ہِندُتوا کیا ہے؟ | ساتویں قسط

ہندُتوا سے منسلک نظریات و تصورات

اَدْوِیت ویدانت (Advaita Vedanta)

ادْوِیت ویدانت ہندو مت میں مرکزی حیثیت کا حامل ایک مذہبی اور روحانی فلسفہ ہے جو کہ ’ویدانت‘ کے ۷ فلسفوں میں سے ایک ہے۔’ویدانت‘ دو الفاظ کا مرکب ہے، ’وید‘ اور ’انت‘۔ وید ہندوؤں کی مقدس کتابوں کو کہا جاتا ہے جبکہ انت کے معنی اختتام کے ہیں۔ اس طرح ویدانت کا مطلب ہوا ’ویدوں کا اختتام‘۔ ویدانت کا فلسفے کو’ویدوں کا اصلی علم‘ یا ’ویدوں کے علم کا نچوڑ‘ کہا جاتا ہے ۔ ویدوں میں کچھ ایسے منتر(آیتیں) ضرور ملتے ہیں جن کی تاویل اور تشریح ویدانت کے فلسفوں کے ساتھ کی گئی لیکن حقیقت میں ویدانت کے فلسفوں کا ویدوں میں کہیں ذکر نہیں ہے۔ ویدانت کا سارا علم اصل میں ’اُپانی شد ‘1 سے اخذ کیا گیا ہے۔اور اُپانی شد چونکہ ویدوں کے آخری ابواب ہیں اسی لیے ان فلسفوں کو ’ویدانت‘ کہا جاتا ہے۔ اُپانی شد کے علاوہ ویدانت کے فلسفے میں اضافے ’براہم سُتر‘2 اور ‘بھگود گیتا‘3 سے بھی کیے گئے ہیں۔ ویدانت میں ان تینوں کو ’پراستھنا ترائی(Parasthanatrayi) یعنی تین مصادر کہا جاتا ہے۔

اسی طرح ادْوِیت بھی دو الفاظ کا مرکب ہے۔ ’ا‘ اور ’دوِیت‘۔ ’ا‘ سنسکرت میں نفی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، جبکہ ’دوِیت‘ اصل میں ’دوئیت‘ ہے جوکہ سنسکرت میں دوِیت بن گیا یعنی کسی کا دو ہونا یا ’ثنویت‘4۔ اس طرح ادْوِیت کا مطلب ہوا ’دوئیت کا انکار‘ یا ’عدم ثنویت‘۔ اسی کو انگریزی میں non-dualism کہتے ہیں5۔

اس فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات میں اصل حقیقت صرف ایک ہے یعنی براہمَن6 (ایشوَر)۔ انسانی آتما (روح) بھی اسی کا ایک حصہ ہے اور کائنات کے سارے اجزاءبھی دراصل اسی ایک وجود کا ہی حصہ ہیں۔ اور باقی جو بھی نظر آتا ہے وہ محض ’مایا‘ (سراب) ہے اور اسی ایک حقیقت کی تجلی یا اظہار ہے7۔ بالفاظِ دیگر مخلوق خالق کے وجود کا ہی ایک حصہ ہے اوراپنی علیحدہ حیثیت نہیں رکھتی اور جو کچھ کائنات میں نظر آتا ہے وہ کوئی علیحدہ وجود نہیں بلکہ خالق کے وجود کا ہی اظہار ہے۔

اس فلسفے کو باقاعدہ شکل میں مرتب آٹھویں صدی عیسوی میں مشہور ہندو فلسفی اور مذہبی رہنما ادی شنکر اچاریہ (Adi Shankar Acharya)نے کیا۔ یہ وہ دور ہے جب ہندوستان پر مسلمان مسلسل حملے کر رہے تھے۔ آٹھویں صدی میں ہی محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا تھا اور اس کے بعد بھی حملے جاری رہے۔ اس وقت ہندو مت کوئی باقاعدہ مذہب نہیں تھا۔ بلکہ پورے برصغیر میں سینکڑوں چھوٹی چھوٹی سلطنتیں موجود تھیں جہاں کے دیوتا بھی الگ تھے اور وہاں کے مذہبی رسوم و رواج بھی الگ تھے۔ ہندوؤں کے قدیم مقدس وید موجود تھے لیکن ان میں بیان کیے گئے احکامات میں مختلف ویدوں میں تضاد پایا جاتا تھا اور ہر علاقے میں ان کی تشریحات بھی مختلف تھیں۔ ادی شنکر اچاریہ کا اصل کارنامہ یہی تھا کہ اس نے پورے برصغیر میں بکھرے ہوئے ان سینکڑوں مذاہب کو متحد کرنے کی کوشش کی تاکہ مسلمانوں کے مقابلے میں ایک قوت بنائی جا سکے۔ اس مقصد کے لیے اُس نے ادْوِیت کا فلسفہ مرتب کیا اور اسے مرکزی حیثیت دیتے ہوئے سب کو اس فلسفے پر متحد ہونے کی دعوت دی۔

