فلسطین پکار رہا ہے!

۱۴مئی ۱۹۴۸ء کو انبیاء کی سرزمین فلسطین پر اسرائیل نامی ایک ناسور پیدا ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پنی جڑیں پورے فلسطین میں پھیلا دیں۔ اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں کو نکال کر ایک بڑے خطے پر بزور قبضہ جما لیا۔ لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی مسلمان بے دخل کر دیے گئے، جو آج بھی عرب ممالک میں مہاجر کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن غیور فلسطینی مسلمانوں نے اپنے خون سے ایک تاریخ رقم کی ہے۔ ہاتھوں میں پتھر پکڑے، ٹینکوں اور گولیوں کی بوچھاڑ میں ڈٹے ہوئے! ان کی تاریخ صابرہ، شاتیلا اور جنین کیمپوں میں نسل کشی، قبلۂ اوّل مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے خلاف انتفاضہ اوّل اور دوم سے بھری پڑی ہے۔ ایک طرف ان کی جرأت اور عزیمت کی لازوال داستان ہے تو دوسری طرف ہاتھ پاؤں بندھے، نام نہاد مسلم حکمرانوں کے دو ریاستی حل کے معذرت خواہانہ مطالبے، جن کی امریکہ اور اسرائیل کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب نا صرف بہت سے مسلم ممالک کی طرح سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف بڑھ رہا تھا، جبکہ صہیونیوں کی طرف سے مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی اور دراندازیاں بڑھتی جا رہی تھیں، فلسطینی مزاحمتی تحریک نے بہت زبردست منصوبہ بندی کے ساتھ اسرائیل پر ایک ساتھ کئی اطراف سے حملہ کیا، جس سے اسرائیل بلبلا اٹھا۔

بیت المقدس پر اسرائیل کے قبضے کی تاریخ

۱۹۴۸ء میں عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل فلسطین کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو گیا۔ جس میں بیت المقدس (یروشلم) بھی شامل تھا۔ اس وقت سے ہی فلسطین کے مسلمان مسجدِ اقصیٰ کی حرمت و سالمیت کی حفاظت کی کوشش کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق مسجدِ اقصیٰ کے اندرونی انتظامی معاملات اردن کے ’’اسلامی وقف‘‘ کے تحت جبکہ باہر کا انتظام اسرائیلی پولیس کے ماتحت ہے۔ یہ قانون Status Quo قانون کہلاتا ہے۔ اس کے مطابق مسلمانوں کو مسجد ِ اقصیٰ میں نماز کے اوقات میں نماز ادا کرنے کی اجازت ہو گی، جبکہ غیر مسلم زائرین کو مقررہ اوقات میں زیارت کی اجازت ہو گی، اور یہودیوں کے مذہبی عقائد کے مطابق انہیں مسجدِ اقصیٰ کے حدود میں داخلے کی اجازت اس لیے نہیں ہے کہ ان کے نزدیک یہ زمین ’مقدس ترین‘ ہے۔ اس لیے وہ مسجدِ اقصیٰ کی حدود کی مغربی دیوار جسے مسلمان ’دیوارِ براق‘ اور یہودی ’دیوارِ گریہ‘ کہتے ہیں، وہاں عبادت کرتے ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے سے، اسرائیل میں انتہا پسند صہیونی حکمران مسجدِ اقصیٰ کے ’اسٹیٹس کو‘ کو پسِ پشت ڈال کر مسجدِ اقصیٰ کے اندرونی معاملات میں اپنی اجارہ داری قائم کر رہے ہیں، اور یہودی آبادکاروں کو مسجدِ اقصیٰ میں داخلے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ۲۰۰۰ء میں ہونے والے انتفاضہ کی بنیاد ہی یہ وجہ بنی، جب اس وقت کا وزیر اعظم ایریل شارون ایک ہزار کی نفری کے ہمراہ مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا، جس سے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اس انتفاضہ میں تین ہزار فلسطینی شہید ہوئے اور ایک ہزار صہیونی مارے گئے۔ اس کے بعد سے مسلمانوں کو مسجدِ اقصیٰ میں داخلے سے روکا جانے لگا۔ کبھی عمر کی پابندی لگا کر کہ پچاس سال سے کم عمر داخل نہ ہو سکیں تو کبھی انہیں داخلے کے اجازت نامے جاری نہ کر کے۔ مغربی کنارے کے تیس لاکھ مسلمانوں کو مسجدِ اقصیٰ میں جمعہ کی ادائیگی کے لیے اجازت نامہ آسانی سے جاری نہیں کیا جاتا۔ جن لوگوں کو اجازت نامہ جاری ہو بھی جائے انہیں بیت المقدس جانے میں چیک پوسٹوں پر رکاوٹوں اور صہیونی فوج کی طرف سے ناروا سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

