کل کی خاطر نہیں ! آ ج ہی کے لیے!

۱۷ اکتوبر کی شام بیماری کے سبب، جسم بخار میں تپ رہا تھا۔ اسی حالت میں اطلاع ملی کہ یحییٰ سنوار شہید ہو گئے ہیں۔ میں نے اس خبر کی طرف توجہ نہ دی۔ ایسی افواہیں ہم سنتے رہتے ہیں۔ اور دل تو ایسی بات ماننے کو تیار ہی نہ تھا۔ دل کو تسلی دی کہ افواہ ہے اور پھر بسترِ مرض پر پڑا پڑا دوبارہ سو گیا۔رات کو بارہ بجے اپنا فون کھولا تو اسرئیلی فوجی ترجمان یحییٰ سنوار کی شہادت کی خبر سنا رہا تھا۔ اب کی باری چند ثانیے دل دھڑکنا بھول گیا۔ ساتھ ہی مجاہد ساتھیوں کے تعزیتی پیغامات ملنا شروع ہو گئے۔ دل اب بھی نہیں مان رہا تھا، پھر ایک معتمد ساتھی کا پیغام پڑھا ’صلاح الدین ثانی شہید ہو گیا ہے‘۔ یہ پڑھنا تھا کہ حالت غیر ہو گئی، جسم ابھی چند دقیقے پہلے تپ رہا تھا، یکایک پسینے سے شرابور ہو گیا اور بخار اتر گیا۔ میں نے قریب سوئے ساتھی کو جگایا اور کچھ بولنا چاہا، لیکن زبان نے ساتھ نہ دیا، پھر دوسری تیسری بار رندھے گلے سے آواز نکلی ’شیخ یحییٰ سنوار شہید ہو گئے ہیں‘۔

؏گیا تو ساتھ ساتھ وہ ہمارے دل بھی لے گیا

دل ہے، ایسی باتیں مشکل سے مانتا ہے۔ اگرچہ دماغ نے اس خبر کو قبول کر لیا تھا، اور میں خود بھی شیخ سنوار کے حوالے سے لوگوں سے تعزیت کر رہا تھا، لیکن دل مستقل کہہ رہا تھا کہ ہو سکتا ہے حماس کی جانب سے تردید آ جائے، لیکن ہائے افسوس کہ دو دن بعد حماس نے بھی ان کی شہادت کی تصدیق کر دی، فإنا للہ وإنّا إلیہ راجعون! إِنَّ العَيْنَ تَدْمَعُ، والقَلْبَ يَحْزَنُ، ولا نَقولُ إلا ما يُرضِي رَبّنا، وإنَّا بِفِراقِك يا أبا إبرَاھِیم لَمحزُونون! بے شک ہماری آنکھوں میں آنسو ہیں، ہمارا دل غم زدہ ہے، لیکن ہم وہی کہتے ہیں جس سے ہمارا رب راضی ہوتا ہے۔ بے شک اے ابوابراہیم ہم آپ کی جدائی پر غمزدہ ہیں۔ اللهم أجرنا في مصيبتنا واخلف لنا خيرا منها!

شیخ سنوار کی شہادت پر ہم نے اپنے گھرانے میں تین دن سوگ منایا، بس وہ کھایا جو رگِ زندگی کو جاری رکھے، شریعتِ مطہرہ تین دن تک سوگ منانے کی اجازت دیتی ہے۔ شیخ سنوار تو ہمارے قریبی اقارب میں سے تھے، ان کا سوگ نہ کرتے تو کس کا کرتے؟

مجھے یحییٰ سنوار کا تعارف طوفان الاقصیٰ شروع ہونے کے تین چار ماہ بعد ہوا تھا۔ پھر ان کی کچھ تقریریں سنیں، ان کی بائیس سالہ اسارت کے بارے میں پڑھا اور ان کے فی سبیل اللہ شجاعت و بہادری والے مناظر دیکھے اور پھر ان کے کروڑوں محبین میں شامل ہو گیا۔ یہ کروڑوں محبین تو انسانوں میں سے ہیں، ان فرشتوں، جنات، ہوا میں اڑتے پرندوں اور سمندر میں تیرتی مچھلیوں کی تعداد جو یحییٰ سنوار سے محبت کرتی ہیں، ان کی تعداد کا علم مالک الملک ہی کو ہے جس نے یحییٰ سنوار کو بھی پیدا کیا اور ان مخلوقات کو بھی۔ رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو جبریل علیہ السلام کو بلا کر فرماتے ہیں کہ میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تو اسے محبوب رکھ ، پس جبریل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرتے ہیں، پھر آسمان میں منادی کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو، تو آسمان والے بھی اس سے محبت کرتے ہیں، پھر زمین میں اس کے لیے مقبولیت رکھ دی جاتی ہے اور جب کسی بندے کے لیے مقبولیت رکھ دی جاتی ہے (تو وہ دنیا والوں کے لیے مقبول ہوجاتا ہے )۔‘‘ (بخاری و مسلم)

