فلسطینی بچے

جب بھی فلسطینی بچوں کو دیکھیں تو ایمان تازہ ہو جاتا ہے ۔ ہیں تو وہ بھی بچے ہی، لیکن عام بچوں کی طرح نہیں، ایمان، صبر، جذبہ، استقامت، توکل، شوقِ شہادت، ہر چیز میں ہی بے مثال، آئیڈیل بچے ہیں۔

فلسطین کے ان معصوموں کی صورت میں ایمان مجسم ہے…… بچے بچے کی تربیت اور مضبوط ایمان دیکھ کر رشک آتا ہے، اتنے مبارک بچے ہیں یہ کہ جب کھیل کھیلتے ہیں تو وہ بھی شہید شہید والا کھیل…… یہودیوں کو یہ احساس ہی نہیں کہ وہ ایک ایسی بہادر قوم کا سامنا کر رہے ہیں، جس کے بچے شہیدوں کے جنازے کا کھیل کھیلتے ہیں اور شہید کا روپ اختیار کرنے والا بچہ ہی ان میں سب سے زیادہ خوش نظر آتا ہے ۔

شوق شہادت سے معمور

فلسطینی بچوں میں شوقِ شہادت بھی بے مثال دیکھنے کو ملتا ہے، اسرائیلی بمباری میں شہید ہو کر ملبے تلے دب جانے کی صورت میں ان کے جسموں کی پہچان ہو سکے، اس لیے ان ننھے پھولوں نے خوشی خوشی اپنے ہاتھوں، پیروں پر اپنے نام لکھوانے شروع کیے اور جنت کے مہمان بننےکے لیے پہلے سے ہی مکمل تیار ہو گئے۔

جی ہاں! بہادر اور ایمان سے معمور دلوں کے مالک یہ معصوم بچے فلسطین کے ہی بچے ہیں جو اپنے ہاتھوں سے مٹی نکال کر ملبے کے نیچے تلے دبے ہوئے اپنے پیاروں کو تلاش کرتے ہیں۔

اسرائیل کے دشمن

فرعون مصر کو خوف تھا کہ بنی اسرائیل میں کوئی ایک بچہ اس کے اقتدار کا خاتمہ کر دے گا لہٰذا اس نے بچوں کا قتل عام کروا دیا۔ آج بھی وقت کے فرعون کو خوف ہے کہ فلسطینی بچے اس کی ناجائز ریاست کا خاتمہ کر دیں گے، لہٰذا وہ بھی بچوں کا قتل عام کررہا ہے۔

یہودی ان معصوم بچوں کو بھی اپنا حقیقی دشمن ہی سمجھتے ہیں۔ ۷ اکتوبر سے اب تک تقریباً پندرہ ہزار بچے شہید ہو چکے ہیں جبکہ صہیونی جیلوں میں ۴۰۰ فلسطینی بچے اب بھی قید ہیں۔اللہم فک اسرانا واسر المسلمین

انسانی حقوق کے نعرے لگانے والے اور ہر بات پر مغرب کی مثالیں دینے والے آج کہاں ہیں؟

کہاں گئی ان کی انسانیت؟ کہاں گئی ان کی تہذیب و ثقافت؟ کہاں گئی ان کی سوچ و فکر کی وسعتِ نظری؟

یا پھر یہ سب کچھ صرف کفار کے بچوں کے لیے ہی ہے ……؟

قرآن سے تعلق

قرآن پاک وہ عظیم الشان کتاب ہے جو زندگی کی ہر راہ میں مومن کو تقویت بخشتا ہے، رہنمائی کرتا ہے، حوصلہ بڑھاتا ہے، تسلی دیتا ہے، سکون بخشتا ہے، خوشخبریاں سناتا ہے، مایوسیوں سے نکال کر یقین کا جگنوہاتھ میں تھماتا ہے۔