مئی ۲۰۱۷ء میں صہیونیوں نے بیت المقدس پر اپنے پچاس سالہ قبضے کا دن منایا، تو مسجدِ اقصیٰ کی زیر زمین سرنگ میں اجلاس کیا تاکہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ ۵ مئی ۲۰۲۱ء میں صہیونی فوج نے مسجدِ اقصیٰ پر دھاوا بول دیا اور فائرنگ کر کے بہت سے مسلمانوں کو زخمی کیا اور درجنوں کو گرفتار کیا، اس کے جواب میں حماس نے غزہ سے اسرائیل کے اندر راکٹ فائر کیے۔ یہ جھڑپیں گیارہ دن تک جاری رہیں۔ مسجدِ اقصیٰ صہیونیوں اور فلسطین بلکہ پوری امت کے مسلمانوں کے لیے ’فلیش پوائنٹ‘ ہے۔ چنانچہ مسجدِ اقصیٰ کی حرمت کے لیے ان کی نظریں نہیں چوکتیں، کہ دشمن فائدہ نہ اٹھا لے۔ اسرائیل میں اس وقت ایسی چند انتہا پسند سخت گیر تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن کا مقصد مسجدِ اقصیٰ کو شہید کر کے اس کی جگہ ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر ہے، جس کے لیے وہ آہستہ آہستہ پیش قدمی کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں یہودی آباد کار فوج کے حفاظتی حصار میں مسجدِ اقصیٰ میں داخل ہو کر مذہبی رسومات کا انعقاد وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو اشتعال دلایا جائے۔ جب فلسطین مزاحمتی تحریک جواباً راکٹ فائر کرتی ہے تو اسرائیل بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو شہید کرتا ہے۔ اپریل ۲۰۲۳ء رمضان المبارک کے آخری عشرے میں صہیونی فوج نے اعتکاف میں بیٹھے لوگوں پر حملہ کر دیا، ان پر آنسو گیس پھینکی اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح یکم اکتوبر کو ہزاروں کی تعداد میں اسرائیلی آباد کار مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں گھس آئے اور اشتعال انگیز نعرے لگائے۔ اس دوران مسلمانوں کو مسجد کے احاطے میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ چار اکتوبر کو یہودیوں کے ’یوم سکوت‘ کا پانچواں دن منانے کے لیے سینکڑوں یہودی حفاظتی حصار میں مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہوئے اور وہاں اپنی مذہبی رسومات ادا کر کے مسجد کے تقدس کو پامال کیا۔ جبکہ مسلمانوں کو زبردستی مسجد کے احاطے سے نکال دیا گیا۔ یہاں تک کہ بزرگ خواتین کو بھی دھکے دے کر نکالا گیا۔ یہ واقعہ نا صرف صہیونیوں کے مسجدِ اقصیٰ سے متعلق ناپاک عزائم کی ایک جھلک تھی بلکہ اسی کے جواب میں سات اکتوبر کو آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ شروع ہوا۔

