دو حق و صداقت کی شہادت سرِ مقتل!

وہی ہوا، جس کا اندیشہ تھا۔ابھی پچھلی بار اسی اداریے کی سطور میں ہم جس سے ڈر رہے تھے کہ کہیں وہ ہو نہ جائے، وہ ہو گیا۔ یوں تو اہلِ غزہ چیخ چیخ کر ایک سال سے یہ دہائی دے رہے تھے کہ امت نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا، اے اللّٰہ امت نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا، اے شہیدو! جب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے ملنا تو کہنا کہ یا رسول اللّٰہ! امت نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا۔ لیکن اب قیامت سے پہلے یہ قیامت بھی آ گئی ہے کہ جبالیا سے نکلتے لوگ کہہ رہے تھےکہ ہم اس امت کے لوگوں کا گریبان قیامت کے دن پکڑیں گے۔ اہلِ غزہ نے دو ارب امت کے خلاف مقدمہ اللّٰہ کے دربار میں دائر کر دیا ہے اور عنقریب کچہری لگنے والی ہے، اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ(لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت قریب آپہنچا ہے )۔ جب میں اور آپ یہ الفاظ سنیں اور پڑھیں کہ اہلِ غزہ نے امتِ مسلمہ کے گریبان میں یومِ قیامت ہاتھ ڈالنے کا اعلان کیا ہے، تو اِدھر اُدھر نظریں نہ دوڑائیے، یہ کسی اور کی بات نہیں ہو رہی، یہ میری اور آپ ہی کی بات ہو رہی ہے۔اب عالم ہو یا عامی، مجاہد ہو یا قاعد، قائد ہو یا سپاہی، ہلکا ہو یا بوجھل…… قیامت کے دن اس کے گلے میں اہلِ غزہ کا ہاتھ پڑنا ہے۔ پھر یہ سب اگر اپنے اعمالِ گزشتہ سے، ان اعمال سے کہ یہ جو دنیامیں کر آئے تھے، یہ ثابت کر سکے کہ ہاں ان کے پاس جو تھا تو اللّٰہ اور اس کے رسول (علیہ ألف صلاۃ وسلام) اور ان کے دین کے نام لیواؤں خاص کر اہلِ غزہ کی نصرت میں کچھ کر کے آئے ہیں ، تو ان کا عذر قابلِ قبول ٹھہرے گا، ورنہ آج کامیابی و ناکامی کے لیے صرف اہلِ غزہ کی نصرت کی میزان ہی اس امت کے لیے کافی ہے۔

اہلِ غزہ پر جو افتاد پڑی ہے تو اعتراض کرنے والے آج سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر ایسی کیا قیامت آ پڑی تھی کہ انہوں نے ایک ایسے معرکے کا آغاز کیا، ایک ایسا طوفان برپا کیا جو آج تھمنے میں ہی نہیں آرہا؟ کیا اس کے پیچھے عالمی طاقتیں تھیں، جو چاہتی تھیں کہ اہلِ غزہ کوئی ایسا اقدام کریں کہ جس کے بعد اسرائیل و امریکہ (اور آج جاری جنگ میں اسرائیل کے دوسرے بڑے اتحادی برطانیہ کا نام نہ لینا خیانت ہو گی) غزہ کو تہہ تیغ کر دیں اور غزہ پھر کبھی غزہ نہ رہے، بلکہ غزہ اسرائیل کی ایک نئی کالونی بن جائے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ اہلِ غزہ نے اپنا سب کچھ ۷ اکتوبر کو داؤ پر لگا دیا؟ پھر جو جوابی جارحیت اسرائیل نے امریکی و برطانوی بموں کے ذریعے غزہ و اہلِ غزہ کے خلاف شروع کی، تو نہ غزہ کے مسلمان عوام ہی اس سے بچ پائے اور نہ ہی غزہ کے مجاہدین اور نہ ہی ان مجاہدین کی قیادت۔ پھر اس جاری جارحیت کو رکوانے کی صدائے اِنفِرُواْ جب لگائی جاتی ہے تو جواب میں پوچھا جاتا ہے کہ کیا یہ جو باقی امتِ مسلمہ ہے اس کو بھی اسرائیل و امریکہ کے خلاف جنگ میں جھونک دیں؟ نہرِ سوئز سے بحیرۂ عرب تک کےعربی و عجمی حکمران جن کا جرم اسرائیل و امریکہ کی کھلے بندوں حمایت نہیں، بلکہ انہی کا فرنٹ لائن اتحادی ہونا ہے، کیا ان کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیں؟ اور پھر جو خون آج بیت المقدس تا رفح بہہ رہا ہے وہی مسلم خون جب قاہرہ و عمّان اور ریاض و اسلام آباد میں بہنے لگے تو ہم اور بھی روئیں؟ آخر کیوں؟ کیا یہ سب روا ہے؟ امت کو ایسی جنگ میں گھسیٹ لانا دانش مندی ہے؟ شریعت ہمیں کیا ایسی بے حکمت جنگوں میں اترنے کا حکم دیتی ہے؟

