جنت تلواروں کے سائے میں ہے!

الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد وعلی آلہ وسلم تسلیماً کثیراً

کشمیر اور ہندوستان میں بسنے والے اہلِ ایمان، امتِ مسلمہ کے مجاہدین اور علمائے کرام!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور آپ سے دینِ حق کی سربلندی کا کام لے۔ عید الاضحیٰ کے اس مبارک موقع پر میں تمام امتِ مسلمہ اور خصوصاً مجاہدین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ تقبل اللہ منا و منکم!

اللہ تعالیٰ ہمیں اس عید پر ہماری ایمانی محبت میں اضافہ کرے اور ابراہیم علیہ السلام کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے ہردم توحید کا داعی اور اللہ تعالیٰ کے لیے قربانیوں کا پیکر بنائے، آمین یارب العالمین!

جموں و کشمیر میں رہنے والے میرے عزیز اور محبوب اہلِ ایمان!

تحریکِ جہادِ کشمیر غزوۂ ہند کے دروازے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور یہ اعزاز آپ نے اپنی اسلامی محبت اور اللہ تعالیٰ کی راہوں میں قربانیوں سے حاصل کیا ہے۔ جب جب آپ کے سامنے حق واضح ہوا، آپ نے سچے دل سے اسے اپنایا۔ جموں و کشمیر میں اسلام اور شریعت کے نفاذ کی جو یہ جدوجہد ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ جدوجہد پچھلے ستر سال کی بھی نہیں ہے۔ بلکہ حق کے لیے تڑپ اور اللہ تعالیٰ سے محبت کا جو یہ سلسلہ ہے، یہ تو تب سے جاری ہے جب سے اسلام کے داعی کشمیر میں توحید کی دعوت لے کر پہنچے۔

میرے عزیز بھائیو!

آپ نے ہر دور میں دینِ اسلام کی آبیاری کی ہے، اور کفر و ظلم کے بتوں کو توڑا ہے۔ پھر وہ چھ سو سال پہلے کشمیر میں ہندوؤں کی جاہلیت کا بت ہو، یا پھر ماضی میں کافر بادشاہوں کی حکومتیں ہوں، یا پھر آج کے دور میں ہندوستان کے خلاف جہاد کا علم بلند کرنا ہو۔ یا پھر تب بھی جہاد جاری رکھنا جب رہبر کی شکل میں رہزنوں نے مجاہدین اور جہاد سے علیحدگی اختیار کرکے اپنے مفاد کو ترجیح دی۔ آپ نے ہر دور میں ملتِ ابراہیم علیہ السلام ہونے کا حق ادا کیا ہے۔ ہر دور میں اللہ تعالیٰ کے شیروں اور داعیانِ اسلام نے اپنے خون پسینے سے کشمیر کے کوہساروں میں توحید کی صدا بلند کی ہے۔ چاہے پھر وہ میر سید علی ہمدانی رحمہ اللہ کی عظیم دعوت ہو، سکندر بت شکن کی اسلام کی خدمت ہو یا پچھلے تیس سالوں میں کشمیر کی ہر گلی اور کوچے میں مجاہدین کا گرتا لہو ہو۔ کشمیر میں اسلام کی سربلندی اور شریعت کے نفاذ کی جدوجہد ہمیں ورثے میں ملی ہے، اور ہم یہ عزم بھی رکھتے ہیں کہ اس مبارک قافلے کو اپنی منزلِ مقصود تک پہنچائیں گے، ان شاء اللہ۔ یہ اسلامی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے کہ کیسے حق کو پہچانتے ہی ایک پوری قوم لبیک کہہ کر اٹھتی ہے۔ الحمدللہ! کشمیری قوم ایک زندہ دل اور حق پرست قوم ہے، جس نے ہمیشہ حق کو پہچانتے ہی اسے مضبوطی سے تھام لیا۔ شریعت یا شہادت کا جو نعرہ ہم نے آج بلند کیا ہے، یہ بھی کوئی نیا نعرہ نہیں ہے، بلکہ ہر دور میں کشمیر کے اہلِ ایمان نے بھی یہی نعرہ بلند کیا ہے۔

میرے عزیز بھائیو!