ادْوِیت کا فلسفہ بظاہر ایک خالص مذہبی اور روحانی نظریہ نظر آتا ہے لیکن اس فلسفے کو خالص سیاسی وجوہات سے کھڑا کیا گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ اصولی طور پر اس فلسفے کی وجہ سے شنکر اچاریہ کو بت پرستی کی مخالفت کرنی چاہیے تھی، لیکن چونکہ اس فلسفے کا مقصد مذہبی و روحانی کی بجائے سیاسی تھا، اس لیے اُس نے بت پرستی کی مخالفت کی بجائے مدافعت کی ۔ہندوستان کے قدیم مذاہب و فلسفوں کے ماہر اور سنسکرت زبان کا پروفیسر وی ایس گھیٹ (V. S. Ghate) ایک مقالے میں شنکر اچاریہ کا بت پرستی کے دفاع میں ایک قول نقل کرتا ہے:

’’اپنی نشونما کی ایک خاص منزل میں بت پرستی ہماری فطرت کی ایک ضرورت ہے، جب مذہبی روح پختہ اور بالغ ہو جاتی ہے تو پھر بت پرستی کی ضرورت نہیں رہتی۔ جب مذہبی روح پختہ اور بالغ ہو جاتی ہے تو علامتوں اور رموز کو ترک کر دینا چاہیے۔‘‘ 8

شنکر اچاریہ کے بعد کے ادوار میں جب پورے ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو اُس وقت کے ہندو مفکرین نے ہندوستانی رسوم و رواج کو اسلامی اثر سے بچانے کے لیے ادْوِیت کے فلسفے ہی کو بنیاد بناتے ہوئے پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے مختلف رواجوں کو فرقوں اور مذاہب کی شکل دی اور اس طرح مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوستان کے مقامی مذاہب کو متحد کرنے کی کوشش کی۔

جب ہندوستان میں برطانوی استعماری راج آیا تو برطانویوں نے ہندوستانی ثقافت کو پسماندہ ، توہم پرستانہ اور مغربی تہذیب سے ادنیٰ ہونے کا احساس ہندوؤں میں ڈال کر انہیں احساس کمتری میں مبتلا کیا۔ ایسے میں ہندو مفکرین نے ویدانت کی ’انسان پرست‘اور سب کواپنے اندر سمو لینے والی تعریف کو متعارف کروایا، جسے اب جدید ویدانت کہا جاتا ہے۔

ادویت ویدانت کو ہندو مت کے مرکزی فلسفے کے طور پر پیش کیا گیا اور جدید ویدانت کے ذریعے سے ہندوستانی ثقافت کی تاریخ کو مختلف زاویے سے دکھانے کی کوشش کی گئی۔

اس کے علاوہ مغربی تہذیب جو طاقت کے ساتھ یہاں حکمران ہوئی تھی اس نے اپنے اثرات یہاں کی تہذیب و ثقافت پر اثر بھی ڈالے اور جدید تعلیم کے فروغ کے نتیجے میں مقامی مذاہب اور ان کے بعض تصورات جیسے بت پرستی اور ذات پات وغیرہ سے شدید بے زارگی نئی نسل میں عام ہوگئی جس کی وجہ سے ہندو مذہب کی بقا کو بھی شدید خطرات لاحق ہوگئے۔ ایسے میں ہندو مفکرین نے ہندو تہذیب وثقافت کے احیاء کے لیے اور ہندومت کی فلسفیانہ و نظریاتی برتری کو ثابت کرنے کے لیے بھی جدید ویدانت کے نظریے کو فروغ دیا۔

ان ہندو مفکرین میں سب سے زیادہ عالمی شہرت بنگال کے ایک نوجوان راہب نریندر ناتھ دَتّا (Narendrnath Datta) کو حاصل ہوئی جو بعد میں سوامی وویکانند (Swami Vivekananda) کے نام سے مشہور ہوا۔ وویکانند نے ہندو تصورات کو مغربی دنیا میں متعارف کرانے کا بیڑا اٹھایا ۔ اسی کی کوششوں سے ہندومت کو ایک عالمی مذہب کی حیثیت حاصل ہوئی۔

