اقصیٰ کی روحیں

طوفان الاقصیٰ آپریشن دیکھتے ہوئے بس دماغ میں ایک ہی بات آئی کہ کیسے اللہ کہ یہ مجاہد پرندوں کی طرح ابرہہ کے لشکر پر ٹوٹ پڑے اور اپنے پنجوں سے چھوٹے چھوٹے کنکر پھینکتے ہوئے وقت کے فرعون کو للکارا۔ ان مجاہدین کے جذبوں کو سلام کہ جنہوں نے آنے والے طوفان کا بھی نہ سوچا اور اس خطرناک دریا میں کود پڑے۔ امتِ مسلمہ کہ ان شاہینوں نے اپنے رب کی مدد سے وہ کر دکھایا جو شاید دنیا کہ کسی بھی مسلمان ملک میں کرنے کی جرأت نہ ہو۔ میرے الفاظ ان کے عمل کے سامنے بہت چھوٹے ہیں لیکن میں اپنے ان بھائیوں کے لیے دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ! ان کو اپنے انبیاء، صدیقین، صالحین اور شہداء میں شامل فرما، آمین ۔

اس آپریشن کے بعد سے جو ظلم اسرائیل اور اس کے حواریوں نے شروع کر رکھا ہے، اس کو دیکھنے کے بعد میرے سامنے وہ بچے، عورتیں اور بوڑھے آجاتے ہیں جن کے چہرے میں شاید ہی بھلا سکوں۔ میں ان کو دیکھ کر کتنی ہی دیر روتا رہا کہ یارب العالمین! یہ لوگ ہمیں آخرت کے دن نہ پکڑلیں۔ یہ میرا گریبان پکڑ کر نہ پوچھ لیں کہ تم کیوں نہیں آئے؟ ہم مر رہے تھے، کافر ہمارے اوپر بم برسا رہے تھے اور تم ڈرے نہیں کہ کل اللہ کو کیا جواب دوگے؟ میں ان معصوم بچوں کے ٹکڑوں کو دیکھ کر ڈر گیا کہ کل میرا بچہ بھی ہو سکتا ہے، میری ماں بھی ہو سکتی ہے، میرا باپ بھی ہو سکتا ہے، تو میں اس وقت کس سے امید رکھوں گا؟ کیا ہم سب اتنی آسانی سے آخرت میں چھوٹ جائیں گے؟

ابھی کل ہی ایک ویڈیو دیکھی کہ غزہ میں جہاں پینے کا پانی میسر نہیں ہے، ایک بچہ صحافی کے بیگ سے ایک پانی کی چھوٹی بوتل چراکر بھاگ جاتا ہے، اس صحافی نے بچے کے اس عمل پر کسی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا، بلکہ اس نے کہا کہ میرے پاس پانی کی صرف یہ ایک ہی بوتل تھی اور اب مجھے کل تک پانی کا انتظار کرنا پڑےگا، کیونکہ یہاں پانی کی بہت قلت ہے۔ اس بچے کو شاید مجھ سے زیادہ ضرورت ہو، پتہ نہیں کون اس کا پیارا پیاس سے مر رہا ہو۔

ہمارا ضمیر کیسے یہ گوارہ کرتا ہے……! کیا ہم سب نے وہ ہی کلمہ پڑھا ہے جو فلسطینیوں نے پڑھا ہے؟ کیا ہم نے یہ نہیں پڑھا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہوتا ہے کہ جب جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم درد سے کراہ اٹھتا ہے؟ تو پھر کیوں، میرے مسلمانو! کیوں؟ فلسطین سے ایک بہن کا آڈیو پیغام آتا ہے کہ طالبان ہماری مدد کریں۔ کیوں پاکستانیوں سے مدد نہیں مانگتی؟ آخر کیوں؟ کیونکہ اس بہن نے دیکھا کہ طالبان نے عملی کام کیا، صرف مظاہروں پر اکتفا نہیں کیا، لوگوں کو برا بھلا نہیں کہا…… بلکہ کچھ کرکے دکھایا۔ یہ عمل آپ بھی کرسکتے ہیں! کیا کبھی اتنے عرصے میں آپ نے سنا کہ فلسطینی مجاہدین اسرائیل پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں، یا کبھی انہوں نے کوئی بیان دیا؟ نہیں، بالکل نہیں! وہ تو اپنے رب پر یقین اور توکل کرکے یہ معرکہ چھیڑ چکے…… اور آپ اور ہم صرف مظاہرے کر رہے ہیں۔ نہیں، میرے مسلمان بھائیو! مظاہروں سے اگر یہ سب کچھ ہوتا تو شاید فلسطین کب کا آزاد ہو چکا ہوتا۔ ذرا سوچیے!

