طوفان الاقصیٰ اور مسلم ممالک

فلسطینی مجاہدین کی مبارک کارروائی طوفان الاقصیٰ پر جہاں دنیا بھر کے دانشور، تجزیہ نگار اور صحافی لکھ اور بول رہے ہیں، وہیں ہمارے یہاں بھی اس پر تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ ان میں ایسے مفکرین بھی موجود ہیں جو اس ساری صورتحال کو سازش قرار دے کر پیشنگوئی فرمارہے ہیں کہ یہ کارروائی اسرائیل کو جواز فراہم کرے گی کہ وہ فلسطین سے مسلمانوں کا وجود ہی مٹا دے۔ ان سازشی نظریوں کے گرویدہ افراد سے جب پوچھا جائے کہ حماس تو صرف غزہ میں ہے، کیا ان علاقوں میں جہاں حماس نہیں ہے، وہاں فلسطینیوں کی جان، مال اور آبرو محفوظ ہے؟ کیا اسرائیل فلسطینیوں کی مزاحمت کے آغاز سے قبل کے دور میں مظالم نہیں ڈھاتا تھا؟

اگر دیکھا جائے تو فلسطینیوں کے پاس دو ہی آپشن تھے۔ ایک یہ کہ چپ چاپ ظلم سہیں اور قتل ہوں، دوسرا یہ کہ وہ اپنے دشمن کو بھی سبق سکھائیں۔ رہی بات یہ کہ کوئی کہے کہ فلسطین اور اسرائیل کا کوئی مقابلہ ہی نہیں اور یہ خود کو ہلاکت میں ڈالنا تھا تو فانی دنیا کے اسیر اس عشق کو کیا جانیں گے۔

حماس کے بانی رہنما شیخ احمد یٰسین ﷫ سے جب ایک انٹرویو میں سوال کیا گیا کہ آپ نے بعض ایسے وسائلِ حرب کیوں اختیار کر رکھے ہیں جن کا نقصان دہ اور بے فائدہ ہونا سب کے سامنے ہے، جیسے فدائی کارروائیاں، مارٹر بموں اور القسام میزائلوں کا استعمال وغیرہ؟ تو آپ نے فرمایا کہ:

’’ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں: مزاحمت، یا شکست تسلیم کرلینا۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ مزاحمت کی کوئی متعین شکل نہیں ہوتی۔ دشمن ہم پر حملہ آور ہے اور ہمیں قتل کیے جا رہا ہے۔ کیا اس نے بھی کبھی ہم سے پوچھا ہے کہ جناب ہم آپ کے خلاف کون سا ہتھیار استعمال کریں اور کون سا نہیں؟ بلکہ اس نے تو جنگ کے تمام دروازے ہمارے خلاف کھول رکھے ہیں۔ وہ ہمارے خلاف جنگی طیارے، ٹینک، میزائل اور کیا کچھ نہیں جو استعمال کر رہا ہے۔ پھر ہم سے کیوں مطالبہ ہے کہ ہم لڑائی میں کسی ایک معین طریقے پر کاربند رہیں؟ ہمیں اختیار حاصل ہے کہ ہم اپنے وسائل اور صلاحیتوں کے مطابق لڑائی کا نقشہ خود ترتیب دیں۔ دشمن ہمارے کمزور حصوں پر ضرب لگا رہا ہے، ہم بھی اس کے کمزورپہلوؤں کو نشانہ بنائیں گے۔ ہمیں قتل اور خوف کی اذیت میں مبتلا کر کے وہ خود تل ابیب، حیفہ، لدّ، اور رملہ میں کیسے محفوظ زندگی گزار سکتا ہے؟ ہمارے لیے امن و سکون نہیں ہے تو اس کے لیے بھی کوئی جائے پناہ نہیں ہوسکتی۔‘‘

کتائب القسام کے کمانڈر اِن چیف محمد الضیف نے ایک ریکارڈ شدہ تقریر میں کہا:

’’ہم آپریشن طوفان الاقصیٰ کے آغاز کا اعلان اور اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ دشمن کے ٹھکانوں اور قلعوں کو نشانہ بنانے والے پہلے حملے میں پانچ ہزار سے زائد راکٹ اور گولہ بارود شامل تھا۔ دشمن نے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی ہے، اور ہم نے اسے پہلے ہی خبردار کر دیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ کتائب القسام کی کمان نے قابض ریاست سے اس کے جرائم پر جواب طلبی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قابض ریاست نے سینکڑوں شہریوں کا قتلِ عام کیا ہے اور آج اقصیٰ اور ہماری قوم اور بہادر جنگجوؤں کا غصہ پھٹ پڑا ہے۔ یہ آپ کا دن ہے کہ دشمن کو سمجھائیں کہ اس کا وقت ختم ہو گیا ہے۔‘‘

محمد الضیف نے ہر اس فلسطینی سے مطالبہ کیا جس کے پاس ہتھیار ہے، کہ وہ اسے غاصبانہ قبضے، اسرائیلی افواج اور آباد کاروں کے خلاف استعمال کریں اور عرب اور مسلم عوام پر زور دیا کہ وہ فلسطین کی آزادی میں حصہ لینے کے لیے مارچ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی فلسطین کی طرف مارچ شروع کریں۔ سرحدیں، حکومتیں یا کسی قسم کی پابندیاں آپ کو جہاد کے اعزاز اور مسجد اقصیٰ کی آزادی میں شرکت سے محروم نہ ہونے دیں۔

وہ اسرائیل جس کے سکیورٹی اور انٹیلی جنس کے نظام کو ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا، جس نے سرحدوں پر سینسرز کے نظام کے لیے ایک ارب ڈالر کی رقم خرچ کی، وہ فلسطینی مجاہدین کے حملوں سے نہ ہی پیشگی مطلع ہوسکا اور نہ ہی روک سکا۔ اسرائیل میں مقیم صحافی ہریندر مشرا نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا:

’’حملے کے کئی روز گزر جانے کے باوجود، سڑکوں اور گلیوں میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔ لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل رہے ہیں۔ دفاتر، اسکول اور بازار وغیرہ سب بند پڑے ہوئے ہیں۔ ابھی تک لوگ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر اتنا بڑا حملہ کیسے ممکن ہوا۔ اسرائیل کو اپنی دو باتوں پر بہت ہی فخر ہے، ایک تو اپنی فوج اور دوسری اپنی انٹیلی جنس پر۔ ساتھ ساتھ ایک اور چیز بھی ہے جس پر اسرائیل کو بہت فخر ہے اور وہ ہے اعلیٰ ٹیکنالوجی، جسے وہ ایکسپورٹ بھی کرتا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حالیہ حملوں کی وجہ سے اسرائیلیوں کے اپنی فوج، انٹیلی جنس اور اپنی ٹیکنالوجی پر اعتماد کو دھچکا لگا ہے۔‘‘

پھر اس حملے کے نتائج اتنے دور رس اور ہمہ جہت ثابت ہوئے ہیں کہ اس کا تعلق اب صرف اسرائیل کو لگنے والی چوٹ تک محدود نہیں رہا۔ شیخ عبدالعزیز الطریفی فک اللہ اسرہ نے ایک جگہ دعا کرتے ہوئے فرمایا تھا:

’’اے اللہ! غزہ اور اس کے باشندوں کا ساتھ دے۔ وہاں کے مجاہدین کو لوگوں نے تنہا چھوڑ دیا، تو ان کی نصرت کر، ان کو مضبوط کر، ان کے قدم حق پر جما دے اور ان کو اس پر اکٹھا کر دے۔ اور جو ان کا محاصرہ کرے یا ایسا کرنے میں مدد دے اس کا پردہ چاک کر اور اس کا کام تمام کر ۔‘‘

یوں لگتا ہے جیسے آپ کی دعا قبول کرلی گئی ہو۔ صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ مسلم ممالک پر مسلط امریکہ کے کٹھ پتلی حکمران بھی اس صورتحال سے خوفزدہ ہیں کہ عوام میں ان کے خلاف نفرت و غصہ اس واقعہ سے بڑھا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ان کے چہروں سے نقاب کھینچ دیا گیا ہو۔ اردن میں امریکی صدر جو بائیڈن، اردن کے شاہ عبداللہ دوم، مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور فلسطینی صدر محمود عباس کے درمیان ہونے والی سربراہی ملاقات منسوخ کر دی گئی۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گزشتہ ہفتے کا بیشتر حصہ عرب رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں تناؤ کو کم کرنے کی کوششوں میں گزارا تھا، لیکن ہسپتال پر ہونے والے حملے کے بعد اب یہ کوششیں ہوا میں بلبلے کی مانند اڑ گئیں۔