سوامی وویکانند نے ادْوِیت کو تمام ہندوستانی فلسفوں و مذاہب کی حتمی کسوٹی قرار دیا۔ ہم نے جیسے ذکر کیا کہ ادْوِیت کا فلسفہ ویدانت کے سات فلسفوں میں سے ایک ہے۔ ان سات فلسفوں میں تین فلسفے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ باقی کو ان کی ذیلی شکلیں کہا جا سکتا ہے۔ یہ بنیادی فلسفے درج ذیل ہیں۔

  1. ادْوِیت ویدانت (Advaita Vedanta) یعنی عقیدۂ عدم ثنویت (non-dualism): مخلوق خالق کے وجود کا ہی ایک حصہ ہے اور اپنی علیحدہ حیثیت نہیں رکھتی۔

  2. دوِیت ویدانت (Dvaita Vedanta) یعنی عقیدۂ ثنویت(dualism):مخلوق خالق کے وجود کا حصہ نہیں ہے بلکہ دونوں اپنی علیحدہ علیحدہ حیثیت کے حامل ہیں۔ لیکن مخلوق کا وجود خالق کی وجہ سے ہی ہے۔

  3. بھید ابھید (Bhedabheda) یعنی مختلف بھی اور ایک جیسے بھی۔ یہ فلسفہ ادْوِیت اور دوِیت کے نظریوں کوآپس میں ضم کرتا ہے۔ لیکن اصل میں ’مختلف بھی اور ایک جیسے بھی‘ کا معنی کیا ہے اس کی وضاحت اس فلسفے سے منسلک ہر فلسفی نے علیحدہ سے دی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ جو وضاحت بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ مخلوق خالق کے وجود سے علیحدہ حیثیت رکھتی ہے لیکن وہ خالق کے وجود سے ہی پیدا ہوئی ہے اس لیے چاہے ظاہری طور پر مخلوق کا وجود علیحدہ ہے لیکن حقیقت میں یہ خالق کے وجود کا ہی حصہ ہے۔

سوامی وویکانند نے ان فلسفوں کو علیحدہ مکاتب فکر تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ یہ اصل میں روحانی ترقی کے مدارج ہیں اور حتمی درجہ ادْوِیت ہی ہے۔ وویکانند کے نظریات جدید ویدانت کی اساس ہیں ، اور ان نظریات نے جدید اور مروجہ ہندومت کی بنیاد رکھی۔

باوجود اس کے کہ ہندو عقائد اور رواجوں میں بہت تنوع پایا جاتا ہے، وویک آنند کی کوششوں سے ادویت ویدانت کی جدید شکل نے ہندو افکار میں غالب حیثیت اختیار کر لی ، ۔

سوامی وویکانند انیسویں صدی میں ہندومت کے احیا میں سب سے بڑا نام ہے اور آج کا ہندو ہندومت سے متعلق اپنا علم براہ راست یا بالواسطہ سوامی وویکانند سے ہی اخذ کرتا ہے۔ لیکن وویکانند کو ہندومت کا مجدد کہنے کی بجائے متجدد کہا جائے تو یہ زیادہ درست ہو گا۔ اس لیے کہ مغربی تہذیب اور جدید تعلیم کی وجہ سے روایتی ہندومت دم توڑ رہا تھا اور اس کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی تھیں۔ جدید ذہن کو اس میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ایسےمیں وویکانند نے ہندومت کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اور اسے مغرب میں بھی قابل قبول بنانے کے لیے اس میں مغربی افکار و نظریات کی آمیزش کی، اور روایتی ہندو تصورات کی جدید مغربی نظریات اور طرزِ فکر کے اعتبار سے نئی تشریحات پیش کیں۔

سوامی وویکانند نے امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے کئی بار دورے کیے اور وہاں اپنے سینکڑوں دروس میں ہندو فلسفوں، خاص طور پر ادویت ، کو جدید تشریحات کے ساتھ متعارف کروایا۔ ادْوِیت کی نئی تشریحات کے علاوہ سوامی وویکانند کے جس کام کو مغرب میں سب سے زیادہ پذیرائی ملی وہ ادْوِیت کے روحانی مدارج کے حصول کے لیے ’یوگا ‘9 کی مشقیں متعارف کروانا تھا۔ یہ یوگا کی مشقیں بعد میں پورے مغرب میں مقبولِ عام ہوئیں۔