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:

باتوں کی لفاظی تیرا فن ہے اے انساں
عمل کا وقت آیا تو مصلحت نے آ لیا

ایک خبر میری نظر سے گزری کہ اسرائیل نے جنگ کے ابتدائی چھ دنوں میں چھ ہزار بم غزہ کی ایک چھوٹی سی پٹی پر گرائے ہیں، جہاں بائیس لاکھ فلسطینی رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں سے نکالے گئے مہاجرین ہیں اور ان میں تقریباً دس لاکھ بچے ہیں۔ ان پر اسرائیل نے ایک دن میں ایک ہزار بم گرائے ہیں، یعنی ہر چھیاسی سیکنڈ میں ایک بم !آخر کیوں؟

ایک بوڑھا آدمی کیمروں کے سامنے چیخ رہا تھا کہ کیا یہ بچے، یہ بولتے ہوئے اس نے لاشوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا؛ کیا یہ حماس ہیں؟ ہم انسان ہیں۔

مگر اسرائیل کا وزیر دفاع اس بات سے متفق نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم انسان نما جانوروں (Human Animals) سے لڑرہے ہیں۔ یہ بات صرف اس طرح سمجھ میں آتی ہے کہ جب یہ سوال کیا جائے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ وہ انہیں سچ میں جانوروں کی طرح دیکھتا ہے، ورنہ تو وہ انہیں کئی دہائیوں تک آخر تنگ گلیوں کے پنجروں میں کیوں قید رکھتا؟ زیادہ تر لوگ غزہ کے بارے میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتے کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں ہر سال بمباری ہوتی ہے، مگر سرمئی ملبے کے بم زدہ ڈھیر سے دنیا کا کیا تعلق؟

آج اگر ہم لا تعلق رہتے ہیں تو یاد رکھیے! یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔ کل آپ کا وقت ہوگا اور اس وقت آپ ڈھونڈ رہے ہوں گے امتِ مسلمہ سے تعلق…… لیکن اس وقت آپ سے بھی سب لاتعلق ہوں گے۔ ہمیں ان یہودیوں نے اپنے اپنے ملکوں سے ایسی محبت سکھائی ہے کہ ہم اس دیوار سے دوسری طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتے، اور اگر دیکھ لیں تو پھر ہمیں یہ اپنی اپنی قوموں میں بانٹ دیتے ہیں۔ ہم اس جال میں ایسے پھنسے ہیں کہ اپنے مسلمان بھائی کا درد ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا…… تو پھر ہم کہاں سے امت بن سکیں گے؟ آخر ہمیں امت بننے سے کون روک رہا ہے؟ ہمارا اپنا ضمیر……؟

میرے مسلمانو! یہ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔ شاید ہمیں اور آپ کو پھر مہلت نہ ملے۔ ہم اپنی مساجد میں قرآن کے دروس سنتے ہیں اور پھر بھی بیٹھے رہتے ہیں ۔ ایک پاکستانی عالم کی ویڈیو دیکھی، وہ فرمارہے تھے کہ مجھے تو سمجھ نہی آتی کہ ہماری ملی غیرت کدھرچلی گئی، دینی غیرت کہاں چلی گئی، ہم پتہ نہی زندہ ہیں بھی کہ نہیں۔ ہمارا زندہ رہنا جرم ہے اگر ہم ان کی مدد نہیں کر سکے! ایسی کوئی بے حس اور بے غیرت قوم بھی کبھی ہوئی ہوگی؟ ہم نے تاریخ میں بے غیرتی کی داستانیں سنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:

وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ؁ وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ ۭكَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ؁ (سورۃ البقرۃ: 190-191)

’’اور ان لوگوں سے اللہ کے راستے میں جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو، یقین جانو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور تم ان لوگوں کو جہاں پاؤ قتل کرو، اور انہیں اس جگہ سے نکال باہر کرو جہاں سے انھوں نے تمہیں نکالا تھا، اور فتنہ قتل سے زیادہ سنگین برائی ہے۔ اور تم ان سے مسجد حرام کے پاس اس وقت تک لڑائی نہ کرو جب تک وہ خود اس میں تم سے لڑائی شروع نہ کریں، ہاں اگر وہ تم سے اس میں لڑائی شروع کردیں تو تم ان کو قتل کرو، ایسے کافروں کی سزا یہی ہے۔‘‘