طوفان الاقصیٰ

 ۷ اکتوبر کی صبح حماس نے اسرائیل کے خلاف اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن کیا۔ جس کے تحت علی الصباح اسرائیل کی حدود میں پانچ ہزار راکٹوں سے بیک وقت حملہ کیا گیا جسے اس کا مشہور زمانہ فضائی دفاع کا نظام ’آئرن ڈوم‘ بھی نہ روک سکا ۔ اور راکٹوں نے اسرائیل کی سرزمین پر تباہی مچا دی۔ اس کے ساتھ ہی تقریباً آٹھ سو سے ایک ہزار تک مجاہدین اسرائیل پر تین اطراف سے حملہ کر کے اس کی حدود میں داخل ہو گئے۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے ساتھ ساتھ حفاظتی باڑ لگا کر ایک بفرزون بنایا ہوا ہے جسے عبور کرنے کے لیے مجاہدین نے چھوٹے ڈرونز کی مدد سے ان کے کیمرے ناکارہ کیے اور حفاظتی باڑ کو بلڈوزر کے ذریعے توڑ کر اندر داخل ہو گئے، دوسری طرف سے دیسی ساختہ پیرا گلائیڈر کے ذریعے فضا سے اسرائیلی حدود میں داخل ہوئے۔ جبکہ سمندری راستے سے لانچ کے ذریعے اسرائیل پر حملہ کیا۔ یہ چال اس قدر کامیاب ثابت ہوئی کہ چھ گھنٹے تک کے لیے ان کے نظام کو ناکارہ بنا دیا، بائیس مقامات پر کنٹرول سنبھال لیا اور صہیونی فوجیوں سمیت بہت سے شہریوں کو بھی یرغمال بنا کر واپس غزہ لے آئے۔ اسرائیل کا دفاعی نظام اور انٹیلی جنس (جو دنیا کی طاقتور ترین انٹیلی جنس سمجھی جاتی ہے) ناکام ثابت ہوئی۔ اس حملے کی وجہ سے اسرائیل تڑپ اٹھا اور پاگل پن میں اس نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کر کے جنگ کا اعلان کر دیا۔ اور معصوم شہریوں پر نہ ختم ہونے والی فضائی بمباری کا آغاز کر دیا۔ خود اسرائیل کے اعداد و شمار کے مطابق چھ دن میں چار ہزار ٹن وزنی چھ ہزار بم گرائے گئے۔ جو ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں امریکہ کی طرف سے ایک سال میں گرائے گئے بموں کے برابر بنتے ہیں۔

غزہ کی پٹی

خطے میں فلسطینیوں کی دو بڑی آبادیاں ہیں۔ ایک مغربی کنارہ ہے جو یہودی آباد کاروں کے ساتھ ہی ہے اور آئے دن یہودی مزید زمین پر قابض ہو کر اپنی آبادکاریاں بڑھاتے جا رہے ہیں۔ وہاں فلسطینیوں کی آبادی تقریباً تیس لاکھ ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایک پٹی کی شکل میں فلسطینیوں کی آبادی ہے جو غزہ کی پٹی یا ’قطاعِ غزہ‘ کہلاتی ہے۔ یہ تین سو تریسٹھ مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ بیس لاکھ سے زیادہ آبادی کا یہ علاقہ دنیا کا گنجان ترین علاقہ کہلاتا ہے۔ جس کے ایک طرف بحیرۂ روم ہے جبکہ باقی حصہ اسرائیل کے ساتھ لگتا ہے، جو کہ نہ صرف خاردار باڑ سے بند کیا گیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ملحقہ علاقے میں بفرزون بھی بنایا گیا ہے۔ جنوب میں غزہ کی رفح کے مقام پر مصر سے سرحد ملتی ہے۔ رفح بارڈر یورپی یونین کے مانیٹروں کی نگرانی میں کام کرتا ہے، لیکن جب سے بمباری شروع ہوئی ہے یہ بارڈر بند ہے۔ مصر بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات اور معاہدوں کی بدولت اسرائیل کی اجازت کے بغیر رفح بارڈر نہیں کھول سکتا۔

اسرائیل نے اعلانِ جنگ کے ساتھ ہی غزہ کے مسلمانوں کو انسان نما جانور (Human animals) قرار دے کر غزہ کی بجلی، پانی، ایندھن اور غزائی ہر طرح کی رسد پر مکمل پابندی لگا دی۔

غزہ کی پٹی پانچ بڑے علاقوں پر مشتمل ہے۔ جن میں سب سے اوپر شمالی غزہ کا علاقہ ہے جس کی آبادی چار لاکھ تیس ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد غزہ شہر کا علاقہ ہے جس کی آبادی سات لاکھ اکتیس ہزار ہے اور یہ سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ ہے۔ اس کے ساتھ تیسرا علاقہ دیر البلح کہلاتا ہے، یہاں کی آبادی تین لاکھ دس ہزار ہے۔ اس کے ساتھ خان یونس کا علاقہ ہے جہاں چار لاکھ چھبیس ہزار افراد رہتے ہیں۔ آخر میں رفح کا علاقہ ہے جس کی آبادی دو لاکھ چھیاسٹھ ہزار ہے اور یہ علاقہ مصر کی سرحد سے ملتا ہے۔

