، ایسے پیغام کی حفاظت کے لیے اسلحہ ضروری ہے تاکہ بدخواہوں کاراستہ روکا جاسکے، اس لیے اللہ نے ہم پر لازم کیا ہے کہ ہم قوت کی تیاری میں اپنی پوری کوشش کریں، یہ حکم حکومتوں اور افراد7 دونوں کے لیے لازم ہے، اگر ہماری امت مسلح نہ ہو اور فوجوں پر اکتفا کرلے تو اس سے دشمنوں کو شہ ملے گی، ایک فوج اور تربیت یافتہ مسلح عوام کا مقابلہ کرنے میں بڑا فرق ہے۔

دشمن کے حکمران اور ذرائع ابلاغ یہ مقولہ دہراتے ہیں کہ وہ جنگ کا دائرہ پھیلانا نہیں چاہتے، ان کی اسی بات کو خطے کے حکمران بھی دہراتے ہیں اور عوام کو جنگ کا دائرہ پھیلنے کی نقصانات سمجھاتے ہیں، تاکہ بے نتیجہ سیاسی بحث کا ماحول بن جائے، پھر یہ سیاستدان اپنے عوام کو مکاری سے دھوکہ دیتے ہیں، جیساکہ صابرا و شاتیلا کے قصائی شیرون نے ایک تمسخرانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا کہ میں امن کی بات سن سکتا ہوں۔ جنگ کے آنے والے دن سے پہلے کی رات میں یہ حکمت کا تقاضا ہرگز نہیں کہ ہم دشمن کی باتوں پر کان دھریں، بالخصوص جبکہ وہ ہمیں یہ کہہ کر بہلا رہا ہوکہ وہ جنگ کا دائرہ نہیں پھیلانا چاہتا، کیوں نہیں پھیلانا چاہتا؟ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں بتادیا ہے:

كَيْفَ وَاِنْ يَّظْهَرُوْا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا فِيْكُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً ۭ يُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ وَتَاْبٰي قُلُوْبُهُمْ ۚ وَاَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَ۝ اِشْتَرَوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭاِنَّهُمْ سَاۗءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُعْتَدُوْنَ ۝(سورة التوبة: ۸،۹،۱۰)

’’کیسے؟ (ان مشرکین کے ساتھ معاہدہ برقرار رہ سکتا ہے ) جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی تم پر غالب آئیں تو تمہارے معاملے میں نہ کسی رشتے داری کا خیال کریں اور نہ کسی معاہدے کا، یہ تمہیں اپنی زبانی باتوں سے راضی کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ ان کے دل انکاری ہیں اور ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں۔ انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت لے لی ہے، اور اس کی خاطر لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا ہے، واقعہ یہ ہے کہ ان کے کرتوت بہت برے ہیں۔ یہ کسی بھی مومن کے بارے میں کسی رشتے داری یا معاہدے کا پاس نہیں کرتےاور یہی ہیں جو حدیں توڑنے والے ہیں۔‘‘

یہ لوگ دھوکہ دے کر ایک ایک کرکے ہم سب سے نمٹنا چاہتے ہیں، جیسا کہ اس وقت اہلِ غزہ کے ساتھ یہ کررہے ہیں ۔

جو بھی یہود کی تاریخ کو جانتا ہے وہ شہروں کے باسیوں کو ڈٹ جانے اور اپنی جگہ نہ چھوڑنے کا مشورہ ہی دے گا، کیونکہ ایک دفعہ اپنی جگہ چھوڑنے کے بعد دشمن انہیں دوبارہ وہاں بسنے نہیں دے گا، اور اپنی جگہ اس لیے بھی نہیں چھوڑنی چاہیے تاکہ دشمن اپنا منصوبہ ہم پر لاگو نہ کرسکے، اور اس وجہ سے بھی کہ اپنی جگہ چھوڑ کر بھی بمباری، تباہ کاری اور قتل سے بچ نہیں سکتے، انخلا کا مقصد تو یہ ہوتا ہے محفوط جگہ پہنچ کر وہاں سے دشمن کے خلاف جوابی کارروائی کی جائے، خائن مصری حکومت کے ہوتے ہوئے یہ ناممکن ہے، مسلمان ملکوں کے بادشاہوں اور حکمرانوں نے غزہ کے مسلمانوں کی جانیں صہیونیوں کو بیچ کر پیسے کھرے کرلیے ہیں، رفح میں جمع ہونے سے وہ صہیونی اور سیسی دو دشمنوں کے درمیان پس جائیں گے، حل وہی ہے جس پر شمالی غزہ کے اکثر باشندے عمل پیرا ہیں،۱۹۷۳ء میں سویز کے باشندوں کی حکمت عملی بھی ایک اچھی مثال ہے، یعنی اپنی جگہوں پر رہیں اور جب دشمن کی زمینی قوت داخل ہوجائے تو اس کے خلاف قتال کریں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں: جہاد فرضِ عین ہونا، جان، مال، عزت اور زمین کادفاع، دشمن کے مقابلے میں مجاہدین تنہا نہ رہ جائیں، ان کے ڈٹنے سے دشمن کی جنگی مشینری ہل کر رہ جائے گی اور مجاہدین کی پے درپے ضربوں سے دشمن مذاکرات کی میز پر ان کی شرائط ماننے پر مجبور ہوجائے گا۔

