۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ کا ایک منظر وہ ہے جو تین ماہ کے بعد بھی جاری بلاناغہ بمباری، اموات اور خوفناک انسانی المیے کی صورت میں سبھی دیکھ رہے ہیں۔ دوسرا منظرسیاسی جوڑ توڑ، امریکہ، یورپ کی قیادت کا پوری ڈھٹائی سے جنگ بندی سے انکار ہے۔ تیسرا منظر ان تھک مظاہروں کا ہے جس کا تمام تر جوش وخروش مغربی عوام کے مظاہروں، مختلف فورمز پر آواز اٹھانے کا ہے۔ مسلم ممالک کا حال نہ پوچھا جانا ہی بہتر ہے۔ سبھی مسلمان ریموٹ کنٹرول غلامی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ امریکی، مغربی عوام جب اس فکری، نظریاتی، زمینی، نو آبادیاتی تسلط کے خلاف تحریک میں کامیاب ہو گئے تو آ کر ہمیں بھی آزاد کرا دیں گے۔ اس وقت تک ہم سیکولر ازم اور غیرجانبداری کا دھتورا پیے، مغربی حکمرانوں کی معاشی فکری غلامی نبھائیں۔ مغرب میں بہتوں نے نظام سے بغاوت کر ڈالی! ڈٹ کر، بلند آہنگ، مالی، معاشی نقصانات، متنازع ہو جانے کے جھٹکے برداشت کرکے روشن ضمیری سے فلسطین کی مظلومیت کو درد سر، درد جگر بنا لیا ہے! امریکی انتخابات، عوام کے اتنے واضح دوٹوک مؤقف کے ہاتھوں گویم مشکل وگر نہ گویم مشکل کی کشمکش میں ہیں۔ غزہ والا سچ بولیں تو یہودی سرمایہ دار ’جمہوریت‘ کو ٹکا نہ دیں، جمہوری بیساکھیاں کھینچ لیں۔ اسرائیل کی ہم نوائی کریں تو ووٹ بینک کا دیوالیہ پٹ جائے۔ جمہوریت کی قلعی بھی کھل گئی کہ یہ جھوٹ، دجل، مفادات اور پیسے کا کھیل ہے! عوام کے لیے جھوٹے وعدے لارے لپے۔ عوام سے ٹیکسوں کا پیسہ نچوڑکر غزہ کے بچے مارنے پر نچھاور!
دنیا بھر میں نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ ملک کے مستقبل کی صورت گری کرتا ہے۔ ہر ملک میں بالعموم اور مغرب میں بالخصوص اعلیٰ تعلیمی اداروں سے قیادتیں بن کر نکلتی ہیں۔ بڑی پرائیویٹ یونیورسٹیاں فیڈرل فنڈ تو وصول کرتی ہیں مگر آزادیٔ اظہار اورتعلیم وتدریس کی آزادی ان کی روایت رہی ہے۔ ناگوار، ناپسندیدہ تصورات پر بھی اظہارہوتارہا۔ ویتنام کی ناحق جنگ پریونیورسٹیوں کے کیمپس ہی تھے جہاں سے نوجوانوں نے بھرپور مخالفت کی تھی۔ ملک کا دماغ، یہی باشعور طبقہ، بعدازاں ملکی اداروں، سیاست، تجارت پر ہرجا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ امریکی، مغربی اعلیٰ پائے کے تعلیمی مراکز دنیا بھر میں معلم، مدرس، حکمران فراہم کرتے ہیں۔ تکنیکی اور علمی فراست وصلاحیت اپنی جگہ، مگر ہماری تیسری دنیا کے ممالک کے ایسے افراد عموماً دین سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مغربی ممالک کے مفادات کے محافظ بن کر اپنے ملکوں میں، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف میں انہی کے آلۂ کاربنتے ہیں۔جیسے اشرف غنی، زلمے خلیل زاد افغانستان میں امریکی ایجنڈے پر کام کرتے رہے! آزاد ممالک کے روشن ضمیر دنیا بھر کے معاملات کو بے لاگ عدل وانصاف کے پیمانے پر جانچتے تولتے آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں نسلی منافرت ہو یا خود امریکہ میں سیاہ فام آبادی کے حقوق کا مسئلہ۔ اب فلسطین میں محافظینِ قبلہ اول کو امت نے بھلا دیا۔ بدترین غلامی، جبر وتشدد میں گھٹ گھٹ کر مسجد اقصیٰ کے لیے قربانیاں دینے والوں سے ہم بے پروا رہے۔ (سب سے پہلے پاکستان! نہ امت نہ مقدسات نہ شعائر اللہ!) امریکہ میں اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے طلبہ و اساتذہ، باشعور طبقہ طوفانِ اقصیٰ سے دو ماہ پہلے ہی اقدام کر چکا تھا۔ ۲ اگست ۲۰۲۳ء کو ایک کھلا خط جاری ہوا۔ اس میں امریکہ میں مقیم یہودی (۶۳لاکھ) اور ان کی قیادت کو ناراض اسکالرز نے فلسطین میں جاری نسلی منافرت پر مبنی اسرائیلی پالیسیوں اور اس کے ہولناک نتائج پر متوجہ کیا۔ یہ خط بنیادی انسانی حقوق سے فلسطینیوں کی محرومی اور یہودی برتری کے زعم کا پردہ چاک کرتا ہے۔ ’اپارتھائیڈ‘ قرار دیتے ہوئے، قوانین کی تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہتا ہے: ’مزید خاموشی نہیں رہے گی۔ عمل پیرا ہونے کا یہی وقت ہے‘ یہودی امریکی قیادت کو مچھر چھاننے اور اونٹ نگلنے کے رویے پر متوجہ کرتا ہے، کہ وہ چھوٹے مسائل اور مہمات پر تو خوب متحرک رہتے ہیں مگر اسرائیل میں فلسطینیوں کے خلاف جاری اپارتھائیڈ پالیسیاں یکسر نظر انداز کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ’اپارتھائیڈ‘ اصطلاح بین الاقوامی سیاسی سطح پر ایک گالی سمجھی جاتی ہے۔ یعنی نسل رنگ کی بنیاد پر کسی قوم کو محکوم رکھ کر ان کی ہمہ گیر تذلیل، استحصال کو قانونی شکل دینا۔ جیسے (ڈچ) ولندیزیوں نے وسائل سے پُر بڑے ملک جنوبی افریقہ پر نوآبادیاتی تسلط کے تحت مقامی آبادی کو ہر سطح پر اچھوت بناکر رکھا۔ قوانین بنا کر پسماندگی کی دلدل میں دھکیل کر سفید فام نسلی برتری کے زعم میں لوٹا، رگیدا! (مقامی اور گلوبل تحریک نے مکمل نظام بدل ڈالا۔)
۷ اکتوبر، طوفان اقصیٰ نے مذکورہ بالاخط کی مکمل تائید کر دی۔ اسرائیل بے نقاب ہوگیا۔ مغرب میں عوام اور امریکہ میں ہارورڈ، پنسلوینیا، ایم آئی ٹی جیسی مایہ نازکئی یونیورسٹیاں ملک بھر میں بیک زبان فلسطین کی آزادی کے لیے مظاہروں، مہمات میں جت گئیں۔ حکومت اور یہودی لابی تھرا اٹھی۔ چنانچہ تینوں یونیورسٹیوں کے صدور کو کانگریس ممبران نے لائن حاضر کردیا۔ Anti-Semitism، یہود مخالفت کے الزام پر گھیر کر تند وتیز سوالات کی بوچھاڑ رہی۔ Penn یونیورسٹی کی صدر الزبتھ مگِل نے استعفی دے دیا۔ ہارورڈ کی (سیاہ فام) صدر پر شدید دباؤ، سوشل میڈیا پر دھمکیاں اور نسلی کمتری کے طعنوں سے تنگ آکر انہوں (کیلنڈائن گے) نے بھی استعفیٰ دے دیا۔ (اس پر شدید تنقید امریکی میڈیا میں، یونیورسٹیوں میں ہوئی۔) شدید دباؤ، دھونس دھمکی، نوکریوں سے محرومی کے باوجود مظاہرے جاری رہے۔ خط پر بھی بہت نامی گرامی شخصیات نے دستخط کرکے مکمل اتفاق رائے کا اظہار کیا۔ اس میں اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے پروفیسر، پروفیسر ایمریطس، نوبل انعام یافتگان، محقق، مصنفین، اسکالر، ڈاکٹر، فلم میکر، امریکہ، یورپ سے دستخط کنندگان ہیں۔ یہ تعداد بہت جلد ۲۸۹۸ پر پہنچ گئی تو دستخط وصولی کے لیے یہ فورم بند کردیا گیا۔