ایک اور نکبہ؟

اسرائیل کے شمالی حصے کو خالی کرنے کی وارننگ اور وہاں بمباری تیز کرنے سے وہاں کا انفراسٹرکچر تباہ ہوا اور ہزاروں لوگ ملبے تلے دب کر شہید ہو گئے۔ شہید ہونے والوں میں نصف تعداد معصوم بچوں کی ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اسرائیل وہاں کے لوگوں کو بے دخل کر کے وہاں قبضہ جمانا چاہتا ہے۔ اس لیے وہاں کے لوگوں کو دوسرے نکبہ کا خطرہ ہے، اور اسی کے پیش نظر بہت سے لوگوں نے اپنے گھروں کو چھوڑ کر جانے سے انکار کر دیا اور بے خوف ہو کر کہہ رہے ہیں کہ ’’یہیں جیئیں گے اور موت آئی تو یہیں مریں گے لیکن اپنے گھر چھوڑ کر نہیں جائیں گے‘‘۔

نکبہ کا مطلب ہے بہت بڑی تباہی (catastrophe)۔ ۱۹۴۸ء میں فلسطینی عربوں کی نصف سے زیادہ آبادی کو فلسطین سے زبردستی بے دخل کیا گیا۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ لبنان، اردن، مصر اور شام میں پناہ گزین ہوئے۔ خود غزہ کے اندر بڑے مہاجر کیمپ موجود ہیں، اور اب تک انہی پناہ گزین کیمپوں میں ان کی تیسری نسل جوان ہو رہی ہے۔ ساری دنیا سے آنے والے یہود آباد کاروں نے ان کے گھروں اور املاک پر قبضہ کر لیا۔ فلسطینی اس دن کو ’النکبہ‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

بظاہر اسرائیل کے اہداف میں یہ ایک اہم ہدف ہے کہ غزہ کی پٹی سے وہاں کے لوگوں کو بے دخل کر کے وہاں بھی بزور تسلط قائم کر لیا جائے تاکہ حماس اور اس جیسی دیگر ’گریٹر اسرائیل‘ کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم ہو جائیں۔ پھر باقی مغربی کنارے پر فلسطینی آبادی کی چھوٹی چھوٹی بستیاں رہ جائیں گی جن کو قابو کرنا مشکل نہ ہو گا۔

ناپاک اسرائیل کے جنگی جرائم

اب تک کے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق تادم ِتحریر غزہ میں پانچ ہزار آٹھ سو لوگ شہید ہوئے جن میں دو ہزار تین سو ساٹھ بچے اور تیرہ سو خواتین شامل ہیں، جبکہ زخمیوں کی تعداد ساڑھے سولہ ہزار سے زیادہ ہے۔ مغربی کنارے پر چھیانوے لوگ شہید اور اٹھارہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ جبکہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی۔

شدید بمباری سے بچنے کے لیے زیادہ تر رہائشی اپنے گھر چھوڑ کر اسکولوں، ہسپتالوں اور اقوام متحدہ کے دیگر اداروں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، لیکن طاقت کے نشے میں بدمست اسرائیل نے اقوام متحدہ کے اداروں، مساجد، چرچ، اسکولوں یہاں تک کہ ہسپتالوں تک کو نہیں بخشا۔ شمالی غزہ میں الاہلی العرب ہسپتال کو فضائی بمباری کا نشانہ بنایا جہاں بہت بڑی تعداد پناہ گزینوں کی بھی موجود تھی اور تقریباً پانچ سو مریض اور پناہ گزین شہید ہوئے۔ اس کے علاوہ اب تک ۳۲ مساجد کو بھی شہید کیا جا چکا ہے۔

دنیا دیکھ رہی ہے، دنیا والے بھی احتجاج کی صورت میں یا سوشل میڈیا پر فلسطین کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ معصوم بچوں اور خواتین کی لاشیں اور ان کی آہ و زاری دیکھ کر خود کفار بھی چلّا اٹھے ہیں کہ یہ بڑے پیمانے پر نسل کشی ہے۔ خود ہومن رائٹس واچ (HRW) چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اسرائیل بمباری میں سفید فاسفورس کا استعمال کر رہا ہے، جو بہت ہی تکلیف دہ کیمیائی ہتھیار ہے۔

