یہود و ہنود کی اسلام دشمنی

طوفان الاقصیٰ آپریشن یہودیوں پر اللہ کا سوط العذاب بن کر ایسا پڑا کہ نبیوں کو ایذا پہنچانے والی قوم تلملا اٹھی۔ کفر کی صفوں میں ہاہاکار مچ گئی، کفر سے محبت کرنے والے زار و قطار آنسوؤں کی نہریں بہانے لگے۔ میلوں دور بیٹھے یہود کے ہنود بھائیوں کو بھی ایسی مصیبت پڑی کہ ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ برملا یہودیوں کی حمایت کا اعلان کیا گیا، سڑکوں پر یہودیوں کے ساتھ مرنے مارنے کی قسمیں کھائی گئیں۔ یہودیوں کے شانہ بشانہ لڑنے کے عہدو پیمان باندھے گئے۔ یتی آنند سرسوتی (پنڈت ) نے اپنے ایک ہزار پیروکاروں کے ساتھ غزہ جنگ میں کودنے کی پیشکش کی۔ یہ اور بات ہے کہ طوفان الاقصیٰ کا نام سن کر پنڈت کی دل کی دھڑکنیں گھبراہٹ کے مارے تیز ہو گئی ہوں گی۔

ہنود کی یہود سے دوستی اور محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فلسطین کی حمایت میں نکلنے والے غیور مسلمان مردوں اور خواتین کو گرفتار کر لیا گیا۔ جبکہ دوسری طرف ہندوؤں نے بڑی تعداد میں اکٹھے ہو کر اسرائیل کی حمایت میں ریلیاں نکالیں۔

یہود اور ہنود امتِ مسلمہ کے بدترین دشمن ہیں، دونوں دھوکا دہی، مکاری، بزدلی اور مظالم میں شدید ہیں۔ اپنی گھٹیا چالوں سے دونوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ مندرجہ ذیل سطور دونوں اقوام میں پائی جانے والی مماثلتوں کا مختصر جائزہ ہیں۔

گوسالہ پرستی اور گاؤ ماتا

گوسالہ پرستی: سیدنا موسیٰ ﷤ کے کوہِ طور پر جانے کے بعد یہودیوں نے گائے کے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی اور نافرمان ہو گئے، یہودیوں نے جس گائے کی عقیدت میں پوجا شروع کی تھی اب وہ اسی گائے کو ذبح کرنے کے فراق میں ہیں۔ سرخ بچھڑا (ریڈ ہیفر) جس کا انتظار کیا جا رہا ہے، یہودیوں کے عقیدے کے مطابق یہ سرخ بچھڑا ایسا ہے جس کے صرف تین سرخ بال ہیں اور جو پیدا ہو چکا ہے، یہودیوں کا ماننا ہے کہ وہ اس بچھڑے کی قربانی کریں گے، جس کے بعد ان کا مسیحا (دجال) نمودار ہو جائے گا اور یہودیوں کو دنیا کی حکمرانی عطا کرے گا۔

گاؤ ماتا: ہندو دھرم میں گائے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ گائے کو پوجا جاتا ہے، اس کے پیشاب، پاخانے سے ہندو شدھی (ان کی نظر میں پاکی حقیقت میں ناپاکی) حاصل کرتے ہیں۔ دودھ، دہی، لسی جیسی خوراکی اشیاء کو بھگوان کا پرشاد سمجھ کر استعمال کیا جا تاہے۔ لیکن بھارت میں اسی گاؤ ماتا کے نام پر مسلمانوں پر بے تحاشا ظلم و ستم ڈھائے جاتے ہیں۔ گائے کی سانسوں کو بچانے کے لیے مسلمانوں کی سانسوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جاتا ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جس گاؤ ماتا کے لیے مرنے اور مارنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں، اسی گاؤ ماتا کو پراپیگنڈے کی خاطر بلی چڑھا دیا جاتا ہے۔ ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جہاں ہندوؤں نے خود ہی بھگوان کی اوتار گاؤ ماتا کو موت کی نیند سلا دیا اور الزام مسلمانوں پر ڈال کر فساد برپا کرنے کی ناپاک کوشش کی۔