سینکڑوں افراد نے اردن کی سکیورٹی فورس کی قائم کردہ رکاوٹوں کو عبور کیا اور نعرے لگاتے ہوئے اسرائیلی سفارت خانے کے باہر جمع ہوکر احتجاج کیا۔ مظاہرین کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں کئی افراد زخمی ہوئے۔ اردن کے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ تعلقات کا آغاز ۱۹۹۴ء کے امن معاہدے سے ہوا تھا جسے عوامی حلقوں میں پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا ہے، شاہ عبداللہ نے ان مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک اسرائیل سے تعلقات کے خاتمے کا مطلب امریکہ سے تعلقات کی خرابی کے ساتھ اردن کو ملنے والی امریکی امداد کو خطرے میں ڈالنا ہے۔

مصر، جس کا غزہ کے محاصرے اور اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے میں بنیادی کردار رہا ہے، ممکنہ عوامی غصے سے بچنے کے لیے اس کا صدر خود ہی احتجاج کا اعلان کرواتا ہے اور آخری خبریں آنے تک بارڈر کھولنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ سیکولر سابق فوجی جنرل عبدالفتاح السیسی وہی شخص ہے جس نے محمد مرسی کی اصلاحات اور اسلامی دفعات کے خلاف احتجاجی جلوس نکلوائے اور پھر ۳ جولائی ۲۰۱۳ء کو اس نے صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ چھ برس میں قیدِ تنہائی کی اذیت سے دوچار محمد مرسی کو ان کے طبیبوں سے ملنے دیا گیا نہ ان کے وکلا سے اور نہ ہی ان کے گھروالوں کو ملاقات کرنے دی گئی۔ سوائے تین چار مرتبہ بہت مختصر وقت کے لیے۔ محمد مرسی شوگر، ہائی بلڈ پریشر اور جگر کی بیماریوں کا شکار تھے۔ بعض مواقع پر انہیں خوراک اور علاج کی سہولت سے بھی محروم رکھا جاتا رہا۔ ایسی ہی حالت میں ایک دن (۱۷ جون ۲۰۱۹ء کو) محمد مرسی کمرۂ عدالت میں گر گئے اور خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ جنرل سیسی نے محمد مرسی کا سرِ عام جنازہ بھی نہیں پڑھنے دیا تھا، لیکن مصر اور دوسرے مسلم ممالک میں ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ محمد مرسی کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ غزہ کے ساتھ ملحقہ سرحد پر بارڈر کراسنگ فلسطینیوں کے لیے نرم کردی تھی۔ محمد مرسی کی جیت پر فلسطین میں خوشیاں منائی گئی تھیں اور فلسطینیوں کو یہ یقین ہوچلا تھا کہ ان کی زندگیوں میں قدرے بہتری آئے گی۔ لیکن اسرائیل یہ سب کیسے برداشت کرسکتا تھا؟ اسے جنرل سیسی کی صورت میں اس کے مفادات کا تحفظ کرنے والا میسر آگیا۔ آج، جب سیسی نے اس آگ کی تپش محسوس کرلی جو اسے جلانے کو بےتاب ہے تو یہ بہروپیہ عوام کو احتجاج کی کال دے کر ایک دہائی کا ظلم لوگوں کے ذہنوں سے ہذف کرنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جلد یہ خبیث اپنے انجام کو پہنچے اور اہلِ ایمان کے سینے ٹھنڈے ہوں۔