اس مبارک کتاب سے تعلق میں بھی فلسطین کے بچوں کا کوئی ثانی نہیں۔ بدترین بمباری اور چوبیس گھنٹے سروں پہ ڈرون طیارے منڈلاتے رہنے کے با وجود بھی حفظ قرآن کی مجالس اسی شان و شوکت سے جاری ہیں۔ رب العالمین اور قرآن عظیم الشان سے جس قوم کا تعلق اتنا مظبوط ہو اسے بھلا کون شکست دے سکتا ہے؟

ایک فلسطینی بچے اور صحافی کے درمیان مکالمہ

صحافی: ’’آپ کو کیا پسند ہے؟‘‘

بچہ: ’’جوانی……‘‘

صحافی: ’’کیا مطلب؟‘‘

بچہ: ’’ہم بچے فطری طور پر کمزور ہوتے ہیں، جوان آدمی کے پاس طاقت ہوتی ہے، اس کی سوچنے کی صلاحیت ہم سے زیادہ ہوتی ہے، وہ بااختیار ہوتا ہے اور مجھے اس دن کا شدت سے انتظار ہےکہ جب میں اپنی جوانی کو اقصیٰ پر فدا کروں گا تاکہ روزِ محشر اللہ مجھے ملامت نہ کریں کہ میں نے تمہاری پیدائش کے لیے دنیا کا بہترین مقام چنا، بتا تو نے میرے لیے کیا کیا؟ چچا جان! میں اس سوال سے بچنا چاہتا ہوں یا کم از کم میرے پاس بہترین جواب ہونا چاہیے۔‘‘

یہ سوال تو سب سے ہونا ہے…… عام آدمی سے لے کر بادشاہ ، جنرل ، وزیر مشیر وغیرہ سب سے…… تو کیا ہم نے کچھ سوچا اس کا جواب……؟

وطنِ عزیز میں بچوں کی تربیت

ایک طرف فلسطین کے یہ بہادر اور شوقِ شہادت سے سرشار بچے اور دوسری طرف وطنِ عزیز کے ٹک ٹاکر بچے…… جن کے والدین کے لیے فخر کی بات ہی یہ ہے کہ بچے کو ڈانس کرنا آتا ہو…… انگریزی میں بات کرنا آتا ہو…… پھر چاہے وہ جو بھی کرتا پھرے کوئی بات نہیں…… پہلے بچیوں کے لباس پہ لوگ خاص توجہ دیتے تھے، اب تو اس چیز کی فکر ہی ختم ہوگئی ہے کہ لباس کیسا ہونا چاہیے۔ اب تو دیندار اور مذہبی گھرانوں کے بچے بچیوں کا لباس دیکھ کر بھی انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ اگر کسی کے بچے گانے اور ڈانس سے بچے ہوئے ہیں تو انہیں ان کے والدین نے کارٹون دیکھنے کا عادی بنا دیا ہے،جس میں جن چیزوں کو بچے بچپن سے دیکھتے ہوئے آتے ہیں وہ چیزیں انہیں ہلکی محسوس ہونے لگتی ہیں اور اگر کوئی اصلاح کی نیت سے اس کے خلاف بات کرے تو ان کو متشدد کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔ اللھم ارحمنا۔

بچوں کی درست تربیت

بچوں کی تربیت کے حوالے سے شیخ صالح العصیمی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

’’اے خواتین کی جماعت! مال اور لذیذ کھانوں سے بڑھ کر رجالِ کار کی تیاری پر توجہ دیجیے، امت کا مستقبل پلی پلائی بھیڑوں کا نہیں بلکہ ایسے مضبوط اجسام کا متقاضی ہے جن میں ایمان سے معمور دل ہوں اور بچے اپنی ماؤں کے دین پر ہی تو ہوتے ہیں۔‘‘

اب عہد غلامی کی سب عادات بھلا دو
ہر بچے کو اسلام پر مر مٹنا سکھا دو

٭٭٭٭٭

Exit mobile version