جہادِ کشمیر اتحاد واتفاق مانگتا ہے۔ کشمیر کے ہر گاؤں، ہر شہر اور ہر ضلع نے اسلام کی خاطر اپنا خون دیا ہے۔ اگر شوپیاں، ترال، پلوامہ اور کلگام کے شہدا آج سرِفہرست ہیں تو سوپور، بانڈی پورہ اور کپواڑہ بھی شہدا کی ہی سرزمین ہے۔ اگر ڈوڈہ اور جموں کی زمین خونِ شہدا سے سیراب ہوئی تو گاندربل بھی کوئی بنجر زمین نہیں ہے۔ وہاں بھی مشتاق خان کا خون بہا ہے۔ کشتواڑ میں بھی سلطان بٹ، عامر کمال اور شاکر حسین جیسوں کا خون گرا ہے۔

تو اے شہدا کی وارث قوم!

اب آپ کے مسائل کا حل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں نہیں ہے۔ بلکہ آپ کے مسائل کا حل تو واضح اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جہاد بتایا ہے۔ اللہ کے دشمنوں کے ہاتھ صرف اور صرف تلوار سے ہی کاٹے جا سکتے ہیں اور شریعت کا نفاذ صرف قتال سے ہی ممکن ہے۔ پچھلے تیس سال میں ہندوستان نے جو کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد فرزندانِ توحید کا خون بہایا ہے، ہم اسے بھولے نہیں ہیں۔ ہم خون کے ہر قطرے کا حساب رکھے ہوئے ہیں، اور اس کی وصولی ہم پر واجب ہے۔ نریندر مودی اور اس کی فوج کی شکست تو یقینی ہے، اور یہ صرف اور صرف جہاد سے ہی ممکن ہے۔ باقی سب راستے تو محض فریب ہیں۔ مجاہدین کا مقصد تو صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا اور شہادت پانا ہوتا ہے۔ تاکہ اللہ تعالیٰ کی جنتوں میں پہنچنے کا سامان ہوسکے۔ مگر اعلیٰ عسکری حکمتِ عملی اپنانا اور مادی اسباب کو پورا کرکے ہی دشمن پر ایک خوفناک جنگ مسلط کرنا، یہ سب مجاہدین کے پیشِ نظر ہوتا ہے۔ دیکھیے کہ کیسے ہمارے بھائی خراسان اور صومالیہ کے محاذوں پر فتوحات حاصل کررہے ہیں۔

اس مبارک جہادی تحریک کا راستہ نہ تو کوئی روک پایا ہے، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی مدد سے کوئی روک پائے گا۔ اس دور کا کوئی بھی راہزن، کوئی بھی مقبول شیروانی اس مبارک قافلے کو روک نہیں سکتا، چاہے وہ کسی بھی شکل میں آئے۔ چاہے وہ مذاکرات کا لباس پہنے ہو، یا پرامن جدوجہد کا سہرا باندھے۔ اب شیروانی کلچر کشمیر کی آزادی اور نفاذِ شریعت کا راستہ نہیں روک سکتا، ان شاء اللہ۔ ہندوستان کی فوج، پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے، لیکن ہم اللہ کے وعدوں اور نصرت کے سہارے جہاد کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کبھی مکڑی کے کمزور ترین جالے سے ہوتی ہے اور کبھی ابابیلوں کی صورت میں۔

میرے عزیز بھائیو!