برطانویوں کی طرف سے ہندو تہذیب کی تحقیر اور جدید تعلیم یافتہ نوجوان نسل کی ہندو مذہب و رسومات سے بے زاری نے ہندو مت کی بقا کا مسئلہ کھڑا کیا جس کی وجہ سے ہندو قومیت کا تصور سامنے آیا۔ اس دور میں ویدانت نے مغربی اقوام اور ہندو قوم پرست دونوں کی نظر میں ہندو مت کی روح کی حیثیت اختیار کر لی، جبکہ ادویت ویدانت کو ہندو مت کی بعید از فہم فطرت کو سمجھنے کے لیے ایک عملی مثال سمجھا جانے لگا۔ ادویت ویدانت کے اس تصور نے ایک ایسے قوم پرست نظریے کی تعمیر کا موقع فراہم کیا جو ہندوؤں کو عیسائیوں اور مسلمانوں کے خلاف متحد کر سکتا تھا۔

ادْوِیت کا نظریہ اگرچہ ایک مذہبی و روحانی نظریہ ہے لیکن اس نظریے کی تشکیل بھی سیاسی مقاصد کے پیش نظر کی گئی اور آج تک اس کا زیادہ استعمال بھی سیاسی مقاصد سے ہی کیا جاتا رہا ہے۔ ہندو قوم پرست اس نظریے کو اپنے نظامِ فکر کی اہم بنیاد قرار دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہاں رہنے والے سب لوگ اسے تسلیم کریں۔ ہندوستان کے دھارمک مذاہب میں ہندو مت کے علاوہ بدھ مت اور جین مت میں پہلے سے یہ نظریہ موجود ہے۔ سکھوں میں یہ نظریہ نہیں پایا جاتا تھا لیکن پچھلی ایک صدی کے دوران ان میں بھی ایک فرقہ پیدا ہوا ہے جو اس نظریے کا قائل ہے۔ اسی طرح ہندو قوم پرستوں کی طرف سے ’وحدت الوجود‘ کی ایسی تعریفات اور نظریات کو مسلمانوں میں مقبول بنانے کے لیے باقاعدہ کوششیں کی گئی ہیں جو ادویت ویدانت کے نظریے سے مطابقت رکھتے ہیں۔

ہندُتوا کا اہم نظریہ ساز گولوالکر ایک مسلمان صحافی جیلانی کو انٹرویو دیتے ہوئے ادْوِیت کے نظریے کے متعلق کہتا ہے:

’’اسے آپ ادْوِیت کہیں یا کچھ اور کہیں لیکن یہ فلسفہ نہ ہندوؤں کا ہے نہ مسلمانوں کا (یعنی سب کا ہے)۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وجود صرف ایک ہے۔ وہی ایک سچائی ہے۔ وہی حقیقی مسرت ہے۔ وہی خالق ہے، رب ہے اور وہی تباہ کرنے اور ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ہمارے درمیان خدا کے جتنے مختلف تصورات پائے جاتے ہیں وہ اس حتمی حقیقت کے محدود تصورات ہیں۔ اس حتمی حقیقت کی بنیادیں ہم سب کو جوڑتی ہیں۔ یہ حقیقت کسی خاص مذہب تک خود کو محدود نہیں رکھتی۔ مذہب صرف پرستش کا ایک طریقہ ہے۔‘‘ 10

سروْ دھرم سم بھاوْ(Sarva Dharma Sama Bhava)

جدید ویدانت کے فلسفے کے مطابق مذہب انسان کے تجربے کا نام ہے۔ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سچائی کو تلاش کرے۔ اس تلاش میں وہ جن تجربات سے گزرتا ہے اور اس پر جو حقائق اور اصول منکشف ہوتے ہیں وہی مذہب کی اصل حقیقت ہے۔ یہ انکشافات ہر فرد پر ہو سکتے ہیں۔11

جب ہر فرد پر انکشافات ہو سکتے ہیں تو گویا متعدد مذہبی تجربات نظریاتی طور پر ممکن ہیں۔ چنانچہ ویدانت کے نظریے کے لحاظ سے مختلف مذاہب بیک وقت درست ہو سکتے ہیں۔ اس نظریے کو سروّ دھرم سم بھاوّ کہا جاتا ہے۔