میں چاہتا ہوں کہ یحییٰ سنوار کی مدحت میں کچھ لکھوں، لیکن وقت کا دامن تنگ ہے اور مجھے امید ہے کہ بہت سے ساتھی ان کی مدحت، ان کے کارناموں، ان کی تاریخ پر بہت کچھ لکھ رہے ہوں گے، بلکہ جدید سوشل میڈیا کی زبان میں بات کریں تو صرف پاکستان میں ’#یحیی_السنوار‘ تین چار دن تک ٹاپ ٹرینڈ رہا، ایک دن ساڑھے سات لاکھ لوگوں نے یحیی سنوار کے بارے میں گفتگو کی، ایک دن ساڑھے چھ لاکھ، ایک دن چار لاکھ سے زائد اور ایک دن قریباً دو لاکھ لوگوں نے، یہ اس مقبولیت کا چھوٹا سا حصہ ہے جو اہلِ زمین میں رکھ دی جاتی ہے کہ جب اللہ اپنے کسی بندے سے محبت کر کے جبریلِ امینؑ کو اس سے محبت کرنے کا حکم دیتا ہے (نحسبہ کذلك)۔ میں تو بس ایک بات کہنا چاہتا ہوں اور یہ بات کہنے والوں میں بھی میں کوئی انوکھا نہیں، البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہ بات کہنے والے آج کم ہو گئے ہیں۔

تاریخ عموماً فاتحین کو یاد رکھتی ہے، یہ دنیا کا قانون ہے۔ لیکن ایمان و اسلام کی تاریخ میں بعض مرتبہ میدان میں شکست کھا جانے والے فاتحین کے برابر یا ان سے بھی زیادہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایمان و اسلام کسی شخص سے ظاہری فتح یابی کا تقاضا نہیں کرتے، ایمان و اسلام کو تو لوگوں سے فی اللہ جہد و جہاد میں کھپ جانا مطلوب ہے، پھر فتح ان لوگوں کے ہاتھ پر ظاہر ہو یہ نہ ہو، زمینیں فتح ہو پائیں یا نہیں یہ اہمیت نہیں رکھتا۔ تاریخ کے وہ چند نام جو ظاہراً ناکام ہو گئے ان میں حلب کے امیر نور الدین زنگی ہیں جو ساری زندگی قدس کے غم میں گھلتے رہے لیکن فتح یاب نہ ہو سکے۔ مرشد آباد کے سراج الدولہ کا نام بھی انہی لوگوں میں سے ہے۔ سرنگاپٹم کے فتح علی ٹیپو۔ رائے بریلی کے سیّد بادشاہ۔ لیبیا کے عمر مختار۔ میدانِ شاملی کے شہسوار قاسم نانوتوی۔ دیوبند کےمحمود حسن۔ شام کے عز الدین القسام جنہوں نے قدس پر آخری صلیبی صہیونی قبضے کے بعد جہادِ قدس کا علم بلند کیا۔ عسقلان کے احمد یاسین۔ قدس کے پڑوس میں یبنا کے عبد العزیز رنتیسی۔ ریاض میں پیدا ہو کر ایبٹ آباد میں شہید ہونے والے اسامہ بن لادن۔الشاطی کیمپ میں پیدا ہو کر تہران میں شہید ہونے والے اسماعیل ہنیہ۔ خان یونس میں پیدا ہو کر تل السلطان میں لیلائے شہادت کو گلے لگانے والے یحییٰ السنوار۔

