اپنی مصری عوام کے نام پیغام!

[فلسطینی الاصل ڈاکٹر تمیم البرغوثی معروف ادیب اور انقلابی شاعر ہیں۔ استبداد مخالفت اور انقلاب حمایت آپ کی ادبیات اور اشعار کا خاصہ ہے۔ یہاں غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور اس میں مصر کے کردار کے حوالے سے مصری عوام کے نام ایک پیغام کا اردو ترجمہ نشر کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)]

ا ے ہمارے مصر کے لوگو! میں یہ پیغام جنگ کے چھٹے ہفتے میں ریکارڈ کر رہا ہوں جبکہ غزہ میں ہمارے شہداء کی تعداد گیارہ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ پچھلے پیغامات کی طرح، ریکارڈنگ اور نشر کے درمیان یہ تعداد تبدیل ہوسکتی ہے۔

اے ہمارے مصر کے لوگو! مصر اسرائیل امن معاہدہ مصری فوج کو مشرقی سیناء میں بھاری ہتھیاروں سے لیس افواج تعینات کرنے سے روکتا ہے، اس طرح یہ مصری آئین سے بھی متصادم ہے، کیونکہ یہ فوج کو اپنے ملک کے ہر انچ کی حفاظت کرنے کی اپنی دستوری ذمہ داری سے روکتا ہے۔ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جو نہ کسی عوامی طور پر منتخب شخص نے کیا تھا، نہ کسی آزادانہ طور پر منتخب ادارے نے اس کی توثیق کی تھی، اور نہ ہی مصری عوام سے اس بارے میں پوچھا گیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود یہ معاہدہ بھی غزہ یا اس کی کراسنگ پر اسرائیل کے کسی حق کو تسلیم نہیں کرتا، اور غزہ کو مقبوضہ عرب علاقہ سمجھتا ہے، اور قبضہ جرم ہے اور جرم پر کوئی حق ثابت نہیں ہوتا۔ پس سیناء اور غزہ کے درمیان کراسنگ دونوں طرف سے ہی عرب کراسنگ ہے، پھر کیسے اسرائیل مصر کو پابند کرسکتا ہے کہ اس سے کیا چیز گزرے اور کیا نہ گزرے؟ مصری حکومت کیسے اپنے لیے روا کرتی ہے کہ وہ اس معاملے میں اسرائیل سے اجازت لے اور اپنی حدود پر اپنی خود مختاری پر سوال قائم کرے؟

اے ہمارے مصر کے لوگو! مصری حکومت نے سترہ سال سے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ مصری حکومت خود اس بات کا سبب ہے کہ غزہ فضائی دفاع کے ہتھیاروں سے خالی ہے، کہ گھروں، ہسپتالوں، گرجا گھروں، اسکولوں اور مساجد پر دشمن کی بمباری سے اپنی حفاظت کرسکے۔ مصری حکومت خود اس بات کا سبب ہے کہ فلسطینی مزاحمت کار کے پاس صرف اپنی شجاعت ہے، یا مقامی طور پر تیار یا سمگل کردہ ہتھیار ہے، جسے وہ اپنے ہاتھ میں لے کر دشمن کے ٹینک پر مارتا ہے، تاکہ اسے پسپا کرسکے۔ نہ کوئی قانون، نہ منطق، نہ مصر کا قومی مفاد اور نہ ہی خسیس امن معاہدہ مصر سے کہتا ہے کہ وہ غزہ کا محاصرہ کرے اور وہاں اسلحہ کی ترسیل روکے۔ اسلحہ تو چھوڑیے، خوراک، ادویات، ایندھن اور ہر وہ چیز جو عام شہریوں کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے، وہ بھی اتنی داخل ہوتی ہے جتنی بس تصویر میں دکھا دی جائے اور امداد کے داخلے کا نام لگ جائے۔ اور بس اسی قدر چیز داخل ہوتی ہے جتنی اسرائیل داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ زمینی محاصرہ تو جنگ کے اعمال میں سے ایک عمل ہے۔ اُن اچھے الفاظ کے باوجود جو فلسطینی مزاحمت مصر کے متعلق بولتی ہے، کیونکہ وہ تو ہر تھوڑی چیز کے بھی محتاج ہیں جو ان کی طرف بھیجی جائے، حقیقت یہ ہے کہ، حتیٰ کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق بھی، غزہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں مصری حکومت، غزہ کے لوگوں کا زمینی محاصرہ کرکے، اسرائیل کے ساتھ شریک ہے۔

