آزادیٔ قدس کا آغاز ہو چکا ہے!

[فلسطینی الاصل ڈاکٹر تمیم البرغوثی معروف ادیب اور انقلابی شاعر ہیں۔ استبداد مخالفت اور انقلاب حمایت آپ کی ادبیات اور اشعار کا خاصہ ہے۔ یہاں ’طوفان الاقصیٰ‘ کی بابت آپ کی ایک تقریر کا اردو ترجمہ نشر کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)]

میری باتوں پر حیران نہ ہوں اور ذرا صبر سے کام لیں۔ بیشک پورے فلسطین کی آزادی کا آغاز ہوچکا ہے۔ ۲۰۲۱ء کی جنگ میں، میں نےکہا تھا کہ بیشک پورے فلسطین کی آزادی ممکن ہے، اور تاریخی فلسطین میں دو آبادیاتی گروہوں کے درمیان ایک جامع تصادم کی بدولت (ہماری) اسی نسل میں ممکن ہے۔ بیشک غزہ، مغربی کنارے، قدس اور دوسرے ان خطوں میں، جو ۱۹۴۸ء میں مقبوضہ ہوگئے تھے، وہاں کے مکینوں اور حملہ آوروں کے درمیان ’عام جنگ‘ اسرائیل کے نسل پرست نظامِ ریاست پر دباؤ ڈالنے کی ضامن ہے، یہاں تک کہ یہ سقوط کا شکار ہوجائے۔ اسرائیل اس کے بعد اسرائیل نہ رہے گا، اور یہ اس قابل نہ رہے گا کہ حکومت کرسکے، کیونکہ اس کے آدھے سے زیادہ لوگ اس کے حکام کی نافرمانی کر رہے ہوں گے۔

اور آج میں کہتا ہوں کہ جو کچھ ہم اپنے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہیں، وہ اس عام جنگ کا آغاز ہے۔ اگرچہ جنگوں میں تمام امکانات کھلے ہوتے ہیں، مگر اس جنگ میں راجح ترین امکان یہ ہے کہ اسرائیل جو (اس جنگ کی بدولت) غزہ میں مزاحمت کی حکومت بدلنا چاہتا ہے، جلد یا بدیر، یہ جنگ تل ابیب میں نظامِ حکومت کی تبدیلی پر منتج ہوگی۔ اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے جو اصل میں عرب خطے میں اپنی عددی قلت کی وجہ سے ایک خوف کے احساس کے ساتھ پیدا ہوئی ہے۔ اس کا بحران تاریخی فلسطین میں یہودی اسرائیلیوں کی تعداد کے مقابلے میں عربوں کی تعداد میں اضافے اور شمالی سرحد پر، بحیرۂ قزوین(Caspian Sea) سے بحیرۂ روم (Mediterranean Sea) تک، مزاحمتی تحریک کے قیام کے سبب مزید سنگین ہوا ہے۔

اور اب بھی اسرائیل کی لیڈروں میں ایسے لوگ ہیں جو اس خوف سے نکلنے کے لیے فلسطینیوں پر تباہی اور دربدری کی جنگ مسلط کرنے اور خطے میں فلسطینی مزاحمت کے اتحادیوں کے خلاف جنگ چھیڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ اسرائیل کے سن رسیدہ اور تجربہ کار قائدین اس حل سے بچتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگریہ حل ناکام ہوا تو اس کا مطلب پورے صہیونی منصوبے کا خاتمہ ہوگا۔ پھر جب مزاحمتی تحریک نے ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو بڑا حملہ کیا تو دشمن گھبرا گیا اور پھر اس نے ایسے وقت میں جنگ چھیڑی جس کا انتخاب اس کے مقابل نے کیا تھا، اور یوں اس نے ایک کے بعد ایک غلطی کرنا شروع کردی۔ پس اگر ہم ایک دوسرے کو تنہا نہ چھوڑیں تو ہم اس دشمن کی کمر توڑنے پر قادر ہیں، اور اگر یہ دشمن ٹوٹ گیا تو اس کے بعد یہ دوبارہ نہ اٹھ سکے گا۔