دشمن (صہیونی) روئے زمین پر موجود ہر شے تباہ کرنے کے درپے ہے اور ’انسانی حقوق‘ کا راگ بھی الاپتا ہے، تحریف شدہ تورات کی پڑھائی اسے یہی سکھاتی ہے، قتلِ عام روکنے کی بات پر ان کی بھنویں تن جاتی ہیں، یہ انسانی حقوق کے علمبردار صہیونی یہودیوں کو غزہ میں اہلِ اسلام کے قتل کا پورا پورا موقع فراہم کررہے ہیں، امن بھی تبھی قائم کریں گے جب ان کے مذموم مقاصد اس سے پورے ہوں، کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ غیرت مند ان کے اس امن کو قبول کرلیں گے؟ ہرگز نہیں، تم میں ہرایک کو اس کے جرم کے بقدر جواب تمہاری اپنی ہی زمین پر دیا جائے گا، رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: ’’میں مشرکین کے درمیان بسنے والے ہر مسلمان سے بری ہوں‘‘۔ یہ اصل میں اس کی جان کی حفاظت سے برأت کا اعلان ہے، جس وقت امت دشمن پر چڑھائی کرے یا مخصوص کارروائیاں کرے، چونکہ سچے مسلمان دنیا کے لیے عذابِ الٰہی سے بچاؤ کا ذریعہ ہیں، اس لیے مغرب میں مقیم اپنے بھائیوں سے میری گذارش ہے کہ وہ بڑے شہروں میں رہائش نہ رکھیں، عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہے، سلامتی کا حقیقی راستہ تو یہی ہے کہ وہ مغرب سے ہجرت کرجائیں، اللہ کے فضل سے آج ان کے پاس افغانستان کی نعمت موجود ہے، وہاں جائیں اور اپنے مال ومہارت سے ان کی خدمت ونصرت کریں، اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْ ۭقَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۭقَالُوْٓا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُھَاجِرُوْا فِيْھَا ۭ فَاُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمْ جَهَنَّمُ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا؀ اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَةً وَّلَا يَهْتَدُوْنَ سَبِيْلًا؀ فَاُولٰۗىِٕكَ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّعْفُوَ عَنْھُمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَفُوًّا غَفُوْرً؀ وَمَنْ يُّھَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَةً ۭ وَمَنْ يَّخْرُجْ مِنْۢ بَيْتِهٖ مُھَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا؀

’’جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اور اسی حالت میں فرشتے ان کی روح قبض کرنے آئے تو بولے: تم کس حالت میں تھے؟ وہ کہنے لگے کہ: ہم تو زمین میں بےبس کردیئے گئے تھے۔ فرشتوں نے کہا: کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے؟ لہٰذا ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے، اور وہ نہایت برا انجام ہے۔

البتہ وہ بےبس مرد، عورتیں اور بچے (اس انجام سے مستثنی ہیں) جو (ہجرت کی) کوئی تدبیر نہیں کرسکتے اور نہ (نکلنے کا) کوئی راستہ پاتے ہیں۔

چنانچہ پوری امید ہے کہ اللہ ان کو معاف فرمادے۔ اللہ بڑا معاف کرنے والا بہت بخشنے والا ہے۔

اور جو شخص اللہ کے راستے میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت جگہ اور بڑی گنجائش پائے گا۔ اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے کے لیے نکلے، پھر اسے موت آپکڑے تب بھی اس کا ثواب اللہ کے پاس طے ہوچکا، اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ ‘‘