اے ہمارے مصر کے لوگو! تمہارے سیاستدان تمہیں بتاتے ہیں کہ وہ غزہ سے سیناء کی طرف فلسطینیوں کی نقل مکانی کے خلاف ہیں۔ فلسطینی تو خود ہر عاقل انسان کی طرح یہ نہیں چاہتے کہ ان کا دشمن انھیں ان کے گھروں سے نکال دے۔ لیکن (تمہارے سیاستدانوں کا) یہ قول ایسا حق ہے جس سے مراد باطل ہے۔ تمہارے نقل مکانی کے خلاف ہونے کا یہ مطلب تو نہیں ہونا چاہیے کہ تم نقل مکانی کرنے والوں کے خلاف ہو۔ تمہارے نقل مکانی کے خلاف ہونے کا مطلب تو یہ ہونا چاہیے کہ تم انہیں نقل مکانی پر مجبور کرنے والوں کے خلاف لڑو، نہ کہ ان نقل مکانی کرنے والوں کے خلاف۔ جو کوئی نقل مکانی کے خلاف ہے تو اسے چاہیے کہ وہ فلسطینیوں کو اسلحہ دے تاکہ وہ اپنا دفاع کرسکیں یا کم از کم ان تک اسلحہ کی ترسیل نہ روکے۔ لیکن اگر تم ان سے اسلحہ، پانی، خوراک، ادویات اور ایندھن روکو اور ان کے دشمن کے ساتھ امن معاہدہ کرو جو ان پر بمباری کر رہا ہے، اور معمولی انسانی امداد کے پہنچانے کے لیے بھی دشمن کی اجازت کا انتظار کرو، پھر اپنی فوج کو ان کی سرحدوں پر جمع کرو، ساتھ یہ کہو کہ تم ان کی نقل مکانی کے خلاف ہو، گویا حقیقت یہ ہے کہ تم تو انسانوں کو ان کے دشمن کے حوالے کر رہے ہو کہ وہ انھیں قتل کردے، اور اگر وہ قتل سے بچ جائیں اور تمہاری طرف پناہ کے لیے لوٹیں تو تم خود انہیں قتل کرو۔

اے ہمارے مصر کے لوگو! بدیہی باتوں کو دہرانے میں کوئی حرج نہیں۔ دشمن وہ ہے جو غاصب اور قابض ہے، جس نے دو مرتبہ سیناء پر قبضہ کیا، اور وہ ایتھوپیا میں ڈیم بنا کر نیل کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اور نہر سویز کا متبادل زمینی راستہ بنا کر بے فائدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کا نفوذ ایتھوپیا میں ہے جہاں وہ ڈیم بنا رہا ہے، اس کا نفوذ جنوبی سوڈان میں ہے جسے وہ شمال سے الگ کرنے کی کوشش میں ہے، اور اس کا نفوذ دو عسکری لیڈروں کے درمیان منقسم شمالی سوڈان میں ہے، وہ دونوں تل ابیب کے ساتھ تعاون کے لیے خود کو تیار ظاہر کرتے ہیں۔

اے ہمارے مصر کے لوگو! دشمن کی اسٹریٹیجک فکر کا تقاضا ہے کہ مصر کمزور رہے، چاہے مصر کا حاکم اس کا حلیف یا دوست ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ حکام تو بدلتے رہتے ہیں، جبکہ مصر اپنی کثیر آبادی، وسائل کی فراوانی اور لوگوں کی فیاضی کے ساتھ باقی ہے، اور وہ اپنے حجم، تعداد اور وسائل کے ساتھ دشمن کے لیے حقیقی خطرہ ہے۔ دیکھو! مصر کے حکام نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا اور پچھلے پینتالیس سال سے اس کے حلیف ہیں، اور جس وقت امن معاہدہ کیا گیا تو کرنے والے نے گمان کیا تھا کہ یہ مصر کے لیے خوشحالی لائے گا اور خطے میں امن وسلامتی کا باعث ہوگا، مگر کیا اس وقت سے اب تک مصر مزید غریب اور کمزور نہیں ہوا؟ اور کیا فلسطینیوں کی موت ہی میں اضافہ نہیں ہوا؟ مصر سے امن معاہدے کے بعد سے دشمن نے غزہ، مغربی کنارے، لبنان، شام، عراق، سوڈان اور تیونس میں بمباری کی، اور سیناء میں کئی مرتبہ مصری فوجیوں کو قتل کیا، اور آج وہ نیل اور نہر سویز کے لیے خطرہ بن کر مصر کے پانی اور خوراک کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں ہے۔ یہ یک طرفہ امن معاہدہ ہے، اور پچھلے پینتالیس سال سے تل ابیب، بغیر کسی روک ٹوک اور جوابی کارروائی کے، تمہارے خلاف لڑ رہا ہے اور تمہیں تقسیم کر رہا ہے۔