لوگو! دشمن اس قدر تشدد کے ساتھ غزہ کو محض اس لیے نشانہ بنا رہا ہے کہ وہ سب سے مضبوط ہے۔ اس کے لوگ آج کے فلسطینیوں میں سب سے بہترین مسلح، تربیت یافتہ اور عسکری تجربے کے حامل ہیں۔ اسی بنیاد پر وہ مغربی کنارے، قدس اور داخلِ اسرائیل کے مسلمانوں کی حفاظت پر سب سے بڑھ کر قادر ہیں۔ پس دشمن اوّل مسلح لوگوں سے نمٹنا چاہتا ہے، تاکہ اس کے بعد وہ نہتوں اور نہتوں جیسوں کی طرف متوجہ ہوسکے۔ یوں وہ پورے فلسطین میں دونوں آبادیاتی گروہوں کے درمیان عام تصادم اور عام جنگ شروع کر رہا ہے، اس امید پر کہ (اس کے نتیجے میں) جدید نکبہ1 (تباہی) پیدا ہو۔ اور دشمن ہرگز اس عام جنگ میں کامیاب نہ ہوگا، الّا یہ کہ عام جنگ نہ چھڑے، یا ہم میں سے بعض جنگ میں اپنے بھائیوں کو تنہا چھوڑ دیں، جس کا مطلب ہے کہ ہم نے دشمن کو کھلا چھوڑ دیا کہ وہ ہمیں یکے بعد دیگرے قتل کرے اور ہر ایک اپنی باری کا انتظار کرنے لگے۔ میری نظر میں ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم سب مل کر ایک ہی وقت میں دشمن سے جنگ کریں، بجائے اس کے کہ ہمیں باری باری قتل کیا جائے۔ ایسا نہیں کہ میں لوگوں کو خطرے کی طرف بلارہا ہوں جبکہ میں خود محفوظ بیٹھا ہوں، نہیں بلکہ میں تو حقیقت میں اس خطرے سے ڈرا رہا ہوں جو حفاظت وامان کی بھیس میں ہے۔

آج کی مزاحمت نجات کا بہترین طریقہ ہے۔ جو ڈر گیا اور اس نے آج جنگ کو ملتوی کردیا، تو کل دشمن اسے وقت نہیں دے گا۔ پس اگر ہم نے ان کے خلاف مل کر مزاحمت کی تو بیشک ہم فتحیاب ہوں گے۔ انہوں نے اپنے طبعی خوف کی وجہ سے اپنی پوری فوج کو بشمول ریگولر فوج اور ریزرو فوج کے، بلا لیا ہے۔ فوج ان کے معاشرے اور اس کی افرادی قوت کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اگر یہ جنگ کریں گے تو ان کی معیشت مفلوج ہوجائے گی، اور ان کے لیے سیاسی جنگ کی قیمت ہمارے لیے جنگ کی قیمت سے کہیں زیادہ ہوگی۔ ہماری عوام تکلیف میں مبتلا ہو بھی جائے تو بھی فدائیوں کی مدد سے پیچھے نہیں ہٹتی، جبکہ ان کے ووٹر اپنی حکومت کو چھوڑ دیں گے اگر وہ انھیں فوری اور سستی فتح نہ دلاسکی۔ دشمن نے اس جنگ کے لیے ایسے اہداف متعین کیے ہیں جن کے حصول میں فوری اور سستی فتح ناممکن ہے۔ وسیع پیمانے پر ہتھیاروں کی موجودگی والے گنجان آباد شہر پر دوبارہ قبضہ کرنا جس میں کھونے کے لیے کوئی چیز نہ ہو، اسرائیل کو تو چھوڑیں، عالمی طاقتوں کے لیے آسان معاملہ نہیں ہے۔