ان اعتراضات کے جواب میں ہم نکات کی صورت میں کچھ باتیں یہاں رکھنا چاہیں گے:

ایسے جینے سے بہتر ہے مر جائیں ہم
ایسا جینا تو ہم کو گوارا نہیں

ان لوگوں نے سوچا اور بالکل صحیح سوچا کہ ہماری جانیں تو بچ جائیں لیکن ہماری بے عملی کے سبب ہمارے سامنے مسجدِ اقصیٰ منہدم کر کے ہیکلِ دجالی بنا لیا جائے، یہ تو ممکن نہیں ہے۔

بڑے تاسف سے، بڑی سچی بات عرض ہے۔ ان سطور میں کوئی دلیل نہ ملے گی۔ دلیلوں کا وقت ہے ہی نہیں۔ سوچیے احزاب نے مدینے کو گھیرے میں لے رکھا ہو اور ایسے میں کوئی بڑھ کر جہاد کی فرضیت کی دلیل طلب کر لیتا تو آج راقم و قاری اس کو کس خطاب و لقب سے پکارتے، محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ساتھی یا ابنِ ابی سلول کا ساتھی۔ ہمارے سامنے تو غزہ کے نونہالوں کے سر ہیں، چند دن پہلے بیت المقدس میں روتی چیختی اور پھر یونہی قتل ہوتی عورتوں کی لاشیں ہیں، دلیل کی طرف آنے کا وقت نہیں۔ یہ وقت ہوش کا نہیں جوش و جنوں کا وقت ہے، ہاں اس قدر ہوش ضروری ہے، ایسا ہوش جو جوش و جنوں کی سرحد ہم سے ایک بار پار کروا دے۔ کربلا کا منظر ہے اور وقت کا تقاضا بھی کربلا والا ہے۔ایک بار کربلا میں اتریے، پھر دلیل کی قوت، جنگی تدبیر اور تزویراتی حکمتیں بنائیے۔ لیکن پہلے میدان میں اتریے، میدان پکارتے ہیں!

پهر شورِ سلاسل میں سرورِ ازلی ہے
پھر پیشِ نظر سنتِ سجّادِ ولیؒ ہے

اک برقِ بلا کوند گئی سارے چمن پر
تم خوش کہ مری شاخِ نشیمن ہی جلی ہے

غارت گریٔ اہلِ ستم بھی کوئی دیکھے
گلشن میں کوئی پھول، نہ غنچہ، نہ کلی ہے

کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے!

دو حق و صداقت کی شہادت سرِ مقتل
اٹھو! کہ یہی وقت کا فرمانِ جلی ہے!

ہم راہ روِ دشتِ بلا روزِ ازل سے
اور قافلہ سالار حسینؓ ابنِ علیؓ ہے!

اللھم اهدنا فيمن هديت وعافنا فيمن عافيت وتولنا فيمن توليت وبارك لنا فيما أعطيت وقنا شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضی عليك وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تبارکت ربنا وتعاليت!

اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم اهدنا لما اختلف فيه من الحق بإذنك. اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وارضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!

٭٭٭٭٭

Exit mobile version