اے علمائے امت! کہیں قافلہ چھوٹ نہ جائے

امت مسلمہ پر اللہ کی رحمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر زمانے اور ہر جگہ ایسے اہل علم و فضل اور اہل شمشیر و سناں کو پیدا فرماتا ہے جو اس امت کی نظریاتی، علمی، عملی اور جغرافیائی سطح پر حفاظت کرتے ہیں۔ یہ لوگ میدان علم و فکر میں پیدا کی گئی تحریفات و تاویلاتِ باطلہ اور فکری کج روی کو اپنے علم سے ختم کرتے ہیں۔ رہی بات اہل شمشیر و سناں کی تو وہ اپنے پاکیزہ لہو سے چمنِ اسلام کی آبیاری کرکے اس امت کی حفاظت اور دفاع کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ اقامت دین ِ مبین کا یہ مبارک عمل انہی دو بنیادوں پر قائم ہے:

  1. مشعلِ علم و عرفان جو کہ کتاب و سنت ہے،
  2. جہاد و قتال فی سبیل اللہ۔

تاریخ اسلام میں جب اور جہاں ان دونوں میں سے کسی ایک میں خلل واقع ہوا، ساتھ ہی ساتھ معاشرے میں علمی و فکری کجی پیدا ہوئی اور مسلمان بحیثیت ِامت اپنا مقصودِ اصلی بھلا بیٹھے اور راہ راست سے بھٹک گئے۔

اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام کے مختلف فرائض و واجبات خاص کر اپنی راہ میں جہاد کو مسلمانوں کے لیے اتحاد و استحکام کا ذریعہ بنایا ہے۔خواہ یہ چاہے یا نہ چاہے اللہ نے شرعا اس امت پر ایک امت بننا لازم کردیا ہے اور تکوینی طور پر بھی یہی طے کردیا ہے ،اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یہ امت اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری، آپس میں اتحاد و اتفاق اور علمائے ربانی کی قیادت میں جہاد فی سبیل اللہ کا علم تھام کر اپنے دفاع کا فریضہ سر انجام دے۔

اللہ تعالیٰ نے اس امت کو خیر اور بہترین امت کا خطاب ہی اس لیے دیا کہ اس کے فرائض منصبی میں یہ داخل ہے کہ نیکی کو پھیلائے اور برائی کی روک تھام کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کے عظیم کام کو اپنے تمام دیگر امور پر ترجیح دے۔یقینا ہر سچے مسلمان کے لیے اس امت کی ازسرِ نو بیداری،اس کے ایمان کی تازگی اور لوگوں کے جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے کا نظارہ نہایت پرمسرت ہے۔

میرے مسلمان بھائیو!

ایسی جنگ و جہاد جس کی قیادت علمائے ربانی کے ہاتھ میں نہ ہو وہ بے ثمر و بے نتیجہ رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس صدی کے مسلمانوں پر جو خصوصی فضل فرمایا کہ انہیں شیخ عبد اللہ عزام اور شیخ عمر عبد الرحمن جیسی قد آور علمی شخصیات سے نواز، جن کی پوری زندگیاں قافلۂ جہاد کو تیار کرنے، امت میں بیداری کی نئی روح پھونکنے، ہجرت و جہاد اور اس راہ میں آنے والے تمام مصائب و مشکلات کو خندہ پیشانی سے سہنے میں گزریں۔ یہاں تک کہ اپنی سب سے قیمتی متاعِ حیات بھی اس راہ میں قربان کر دی اور اپنے مبارک لہو کے آخری قطرے تک اپنی امت کو بیدار کرنے، متحد و متفق کرنے اور خالص اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے راہ جہادمیں مشغول رہے۔

جامعہ ازہر مصر کے فاضل اور استاد شیخ عبد اللہ عزام جب افغانستان میں ہجرت کی زندگی گزار رہے تھے، اس دوران انہوں نے ’’الحقوا بالقافلة‘‘ (قافلے سے جا ملو) کے نام سے ایک فتویٰ شائع کیا، جس میں انہوں نے فلسطین، اندلس اور دیگر مقبوضہ علاقوں کی بازیابی کے لیے امت پر جہاد کے فرض عین ہونے کا فتویٰ جاری کیا۔ یہ فتویٰ دینے کی دیر تھی کہ مشرق و مغرب، شمال و جنوب، غرض پوری دنیا سے امت مسلمہ نے اپنے جگر گوشے دینِ اسلام کی سربلندی کے لیے سرزمین خراسان کو پیش کر دیے۔

آج بھی اس فتوے کی بازگشت گونج رہی ہے اور امت کے چنیدہ افراد اس پر لبیک کہہ رہے ہیں۔ انبیا ء کی دعوت کا اسلوب بھی یہی رہا ہے کہ سب سے پہلے ان کی دعوت قبول کرنے والے نوجوان اور غریب مسکین لوگ ہوتے ہیں، اس کے بعد آہستہ آہستہ قوم کے دیگر افراد اس دعوتِ حق کو قبول کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک معتد بہ تعداد ان کے گرد جمع ہو جاتی ہے اور بالآخر حق غالب اور باطل مغلوب ہو جاتا ہے۔