باقاعدہ فوج اور فدائی دستوں کے درمیان جنگوں میں یہ بات معروف ہے کہ باقاعدہ فوج اگر اپنی جنگ کو انتہا تک نہ پہنچا سکے تو وہ ہار جاتی ہے، جبکہ فدائیوں کی فتح یہ ہوتی ہے کہ وہ باقاعدہ فوج کو جنگ ختم کرنے سے روک لیں۔ ہر ایک دن جس میں دشمن اپنے حق میں جنگ کا فیصلہ کرنے سے عاجز رہتا ہے،وہ اس کے لیے جنگ کی قیمت بڑھاتا ہے اور اسے شکست سے قریب لاتا ہے۔ پھر دشمن اس کی تلافی عام شہریوں کو نشانہ بنا کر کرتا ہے، لیکن انہیں نشانہ بنانے سے مزاحمت کرنے والوں کی عسکری صلاحیتیں کمزور نہیں ہوتیں، بلکہ اپنوں کا خون دیکھ کر ان کا غضب مزید بڑھتا ہے۔ سو اگر دشمن چاہے گا کہ عام شہریوں پر بمباری کرکے وہ شمالی اور مشرقی محاذ پر موجود ہمارے لوگوں کو جنگ میں شامل ہونے سے ڈرائے، تو معاملہ اس کے برعکس ہوگا اور یہ بمباری ان لوگوں کی جنگ میں شمولیت کا امکان بڑھا دے گی، کیونکہ وہ لوگ سوچیں گے کہ اگر انہوں نے حالیہ مزاحمتی تحریک کو تنہا چھوڑا تو جو کچھ آج غزہ میں ہو رہا ہے، وہ کل ان کے یہاں ہوگا ۔ سو دشمن نے لوگوں کو ڈرانے کا جو سبب اختیار کیا، وہ الٹا اس کے خلاف تحریض کا سبب بن گیا۔

اسی طرح آپ مغربی کنارے اور لبنان کو دیکھیں کہ وہاں مزاحمتی کارروائیاں بڑھ رہی ہیں۔ پھر جب ایک سے زیادہ محاذ بنیں گے تو دشمن مجبور ہوگا، وہ ایک محاذ کو مضبوط کرنا چاہے گا تو دوسرا کمزور پڑجائے گا اور وہ کسی ایک محاذ پر بھی جنگ کو اپنی انتہا تک نہ پہنچاسکے گا۔ پھر جنگ صرف فضا سے بھی پوری نہیں کی جاسکتی، اگر دشمن زمین پر نہیں اترے گا تو یہ اپنے اعلان کردہ اہداف حاصل نہ کرسکے گا، اور اگر اترے گا تو زمین پر دونوں گروہوں کی جنگ کی وجہ سے اسے فضائی بمباری روکنی پڑے گی۔ پھر زمین اسے کھا جائے گی، یہاں تک کہ بوسیدہ عمارت ڈھال بن جائے گی اور کٹے درخت ڈھال بن جائیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ حدیث میں جو پتھروں اور درختوں کی جنگ کرنے کی بات آئی ہے، وہ بہت سے لوگوں کے خیال سے بھی زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔ زمین اپنے بسنے والوں کے ساتھ مل کر جنگ کرے گی، اور یہ بات ٹھیک ٹھیک ہمارے دشمن اور سمندر میں جمع ہوئے اس کے حلیفوں پر منطبق ہوگی۔ الجزائر میں، عراق میں، افغانستان میں، ویتنام میں، اور مزید جس قدر جنگیں آپ شمار کرنا چاہیں، ہر جنگ میں ایسا ہی ہوا ہے۔ (فرار کے لیے) ’بن گورین‘ ہوائی اڈے پر جمع ہونے والے لوگ ’سائگون‘ اور ’کابل‘ میں ہیلی کاپٹروں کی دموں سے چمٹنے والوں کے مشابہ ہوں گے۔