ایک اور خط بائیڈن کے نام دسمبر ۲۰۲۳ء میں جاری کیا گیا جس کا عنوان تھا: بائیڈن! ’غزہ پر حملہ بند کرو!‘ اس خط میں فلسطینیوں کی ۷۵ سالہ بے دخلی، دربدری، ۵۶ سالہ (اسرائیلی) قبضہ اور 16سالہ ناکہ بندی کو بدترین تشدد اپارتھائیڈ، تاریخی ظلم، عدم انصاف کا ذمہ دار ٹھہرایا، اور غزہ پر بمباری سے بدترین انسانی بحران سے دوچار کرنے کے ظالمانہ جرائم کا بھرپور تذکرہ کیا ہے۔ صدر بائیڈن سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ پر اسرائیلی حملے کی غیرمشروط حمایت بند کرے۔ اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین کی دیدہ دلیرانہ خلاف ورزی بھی اسی حمایت کا شاخسانہ ہے۔ تاریخی ظلم، عدم انصاف بلاروک ٹوک جاری ہے کیونکہ امریکہ اسرائیل کو اجازت دیتا ہے کہ یو این کی پابند کرنے والی قراردادوں کے عملاً پرزے اڑائے جائیں، مذاق بنا ڈالا جائے۔ امریکہ کو لازماً بنیادی فکر وفلسفے کی مکمل تبدیلی کی راہ ہموار کرنا ہوگی۔ مختصر اور مناسب دورانیے میں تنازع حل کرنا ہوگا۔ بائیڈن کو فوری، دیرپا جنگ بندی، غزہ کو انسانی ضروریات کی فی الفور فراہمی اور یرغمالیوں؍قیدیوں کے تبادلے میں رہنما کردار ادا کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس خط پر بھی دستخط کنندگان دنیا بھر کے اعلیٰ ترین دماغ، صاحبانِ تحقیقی وتعلیمی جاہ وجلال و وقار کی حیران کن فہرست ہے۔ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، یورپ کے بڑے ناموں پر مشتمل ۲۲۹۵ افراد دستخط کنندگان ہیں۔ مسلمان طالب علم، اساتذہ، علمی شخصیات کہاں ہیں؟ ہمارے ہاں ۲۰۰۱ء سے یونیورسٹیوں کالجوں کو رواداری، برداشت، روشن خیالی، کھا لے پی لے ناچ گا بجا لے پر رواں کر دیا گیا۔ طالب علم کو (اعلیٰ نظریات، فکر ونظر، شعور کی آبیاری کی جگہ) ہالو وین، ویلنٹائن، ہولی، دیوالی، بون فائر، عشق عاشقی کی ’ہم نصابی‘ سرگرمیوں میں مصروف کر دیا گیا۔ سیاسی شعور، لسانی، صوبائی تعصبات پر اٹھائی گئی تنظیموں کی نذر ہوا۔ سو اب اس پر سرپھٹول، فائرنگ، جھگڑے، سوشل میڈیا زہریلی پوسٹیں چلتی ہیں۔ تعلیمی معیار زوال کی فری فال پر ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بھی چھوٹی گلی محلے کی یونیورسٹیوں تک کی اہلیت پیسے کے زور پر بنتی ہے ۔ سو عالمی منظرنامے پر نگاہ، انقلابی سوچ فکر کی صلاحیت بانیانِ پاکستان اور پچھلی نسلوں کے ساتھ دفن ہوگئی۔ اسلام سے تو پہلے ہی عصری تعلیم یافتہ طبقہ ہاتھ دھوئے بیٹھا تھا۔ سو نہ غزہ کی اعلیٰ ایمانی کیفیات، بے مثل شجاعت صبر وثبات سے بہرہ مند ہوئے، نہ ہی اقوامِ عالم میں قابلِ ذکر کردار کے لائق ہو پائے۔
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
[یہ مضمون ایک معاصر روزنامے میں شائع ہو چکا ہے۔ مستعار مضامین، مجلے کی ادارتی پالیسی کے مطابق شائع کیے جاتے ہیں (ادارہ)]
٭٭٭٭٭