سروّ دھرم سم بھاوّ کا لغوی ترجمہ ہے ’سب عقائد ممکن ہیں‘۔ لیکن اصطلاحی طور پر اس کا مطلب ہے کہ ’تمام مذاہب حق ہیں‘، یا ’(مذہبی اعتبار سے) تمام راستے ایک ہی منزل کی جانب جاتے ہیں‘۔ بنیادی طور پر یہ تصور سوامی وویکانند اور اس کے گورو رام کرشن نے پھیلایا تھا۔ اور سروّ دھرم سم بھاوْ کی یہ اصطلاح بھی قدیم ویدوں میں ملتی ہے۔ اس حوالے سے رگ وید12 میں موجود ایک منتر کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ ’’سچائی ایک ہے مگر اسے مذہبی رہنما مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں۔‘‘ رگ وید میں اس کی مثال اندھے لوگوں اور ایک ہاتھی سے دی گئی ہے13۔ اس مثال میں کچھ اندھے آدمی جنگل میں گئے اور وہاں وہ ایک ہاتھی سے ٹکرا گئے۔ یہ لوگ پہلے سے ہاتھی کے بارے میں واقف نہیں تھے۔ سب نے جاننے کے لیے کہ یہ کیا چیز ہے اسے ہاتھ لگا کر محسوس کرنا شروع کیا۔ پہلے آدمی کا ہاتھ اس کی سونڈ پر پڑا تو اس نے کہا کہ یہ ایک موٹے سانپ کی طرح ہے۔ دوسرے کے ہاتھ اس کے کان پر پڑے تو اس نے کہا کہ یہ تو پنکھے کی طرح ہے۔ تیسرے کا ہاتھ اس کی ٹانگ پر پڑا تو اس نے کہا کہ یہ تو ایک ستون کی طرح ہے جیسے کوئی درخت کا تنا ہو۔ چوتھے کے ہاتھ اس کے پہلو پر پڑے تو اس نے کہا کہ یہ تو ایک دیوار ہے۔ ایک کا ہاتھ اس کی دم پر پڑا تو اس نے کہا یہ ایک رسی کی طرح ہے۔ ایک کا ہاتھ اس کے ہاتھی دانت پر پڑا تو اس نے کہا کہ یہ تو کوئی سخت اور ہموار چیز ہے جیسے کوئی برچھی ہو۔ آخر میں اُن لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ سب علیحدہ علیحدہ جانوروں سے ٹکرائے ہیں۔14

اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے اندھے آدمیوں اور ہاتھی کی مثال کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

سروّ دھرم سم بھاوْ کی اصطلاح کو بعد میں گاندھی نے اپنا لیا اور یہ اُسی کے ساتھ منسوب ہو گئی۔ اس کے بعد سے سروْ دھرم سم بھاوْ کی اصطلاح اور تصورکو ہندوستان میں سیکولر نظریے میں کلیدی حیثیت حاصل ہو گئی۔

ہندو قوم پرست بھی اس نظریے کو قبول کرتے ہیں اور اپناتے ہیں لیکن چونکہ یہ اصطلاح گاندھی کے ساتھ منسوب ہو گئی اور اسے سیکولر نظریے نے اپنا لیا اس لیے ہندو قوم پرست اس اصطلاح کا استعمال نہیں کرتے۔ لیکن اس نظریے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ضرور کرتے ہیں۔

اس نظریے کی وجہ سے سوامی وویکانند کو مغرب میں بہت زیادہ پذیرائی ملی۔ ۱۸۹۳ء میں وویکانند امریکہ میں عالمی مذاہب کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے گیا جہاں اس نے ہندو مت اور ادْوِیت ویدانت کے فلسفے کو متعارف کروایا۔ اور اس تعارف کا آغاز وویکانند نے سروْ دھرم سنبھاوْ کے نظریے سے ہی کیا۔ وویکانند نے اجلاس سے خطاب کا آغاز اس جملے سے کیا ’’امریکی بہنو اور بھائیو‘‘۔ یہ جملہ وہاں موجود شرکاء کو اتنا پسند آیا کہ اجلاس میں موجود سات ہزار افراد کھڑے ہو گئے اور انہوں نے ۲ منٹ تک مسلسل تالیاں بجائیں۔ خاموشی ہونے کے بعد اس نے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا:

’’میں دنیا کی نوجوان اور کم عمر ترین قوموں کا دنیا کے قدیم ترین یوگی نظام، قدیم سنیاسیوں کی ویدوں کے نظام اور ایک ایسے مذہب کی جانب سے استقبال کرتا ہوں جس نے دنیا کو رواداری اور عالمگیر قبولیت کا سبق دیا۔‘‘15