اے اہلِ غزہ! انسان آپ سے مخاطب ہوتے ہوئے بھی شرماتا ہے۔ انسانوں میں سے عزت مند لوگ آپ ہی ہیں۔ آپ نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے کہ جس پر کئی نسلوں تک ملٹری اکیڈمیوں میں تحقیق کی جائے گی۔ آپ نے دشمن کو ایسا الجھایا کہ وہ حواس ہی کھو بیٹھا اور لگا تباہی اور دربدری کی دھمکیاں دینے۔ اور دھمکیاں وہی دیتا ہے جو عاجز ہو، ورنہ قدرت والا کہاں دھمکی دیتا ہے۔

دشمن جب آپ سے محفوظ رہنے کے لیے علاقہ چھوڑنے کا کہتا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے۔ ہمارے ان لوگوں سے پوچھ لیجیے جو پچھتر سال پہلے بے گھر ہوئے، کیا وہ محفوظ ہوگئے؟ کیا وہ ’صبرا‘ اور ’شتیلا‘ کے کیمپوں میں محفوظ ہوگئے؟ کیا وہ ’تل الزعتر‘ میں محفوظ ہوئے؟ کیا وہ ’جنین‘ میں محفوظ رہے؟ کیا خود ’غزہ‘ پناہ گزین کیمپوں سے بھرا ہوا نہیں جن کے رہنے والوں پر آج بمباری ہو رہی ہے؟ یہ اُن کی اولاد ہیں جو ’نکبہ‘ میں بے گھر ہوئے تھے۔

باقی فیصلہ آپ کا فیصلہ ہے، اور آپ جو بھی فیصلہ کریں، آپ یقیناً ہیرو ہیں۔ لیکن (جان رکھیں کہ) دشمن اپنی حفاظت چاہتا ہے، نہ کہ ہماری۔ وہ بے گھر ہونے کا مطالبہ کرتا ہے، اس لیے نہیں کہ وہ شہریوں کو نقصان پہنچ جانے سے خائف ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ خود شہریوں سے خائف ہے۔ بھلا کون ہوگا جو جنگ میں اپنے دشمن کا مشورہ قبول کرے؟

اے اہلِ غزہ! اے عظمت وعزت والو! آپ کے جنگجوؤں نے دشمن کے فوجیوں کو ہدف بنایا، جبکہ دشمن نے آپ کے بچوں کو ہدف بنایا۔ اور یہ درد ہر وہ شخص محسوس کر رہا ہے جس کا پیارا اس سے بچھڑ گیا۔ یہ درد ہمارے دل کو جس قدر بھی دُکھائے، لیکن ہمیں اس پر مجبور نہ کردے کہ ہم اپنے پیاروں کے خون کی بابت اپنے دشمن کو معاف کر دیں۔ یہ خون تو ہمارے آباء اور ہماری اولادوں کے انتقام کی یاد ہے۔ اور ہم وہ قوم نہیں جو اپنا انتقام بھول جائیں۔ جی ہاں! یہ بہت زیادہ قیمت ہے، لیکن یہ کمتر کی نہیں، پورے فلسطین کی آزادی کی قیمت ہے۔ یہ یہاں یا وہاں سے حصار توڑنے کی قیمت نہیں، یہ کسی بندرگاہ یا ہوائی اڈے کی قیمت نہیں، اور نہ ہی کسی نامکمل آزادی کی قیمت ہے، جس میں القابات تو بڑے ہوں جبکہ خیر کم ہو، جو مضحکہ خیز ہو اور جس پر رویا جائے، جیسا کہ آپ ان (ممالک) کو دیکھ رہے ہیں جو آپ کے آس پاس ہیں۔ یہ سمندر سے دریا تک موجود پورے فلسطین کی قیمت ہے۔ یہ اپنی تعمیرات اور روایات سمیت’تل ابیب‘ کے سقوط کی قیمت ہے، اور یہ ’القدس‘ کی آزادی کی قیمت ہے، اس کی تعمیرات اور روایات سمیت، چاہے جنگ کے اس ہلّے میں، یا بعد کے ہلّوں میں۔