ایسا بھی نہیں کہ یہ سب نامور بس ناکام ہوئے، نہیں! یہ تو زندگی بھر فتوحات کماتے رہے، ہاں جب زندگی کی شام آئی تو ان کے ہاتھ میں نہ مالِ غنیمت تھا، نہ ہی یہ کچھ بھی کشور کشائی کر سکے۔ دراصل بندۂ مومن کی زندگی کا مقصد تو مالک ﷻ کی رضا ہے اور بس۔ اب یہ رضا کبھی بدر میں فاتح بن کر ملتی ہے اور کبھی احد میں (جن کی خاطر کائنات تخلیق ہوئی اور جن کے نام پر آدم علیہ السلام کے لیے بھی معافی کا سامان ہوا، ازل تا ابد جن کا نام اللہ کے نام کے ساتھ رہا، ان کےآپ نے) دندانِ مبارک شہید ہو کر ملتی ہے، صلی اللہ علیہ وسلم۔

زندگی میں فتح یاب ہونے کی کوشش کرنا، یعنی مالک کو راضی کرنے کی خاطر فتح یاب ہونے کوشش میں منصوبے بنانا، تنظیمیں کھڑی کرنا، پلاننگ کرنا، تزویراتی منصوبے بنانا، لائحے و حکمتِ عملیاں تخلیق کرنا یہ سب بڑا ضروری ہے، لیکن بندۂ مومن کی زندگی فتح و شکست سے بے نیاز ہوتی ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کسریٰ کے مدائن کو ایسا کھنڈر بنانے والے کہ اس کے بعد مدائن آثارِ قدیمہ ہی میں شمار ہو اور شام میں رومیوں کا دل دہلانے والے، سیف من سیوف اللہ، خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ سب فتوحات کے بعد بسترِ وفات پر اس غم میں گرفتار ہیں کہ ہائے شہادت نہیں ملی۔

غم آج کا یہ ہے کہ ہم بڑے دانا و ہوشیار ہو گئے ہیں۔ ہماری کھوٹے کھرے کی سمجھ و تمیز اتنی ہو گئی ہے کہ ہم ہر چیز میں اسی دنیا کی فتوحات کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ میدانِ جنگ میں کیا اپنائیں کہ جیت جائیں اور علم و فنون میں کیا حاصل کریں کہ مستقبل میں بہتر کچھ کردار نبھا سکیں، بس ہماری دوڑ اصل میں یہی رہ گئی ہے۔ مکرر، یہ سب اہم ہے، اس کا انکار نہیں۔ لیکن، لیکن، لیکن، یہ سب یحییٰ السنوار نے بھی تو سوچا ہو گا۔ جس دن اس قائدِ جہاد نے طوفان الاقصیٰ کا منصوبہ بنا کر فدائیوں کو پیرا شوٹوں سے اسرائیل کے اندر بھیجا ہو گا تو اس دن بھی تو اس نے سوچا ہو گا کہ مجھ پر ذمہ داری صرف میری جان کی نہیں بلکہ غزہ کے ان بیس لاکھ لوگوں کی بھی ہے، ہو سکتا ہے کہ جو جنگ ہم آج شروع کریں یہ کبھی ختم ہی نہ ہو، ہو سکتا ہے کہ اسی جنگ میں غزہ دنیا کی سب سے بڑی قبر بن جائے، ہو سکتا ہے کہ میری کنیت جس کی نسبت سے ہے وہ میرا لختِ جگر، نورِ نظر ابراہیم، جس کے ہاتھوں اور گالوں کو میں خلوت و جلوت میں چومتا ہوں، وہ بھی اسی ننھی سی عمر میں اسی جنگ کی بھینٹ چڑھ جائے۔ کچھ دیر اور رک جاتا ہوں۔ لیکن وہ عشق ہی کیا جو عقل کے دامِ فریب میں آ جائے۔

یحییٰ السنوار کب تک رکتا؟ جب مسجدِ اقصیٰ منہدم ہو جاتی تب تک؟ کیا اس کے پاس اس قدر قوت بھی نہ تھی کہ جو اصحابِ بدر کے پاس یوم الفرقان کو تھی؟ تھی! تو کیسے رکا رہتا اور کیسے اس صہیونی دجالی ہیکل والی کالی آندھی کے مقابل، حضورِ پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مسجد کی طرف چہرۂ انور کر کے سالوں نمازیں پڑھیں، جہاں انبیاء کو نماز پڑھائی، جہاں سے سفرِ معراج کو گئے اور جا کر اللہ سے ملے، اس اقصیٰ کو گرنے دیتے اور پھر اپنے ضمیر پر یہ بوجھ لیے، اسی غم سے مرجاتے، تو کیوں اقصیٰ کی خاطر طوفان برپا نہ کرتے؟