عظیم تر اسرائیل اور اکھنڈ بھارت

عظیم تر اسرائیل: اللہ تعالیٰ کی نافرمان اور انبیاء ﷩ کی قاتل قوم، صدیوں اپنے کرتوتوں کی وجہ سے دربدر پھرنے کے بعد عظیم اسرائیل کا خواب دیکھ رہی ہے، جس کی بنیاد وہی دھوکہ دہی، مکروفریب اور ظلم و ستم سے ڈالی گئی ہے۔ صہیونیت مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی سلطنت بنانے کی ایک تحریک ہے، جس کی بنیاد ۱۸۹۷ء میں تھیوڈورہرزل نے رکھی تھی۔ جس کا مقصد پہلے مرحلے میں فلسطین میں ناجائز اسرائیلی ریاست کا قیام تھا ۔ اس ناجائزریاست کو بنانے میں برطانیہ کا اہم کردار تھا جبکہ بعد میں اور اب تک امریکہ اور یورپ کی مدد حاصل ہے۔ عظیم اسرائیل کا خواب شام، عراق، مصر، اردن اور سعودی عرب کے کچھ علاقے اپنے اندر شامل کرنا ہے۔

اکھنڈ بھارت: ذات پات، اونچ نیچ ، ستی پرتھا، ظلم و زیادتی، برہمنوں کو انسانوں کے دائرے سے نکال کر بھگوان کا درجہ دینا اور باقی بچے مانس کو ان کا خادم و نوکر سمجھنے والی رِیت کو مسلمانوں نے توڑ دیا اور ہندوستان میں بسنے والے لوگوں کو مسلمانوں نے ایک ایسا نظام ِ زندگی اور عدل و انصاف متعارف کرایا جس نے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے، بتوں، جانوروں اور ہر ظاہری طور پر نفع اور نقصان پہنچانے والی چیز کی پرستش سے نجات دےکر، انسانوں اور سب مخلوقات کے رب کی غلامی اور فطرت پر مبنی نظام سے روشناس کروایا۔ جس کی بہاریں دیکھ کر انسان، انسان کا غلام نہ رہا بلکہ اپنےمالکِ حقیقی کا غلام بن گیا۔ جوق در جوق لوگ بت پرستی کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہونے لگے اور ہندوؤں کا ذات پات، ظلم و زیادتی و ناانصافی پر مبنی نظام (جہاں عورتوں کو ستر پوشی کے لیے بھی ٹیکس دینا پڑتا تھا) غرق ہو کر اندھیروں میں ڈوب گیا۔ اسی ظالم نظام کو قوت دینے اور وسیع کرنے کے لیے ہندوؤں نے ہندوستان میں مسلمانوں کاجینا حرام کر رکھا ہے۔ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے ہندو قوم پرست نظریے ہندُتوا کی بنا پڑی اور ہندوؤں کو امید کی کرن نظر آنے لگی۔ تقسیمِ ہند ہندوؤں کے لیے ہندو راج قائم کرنے کا سنہری موقع تھا اور وہ اپنی کھوئی ہوئی سلطنت کو دوبارا کھڑا کرنے کے لیے دن رات محنت کرنے لگے۔ پہلے مسلمانوں کو سیکولرازم کے نام پر دھوکہ دیا گیا اور اب مسلمانوں کو ظلم و طاقت سے ڈرا کر ہندو راشڑ کا شودر بنایا جا رہا ہے۔

ایک ہزار سال بعد ظلمت کے اندھیروں میں غرق اس راکھشک نے پھر سر اٹھایا اور اپنے خواب کو اکھنڈ بھارت کی لڑی میں پرو دیا۔ پاکستان، نیپال، بنگلادیش اور افغانستان کو ملا کر ہندو راشٹر کے تحت لانا اور اکھنڈ بھارت بنانا ہندوؤں کا مقصد ہے۔