اس کے بعد اس نے اپنی مذہبی کتابوں سے دو اقتباسات نقل کیے جو کہ سروْ درھرم سم بھاوْ کے نظریے سے متعلق تھے۔

’’جس طرح مختلف ندیاں مختلف جگہوں سے نکلتی ہیں لیکن سب کے پانی سمندر میں مل جاتے ہیں، اسی طرح اے خدا، مختلف راستے جو انسان اپناتا ہے، چاہے وہ ایک دوسرے سے جدا نظر آتے ہیں، ٹیڑھے ہوں یا سیدھے، سب تیری ہی طرف جاتے ہیں۔‘‘

’’جو بھی میری طرف بڑھتا ہے چاہے جس بھی طریقے سے بڑھے ، میں اس کی طرف بڑھتا ہوں۔ سب لوگ اُن راستوں پر کوشش کر رہے ہیں جو بالآخر میری ہی طرف آتے ہیں۔‘‘16

وویکانند کو اس تقریر کی وجہ سے امریکہ میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی اور اسے ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہو گیا۔ اخباروں کے اداریوں نے اس تقریر کی وجہ سے وویکانند کی تعریفوں کے پل باندھے۔ امریکی جریدہ ’دی نیو یارک ہیرالڈ‘ (The New York Herald) اس حوالے سے لکھتا ہے:

’’وویکانند بلاشبہ مذاہب کی پارلیمنٹ میں عظیم ترین شخصیت ہے۔ اسے سننے کے بعد ہم نے محسوس کیا کہ ایسی عالم فاضل قوم کی طرف مشنریوں کو بھیجنا کتنی احمقانہ بات ہے۔‘‘17

سوامی وویکاآنند سروْ دھرم سم بھاوْ کے تصور کو ادْوِیت ویدانت کا لازمی نتیجہ تصور کرتا تھا اور اس تصور کی وجہ سے وہ ہندو مت کو واحد مذہب تصور کرتا تھا جو رواداری کو فروغ دیتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:

’’دنیا کے تمام ملکوں میں صرف ہندوستان ہی رواداری اور روحانیت کی زمین بن سکتا ہے… قدیم زمانے میں سَنْت اٹھے اور اعلان کیا کہ جو موجود ہے، وہ صرف ایک ہے۔ مذہبی رہنما اسے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔ یہ اب تک انسان کی زبان سے نکلنے والا سب سے یادگار جملہ تھا، اب تک تلاش کی گئی سب سے عظیم حقیقت تھی۔ یہ حقیقت ہمارے قومی وجود کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اسی کے نتیجے میں یہ زمین رواداری کی زمین بن گئی۔‘‘18

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ادْوِیت اور سروْ دھرم سم بھاوْ کے نظریات کی وجہ سے ہندو ؤں میں حقیقی رواداری پیدا ہوتی اور وہ ہندوستان میں تمام مذاہب کو اپنے اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے پر اعتراض نہ کرتے۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ ہندو قوم پرستوں نے ان نظریات کو واحد حق تصور کر لیا اور جو ان تصورات پر یقین نہیں رکھتا اسے دشمن اور عدم رواداری پھیلانے والا کہنے لگے۔ اس طرح سے ہندو قوم پرستوں نے سامی مذاہب کے خلاف اس نظریے کو بطور ہتھیار استعمال کیا کہ یہ مذاہب چونکہ صرف اپنے آپ کو ہی حق تصور کرتے ہیں اس لیے یہ اس خطے میں عدم رواداری کا باعث ہیں اور انہیں یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اس حوالے سے گولوالکر لکھتا ہے:

’’اُن سب سامی مذاہب، یہودیت، عیسائیت اور اسلام، میں سب کے لیے ایک ہی طریقۂ عبادت مقرر کیا گیا ہے۔ ان ادیان میں صرف ایک ہی نبی ہے، ایک ہی کتاب ہے اور ایک ہی خدا ہے، جن کے علاوہ انسانی روح کے لیے نجات کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ ایسے دعویٰ کی نامعقولیت سمجھنے کے لیے بہت زیادہ ذہانت کی ضرورت نہیں ہے۔ قدرتی طور پر مذہب کے اس سامی تصور نے عدم رواداری کو جنم دیا اور لوگوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کیا۔‘‘19

ہندُتوا کا ایک اور مفکر منموہن ویدی آر ایس ایس کے جریدے ’آرگنائزر‘ میں لکھتا ہے:

’’روایتی طور پر سامی طرزِ فکر، انسانوں کو دوحصوں میں تقسیم کر کے دیکھتا ہے۔ ایک وہ جو کسی مخصوص عقیدے کو قبول کرتے ہیں اور دوسرے جو اسے قبول نہیں کرتے۔ جو قبول نہیں کرتے اُن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ شیطان کے دوست اور کافر ہیں اور انہیں زندہ رہنے کا بھی حق حاصل نہیں ہے۔ اس تخریبی طرزِ فکر نے کمیونزم جیسے ان (مغربی) نظریات پر بھی اثر ڈالا ہے جو ان (سامی) علاقوں میں پروان چڑھے ہیں۔ اور یہ (ان نظریات کے ماننے والے) لوگ بھی اُن تمام کو جو اُن کے خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے غیر سمجھنے لگتے ہیں۔ یعنی آپ کمیونسٹ نہیں ہیں تو آپ دائیں بازو کے ہیں جو قابل شرم بات ہے۔‘‘20

ہندُتوا کے فلسفہ ٔ حیات کو سمجھنے میں اس تصور کی مرکزی اہمیت ہے۔ اُن کے نزدیک یہ بڑی برائی ہے کہ آدمی دوسرے کے مذہب کو غلط سمجھے اور مذہب کو کسی ایک مستند کتاب یا شخصیت سے وابستہ کر لے۔ وہ اسے ہندوستانی طرز فکر کے خلاف باور کراتے ہیں اور سامی، مغربی یا ایسا طرزِ فکر سمجھتے ہیں جو اس ملک کے لیے بالکل اجنبی ہے۔ وہ اس طرزِ فکر کو بہت سے مسائل کی جڑ سمجھتے ہیں۔ اسلام اور عیسائیت سے ان کی مخالفت کا سبب بھی یہی باور کروایا جاتا ہے کہ یہ مذاہب اپنے سوا کسی اور کو صحیح نہیں سمجھتے۔ کافر اور گمراہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے دوسروں کو وہ کبھی عزت و احترام نہیں دے سکتے۔

لیکن اس طرح تنقید اور مخالفت بلکہ دشمنی کرتے ہوئے وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اس طرح سے وہ اپنے ہی ، تمام مذاہب کے حق ہونے کے ، نظریے کو رد کررہے ہیں۔ اور اس طرح سے جس چیز کا الزام وہ سامی مذاہب کو دیتے ہیں وہی وہ خود بھی کر رہے ہیں۔ نعرہ اَدْوِیت کا اور سروْ دھرم سم بھاوْ کا لگاتے ہیں لیکن خود اس پر عمل کرنے کی بجائےاس کے برخلاف حق صرف اسے سمجھتے ہیں جو ان تصورات پر یقین رکھتا ہو اور باقی سب برائی کی جڑ۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭


1 اُپانی شد(Upanishad) ہندوؤں کی وہ مذہبی تحریرات ہیں جو ویدوں کے بعد لکھی گئیں۔ انہیں ویدوں میں کیے گئے ’آخری اضافے‘ کہا جاتا ہے، اور انہیں ویدوں کے آخری ابواب کے طور پر ان میں شامل بھی کیا گیا ہے۔ ان تحاریر کا بنیادی موضوع ’روحانیت‘ ہے۔ جس میں روحانی ترقی کے طریقے جیسے ’دھیان‘ (مراقبہ)، اور روحانی ترقی کے مدارج، فلسفہ، خود آگاہی وغیرہ جیسے موضوعات شامل ہیں۔

2 براہم سُتر (Brahma Sutras) چوتھی صدی عیسوی میں ’بدرآیان‘ اور ’مہابھارت‘ کے مصنف ’کرشن دویپاین‘ کی لکھی تحریر ہے۔ یہ تحریر ’اُپانی شد‘ میں موجود روحانی اور فلسفیانہ افکار کو منظم کرتی ہے اور ان کی تشریح کرتی ہے۔