میں یہ سب لکھنے نہیں بیٹھا تھا۔

میں نے تو بس ایک بات لکھنے کی خاطر قلم اٹھایا تھا۔ یحییٰ السنوار کے پاس جو تھا وہ لگا کر چلا گیا۔ سنوار کے جانے کے بعد آج ہم دو حصوں میں تقسیم ہو رہے ہیں یا عنقریب ہو جائیں گے۔ ایک وہ جو بس اس کی مدح سرائی کرتے رہیں گے، اشک بہاتے رہیں گے، لیکن چند دن بعد وہی زندگی ہو گی۔ وہی نائن ٹو فائیو کی روٹین لائف۔ وہی دفتر، وہی کارخانہ، وہی خانقاہ، وہی فیس بک، وہی ٹوئٹر، وہی پوڈ کاسٹ اور وہی باتیں، اپنے دل کو یہ طفل تسلیاں نہیں بلکہ یہ فریب میں لپٹا، افیون کا سفوف چٹائیں گے کہ ہم اپنی اولاد کو سِنوار کے قصے سنائیں گے، اپنی اولاد کو سِنوار بنائیں گے، جہاد و اہلِ اسلام کا مستقبل سنواریں گے۔ وہی باتیں جو ایک صدی سے ہم کر رہے ہیں۔ دوسرا حصہ ان لوگوں کا ہو گا کہ کتائب القسام کے امیر ابو خالد محمد الضیف (حفظہ اللہ من کل شر وسوء) کے الفاظ میں جو کل نہیں آج نکلیں گے، کچھ دیر بعد نہیں ،ابھی:

’’ اے اردن و لبنان، مصر و الجزائر، مراکش اور پاکستان، انڈونیشیا و ملائیشیا اور کل عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں بسنے والے ہمارے لوگو!

آج ہی نکلو اور فلسطین کی طرف چلنا شروع کردو ۔ کل نہیں! آج اور ابھی!آج ہی روانہ ہو جاؤ! ان سرحدوں، حکومتوں اور پابندیوں میں سے کوئی بھی تمہیں جہاد میں شرکت اور مسجدِ اقصی کی بازیابی کا شرف حاصل کرنے سے محروم نہ کر سکے!

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝

’’(جہاد کے لیے) نکل کھڑے ہو، چاہے تم ہلکے ہو یا بوجھل، اور اپنے مال و جان سے اللّٰہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘‘

آج ہی وہ دن ہے (کہ جب جہاد کے لیے نکل کھڑا ہوا جائے)۔ پس جس کسی کے پاس بندوق ہو تو وہ اسے لے کر نکلے، کہ یہی اس کا وقت ہے۔ اور جس کے پاس کوئی بندوق نہیں تو وہ اپنے خنجر اور چاقو، ہتھوڑے اور کلہاڑے لے کر نکلے، یا اپنے دیسی ساختہ بم، یا اپنے ٹرک اور بلڈوزر یا اپنی گاڑی……کہ آج کا دن ہی وہ دن ہے(کہ جب جہاد کے لیے نکل کھڑا ہوا جائے)!

تاریخ نے اپنے سب سے روشن، ممتاز اور ذی عزت و شرف صفحات پھیلا دیے ہیں، تو کون ہے جو نور و سعادت کے ان صفحات میں اپنا، اپنے خاندان اور اپنے علاقے کا نام لکھوائے؟

اے ہماری ملّت کے بیٹو! اور اے پوری دنیا کے مردانِ حُر!……وہ حکومتیں جنہوں نے غاصب اسرائیل کے ساتھ اپنی حمایت و تعاون جاری رکھ کر اسرائیل کے جرائم کی پردہ پوشی کی اور خود بھی اس کے جرم میں شریک رہے، ان کا راستہ روکو!