اس وقت غزہ کے مسلمان پینے کے پانی کو ترس گئے ہیں۔ بجلی ہے نہ پیٹرول، غذائی اجناس کی قلت نے ایک قیامت خیز بحران (catastrophe) کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ہسپتالوں میں بنیادی طبی امداد ختم ہو چکی ہے، زخموں کو صاف کرنے کے لیے اینٹی سپٹک کی جگہ سرکہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹروں نے اعلان کیا ہے کہ بےہوش کرنے والی ادویات ختم ہونے کے سبب آپریشن بے ہوش کیے بغیر کیے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہسپتالوں میں اعلان ہو رہا ہے کہ کسی کے پاس ایک لیٹر بھی پیٹرول ہے تو وہ لے آئے۔ غزہ کے پندرہ بڑے ہسپتالوں نے اسرائیل کی بمباری اور سہولیات کے فقدان کی وجہ سے کام کرنا بند کر دیا ہے۔

اسرائیل کے اہداف

اسرائیل نے جنگ شروع کرتے وقت تین اہداف کا اعلان کیا:

  1. حماس کا خاتمہ
  2. مغوی قیدیوں کی بازیابی
  3. غزہ میں اپنا تسلط قائم کر کے مکمل کنٹرول حاصل کرنا

حماس کا خاتمہ

اسرائیل نے جس طرح اس حملے کے متعلق کہا کہ یہ ہمارا ’نائن الیون‘ ہے، اسی طرح جس طرح امریکہ نے القاعدہ کو ختم کرنے کے لیے، پہلے افغانستان پھر عراق پر حملہ کر کے لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کو شہید کیا اور بے پناہ تباہی مچائی، اسی راستے پر اسرائیل کا ناپاک وجود بھی چل رہا ہے اور اس نے حماس کو پوری طرح ختم کرنے کا عزم کیا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنے اس ہدف کو حاصل کر پائے گا؟

بظاہر امریکہ اس کی پیٹھ تھپتھپا رہا ہے کہ آگے بڑھو ، ہم تمہاری اس ’بقا‘ کی جنگ میں تمہارے ساتھ کھڑے ہیں۔ بائیڈن نے اپنے خطاب میں کہا: ’’کوئی مغالطے میں نہ رہے، امریکہ اسرائیل کے ساتھ غیر متزلزل مؤقف کے ساتھ کھڑا ہے‘‘۔ ساتھ ہی اس نے ناصرف اپنے بحری بیڑے اسرائیل کی طرف روانہ کر دیے بلکہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس بکتر بند گاڑیاں اور ٹینک خصوصی طیاروں سے اسرائیل پہنچ گئے ہیں۔

اسرائیلی فوج زمینی آپریشن کی تیاریاں کر رہی ہے، جس کے متعلق اسرائیل کے وزیر دفاع نے اپنی فوج کو مخاطب کر کے کہا، ’’عنقریب ہم غزہ کو اندر سے دیکھیں گے‘‘۔ لیکن یہ سوال بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ آیا زمینی کاروائی کرنے کی اہلیت اسرائیلی فوج رکھتی ہے یا نہیں؟ ۲۰۰۶ء میں جب حماس نے غزہ کا اقتدار سنبھالا، اس وقت سے اب تک حماس نے اپنی سرگرمیوں کو مخفی رکھنے کے لیے پورے غزہ میں زیرِ زمین سرنگوں کا ایک جال بچھا رکھا ہے جس کے متعلق اسرائیل کو خدشہ ہے کہ یرغمالیوں کو انہیں سرنگوں میں رکھا ہوا ہے۔ اس شدید بمباری میں ان کے بموں اور میزائلوں کا ہدف رہائشی تعمیرات کی بنیاد ہوتا ہے، جس کا مقصد یہ بھی ہے کہ زیر زمین کوئی سرنگ ہے تو وہ بھی تباہ ہو جائے۔