تحریکِ جہادِ کشمیر میں ہر ایک فرد اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ دیکھیے کیسے ہمارے نہتے نوجوان معرکوں میں مجاہدین کے رباط پر سینے چھلنی کروا رہے ہیں۔ واللہ! یہ ایک عظیم معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔

اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی صورتحال کفار کے لیے اور بھی بدتر ہوسکتی ہے۔ اگر انکاؤنٹر سائٹس کے نزدیک پولیس سٹیشنز اور فوجی بنکروں پر پیٹرول بم برسائے جائیں۔ اس سے انکاؤنٹر جگہ پر موجود فوج اور پولیس کی طاقت اور توجہ تقسیم ہوجائے گی ان شاء اللہ۔

اور کچھ عرصے سے دوکانوں اور کاروباری جگہوں پر سی سی ٹی وی کیمرے لگانا عام ہوگیا ہے۔ حالانکہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن بعض دفعہ یہ کیمرہ کاروباری اداروں کے باہر کے مناظر بھی قید کرلیتا ہے، جو کہ مجاہدین کی کارروائی اور حرکت کے لیے غیر مناسب ہے۔ لہٰذا ہماری تاجر بھائیوں سے گزارش ہے کہ وہ اس بارے میں خیال رکھیں۔ اس کے علاوہ مرابط جوان جہاں بھی پولیس اور فوج کے لگائے ہوئے کیمرے دیکھیں، تو ان کو احتیاط سے تباہ کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تحریکِ جہادِ کشمیر کو عروج پر لے جانے کی توفیق دے۔ آمین یارب العالمین!

مقبوضہ ہندوستان میں رہنے والے میرے عزیز اور محبوب بھائیو اور بہنو!

آپ کی مظلومیت سے ہم واقف ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں آپ کے لیے ابابیلوں کا وہ لشکر بنادے جو مودی اور اس کی فوج کو نیست ونابود کردے۔ یہ کبھی نہیں سوچیے گا کہ ہمیں آپ کی فکر نہیں ہے۔ ہندو کفار کے ساتھ جنگ میں آپ ہمیں ہمیشہ اپنی صف میں شامل پائیں گے۔ امتِ مسلمہ کا ہر فرد آپ کی پشت پر ہے۔ ہندو کفار تو ہمارے دینی دشمن ہیں۔ اور یہ جہاد ہمیں لسانی، علاقائی اور مسلکی اختلافات سے اوپر اٹھ کر انجام دینا ہوگا۔ دشمن آپ کو باقی امتِ مسلمہ سے ملکوں، سرحدوں اور مفادات کی بنا پر تقسیم کررہا ہے۔ لیکن مسلم امت کا ہر فرد آپ سے ایمانی تعلق رکھتا ہے، چاہے وہ پاکستان میں رہتا ہو، کشمیر میں یا بنگلہ دیش میں یا کسی اور علاقے میں۔ ہمیں ہر وقت ایک دوسرے کی محبت ہونی چاہیے اور ہر مسلمان کے لیے اپنا لہو بہانے کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے۔

میرے بھائیو! وہ دور آپ یاد کیجیے جب ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کا بول بالا تھا۔ جب شریعتِ محمدیﷺ کے تحت نظامِ حکومت چلا کرتا تھا۔ جب شیخ اسمٰعیل بخاری، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شیخ علی اجمیری رحمہم اللہ کی تعلیم وتربیت سے مسلمان روشناس ہوتے تھے۔ اور دوسری طرف مجاہدینِ وقت محمود غزنوی، محمد غوری اور شاہ اسمٰعیل شہید میدانِ جہاد میں نئے سنگِ میل عبور کرتے جاتے تھے۔

میرے بھائیو!