آج الحمد للہ افغانستان، صومالیہ ،مغرب ،فلسطین ،یمن ،شام اور عراق وغیرہ میں قافلہ جہاد کی فتوحات کی برکت سے اہلِ علم ودعوت کی کئی جماعتیں اس (قافلہ عزیمت )سے آملی ہیں ،جہاد کے فرضِ عین ہونے اور مسلمانوں کی نصرت کی بابت شیخ عبد اللہ عزام شہید رحمہ اللہ کے موقف کی تائید کررہے ہیں ، یہاں تک کہ سرکاری علمی ادارے ،دینی جامعات اور علماء کی تنظیمیں اپنے بیانات اور اعلامیوں میں جہادی ادبیات کی اُن اصطلاحات کو بروئے کار لارہی ہیں،جن پر ایک زمانے میں انتہاپسندی، غلو اور دہشت گردی کے اتہامات لگائے جاتے تھے،اور یہ حق بیان کرنے والے گنے چنے لوگ تھے،لیکن الحمد للہ معرکہ طوفان الاقصیٰ کے بعد ا ب سینکڑوں علماء نے اپنے فتاویٰ، بیانات اور تقریروں میں انہی احکام کو دہرایا ہے ۔ تیونس کے جامعۃ الزیتونہ، مراکش اور موریتانیا، پاکستان اور ہندوستان کے تمام سرکردہ علماء نے اسرائیل، امریکہ و دیگر ظالم و غاصب قوتوں کے خلاف جو امت مسلمہ کو دنیا کے مختلف خطوں میں اپنے ظلم و ستم کا شکار بنائے ہوئے ہیں ،جہاد کی فرضیت کے اعلان کو ہم قدر اور تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔

اسی طرح جامعہ ازہر کے شیوخ کا یہ فتویٰ قابلِ قدر ہے جس میں انہوں نے مشرق ومغرب کے طواغیت کے خلاف برپا چالیس سالہ جہادی تحریک کی دعوت کا خلاصہ پیش کردیا ہے :

’’امت مسلمہ کو عالم کفر امریکہ اور دیگر مغربی ممالک سے اپنے تعلقات کے حوالے سے بنیادی نظر ثانی کرنی پڑے گی، اپنے دفاع اور ان سے مقابلے کے لیے ہمیں افغانستان اور صومالیہ کے مجاہدین کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

جامعہ ازہر نے اپنے حالیہ اعلامیوں میں کہا ہے کہ:

’’ارض مقدس فلسطین پر قابض اسرائیلی شہری بحیثیت قابض یہاں رہ رہے ہیں ۔ ان کی حیثیت عام کفار جیسی نہیں، تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ اسرائیلی ظلم و وحشت کے بالمقابل فلسطینی بھائیوں کے ساتھ مالی، جانی ہر طرح کا تعاون کریں۔ ان کے دست و بازو بنیں اور فلسطینی مسلمان جان لیں کہ اسرائیل اور تمام عالم کفر تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، جن افکار و نظریات کی بنیاد پر وہ تم سے لڑ رہے ہیں، وہ مٹی کے گھروندے ثابت ہو چکے ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں، صومالیہ اور افغانستان میں مغرب نے جو ذلت اٹھائی ہے وہ کل ہی کی بات ہے ۔

امت مسلمہ کے ہر فرد پر فرض ہے کہ وہ اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے فلسطینی مجاہدین کی پشت پناہی کریں اور اسرائیلی مظالم کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ اسرائیلی وہ ضمیر فروش اور بے حس قوم ہے جس نے انسانی اقدار، اخلاقیات اورتمام انبیاء کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔‘‘

اب تمام مسلمانوں کو جان لینا چاہیے کہ فلسطین اور دیگر خطوں میں برسر پیکار مجاہدین سے جا ملنا، ان کی مدد کرنا، پشت پناہی کرنا اللہ کی منشاء و مشیت ہے۔

اسی طرح مجاہدین کے فرائض منصبی میں سے ہے کہ وہ امت کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت جہاد دیں،نمازوں میں ان کے دعائیں کریں ،اپنے اخلاق کو سنواریں ،وہ اخلاق اپنائیں جو اللہ کو پسند ہیں ۔پس جو بھی قافلہ دعوت و عزیمت سے ایک بالشت برابر قریب ہو گا ہم ایک ہاتھ برابر اس کے قریب ہوں گے، جو ہاتھ برابر قربت اختیار کرے گا ہم اس کے ساتھ دو ہاتھ برابر قریب ہوں گے۔ جو ہمارے پاس چلتے ہوئے آئے گا ہم دوڑتے ہوئے اسے قبول کریں گے۔