اسرائیلی فوج پیش قدمی کرنے سے ڈر رہی ہے کیونکہ اس صورت میں حماس کو مقابلے کی برتری حاصل ہے۔ ماضی میں بھی ایسے زمینی آپریشن ہوئے ہیں جس کا زیادہ نقصان خود اسرائیل کو اٹھانا پڑا ہے۔ ۲۱ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس نے غزہ میں خان یونس کے بارڈر پر اسرائیل کا ایک زمینی حملہ پسپا کیا جس میں ایک اسرائیلی فوجی ہلاک جبکہ تین زخمی ہوئے اور زخمی حالت میں فرار ہو گئے۔ اسرائیل نے بیان جاری کیا کہ ان فوجیوں کو بھیجنے کامقصد یرغمالیوں کا پتہ لگانا تھا۔

تادم ِتحریر حملے کو اٹھارہ دن گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک اسرائیل زمینی کاروائی کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا۔

یرغمالیوں کی بازیابی

حماس کی اس کاروائی میں ایک اہم برتری اسرائیل کے اندر سے اغوا کر کے لائے گئے اسرائیلی فوجی اور شہری ہیں۔ اسرائیل نے جو اعداد و شمار جاری کیے ان میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں پہلے ۱۵۰ افراد کے یرغمال بننے کا اعلان کیا گیا، پھر یہ تعداد ۲۰۰ تک پہنچ گئی، اور تا دم ِتحریر یہ تعداد ۲۲۲ تک پہنچ چکی ہے۔ اسرائیل کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ان کے لوگ اغوا کر لیے گئے، جن میں بڑے فوجی افسران بھی شامل ہیں اور عام شہری بھی۔

اس سلسلے میں تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ حماس نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پہلے دو امریکی اسرائیلی شہری خواتین ماں بیٹی کو رہا کیا اور پھر دو عمر رسیدہ اسرائیلی خواتین کو رہا کردیا۔ عمر رسیدہ خواتین میں سے ایک نے اپنی پریس کانفرنس میں حماس کے مجاہدین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمارا بہت خیال رکھا اور ہمارے ساتھ بہت ہمدردی سے پیش آئے۔ ساتھ ہی جنگ بندی کے بدلے یرغمالی شہریوں کو رہا کرنے کے متعلق بات چیت جاری ہے۔

اسرائیل میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق، ۸۰ فیصد اسرائیلی شہریوں نے ۷ اکتوبر کو ہونے والے حملے کا ذمہ دار نیتن یاہو کو قرار دیا۔ اپنے شہریوں کا اتنی بڑی تعداد میں قتل اور اغوا، خود صہیونی حکومت کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ آگے چل کر کیا صورتحال بنتی ہے لیکن حماس کے حملے نے اسرائیل کی ’انا‘ پر ضربِ کاری لگائی ہے۔ اور اب دنیا میں ہونے والی اس بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے جنگ جیتنا چاہ رہا ہے۔

غزہ میں اپنا تسلط قائم کر کے مکمل کنٹرول حاصل کرنا

یہ صہیونیوں کا دیرینہ خواب ہے کہ جس طرح اس نے فلسطین کے ایک بڑے اور اہم حصے پر قبضہ کر لیا اس طرح اپنا تسلط باقی بچے ہوئے فلسطین پر بھی قائم کر لے تاکہ ’گریٹر اسرائیل‘ کی سمت راہ ہموار ہو سکے۔ اگرچہ اس نے شمالی غزہ خالی کروانے کے لیے بار بار وارننگ جاری کی ہے اور لاکھوں کی تعداد میں افراد وہاں سے نقل مکانی کر گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی تنگ گلیوں اور بہت زیادہ آبادی والے علاقے میں زمینی فوج کی پیش قدمی خود کو ایک مہلک دام میں پھنسانے کے مترادف ہے۔ کیونکہ ان کا سامنا اس نوجوان نسل سے ہے جس نے آنکھ کھولتے ہی صہیونیوں کا ظلم دیکھا۔ جب ان کے پاس ہتھیار نہیں تھے تو یہ بچے ہاتھوں میں پتھر اٹھائے صہیونیوں کو للکارتے تھے۔ اور اب الحمدللہ وہی بچے جوان ہو کر اس قابل ہو گئے ہیں کہ خودساختہ راکٹوں اور اسلحے کے ذریعے ایک دفعہ پھر اتنی بڑی طاقت کوللکار رہے ہیں۔ صہیونی فوج کو بہت اچھی طرح اندازہ ہے کہ دوبدو لڑی جانے والی جنگ کیسی ہو گی۔