جو سچے دل سے بات سمجھنا چاہتے ہیں وہ ان آیات کی تفسیر ملاحظہ کرلیں۔

ہندوؤں کے نام: صرف مسلمان نہیں بلکہ امریکہ، یورپ اور ساری دنیا گائے کھاتی ہے، تم اس دنیا کا ذات پات میں مبتلا سب سے بڑا گروہ ہو، تمہیں خود ایک بڑا ایک امتحان درپیش ہے، بیرونی کے علاوہ تمہارے وجود کو داخلی خطرات بھی لاحق ہیں، خلافِ فطرت وعقل ہونے کی وجہ سے تمہارے عقائد اس سمٹتی دنیا میں ختم ہونے کو ہیں، تم جیسے گائے اور دیگر لاکھوں دیوتاؤں کی پجاریوں کی دنیا میں کوئی عزت نہیں، دنیا جو ظاہری طور پر تمہاری خاطر داری کرتی ہے وہ سراسر نفاق ہے، درپردہ وہ تمہارا مذاق اڑاتے ہیں، تمہیں یہ بات دھوکے میں نہ ڈالے کہ یہود نے بھی گائے کی پوجا کی تھی، کیونکہ اللہ کے نبی موسیٰ ﷤نے اس بچھڑے کو جلا کر اس کی راکھ بھی بکھیر دی تھی۔ آج بھی یہود اپنے ایک بڑے مذہبی تہوار کے لیے سرخ گائے لائے ہیں، تاکہ انہیں ذبح کرکے اپنے گناہوں سے پاک ہوجائیں، مودی اور دوسرے ہر ہندو کو پتہ ہے ناں کہ یہودی ان گائے کے ساتھ کیا کریں گے؟ کیا مودی میں اتنی طاقت ہے کہ وہ ان سرخ گائیوں کے تحفظ کے لیےاپنے جذبات کا اظہار کرے؟ کیا مودی ان گائیوں کو خرید کر انہیں یہودیوں سے بچا سکتا ہے؟ کیا مودی اس پر اعتراض کرسکتا ہے؟ بالفرض مودی اگر جرات سے کام لے کر اعتراض کردے تو کیا ہوگا؟ یہی لوگ اس پر اور اس کے بے زبان معبودوں پر ہنسیں گے اور ان کا مضحکہ اڑائیں گے۔

کتنے شرم کی بات ہے کہ مجرم بائیڈن اہلِ فلسطین کے قتلِ عام کا مذاق اڑاتے ہوئے ہماری آنکھوں کے سامنے آئس کریم کھائے اور میکرون ،شولتس8 وغیرہ صہیونی سکرین پر سیندوچوں پر ہاتھ صاف کریں، جبکہ دوسری طرف غزہ میں بچے تک بھوک کی وجہ سے دم توڑ رہے ہوں، پھر یہی دوغلے صہیونی میڈیا پر غذائی امداد وصول کرنے والے ہجوم پر یہود کی بمباری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، کیا ہمارے نوجوانوں میں ایسے بہادر ہیں جو ان خبیث ارواح کو تن سے جدا کرکے ان کی غلیظ زندگیوں کا خاتمہ کردیں؟

تموت الاسد في الغابات جوعاً
ولحم الضأن مأكول الكلاب

شیر بھوک سے مر رہے ہیں
اور کتے گوشت کی ضیافت اڑا رہے ہیں

 

مغرب کوانسانیت کی معراج اور انسانی حقوق کا محافظ سمجھنے والے ہمارے نادان مسلمانوں کے لیے شاید یہ منظر کچھ افاقے کا کام دے اور وہ مغرب کے مجرمانہ کردار کو سمجھ لیں، یہ مغرب ہی تو ہے جس نے اپنے بحری بیڑے، جنگی جہاز اور لشکر یہود کی مدد کے لیے بھیجے ہیں، اور چارہزار فرانسیسی فوجی تو غزہ میں ہمارے بھائیوں کو براہِ راست قتل کررہے ہیں۔