اے ہمارے مصر کے لوگو! بےشک غزہ ایک قلعہ ہے جو دشمن کے مقابلے میں سیناء کی حفاظت کر رہا ہے۔ اور غزہ کا مسلح ہونا سیناء ہی کی حفاظت ہے، جبکہ غزہ کا کمزور ہونا سیناء کو دشمن کے ہاتھ میں نہتا یرغمال بناناہے، کہ جب چاہے دشمن اسے ہتھیا لے۔ لہٰذا رفح کراسنگ کھولو اور امن معاہدے کو اٹھا کر پھینک دو۔ صرف ان عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لیے نہیں جو تمہارے سامنے مارے جا رہے ہیں، بلکہ خود مصر کی آزادی کے لیے، اور نیل، سیناء اور نہرِ سویز کے دفاع کے لیے اور آنے والے کل اپنے آپ کو بھوک اور پیاس سے بچانے کے لیے۔ آج دشمن کا مقابلہ کرلو، بجائے اس کے کہ کل دشمن تم پر حملہ آور ہو، جب غزہ کے بغیر سیناء اور نیل کے بغیر مصر ہوگا۔

اے ہمارے مصر کے لوگو! دیکھو کہ غزہ کے لوگوں نے اپنے ہتھیاروں کا رخ کس کی طرف کر رکھا ہے، پھر اپنی گلیوں میں چلو اور ان لوگوں کے سینوں کو دیکھو جو تمہاری اس حکومت کو ہدایت دیتے ہیں جس نے اہلِ غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے اور اسلحہ کی ترسیل کو روکنے کے لیے ان کی طرف کراسنگ کو بند کر رکھا ہے۔

اے ہمارے مصر کے لوگو! تمہاری اس حکومت کی سیاست مصر کو بھی اسی قدر خطرے میں ڈال رہی ہے،جتنا کہ غزہ کو ڈال رہی ہے۔ اے ہمارے لوگو! میں ماں، پیدائش اور عمر کے لحاظ سے مصری ہوں، ہمارا خون ایک ہے۔ جو دشمن اس خون کو غزہ میں بہا رہا ہے، وہ اسے سیناء میں بھی بہائے گا، بلکہ قاہرہ میں بھی بہائے گا۔ تمہاری یہ حکومت لوگوں کو بھوکا اور پیاسا کر رہی ہے اور انہیں دشمن کے حوالے کر رہی ہے تاکہ وہ انہیں تمہارے نام پر قتل کردے اور تم سے اس جنگ کی اجازت مانگتی ہے۔ اگر تو یہ حکومت اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ توڑ دے تو پھر تو تم اسے جنگ کا اختیار سونپو کہ وہ جا کر لڑے، لیکن اب جبکہ اس نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر رکھا ہے، تو ایسے میں اسے جنگ کا اختیار دینے کا مطلب کیا ہے؟ تمہارے خیال میں وہ کس کے خلاف لڑے گی؟ پس انہیں جنگ کا اختیار نہ دو، تم تو بہتر جانتے ہو کہ پہلے بھی اس قسم کے اختیار سے کتنا خون بہا ہے۔ پس تم انہیں اتنا اختیار نہ دو کہ وہ ہمیں بھوک وپیاس پر مجبور کریں اور ہم پر بمباری کریں، اور یہ سب کچھ تمہارے نام پر ہو۔

اے مصر والو! اللہ سے ایسے حال میں نہ ملنا کہ تمہارے ہاتھ ہمارے خون، اپنے بیٹوں اور اپنی بیٹیوں کے خون سے رنگین ہوں اور نہ ہی تاریخ میں یوں اپنا نام لکھوانا۔ پس اس روز کسی کو ندامت کام نہ آئے گی جب وہ اپنے ہاتھوں پر خون دیکھے گا، جب وہ دن کے چوتھے پہر میں مرنے والوں کی تفاصیل دیکھے گا، ان کے ناموں اور ان کے چہروں کے ساتھ۔ پس یقین جانو کہ پورے فلسطین کی آزادی ممکن ہے اور یقین جانو کہ دونوں (فلسطین اور مصر) کی آزادی ممکن ہے۔ اور اللہ کی رضا ہی میری بات کا مقصود ہے۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version