اللہ تعالیٰ خصوصی رحم فرمائے مجاہدین کے خادم اور عراقی مجاہدین کے وزیرِ جنگ شیخ ابو حمزہ المہاجر پر جنہوں نے کئی سال پہلے ہی علمائے امت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

’’اے ہمارے بزرگو! اے فاضلان علم و حکمت! یہ بات مجھ سے اچھی طرح سن لیں کہ مجاہدین یقیناً کامیاب ہوں گے۔ شاید عنقریب ہی ایسا ہو اور مجھے امید ہے کہ آپ میں سے اکثر کی زندگی میں ایسا ہو گا، اس وقت بھی ہم آپ حضرات کو اپنے ساتھ لیں گے، آپ کو چھوڑیں گے نہیں کیونکہ آپ ہی وارثین انبیاء ہیں۔ امت کا فخر اور دین کی سربلندی کا سبب ہیں۔ ہم آپ سے اور آپ ہم سے ہیں، اگر آپ ہمیں چھوڑنا بھی چاہیں گے تب بھی ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔ اگر آپ ہم سے دور ہونا چاہیں گے، ہم آپ کے کپڑوں سے چمٹ جائیں گے، کیونکہ آپ ہی نور ہدایت کا منبع ہیں۔ اور اگر خدانخواستہ آپ میں سے کوئی فرد کسی شبہ یا نفسانی خواہش کی بنیاد پر راہ حق سے برگشتہ ہو جائے تب بھی اس کے حوالےسے ہم اپنی زبانیں بند رکھیں گے، اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کریں گے، جب تک کہ وہ اپنے قول وفعل سے دوسروں کو فتنے میں نہ ڈالے۔

قابل احترام علمائے کرام!

ہم نہ خوارج ہیں، نہ ہی اہلِ بدعت ، ہم تو وہ ہیں جنہوں نے دیکھا کہ پیاری امت ذلت و بربادی کے سیلاب میں بہتی جا رہی ہے، ہم نے آگے بڑھ کر اپنی ہڈیوں اور سروں سے اس سیلابِ ظلم و طغیان کے آگے بندھ باندھا تاکہ امت کا دین، دنیا اور عزت و آبرو محفوظ رہے۔

پھر ہم اسلام کے ثمر آور درخت کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے لہو سے اسی کی آبیاری کرتے رہے یہاں تک کہ وہ پھلا پھولا، اس کا تنا مضبوط اور شاخیں پھیل گئیں، اس کے بعد وہ پھل دینے کے قابل ہو گیا اور زمین میں اس کی جڑیں مستحکم ہو گئیں۔ تب ہم نے آپ سے کہا : آئیں، اس کے پھل توڑیں اور خوب اطمینان سے کھائیں اور اس کی ٹھنڈی چھاؤں میں آرام کریں ، مبادا آس پاس اڑنے والے مردار خور پرندے اس کا پھل اچک نہ لیں۔

ہمیں ڈر یہ ہے کہ سالوں کی محنت پر پانی نہ پھر جائے، کیونکہ عراق میں چار ہزار سے زائد صرف مہاجرین کا خون بہا ہے، رہے انصار، ان کی تعداد تو ان سے کئی گنا زیادہ ہے۔

معزز علمائے اسلام!

ہم آپ کو اس امانت کو سنبھالنے کی دعوت دے رہے ہیں کیونکہ ہم تو دوراہے پر ہیں، لہٰذا ہمیں مایوس نہ کریں، اللہ کا واسطہ ہے ہمیں نا امید نہ کریں کیونکہ ہمیں آپ کی اشد ضرورت ہے۔

اگر آپ نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا، ہماری رہنمائی نہ کی، جس کے نتیجے میں ہم راہِ حق سے ہٹ گئے تب ہمیں ملامت نہ کیجیے گا۔

مصلحین امت!

آئیے کہ امید کا دامن نہ چھوڑیں، اور آس لگائیں کہ ایک دن جامعہ ازہر کے شیخ مجاہدین کی تعریف و توصیف بیان کریں گے اور ان کے حق میں فتوے جاری کریں گے اور حجازِ مقدس کے مفتی اعظم ہاون سے دشمنوں پر بمباری کریں گے اور شام کے شیخ الاسلام جنگی اہداف کی نشاندہی کریں گے۔

آپ کیا سمجھتے ہیں کہ تب بھی امت کا حال آج کی طرح مظلومانہ ہوگا!

بے شک قیادت کے لائق وہی ہے جسے معاملے کا درست اور پورا پورا علم ہو اور یہ صفت وخصوصیت اہلِ علم کی ہے،بہترین معاشرے کی علامت ہی یہ ہے کہ اس کی قیادت علماء کریں اور عوام ان کی قدر دانی کرے۔‘‘

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کو جہاد فی سبیل اللہ پر متحد و متفق ہونے کی توفیق نصیب فرمائے اور دشمنان دین پر غلبہ نصیب فرمائے۔

والحمد للہ رب العالمین

٭٭٭٭٭

Exit mobile version