اے مغربی کنارے کے ہمارے لوگو! گلیاں تمہاری گلیاں ہیں، ملک تمہارا ملک ہے، جبکہ بستیاں تم سے خالی ہیں۔ اے ’رام اللہ‘ اتھارٹی میں موجود سکیورٹی اداروں کے لوگو! اے ساٹھ ہزار مسلح لوگو! تمہارا اسلحہ خاموش ہے، جبکہ اپنے بستروں میں موجود بچوں پر بمباری کی جارہی ہے۔ یہ تاریخ لکھی جارہی ہے۔ اس میں اپنی جگہ ڈھونڈو، اپنی ماؤں اور اپنے بچوں کی آنکھوں میں دیکھو۔ اپنے آپ سے پوچھو کہ کیا تم (اسرائیلی) اوامر کی تعمیل کرو گے؟ کیا تم غیر جانبدار کھڑے ہوگے، جبکہ تمہارے لوگوں کو ختم کیا جا رہا ہے؟ کیا تم اپنے لوگوں کے مقابلے میں اسرائیلی قبضے کی حفاظت کرو گے، یا اپنے لوگوں کی حفاظت اسرائیلی قبضے کے مقابلے میں کرو گے اور اپنے اسلحے کو اس کا شرف لوٹاؤ گے؟ کیا تم تباہی اور دربدری کی اپنی باری کا انتظار کرو گے، یا جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے، اس کے ذریعے اپنے لوگوں کا دفاع کرو گے؟

اے افسرو! جان لو کہ جیسے جیسے جنگ اپنی شدت اختیار کرے گی، ہر وہ فلسطینی جو دشمن کی مدد کرے گا یا اسے بچائے گا، خود وہ دشمن ٹھہرے گا اور اس پر وہی احکام لاگو ہوں گے جو دشمن پر لاگو ہوتے ہیں۔ اے داخلِ اسرائیل ہمارے لوگو! اے فلسطین میں ہر جگہ موجود ہمارے لوگو! جس پر ۴۸ء میں قبضہ کرلیا گیا تھا…… ہم حکومت کے بغض کو بھی جانتے ہیں اور یہودی شدت پسندوں کے بغض کو بھی، اور تم اپنی حالت کو بہتر جانتے ہو۔ لیکن کیا انسان کے لیے یہ بہتر نہیں کہ وہ آج سڑکوں پر ان دشمنوں کا مقابلہ کرلے، بجائے اس کے کہ کل یہ دشمن تمہیں تمہارے گھروں میں ماریں؟ یہ تم سے غافل نہیں ہیں، نہ تم سے مطمئن ہیں اور نہ تم سے محبت کرتے ہیں، بلکہ یہ تمہیں ختم کریں گے۔ جو تمہارے لوگوں کو جانور کہتا ہے، جو غزہ میں بیس لاکھ انسانوں سے پانی اور خوراک کاٹتا ہے، جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔ جب تک وہ زندہ ہے اس کے لیے کوئی امان نہیں، اور جب تک وہ امن سے ہے تو اس کے ساتھ ہمارا زندہ رہنا ممکن نہیں۔