آج کا دن عظیم انقلاب کا دن ہے۔ اس دنیا میں قائم آخری قابض اور نسلی تعصب پر مبنی آخری نظام کو ختم کرنے کے لیےاٹھنے کا دن آج ہی کا دن ہے!‘‘

یہ دوسرا گروہ، نکلنے والے یہ دوسری قسم کے لوگ، پھر اس جنگ میں دشمن کے سرغنہ امریکہ و اسرائیل پر برسیں یا اس جنگ میں صلیبیوں اور صہیونیوں کے سہولت کاروں پر آتش و آہن برسائیں، لیکن وہ نکلیں گے ضرور اور یہی ہوں گے جس میں سے کوئی پھر سنوار بنے گا اور کتنے ایسے ہوں گے جو کسی ملبے تلے دبے ہوں گے، نہ تاریخ ان کو جانے گی، نہ ان کا اس دنیا میں کوئی نام لیوا بچے گا، لیکن یہ روزِ قیامت کسی یحییٰ السنوار کے جھنڈے تلے اٹھیں گے۔

یہ خنساء بنت عمرو رضی اللہ عنہا اور ان کے چار بیٹوں، عبد اللہ، ابو شجرہ، زید اور معاویہ کی مانند ہوں گے۔ پھر قادسیہ کا کوئی میدان ہو گا اور ماں اپنے شیر سے بیٹوں کو میدان میں لا ڈالے گی، پھر ان کو جنگ کی تحریض دلائے گی۔ اس خنساءؓ سے آج تک کی خنساؤوں تک ایک ہی صدا اور ایک ہی تربیت ہے جو بیٹوں کو دی جاتی ہے، یہی دنیا و آخرت کے فاتح ہیں باقی تو سب تماش بین ہیں:

ایک ’خنساء ‘ تھی لیکن یہ کہنے لگی، آندھیوں میں جلا کے چراغِ جگر
ہم نے پالا تھا بیٹوں کو سالوں تلک، کل کی خاطر نہیں! آ ج ہی کے لیے

دل میں امّیدِحقِّ شفاعت لیے، اپنے پیاروں سے تحفے دعا کے لیے
عیشِ دنیا کو تج کے کچھ ایسے بڑھے ،پھر نہ سوچا کبھی واپسی کے لیے

یوں سدا وہ اندھیروں سے لڑتے رہے، شمعِ ایمان سینوں میں روشن کیے
خوں جلاتے ہوئے،جھلملاتے ہوئے،شہرِخاموش میں روشنی کے لیے

ایک پیغام لیکن ہمیں دے گئے، روشنی کے سفر پہ چلے جو گئے
جس کو بجھنے کا ڈر ہو وہ کیسے جلے ؟ موت ہے اک سفر زندگی کے لیے!

ان کا اوّلین مطح و مقصد تاریخ کا دھارا بدلنا نہیں، اس فرضِ عین کو ادا کرنا ہو گا کہ جس کی کم سے کم صورت یہ ہے کہ یا ہم اس راہ میں شہید ہو جائیں یا یورپ کے قلب میں الحمراء کے قلعے میں توحید کا پرچم، ’لا غالب الا اللہ‘ دوبارہ گاڑ دیں۔ پھر جب جہاد کی فرضیتِ عینیہ ساقط ہو رہے تو اپنے گھروں کی فکر کر لیں گے، لیکن یہ لکھنا تو میں بھول ہی گیا کہ جس کے دل کو جہاد کا نشہ لگ جائے تو وہ قصر الحمراء پر رکے گا نہیں، کسی بحری جہاز پر سوار ہو کر وائٹ ہاؤس تک پہنچے گا۔ اس کی تمنا تو مالِ غنیمت ہو گی نہ کشور کشائی، وہ فاتح بننے کو اسی صورت میں قبول کرے گا کہ اس کا خاتمہ بصورتِ قتل مقبلاً غیر مدبرٍ، اللہ کی راہ میں آگے بڑھتے ہوئے ہو نہ کہ پیٹھ دکھا کر بھاگتے ہوئے۔ وہ تو یحییٰ السنوار جیسی شہادت کا طالب ہو گا۔ جسم کے ٹکڑے ہو جائیں، لاشہ کٹے پھٹے، ہوا میں تحلیل ہو جائے۔ پھر جانے کون اس لاشے کو لے جائے، اس کو اس کی پروا نہ ہو گی۔

إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۝

’’بلا شبہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، صرف اور صرف اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے۔‘‘

٭٭٭٭٭

Exit mobile version