ہندوستان میں آپ کی تاریخ معمولی نہیں ہے، یہ تو برِّصغیر میں اسلام کی سربلندی کا ایک سنہرا باب ہے جسے علما اور مجاہدین نے اپنے خون پسینے سے قائم کیا ہے۔ تو میرے بھائیو! آپ کی تاریخ غلیظ ہندو کے سامنے جھکنے کی نہیں ہے، بلکہ آپ کی تاریخ تو جہاد اور مجاہدین سے بھری ہوئی ہے۔ اور ان ہندوؤں کو آپ کی اس بات سے عداوت ہے کہ آپ کا دین اسلام ہے اور یہ آپ سے تب تک خوش نہیں ہوں گے جب تک آپ اپنا اسلام نہ چھوڑ دیں۔ یاد رکھیے! آپ کے مسائل کا حل گائے کا گوشت بند کرنا نہیں ہے، داڑھی کاٹنا نہیں ہے، یا بی جے پی کے مقابلے میں کانگریس یا باقی سیاسی جماعتوں کی حمایت کرنا نہیں ہے۔ بلکہ آپ کے مسائل کا حل صرف اور صرف اللہ تعالیٰ نے جہاد میں رکھا ہے۔ جب تک ہندوستان میں پھر سے شریعت کا نفاذ نہیں ہوتا، ہندوؤں کے لیے ہر مسجد کے معنیٰ بابری مسجد ہی ہوں گے۔

میرے بھائیو!

ہمارے دل ہندوستان میں مسلم خون کے ہر قطرے پر تڑپتے ہیں۔ دادری کے محمد اخلاق، راجستھان کے پہلو خان، جھارکھنڈ کے عنایت اللہ خان، آسام کے ابوحنیفہ اور ریاض الدین علی، اترپردیش کے غلام محمد…… ان سب کا خون ہمارے اوپر ایک قرض ہے، اور ان شاء اللہ یہ قرض ہم ضرور چکائیں گے۔

تو میرے بھائیو! اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے، کہ آپ قرآن کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے جہاد کا رخ کریں اور اپنا خون ضائع ہونے کے بجائے ہندو حکومت اور ہندو انتہاپسندوں پر حملوں میں بہائیں۔ ناکہ اپنا خون موب لنچنگ، کبھی گائے کے نام پہ تو کبھی کسی اور نام پر بہائیں۔ آپ کی جہادی کارروائیاں ہی ہندو کے بڑھتے مظالم کو روک سکتی ہیں۔ اس ظلمتوں کے دور میں آپ کے لیے بس یہی ایک راستہ ہے، جس پر بھٹکل سے خراسان کی طرف ہجرت کرنے والے مجاہد انور نے سفر کیا۔ جو عاطف امین نے اختیار کیا، جب انہوں نے اپنے خون سے اسلام کی سربلندی کی گواہی دی۔

کشمیر اور ہندوستان میں رہنے والے میرے عزیز نوجوانو!

نریندر مودی اور اس کا ہندو ٹولہ چاہے کتنے بھی ظلم اور سختیاں کرے، یہ یاد رکھیے کہ ہندو ایک بزدل قوم ہے جو اپنے سے زیادہ طاقتور کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے، اور یہ پھر اس کو پوجنے لگ جاتے ہیں۔ ان کا گھمنڈ اور ان کی طاقت توحید کے پروانے کی ایک تکبیر سے ہی ختم ہوجائے گی۔ گاڑیوں اور ٹرکوں سے ہندوستانی پولیس، فوج، اعلیٰ افسروں، ہندوبھگوا تنظیموں کے لوگوں کے سر کچل ڈالیے۔ یہ طاغوتی ہندوستانی ریاست آپ کے قدموں میں آجائے گی ان شاء اللہ۔

اے ہند میں توحید کے رکھوالو!