اے قدس میں ہمارے لوگو! یہ جنگ مسجدِ اقصی کے نام پر ہے، اور اگر مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کے لیے کوئی نہیں رہا، تو دشمن کے اس کے بارے میں عزائم آپ خوب جانتے ہیں۔ یہ مسجد آپ کے ہاتھوں میں امانت ہے۔ اے شمال میں ہمارے لوگو، ہمارے حلیفو اور ہمارے محافظو! اور اے شام میں ہمارے لوگو! اور اے خطے میں ہماری مزاحمت کے حلیفو! ہم سب مل کر اس دشمن سے لڑیں، یہ اس سے بہتر ہے کہ ہم اس سے الگ الگ لڑیں۔ اور اگر یہ جنگ اب نہ ہو تو پھر کب ہو؟ اے مصر میں ہمارے لوگو! اے اول زمانے سے امت کے محافظو! یہ جنگ تمہاری سرحدوں پر لڑی جارہی ہے، تم دیکھ لو کہ اس جنگ میں تمہارا کیا کردار ہے اور تم کس کی طرف سے لڑ رہے ہو؟ دیکھو! اسرائیل ایک زمینی سڑک بنا رہا ہے جو نہرِ سوئز (کی افادیت) کو ختم کردے گی اور ایتھوپیا کے ساتھ مل کر ایک ڈیم بنا رہا ہے جو دریائے نیل کو خشک کر دے گا۔ ان دونوں کے بعد مصر میں کیا باقی رہے گا؟

مزید یہ کہ مصری حکومت اسرائیل کے ساتھ امن کی حالت میں ہے، گویا اس کی حلیف ہے، اور زمینی حصار جنگ ہی کا ایک وطیرہ ہے۔ پس مصری حکومت کا غزہ پر محاصرہ سخت کرنا، ہمارے خلاف اسرائیل کی جنگ میں اس کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہے۔ حالانکہ اسرائیل نسل کشی، اجتماعی ظلم اور لوگوں کے وحشیانہ قتل کے جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اسرائیل نے اہلِ غزہ پر پانی، بجلی، خوراک اور ادویات کاٹ دی ہیں، اور ان چیزوں کی فراہمی کا سوائے مصر کے کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ پس اگر مصر نے اس راستے کو مدد پہنچانے سے بند رکھا، تو پھر تم جانتے ہو کہ کوئی نہیں جو ہمارے بہتے خون کے انتقام میں اللہ کا مقابلہ کرسکے اور تاریخ کی بدنامی سے بچ سکے؟ اے مصری فوج! کیا دریائے نیل، نہرِ سوئز اور سیناء کے دفاع سے بڑھ کر کوئی کام ہے؟ اور جو کوئی شہریوں سے جنگی طیاروں کی بمباریوں میں ڈٹے رہنے کا مطالبہ کرتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے اسباب بھی ان تک پہنچائے، خاص طور پر جبکہ اس کے پاس اسباب ہوں بھی۔

پھر یہ بھی دیکھو کہ تمہارا دشمن کون ہے؟ وہ ایٹمی قوت ہے جس نے سیناء پر دو مرتبہ قبضہ کیا، جو تم سے اموال اور پانی کے تمہارے رزق پر تم سے لڑتا ہے، پھر بھی تم اس سے امن معاہدہ کرتے ہو، یا وہ فدائی ہیں جو اپنے لوگوں اور اپنے ملک کی آزادی کے لیے لڑتے ہیں؟ ان کے ہتھیار تو اسرائیل اور سیناء کے درمیان حائل ہیں۔ ان کا خون تمہارا خون ہے اور ان کی قوت تمہاری قوت ہے، ان کی بھلائی تمہارے لیے ہے، اور ان کا ضرر تم پر نہیں۔

اے عرب ممالک کے حکام! اسرائیل ایک جدید نکبہ چاہتا ہے۔ تم اگر چاہو تو عالمِ ارواح سے مدد لے لو اور فلسطین کے ان حکام سے پوچھو جو اول نکبہ میں یہاں حاکم تھے اور فلسطین کی مغلوبیت میں شریک تھے کہ ان کی اور ان کے حاکم خاندانوں کی تقدیر کیا ہوئی؟

اے ہماری مسلمان امت! اللہ کی قسم، ہم اپنے دشمن اور آپ کے دشمن سے دفاع میں آپ کے لیے کافی ہو جائیں گے، لیکن آپ دشمن کی صف میں کھڑے اپنے حکام کے مقابلے میں ہماری مدد کریں۔ اور ہمارا مقصود اللہ ہی کی رضا ہے۔