سالم الشریف

جنگ کے اگلے دن سے پہلے کی راتیں

٭٭٭٭٭


1 Imperium: The Philosophy of History and Politics (1948) by Francis Parker Yockey

2 ہولوکاسٹ کے نام پر جو تصویریں دنیا کے سامنے نیز نورمبرگ (Nuremberg) کی عدالت میں پیش کی گئی ہیں، ان میں سے بہت سی جرمنوں کے اپنے ریکارڈ سے ہی لی گئی ہیں، ان تصویروں میں جرمنوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ جرمنی میں قحط اور ٹائیفائڈ کا مرض کتنا زیادہ پھیل گیا، بالخصوص جنگ کے آخری سالوں میں، یہود کے اجتماعی قتلِ عام کے اہم ترین ثبوت کے طور پر جو تصویریں نورمبرگ کی عدالت میں پیش کی گئیں وہ درحقیقت جرمنی کے شہر ڈریسڈن (Dresden) پر ۱۳ سے ۱۵ فروری ۱۹۴۵ء تک ہونے والی اتحادیوں کی بدنامِ زمانہ بمباری کی تھیں، یہ بمباری دوسری جنگِ عظیم کے ان اہم ترین واقعات میں سے ہے جس پر کافی زیادہ بحث و مباحثہ ہوا، اس شہر پر تقریباً ۹۰۰۰ ٹن وزنی بم برسائے گئے، شہر کے کل اٹھائیس ہزار چار سو دس مکانات میں سے چوبیس ہزار آٹھ سو چھیاسٹھ( ۲۴۸۶۶) تباہ ہوئے، نیز ۷۲ سکول، اٹھارہ گرجے، ۵ تھیٹر، ۵۰ بینک،۶۱ ہوٹل اور ۳۱ تجارتی مراکز تباہ ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ پچیس ہزار سے پینتیس ہزار کے لگ بھگ عام شہری اس بمباری میں ہلاک ہوئے۔ (وکی پیڈیا)

3 ایسا گروہ جو غیر فعال ہو اور اس کے افراد کسی معاشرے کا حصہ بن چکے ہوں اور کسی خاص موقع پر یا کوئی خاص اشارہ ملنے پر کوئی کارروائی کریں۔

4 مولوی احسان اللہ احسان کا شمار ’تحریک اسلامی طالبان‘ اور پھر امارت اسلامیہ افغانستان کے بانیوں میں ہوتا ہے۔انہوں نے ہی امارت اسلامیہ کے قیام کے وقت علماء کے سامنے ملا محمد عمر مجاہد کے لیے ’امیر المومنین‘ کے خطاب کا مشورہ رکھا۔ مولوی احسان اللہ احسان کو مزار شریف میں شمالی اتحاد کی ’حزب وحدت‘ نے مذاکرات کا جھانسا دے کر بلایا اور دھوکے سے شہید کر دیا۔ (ادارہ)

5 Operation Prosperity Guardian حوثیوں کے حملوں سے اسرائیل اور اس کے حامی ملکوں کے جہازوں کی حفاظت کے لیے تشکیل دیا جانے والے کثیر القومی سمندری فوجی اتحاد کا بحری آپریشن۔(مترجم)

6یہ جہادی تحریک کی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ ان کے درمیان کوئی رابطہ یا ہم آہنگی نہیں ،ہمیں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے اعتماد قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، حتی کہ ہمیں ان امور میں بھی باہم مشورہ لینا چاہیے جن سے کارروائیوں کی امنیت متاثر نہ ہو، تاکہ جہادی تحریک کے سبھی عناصر وقت آنے پر ایک دوسرے کی مدد کرسکیں، دین کی چھاؤں میں زندگی بسرکرنے کے لیے دین کی نصرت ہمارا مشترکہ ہدف ہے اور اس ہدف کے حصول کے لیے جہاد ہمارا مشترکہ راستہ ہے، اس سے ہمیں یہ ہدایت ملتی ہے کہ ایک دوسرے کی بابت اچھا گمان رکھیں اور باہمی رابطے مضبوط رکھیں۔

7جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کے مسلح ہونے سے معاشرے میں انتشار پھیلے گا وہ غلط فہمی کا شکار ہیں، بلکہ مسلح امت بیرونی طور پر اللہ کے دشمنوں کا راستہ روکتی ہے اور داخلی امن وامان کی ضامن ہوتی ہے۔ تجربات شاہد ہیں کہ جب بھی عوام کو غیر مسلح کرکے اداروں کو امن برقرار رکھنے کی ذمےداری سونپی گئی تو یہ ادارے ہی لاقانونیت کا سرچشمہ بن گئے اور عوام کی ذلیل کرنے اور ستانے لگے۔ پولیس کا محکمہ ہی ہرقسم کے فساد، منشیات فروشی اور جسم فروشی کا دھندا کروانے لگااور لوگوں کو غلام بنا ڈالا۔ لوگوں کے ہاتھ میں اسلحے کا باقی رہنا معاشرے کے امن وسلامتی کا ضامن ہے، انحرافات کا راستہ روکتا ہے اور کسی کوبھی دوسرے پر مسلط نہیں ہونے دیتا۔ یہ ذاتی امن کا ایک حصہ ہے۔ ہر اس قانون کو ختم کرنا ضروری ہے جو عوام کے مسلح ہونے میں رکاوٹ بنے۔ ہماری امت کی اقوام کے لیے سنہری نصیحت یہی ہے کہ اپنے ہاتھوں میں اسلحہ رکھو اور کسی کو بھی اسے چھیننے نہ دو۔

8 جرمن چانسلر ’اولاف شولتس‘ (Olaf Scholz)

Exit mobile version