اے طائرِ لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
کفار و مشرکین کو قتل کرنا ربِّ ذوالجلال کا حکم ہے، اور جب یہ ظالم، جابر اور نجس مشرک قتل ہوتے ہیں تو مومنین کے قلوب ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں مجاہدین نے بھارتی قابض فوج پر کئی کاروائیاں کیں اور حال ہی میں مقبوضہ جموں وکشمیر کے ضلع پونچھ میں مجاہدین نے قابض ہندوستانی فوج کی ۴۹ راشٹریہ رائفلز کی گاڑی پر گھات لگا کر حملہ کیا جس میں پانچ فوجی واصل جہنم ہوئے اور ایک اہلکار شدید زخمی ہوا۔ یقیناً اس کارروائی پر بھی مومنین کے دل ٹھنڈے ہوئے ہیں۔ جہادِ کشمیر کے ضمن میں میرے ذہن میں چند باتیں تھیں ، سوچا قرطاس پر منتقل کر دوں۔ شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔ کشمیر میں مسلح جہاد کو تقریباً تینتیس، چونتیس سال ہو گئے ہیں۔ ان چونتیس سالوں میں یہی دیکھنے میں آیا کہ کشمیر کے مخلص اور سادہ لوح مجاہدین کو ایجنسیوں نے اپنے ملکی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ اس دوران ان ایجنسیوں نے بعض حلقوں سے کشمیر کے دانشور، ڈاکٹر اور علماء تک قتل کروائے، ریاست کی ایسی املاک کو تباہ کروایا جن کا فائدہ براہِ راست کشمیری مسلمان عوام کو ہوتا تھا، مثلاً بجلی کے ٹرانسفارمر تباہ کروائے گئے، دریاؤں کے پل تباہ کروائے گئے، مکاتب جلائے گئے وغیرہ۔ چونکہ پہلے میرا تعلق بھی ایک ایسی کشمیری تنظیم کے ساتھ رہا جو ان ایجنسیوں کے ماتحت جہاد کرتی تھی، اس لیے ان ایجنسیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان ایجنسیوں نے ہمیشہ ہی مجاہدینِ کشمیر کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کے لیے (تقسیم کرو اور راج کرو کا فارمولا استعمال کرتے ہوئے) کشمیری مجاہدین کو درجن سے زیادہ تنظیموں میں تقسیم کیا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ ان تنظیموں میں تنظیمی تعصب پیدا ہوا، اس وجہ سے ایجنسیوں اپنی بات منوانے میں کامیاب رہیں، جبکہ کشمیری مجاہدین اپنی بات نہیں منوا سکے۔ مزید کمزور کرنے کے لیے ان تنظیموں کو وقتاً فوقتاً کشمیر کے محاذ پر بھی اور پاکستان میں بھی لڑوایا گیا۔ جب کسی خطے میں مختلف امراء اور مختلف جھنڈوں کے تحت جہاد ہوتا ہے اور پیچھے ایجنسیوں کا ہاتھ ہو تو وہاں فتح بعید سے بعید تر ہوتی جاتی ہے اور اگر فتح مل بھی جائے تو بعد میں نہ صرف یہ کہ شریعت نافذ نہیں ہو پاتی بلکہ آپس میں جنگیں شروع ہو جاتی ہیں۔ جب افغانستان میں روس کو شکست ہوئی تو جن مجاہدین کو علمائے کرام کی رہنمائی حاصل تھی اور جن پر اللہ پاک کا رحم ہوا وہ بچے رہے، لیکن باقی آپس میں لڑتے رہے۔ اس طرح نہ صرف شریعت کا نفاذ نہ ہو سکا بلکہ عوام الناس بھی ظلم و ستم کا شکار ہوئے۔
بے شمار حربے ایسے ہیں جو ان مکّار ایجنسیوں نے کشمیری مجاہدین کو اپنے تابع رکھنے کے لیے استعمال کیے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ان ایجنسیوں نے کشمیری مجاہدین کو ریموٹ کنٹرول بنانے کا دورہ کروایا اور کشمیری مجاہدین بڑے زور و شور سے یہ کہتے پھرتے تھے کہ اب ہم ریموٹ کنٹرول کے حوالے سے خودکفیل ہو گئے ہیں۔ ابھی ہمارے کئی ساتھی اس کام کے استاد بن جائیں گے۔ لیکن میں اُس وقت انتہائی حیران ہوا جب وہ ساتھی فارغ ہو کر آئے، ان میں میرا ایک قریبی ساتھی بھی تھا۔ جب میں نے اس سے ریموٹ کنٹرول دورے کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ کام سیکھنے کے باوجود ایجنسیوں نے ہمیں اپنا محتاج ہی رکھا۔ وہ اس طرح کہ جتنے پرزہ جات اس کام میں استعمال ہوتے تھے وہ تمام پرزہ جات ہمیں اس حالت میں ملتے کہ ان کے اوپر سے نام اور نمبر صاف کیے ہوتے اور جب ان استادوں میں سے کسی کو لانچ کرنا ہوتا تھا تو اس کو ایک بکس دیا جاتا تھا جس میں تقریباً پچاس سے سو ریموٹ کنٹرول بنانے کے لیے پرزہ جات ہوتے تھے جن کے اوپر سے نام اور نمبرز صاف کیے ہوتے تھے، تاکہ مجاہدین خود یہ پرزہ جات حاصل نہ کرسکیں۔ اور جب ایجنسیوں چاہیں تب یہ مجاہدین ریموٹ کنٹرول بنا سکیں، اور مزید کوئی اور مجاہد یہ کام نہ سیکھ سکے۔ اللہ پاک ان مکّار ایجنسیوں کو برباد کرے۔ جب ان ایجنسیوں کا اپنا مفاد تھا، تو انہوں نے اس تحریکِ جہاد کو گرم رکھا، اور جب ان کو اس تحریک کو ٹھنڈا کرنے میں مفاد تھا تو انہوں نے اس تحریک کو سرد کر دیا۔ غرض کشمیری مجاہدین کبھی اس پوزیشن میں نہیں رہے کہ وہ اپنے جہاد کے فیصلے خود کر سکیں، اور نہ ہی کبھی جہادی پالیسی بنانے میں آزاد رہے۔ حالانکہ کشمیری مجاہدین، جہاد اس مقصد کے لیے کر رہے تھے کہ کشمیر کو قابض ہندوؤں سے آزاد کیا جائے، لیکن افسوس کہ یہ جہاد کبھی خود آزاد نہ ہو سکا کو تو کشمیر کو کیا آزاد ہونا تھا۔ شہید شیخ افضل گورو اپنی کتاب ’آئینہ‘ میں ایجنسیوں کے ماتحت جہاد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
’’آئی ایس آئی اور پاکستانی حکمران جو عملی طور پر امریکہ کے غلام ہیں، ان پر تحریکِ جہاد کا انحصار توہینِ جہاد ہے۔ جہاد تقاضوں کے ساتھ ہوتا ہے، جہاد کے اپنے اصول، شرائط، قوانین اور حکمت عملی ہوتی ہے، جن کا سرچشمہ دینِ الٰہی ہے، ان پر عمل کرنے سے ہی جہاد مطلوبہ نتائج و ثمرات دیتا ہے، جہاد کا انکار گناہِ عظیم ہے لیکن توہینِ جہاد اور جہاد کی بے حرمتی کرنا اس سے بھی بڑا گنا ہے۔‘‘
یہ اٹل حقیقت ہے کہ ہمارے مال و جان اور ہماری ماں، بہن اور بیٹی کی عزت و عصمت کی حفاظت تب ہی ممکن ہے جب ہمارا جہاد یعنی ہمارے جہاد کی پالیسی آزاد ہو گی اور آزاد جہاد کی پالیسی صرف سیاستِ شرعیہ کی پابند ہو گی نہ کہ فارن پالیسی اور بارڈر ایسکیلیشن کا مسئلہ۔ ہمارا جہاد تبھی اپنے ثمرات دے سکتا ہے جب اس کو پاکستان اور اس کی فوج کے شیطانی منصوبوں سے مکمل آزاد کرایا جائے گا اور شریعتِ مطہرہ کا نفاذ بھی تبھی ممکن ہے جب ہمارا جہاد تمام طواغیت سے آزاد اور صرف شریعتِ مطہرہ کے تابع اور علمائے حق کی رہنمائی میں آگے بڑھے گا۔ المختصر، اس تحریر کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ مسلح تحریکِ جہاد کو اب چونتیس سال گزر گئے ہیں، مسلمانانِ کشمیر کو عموماً اور نوجوانانِ کشمیر کو خصوصاً اب اس بات کو سمجھ جانا چاہیے کہ ہمیں کوئی طاغوتی قوت استعمال نہ کرے، بلکہ اب ہمارے جہادی فیصلے اور جہاد کی حکمت عملی ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہو، اور اب ہم اپنے اس مقدس جہاد کو ایجنسیوں سے آزاد کروا کر علمائے حق اور علمائے جہاد کی رہنمائی میں آگے بڑھائیں۔ اور یاد رکھیے جب مومن حق راستے کے لیے کوشش کرتا ہے، اللہ رب العزت اس کے لیے ضرور راستے کھولتا ہے۔ اللہ ذوالجلال قرآن عظیم الشان میں فرماتے ہیں:
﴿وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ ﴾(سورۃ العنکبوت: ۶۹)
’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گےانہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکوکاروں ہی کے ساتھ ہے۔ ‘‘
اللهم اجعلنا من المجاهدين الذين يجاهدون في سبيلك
٭٭٭٭٭