جس طرح امریکہ نے بہت بڑی تعداد میں افغانستان اور عراق پر بموں کی بارش کر کے یہ امید لگائی کہ شاید اسی سے انہیں فتح حاصل ہو جائے گی، یہی غلط فہمی اسرائیل کو بھی ہے۔ اس سلسلے میں بائیڈن کے حالیہ دورے میں اس کی طرف سے دی جانے والی تنبیہ بہت دلچسپ ہے:

’’بائیڈن نے اپنے دورے میں اسرائیلی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ نائن الیون کے بعد امریکی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور ’غصے میں اندھا‘ ہونے سے بچیں۔‘‘ [بی بی سی اردو]

غزہ اسرائیل جنگ کے حوالے سے امریکہ کے سفارتی دورے

اسرائیل اس جنگ میں کسی قسم کی جوابدہی سے مبرّا ہو کر ہر طرح کے جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے ۔ جہاں اس ظلم و جبر کو دیکھ کر پوری دنیا میں احتجاج اور جنگ بندی کے مطالبات ہر فورم پر اٹھ رہے ہیں تو دوسری طرف اسرائیل کے حملے کے ساتھ ہی امریکی وزیر خارجہ نے تمام متعلقہ عرب اور دیگر مسلمان ریاستوں، جہاں کسی قسم کی کارروائی کا خدشہ ہے، کے خصوصی دورے کیے۔ ان میں سعودی عرب، اردن، لبنان، مصر، قطر، ترکی اور متحدہ عرب امارات سرفہرست ہیں۔ اسرائیلی حملے کی مذمت تو تمام مسلم ممالک کے مقتدر حلقوں نے کی ہی ہے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے انسانی المیے پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے لیکن ایران کی حکومت نے خواہ زبانی کلامی ہی صحیح اسرائیل کو جنگ بندی نہ کرنے کی صورت میں سخت کارروائی کی دھمکی بھی دی ہے۔

امریکہ کے ان سفارتی دوروں کے تین بڑے مقاصد ہیں:

  1. اس بات کو یقینی بنانا کہ خطے کے سیاسی و عسکری حالات عدم توازن کا شکار نہ ہوں۔ تمام ممالک حماس کے حملے کی مذمت کریں اور ’اسرائیل کو اس کے دفاع کا حق حاصل ہے‘ کے نعرے کے تحت خاموشی سے بیٹھ کر تماشہ دیکھیں تاکہ اسرائیل فلسطینیوں کی بے فکری سے نسل کشی کر سکے۔
  2. قطر، مصر، ترکی اور لبنان وغیرہ ایسے ممالک جن کے حماس کے ساتھ روابط ہیں وہ حماس پر زور ڈالیں کہ اسرائیلی یرغمالیوں کو فوری رہا کیا جائے۔ ہر طرف سے حماس پر دباؤ ڈالا جائے تاکہ وہ غزہ کے اندرونی حالات دیکھ کر یرغمالیوں کو رہا کرنے پر مجبور ہو جائے۔
  3. چونکہ اسرائیل علاقے کو فلسطینی وجود سے خالی کروانا چاہ رہا ہے، اس لیے عرب ممالک کو اس بات پر راضی کرنا کہ مصر اپنا رفح بارڈر فلسطینیوں کے لیے کھول دے اور صحرائے سینا کے علاقے میں ان فلسطینیوں کو پناہ دی جا سکے۔ لیکن نہ ہی مصر اور نہ ہی دیگر عرب ممالک یہ مطالبہ ماننے پر راضی ہیں۔ اور نہ ہی غزہ کی عوام اپنی زمین چھوڑ کر جانے پر رضامند ہیں۔ کیونکہ یہ بات عرب حکمران بھی جانتے ہیں کہ اگر ایک دفعہ غزہ کی عوام کو بے دخل کر دیا گیا تو دوبارہ ان کی واپسی ناممکن ہو گی اور تاریخ اس بات کی شاہد ہے۔ اس تمام صورتحال میں مسلم ممالک اور اقوام متحدہ امریکہ اور اسرائیل سے انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، اس سے زیادہ وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں کیونکہ امریکہ اور اسرائیل کے خوف نے ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے ہیں۔