پاکستان میں اس حوالے سے دیکھا جائے کہ فلسطین کے ایشو پر کتنا ردّعمل دیا گیا تو مذہبی سیاسی جماعتوں کی جانب سے ریلیاں اور جلسے تو منعقد کرلیے گئے لیکن جس طرح غم وغصہ عرب ریاستوں میں نظر آرہا ہے ویسا نظر نہیں آیا۔ میڈیا کا فوکس تو ہمیشہ سے سیاسی شخصیات کے مابین دھماچوکڑی ہی رہا ہے۔ ان کی ترجیحات کا تعین تو اس پر ہے کہ کون زیادہ بک رہا ہے، یہ وہی دکھاتے ہیں۔ یہ بھی خبریں موصول ہوئیں کہ بعض علاقوں میں کیبل آپریٹرز کی جانب سے الجزیرہ کی نشریات بند کردی گئیں ہیں۔ اور یہ ہرکوئی جانتا ہے کہ کن کے احکام پر چینلز بند کرائے جاتے ہیں یا آگے پیچھے کردیے جاتے ہیں۔ ن لیگ کا سوشل میڈیا سیل عاصم منیر کی خوشامد میں ٹرینڈ چلارہا ہے اور الیکشن مہم میں پنجاب کے گلی محلوں میں فاحشہ عورتوں کے مجرے دکھا کر لوگ جمع کیے جارہے ہیں۔ اس شور شرابے میں چند لوگ سوشل میڈیا پر سوال داغ دیتے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف جو اسلامی ممالک کی افواج کا اتحاد بنا تھا، اس کی سپہ سالاری کا شرف تو سابقہ پاکستانی جرنیل راحیل شریف کو حاصل ہوا تھا، وہ عرصے سے لاپتہ ہیں، آخر کہاں ہیں؟

ایک مذہبی دانشور کہتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔ ایسا نہ ہو جہادی اس صورتحال سے فائدہ اٹھائیں، اس لیے بہتر ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کا اتحاد اسے کیش کرائے۔ جی ہاں! میں یہ لفّاظی نہیں کررہا۔ فلسطین کے غم میں گھلے جانے والے ان دانشور صاحب نے ایسے ہی مشورہ دیا کہ اسے ’کیش کرایا جائے‘۔ جیسے افغانستان پر حملے کے وقت کیش کرایا گیا۔ یہ کلمات ایک مذہبی دانشور کے منہ سے سن کر جیسے میری پاکستان سے امیدیں ٹوٹ ہی گئی ہوں کہ جب ہمارے خواص اس نہج پر ہیں تو ہم کس سے گلہ کریں؟ بجائے اس کے کہ ہم فلسطینیوں کی صحیح معنوں میں نصرت و مدد کے راستے تلاش کریں، ہم انہیں کیش کرانے کی فکر میں ہیں؟

دی انٹرسیپٹ کے واشنگٹن میں بیوروچیف ریان گرم کے مطابق پاکستان نے یوکرین کے لیے جس گولہ بارود کی سپلائی کا معاہدہ کیا ہے، یہ سب اب امریکہ اسرائیل بھیج رہا ہے تاکہ اسرائیل غزہ پر استعمال کرسکے۔ اگرچہ پاکستان یوکرین روس تنازع میں نیوٹرل رہنے کا دعویدار ہے لیکن اس سے متعلق دستاویزات منظر عام پر آچکی ہیں کہ پاکستان بڑی مقدار میں گولہ بارود امریکہ کو ایکسپورٹ کررہا ہے جو یوکرین میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ جب برمی فوج روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کررہی تھی، ان دنوں میں بھی پاکستانی فوج اسلحہ اور چین کے اشتراک سے تیار کیے گئے جہاز برما کو فروخت کرنے کی کوشش میں لگی رہی۔

اس پورے منظرنامے میں بھارت بھی کھل کر اسرائیل کی حمایت میں سامنے آیا ہے۔ بھارتی میڈیا پر بہت سے اینکرز یہی بیانیہ بیچتے نظر آئے کہ جس دہشت گردی کا سامنا اسرائیل کو ہے ویسی ہی دہشت گردی کے خطرے کا سامنا اسے انتہاپسند مسلمانوں سے ہے، چاہے وہ بھارت کے ہوں یا پاکستان کے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے جس طرح سے پاکستان میں سابقہ کشمیری جہادی رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے، ایسا لگتا ہے بھارت کسی بڑے ایڈونچر سے قبل ہوم ورک مکمل کررہا ہے۔ ویسے بھی ہمارے آرمی چیف کی جانب سے بھارت سمیت دنیا کو پیغام تو دیا جاچکا ہے کہ ہمارے پاس تو ٹینکوں کے لیے ڈیزل ہی نہیں تو لڑیں گے کیسے؟

٭٭٭٭٭

Exit mobile version