عنقریب یہ لوگ کہیں گے کہ تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم ایسی باتیں کہتے ہو، جبکہ تم خود تو محفوظ ہو۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ کیا تم مذاق کر رہے ہو؟ کب میرے جیسے اور تمہارے جیسے اپنے ملکوں میں محفوظ ہیں، جبکہ اسرائیل بھی موجود ہے اور ہمارے حکام بھی وہ حکام ہیں (جو اس کے حلیف ہیں)۔ حفاظت تو اسلحے کے سائے میں ہے۔ دیکھ لینا کہ اب کون ہے جو ہم سے اور تم سے اسے روکے؟

اسرائیل میں نسل پرست حکومتی نظام نکبہ کے پچھتر سال بعد ایک جدید نکبہ کی ضرورت دیکھ رہا ہے۔ یہ بات خود پہلے نکبہ کی ناکامی کی دلیل ہے، بلکہ پورے صہیونی منصوبے کی ناکامی کی دلیل ہے۔ اب کی یہ جنگ، چاہے ایک معرکہ ہو یا بہت سے معرکے ہوں، یہ اس صہیونی نظام کی آخری جنگ ہے۔ یا یہ ختم ہوگا یا ہم ختم ہوں گے۔ اور ہم ضرور فتحیاب ہوں گے، اگر ہم پورے تاریخی فلسطین میں اور پورے خطے میں ایک دوسرے سے پیچھے نہ ہٹے۔ اور اگر ہم میں سے کسی نے دوسرے کو تنہا چھوڑا اس لالچ میں کہ وہ بچ جائے، تو نجات اس لالچ کرنے والے سے دور بھاگے گی، جبکہ موت، موت کی طرف لپکنے والوں سے دور بھاگے گی۔ جب یہ جنگ شروع ہوئی تھی تو میں نے یہ شعر کہا تھا: [نفسي الفداء لكل منتصر حزين] میری جان ہر غمزدہ فاتح کے لیے قربان ہو۔ جی! یقیناً ہم اپنے پیاروں کی جدائی پر غمگین ہیں، لیکن اگر ہم نے ان کا انتقام نہ لیا تو گویا ہم نے اپنے ان پیاروں کو خود دوسری مرتبہ قتل کیا۔ غم ہمارے ہاتھوں میں ایک ہتھیار ہے، نہ کہ دشمن کے ہاتھ میں۔ ہم غم کھاتے ہیں اور پھر (اٹھ کر) لڑتے ہیں، اور وہ ہمیں قتل کرتے ہیں، پھر گھبرا جاتے ہیں۔

یہ بات جنگ کے سبھی ادوار میں درست ہے، اس (موجودہ) سے پہلے بھی، اس میں بھی اور اس کے بعد بھی، یہاں تک کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ مسجدِ اقصی کے صحن میں جا معانقہ کریں۔ جنگ لمبی ہوجائے یا مختصر، پورے فلسطین کی آزادی ممکن ہے، اور بیشک پورے فلسطین کی آزادی کا آغاز ہوگیا ہے۔ ہم اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اللہ اکبر!

٭٭٭٭٭


1نکبہ‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا عام مطلب تباہی ہے۔ معاصر تاریخ میں اس سے مراد ۱۵ مئی ۱۹۴۸ءکا دن ہے جب فلسطینی ایک بہت بڑی تباہی سے دوچار ہوئے۔ فلسطینیوں کی اکثریت سے ان کے گھر چھین لیے گئے اور انھیں زبردستی بے گھر اور علاقہ بدر کردیا گیا، اور ان کی مسلم حکومت ختم کرکے اس دن اسرائیل کی ناپاک ریاست قائم کردی گئی۔ (مترجم)

Exit mobile version