ساری دنیا ظلم کی داستانیں کھلی آنکھوں دیکھ رہی ہے۔ وہ ہماری ماؤں کو، بیٹیوں کو، بہنوں کو اپنے بموں سے شہید کر رہے ہیں، ننھے منے بچے قتل ہو رہے ہیں۔ کسی کو غیرت ہی نہیں آرہی……! مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ ہماری نمازیں، ہمارے سجدے کیسے قبول ہوں گے؟ ہم مجرم ہیں، جو آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں! کیا کریں، بے بسی کی انتہا ہے۔

میرا دل یہ کررہا تھا کہ میں اٹھاون اسلامی ملکوں کو تو کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن اپنے ملک کے حکمرانوں کو تو کچھ کہہ سکتا ہوں، کہ اے حکمرانو اور فوج کے سپہ سالارو! ذمہ داری تو تمہاری ہے، نہیں کر سکتے ناں تو ہمیں ایک جہاز میں بھر کے وہاں بھیج دو، کم از کم ہم عزت کی موت مرہی جائیں، کم از کم ہم جاکے ان کے ساتھ وہاں شہید ہو جائیں۔ قیامت کے دن ہم اللہ کو اور نبیﷺ کو چہرہ دکھانے کے تو قابل ہوں گے۔

اللہ! ہم میں غیرت تھی، ہمارے اندر ملی اور دینی غیرت تھی۔ دعائیں ہورہی ہیں، کوئی کہہ رہا ہے کہ اے اللہ! تو ان کی مدد کے لیے کوئی ابابیل بھیج دے، کوئی کچھ اور دعا کر رہا ہے۔ لیکن دعاؤں کے لیے بھی غیرت کی ضرورت ہے۔ آپ پہلے قدم اٹھائیں پھر اللہ سے دعا کریں۔ وہ بیچارے ساری ساری رات لڑتے ہیں دشمن کے سامنے، دعا تو ان کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ آزمائش ان کی نہیں ہے، وہ تو ان شاء اللہ جنتی ہیں، وہ تو ان شاءاللہ بخشے ہوئے ہیں۔ آزمائش یہ باقی ساری دنیا کی ہے! ہم ان کی وجہ سے مجرم بن رہے ہیں!

اللہ تعالیٰ معاف فرمائے، یہ قاری صاحب جب پڑھ رہے تھے تو مجھے یاد آرہا تھا کہ یا اللہ! ان بیچاروں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ یا اللہ! تو ابابیل بھیج دے اور تو، جس نے ابرہہ کے لشکروں کو تباہ اور برباد کر دیا تھا، اللہ! اِس دورِ جدید کے ابرہہ کو، جو مسجدِ اقصیٰ کو تباہ کرنے کے لیے آیا ہے اور دہشت گرد پھر بھی مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے۔ بدبخت پوری دنیا میں بدترین دہشت گردی کرتے ہیں اور پھر بات کرتے ہیں مسلمانوں کی دہشت گردی کی۔ میں سمجھتا ہوں پورے اٹھاون اسلامی ملکوں کو اعلانِ جنگ کردینا چاہیے، لڑتے لڑتے مرجانا چاہیے، اس زندگی سے وہ موت بہتر ہے۔ ہمیں کیا ہوا ہے؟ کیسی زندگی، کیسا دین، کیا کلمہ پڑھا ہوا ہے؟ کیسی قرآن کی باتیں، کیا قرآن کے دروس……! ہم یہاں سکون سے بیٹھے ہیں، پنکھے چل رہے ہیں، موج میلہ ہے، پانی پینے کو مل رہا ہے، نماز آرام سے پڑھ رہے ہیں، سجدے آرام سے کر رہے ہیں……، اور وہاں ہماری بہنیں، بیٹیاں، بچے مر رہے ہیں، شہید ہو رہے ہیں! کہاں گئی غیرت ہماری؟ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہمارے آرام سے کیے ہوئے سجدے بھی کہیں جرم نہ بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو معاف فرمائے!

٭٭٭٭٭

Exit mobile version