ہیکلِ سلیمانی اور رام مندر

ہیکلِ سلیمانی: حماس کے غیور مجاہدین کے اسرائیل پر تابڑتوڑ (ایک کے بعد ایک) حملوں کے مقاصد میں سے ایک مقصد بیت المقدس مسجدِ اقصیٰ کو ظالموں کے ہاتھوں سے چھڑانا بھی ہے، جسے یہودی شہید کر کے تیسری بار اپنا (ہیکلِ سلیمانی) بنانا چاہتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ ﷤ کی بعثت سے کئی سو سال پہلے حضرت سلیمان ﷤ کی تعمیر کردہ مسجد اقصیٰ ، جسے یہودی ہیکل سلیمانی (فرسٹ ٹیمپل) کہتے ہیں، شہید کیا جا چکی تھی۔ پھر رومیوں نے آپ ﷺ کی پیدائش سے ۵۰۰ برس پہلے ہیکل سلیمای کا سیکنڈ ٹیمپل بھی گرا دیا۔ اب یہودی مسجد اقصی کمپاؤنڈ کی ایک دیوار کے متعلق دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ہیکل سلیمانی کی دیوار ہے اور اسے دیوار گریہ کہتے ہیں اور اس کے سامنے ماتم کرتے ہیں، روتے ہیں، دھوتے ہیں اور اپنی دانست میں ہیکل سلیمانی تیسری بار بنانے کے خواہاں ہیں۔ اس کے نقشے بھی بنائے جا چکے ہیں۔ ڈینس مائیکل نامی ایک یہودی نے ۱۹۶۹ء میں بیت المقدس کے ایک حصے کو جلا دیا تھا۔ یہودیوں کے نزدیک مسجد اقصیٰ کو ہیکلِ سلیمانی کی جگہ پر بنایا گیا ہے۔ یہودی بیت المقدس کو شہید کرنے کی ناپاک اور غلیظ کوشش سے پہلے اپنی مذہبی رسومات کو پورا کرنا چاہتے ہیں جس میں ایک سرخ رنگ کے بچھڑے کو ذبح کرنا بھی ہے۔

یروشلم کے ایک محقق جمال عمر نے کہا ہے کہ ہیکل انسٹی ٹیوٹ اور میوزیم کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، نذرانے پیش کیے جا رہے ہیں، قربانی کے جانور ذبح کیے جا رہے ہیں۔اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر جولائی ۲۰۲۳ء میں ۶۵۵۸ آباد کاروں نے مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولا تھا۔

رام مندر: ۶ دسمبر ۱۹۹۲ء…… ہندوستان کی عالی شان، تین گنبدوں والی مسجد، جو شہنشاہ بابر کے دور میں اودھ کے حاکم میر باقی تاشقندی نے ۱۵۲۸ء میں تعمیر کرائی، اس بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا۔ پولیس انتظامیہ ہندوؤں کو تحفظ دیتی رہی، سیاسی اکھاڑے میں مسلمانوں کو طفل تسلیاں دی جاتی رہیں، ملک کی عدلیہ پر اندھا یقین رکھنے والوں کے ہوش تب اڑے جب ۹ نومبر ۲۰۱۹ء کو آنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کر دیا۔ یہ فیصلہ حقائق کی بنیاد پر نہیں بلکہ ہندوؤں کی آستھا کے مطابق دیا گیا تھا۔

رام مندر کی تعمیر شروع ہو چکی ہے۔ ۱۸۰۰ کروڑ روپے سے یہ بت خانہ بنایا جا رہا ہے۔ ویشوا ہندو پریشاد رام مندر کی تعمیر کو ملک کی تاریخ کا ایک قابل فخر لمحہ قرار دیتی ہے۔ رام مندر کی تعمیر میں تین لاکھ سے زائد گاؤں کی شرکت اور ۱۶ کروڑ رام بھگتوں نے حصہ لیا۔ ہندو اسے اپنی جیت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ہندوؤں کے ٹارگٹ پر تین ہزار سے زیادہ مساجد ہیں، جنہیں وہ نعوذباللہ گرا کر بت خانے بنانا چاہتے ہیں، اس طرح وہ اپنے تئیں اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version