ہندوستان کی ہر گلی شریعت کے لیے تڑپ رہی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کا خون ان گلیوں میں بہائے بغیر فتح کبھی نہیں ملے گی۔ اس موقع پر ہندوستانی پولیس اور فوج میں موجود مسلمانوں کو میں ان شجاعت مند ایمان والوں کی یاد دلانا چاہوں گا، جنہوں نے انگریزی فوج میں ہونے کے باجود خلافتِ عثمانیہ کے خلاف جنگ لڑنے سے انکار کردیا تھا۔ آپ سے سوال ہے کہ آپ کس ملک اور کس حکومت کا دفاع کر رہے ہیں؟ یہ تو کفار کی حکومت ہے، اور وہ بھی ایسے بدترین کفار جن کا مقصد ہندوستان سے اسلام اور مسلمانوں کا صفایا کرنا ہے۔ ہندوستانی فوج اور پولیس میں مسلمان سپاہیوں اور افسروں کے پاس تو اسلحے کی بھی کوئی کمی نہیں ہے، بس اب وقت آچکا ہے کہ آپ بیدار ہوجائیے اور خون کے ہر ایک قطرے کا حساب لیں۔ یہ نہ سوچیں کہ آپ اور آپ کے گھر والے محفوظ ہیں، ان ہندو دنگیوں کے سامنے صرف آپ ایک مسلمان ہیں، اور ان گائے کے پجاریوں کے لیے مسلمان کا مطلب صرف دشمن ہے۔

کشمیر اور ہندوستان میں بسنے والے میرے بھائیو!

اپنے آپ کو جنگ کے لیے تیار کیجیے، اپنی تیاریاں شروع کیجیے! مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے نصرت کا وعدہ کیا ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے۔ غزوۂ ہند ہماری تقدیر ہے اور جہاد ہمارا راستہ ہے۔ اور یقیناً تلواروں کے سائے میں ہی جنت ہے۔

اسلام میں ہی آپ کے مسائل کا حل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیجیے، اپنے گھروں میں اسلام کی تعلیمات کو پھیلائیے، خود تقویٰ گزار بنیے، اپنے بچوں کو اسلام سکھائیے، اور سب سے بڑھ کر جہاد میں اپنا حصہ ڈالیے۔ اسلامی معاشرے کی عمارت آپ ہی سے بنے گی۔

کشمیر میں میرے عزیز نوجوانو!

آپ کی شجاعت کو ہم سلام پیش کرتے ہیں، اور یہ دلی تمنا رکھتے ہیں کہ شریعت اور شہادت کے جس منہج پر آپ نے لبیک کیا ہے، اسے آپ اپنی ذاتی زندگیوں میں بھی عمل کریں گے اور اس دعوت کو پھیلائیں گے، ان شاء اللہ۔

مجاہدین سے بھی دل سے یہ گزارش ہے کہ وہ خونِ مسلم کی حرمت کو برقرار رکھیں۔ چاہے ہماری تنظیمیں، ہمارے منصوبے اور ہماری جماعتیں مٹ جائیں، مگر ہمارے ہاتھوں کبھی کسی ناحق مسلمان، کسی بے گناہ کا خون نہیں بہنا چاہیے۔

اسی طرح علما سے بھی یہی امید کرتے ہیں کہ وہ حق کا ساتھ دیں اور لوگوں کو حق کی طرف بلائیں اور اختلافات سے بالاتر ہوکر کفر کے ہر بت کا پردہ فاش کریں۔ پھر وہ جمہوریت ہو یا وطنیت…… یہ آپ پر ایک ذمہ داری ہے اور آخرت میں آپ سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آپ حق کی آواز بلند کریں، مجاہدین آپ کی پشت پر ہیں ان شاء اللہ۔

آخر میں یہ گزارش کروں گا کہ مجاہدین اور شہدا کے گھر والوں کو خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیں، اور ان کے اہل خانہ کی ہر قسم کی مدد ونصرت کریں۔ خاص کر میں اپنے نوجوانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ شہدا، غربا اور بیواؤں کی مدد کیا کریں۔ یہ ہم پر ایک بہت بڑا قرض ہے۔

اس موقع پر میں یہ بھی واضح کرنا چاہوں گا کہ انصار غزوۃ الہند کا کسی بھی اعتبار سے جماعۃ الدولہ (داعش)سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور نہ ہی کبھی تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مخلص اور موحد بندوں کی صف میں شامل کرے اور ہم سے دینِ حق کا کام لے۔ آمین یارب العالمین!

وآخر دعوانا أن الحمدللہ ربّ العالمین

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

٭٭٭٭٭

Exit mobile version