3 بھگود گیتا(Bhagvad Gita) ہندوؤں کے ایک مشہور قصے ’مہابھارت‘ کے اندر موجود ایک نظم ہے جو کہ اصل میں ’پانڈوؤں‘ کے شہزادے ’ارجُن‘ اور اس کے رہبر ’کرشن‘ کے درمیان جنگ پر جاتے وقت کا ایک مکالمہ ہے۔ ارجُن تشدد اور قتل عام سے بچنے کے لیے جنگ سے ہچکچا رہا ہے اور کرشن سے نصیحت مانگتا ہے۔ جبکہ کرشن اسے ’دھرم‘ (عقیدہ) کی حفاظت ’کرم‘ (عمل) سے کرنے کی نصیحت کرتا ہے اور ایک کشاتری(جنگجو اور براہمن کے بعد ہندوؤں کی دوسری اعلیٰ ذات جسےعرفِ عام میں ’کھتری‘ بھی کہتے ہیں) ہونے کی وجہ سے اپنا فرض نبھانے کا کہتا ہے۔ ویدانت کے فلسفیوں نے اس مکالمے کو ایک تمثیل کے طور پر لیا ہے اور اس سے ’آتما‘ اور ’براہمن‘ (روح اور خدا) کے تعلق کے فلسفے اخذ کیے ہیں۔

4 ‘Dvaita’, Encyclopedia Britannica

5 Advaita Vedanta by Sangeetha Menon (2012), Internet Encyclopedia of Philosophy

6 براہمَن(Brahman): یہ لفظ ہندو ذات براہمِن (Brahmin)سے مختلف ہے۔ ذات میں م کے نیچے زیر ہے جبکہ اس میں م پر زبر ہے۔ اسی طرح یہ ہندو دیوتا ’برہما‘(Brahma) سے بھی مختلف ہے۔ہندو مذہب میں براہمَن کا مطلب ہے اعلیٰ ترین اور قطعی حقیقت۔ یہ لفظ صرف مذہبی حلقوں میں استعمال ہوتا ہے عام ہندو اس کے لیےمتبادل لفظ ’ایشوَر‘ (Ishvara) استعمال کرتے ہیں۔

7 Advaita Vedanta: An Introduction by Arvind Sharma (2007)

8 End of Religion and Ethic, Fourth Edition, Article: SankarAcharya by V. S. Ghate. (ترجمہ: تاریخ دعوت و عزیمت جلد اوّل از مولانا ابو الحسن علی ندوی﷫ ص ۲۵)

9 یوگا: یہ لفظ انگریزی میں منتقل ہونے کے بعد آخر میں الف سے مشہور ہو گیا ہے ورنہ اصل لفظ ’یوگ‘ ہے اور اس کے ماہر کو ’یوگی‘ کہا جاتا ہے۔ اسی لفظ کو بعض دیگر ہندوستانی لہجوں میں ’جوگ‘ کہا جاتا ہے اور اس کے ماہر کو ’جوگی‘۔

10 Sri Guru ji and Indian Muslims by Rakesh Sina (2020) pg 11 (ترجمہ: ہندُتوا کی فکری اساسیت از سید سعادت اللہ حسینی، ماہنامہ زندگی نو، شمارہ جولائی ۲۰۲۱ء ، ص ۱۰)

11 Contemporary Hinduism: ritual, culture, and practice. By Robin Rinehart. (2004)

12رِگ وید ہندو مت کی چار مقدس کتابوں(وید) میں سے ایک ہے دیگر تین یاجوروید، سماویداور اتھرواوید ہیں۔رِگ وید کی اکیس شاخیں ہیں جن میں سے صرف ایک آج موجود ہے باقی بیس شاخیں اب ناپید ہو چکی ہیں۔

13 رِگ وید سے یہ مثال پانچویں صدی قبل مسیح میں جین مت اور بدھ مت کی کتابوں میں آئی اور بدھ مت کی کتابوں سے یہ پوری دنیا میں مشہور ہوئی، اس کے علاوہ دیگر دنیا کے ممالک میں بھی یہ مثال مشہور ہے۔

14Encyclopedia of Perception by E. Bruce Goldstein (2010) pg 492

15 A Comprehensive Biography of Swami Vivekananda by Sailendra Nath Dhar Part I p. 461

16 Ibid.

17 Modern Religious Movements in India by J. N. Farquhar (1915) p. 202

18 Complete Works of Swami Vivekananda, Vol 5 p. 98 (ترجمہ: ہندُتوا اور سیکولر مفکرین از سید سعادت اللہ حسینی، ماہنامہ زندگی نو شمارہ اگست ۲۰۲۱ء ص ۸)

19 Bunch of Thoughts by M. S. Golwalkar p. 95

20 Rashtra and Nation: Eternal Hindu Rashtra by Manmohan Vaidiya in Organiser issue 14 April 2018 (ترجمہ: ہندُتوا کی فکری اساسیت از سید سعادت اللہ حسینی، ماہنامہ زندگی نو، شمارہ جولائی ۲۰۲۱ء ، ص ۱۸)

Exit mobile version