پراپیگنڈہ کی جنگ(Propaganda Warfare)

پراپیگنڈہ کسی بھی جنگ میں مخالف فریقوں کا ایک بہت اہم ہتھیار تصور کیا جاتا ہے۔ ۱۹۹۱ء کی خلیج جنگ (جس میں کویت کی فوجوں کو پیش قدمی کرتے ہوئے دکھایا گیا، بعد میں یہ راز کھلا کہ پوری فلم بندی ہالی وڈ کے اسٹوڈیو ز میں کی گئی۔) سے لے کر عراق پر حملہ (جس میں WMDکا جھوٹا پراپیگنڈہ کیا گیا) اور افغانستان پر حملہ (عورتوں پر ظلم کی جھوٹی ویڈیوز اور دیگر پراپیگنڈہ)۔ ان تمام جنگوں میں اکثریتی عوامی تائید حاصل کرنے لیے جس طرح پراپیگنڈہ کا سہارا لیا گیا ، اسی طرح اسرائیل نے بھی حماس کا ’ظلم و بربریت‘ دکھانے کے لیے جھوٹا پراپیگنڈہ کیا۔ پوری دنیا میں حماس کو وحشی، شیطانی اور خون کے پیاسے جیسے ناموں سے پکارا گیا۔ اسی سلسلے میں پراپیگنڈہ کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

اختتامیہ

حالیہ دنوں میں اسرائیل کی بمباری میں مزید اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اموات اور زخمیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان اموات اور زخمیوں کے ساتھ ساتھ لاکھوں لوگوں کے بے گھر ہونے سے ایک انسانی المیہ پیدا ہو چکا ہے۔ اسرائیل بلاشبہ اس طرح کے حالات اسی لیے پیدا کر رہا ہے تاکہ حماس اور غزہ کے عوام گھٹنے ٹیک دیں۔ اسرائیل اس قدر ظلم سے چاہتا ہے کہ غزہ کی عوام تنگ آکر غزہ سے نکل جائیں اورمصر میں پناہ حاصل کر لیں اور غزہ اسرائیل کے لیے خالی کر دیں، جبکہ اس بمباری کے نتیجے میں غزہ میں جو انسانی بحران پیدا ہو رہا ہے اس کی وجہ سے مجاہدین دباؤ میں آجائیں اور وہ گھٹنے ٹیک دیں اور شکست تسلیم کر لیں۔

لیکن اسرائیل کی اس سفاکانہ بمباری کے نتیجے میں جہاں پوری دنیا کے لوگوں کے سامنے اسرائیل کا ظلم اور بربریت کھل کر سامنے آیا ہے اور وہ اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں وہیں پہلی بار سب کے سامنے یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ امتِ مسلمہ کے تمام مسائل کی اصل جڑ امریکہ ہے، اگر امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی نہ کر رہا ہوتا، اسے اسلحہ اور امداد فراہم نہ کر رہا ہوتا اور اس کے ہر ظلم کی اندھی حمایت نہ کر رہا ہوتا تو اسرائیل کبھی بھی اتنا ظلم نہ کر پاتا۔ اس طرح یہ بات سب پر واضح ہو رہی ہے کہ اصل مجرم امریکہ ہے اور اسے سبق سکھائے بغیر امتِ مسلمہ کے کسی مسئلے کا حل ممکن نہیں۔

کرنے کے کام

غزہ کے مجاہدین اور عوام

دیگر محاذوں کے مجاہدین

مسلمان عوام

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ غزہ کے مجاہدین اور مسلمانوں کی مدد و نصرت فرمائے، ان کے قدموں کو جما دے، ان کے حوصلے بلند کر دے، جبکہ دشمن کے حوصلے پست کر دے، اسے خوف میں مبتلا کر دے اور اسے بدترین شکست سے دوچار کرتے ہوئے نیست و نابود فرما دے۔ اللہ تعالیٰ تمام دنیا کے مسلمانوں اور مجاہدین کو اس مسئلے میں متحد کر دے اور انہیں توفیق دے کہ سب یک جان یک آواز اور متحد ہو کر غزہ کے مسلمانوں کی مدد کے لیے اور اسرائیل اور اس کے حواریوں کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں۔ آمین!

٭٭٭٭٭

Exit mobile version