طوفان الاقصیٰ نے حق و باطل میں تفریق مزید واضح کردی۔ جیسے جمہوریت کے فریب کوہی لے لیجیے۔ طوفان الاقصیٰ نے اس کو بھی مزید واضح کیا کہ جمہوریت ہمارے مسائل کا حل نہیں بلکہ یہ تو خود ایک مسئلہ ہے ہمارے لیے۔اس حوالے سے ایک کہانی یاد آگئی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے ایک رشتہ دار نے الیکشن کے دنوں میں ایک سیاسی شخصیت کا ساتھ اس لیے دیا تھا کہ ان کے کاروبار میں ایک رکاوٹ تھی جس کا لائسنس ان سیاسی شخصیت نے مہیا کیا تھا۔
کالج دور میں مطالعہ پاکستان کے استاد جی بہت جمہوریت پسند تھے۔ وہ جمہوریت کے ’ووٹی‘ انتخاب کو کبھی حضرت عثمان غنی کے خلیفہ مقرر ہونے سے ثابت کرتے تو کبھی پارلیمنٹ کو شوریٰ سے۔ بہرحال ان کی یہ بات مجھ پر اثر کرگئی تھی کہ ووٹ اپنے ذاتی فائدے، مقصد کے لیے نہ دیں بلکہ اجتماعی فائدے و ضرورت کے لیے دیں کیونکہ آپ پورے ملک کے لیے قانون ساز افراد کو چن رہے ہوتے ہیں نہ کہ فقط اپنی ذاتی خدمت کرنے والوں کو۔
اس اصول کے مطابق تو ہمارے وہ رشتہ دار غلط ہی ٹھہرے کہ اپنے کاروباری لائسنس کے لیے سیاست دان کا ساتھ دیا۔ لیکن جیسے ہی وقت گزرتا گیا تو یہ بات سمجھ میں آنا شروع ہوئی کہ رشتہ دار صاحب نے عین سمجھداری کا کام کیا تھا۔جاننا چاہیں گے کیوں؟
تو عرض یہ ہے کہ جس سسٹم سے یا جس آلے( instrument) سے ایک کام ہو ہی نہیں سکتا اگر کوئی اس سے وہ کام لینا چاہےتو یہ کہا کی عقلمندی ہے؟ مثال کے طور پر ایک بھائی ہتھوڑے سے زمین کھود رہا ہے تو آپ یہی کہیں گے ناں کہ بھائی جان ہتھوڑے سے زمین نہیں کھدے گی بلکہ اس کے لیے کدال کی ضرورت ہے۔ ہتھوڑا تو کیل ٹھونکنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
بالکل اس ہی طرح مسلم ممالک میں رائج عالمی طاغوتی نظام سے منسلک جمہوریتیں بالکل ایک غلط سسٹم ہے جس سے مسلمانوں کے مسائل حل نہیں کیے جا سکتے، کیونکہ یہ بنیادی طور پر اسلام کے نظریات کے خلاف ہے اور اس ہی لیے جو دین سے وابستہ افراد اس نظام کا حصہ بنتے ہیں وہ بھی اس میں شمولیت کے لیے تاویلات کا سہارا لیتے ہیں اور انسان اپنے لیے قوانین وضع کرنے میں با اختیار ہو اس کفریہ عقیدے سے وہ برأت کرتے ہیں۔
اس نظام میں شامل افراد سے ذاتی مسائل جیسے کاروبار کا لائسنس، بیٹے کے لیے نوکری دلوانا، گلی پکی کرلینا، گیس کا میٹر لگوالینا، سرکاری یونیورسٹی میں بچے کا داخلہ کروالینا وغیرہ وغیرہ کا حل تو نکالا جاسکتا ہے لیکن امتِ مسلمہ کو درپیش اصل مسائل کا حل اس سے نکالنا ناممکن ہے۔
امت کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟
پہلے تو اس جمہوری نظام میں اس بارے میں گفتگو ہی نہیں ہوتی کیونکہ ہماری جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں ان کو اس نظام میں رہنے کے لئے، دیگر الفاظ میں سیلیکٹ ہونے کے لیے سب سے پہلے امریکہ و یورپ کو خوش کرنا ہوتا ہے اور بعد میں ان کے مسلط کردہ جرنیلی ٹولے کو۔ اب جب بات امریکہ کی آگئی تو میرے اور آپ کے اجتماعی مسائل کے حل ہونے کے سوال کا تو سوچ کی دنیا میں ہی خاتمہ ہو جاتا ہے۔
اس کی واضح مثال حالیہ تناظر میں مسئلۂ فلسطین ہے۔ غزہ میں جاری مسلمانوں کا قتلِ عام۔ پاکستان، امتِ مسلمہ، بلکہ پوری دنیا کی عوام اس ظلم کے خلاف ہیں لیکن ہمارے حکمران(فوج کی طرف سے مسلط نگران کٹھ پتلیاں) اور وہ سیاسی قائدین جو الیکشن(سلیکشن) کمپین چلا رہے ہیں، اس حوالے سے بالکل ڈھیلے پڑے ہوئے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر ان میں سے کوئی اس طرح کے ایشو (کشمیر و فلسطین وغیرہ) کو اپنے منشور کا بنیادی حصہ بنائیں گے تو ان کی سلیکشن تو خطرے میں پڑ جائے گی۔
اس لیے ہمارے ملک کی سیکولر جماعتوں کے ساتھ ساتھ ہماری مذہبی جمہوری جماعتیں بھی بہت احتیاط سے اس مسئلہ کا نیم سا، بے اثر تذکرہ کرتی نظر آتی ہیں۔ مطلب اگر کوئی بات کرتا بھی ہے تو اس حد تک کہ غزہ کے لیے امداد (مالی، خوراکی وغیرہ) بھیجی جائے اور اصل مسئلہ کے حل، جس کے لیے خود اہلِ غزہ کٹ مررہے ہیں، یعنی ظالم صہیونی یہودیوں سے جہاد و قتال، اس پر بحث یا کوئی ایجنڈا موجود نہیں۔
اس لیے سوشل میڈیا پر یہ ٹرینڈ بہت مشہور ہوا کہ:
Do not just support them when they are dying but support them when they are fighting.
ان کی حمایت صرف تب مت کرو جب وہ مر رہے ہوں بلکہ تب کرو جب وہ لڑ رہے ہوں۔
لیکن اس بنیادی نقطے پر جمہوری سسٹم و ماحول کے اندر رہتے ہوئے عمل کرنا ناممکن ہے اور یہی امتِ مسلمہ کے تمام مسائل کی روداد ہے۔
بس پھر فائدے میں وہ ہی رہا جس نے اس سسٹم سے ذاتی مفاد حاصل کیا کیونکہ امت کا اجتماعی مفاد یا بالفاظ دیگر امت کا دفاع اس نظام سے، جو خود ہمارے عظیم دشمن انگریز نے ہمیں دیا ہے، ناممکن ہی ہے اور اسی لیے ہمارے دشمن نے جمہوریت کا یہ آلہ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا تھا کہ اس سے اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا بلکہ الٹا یہ اپنا نقصان ہے اور بس۔
اس نظام میں کامیاب وہ ہے جو سب سے زیادہ امریکہ کا وفادار ہے، اس لیے ہر پارٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ امریکی ایماء پر چلے۔ اس کی تازہ مثال موجودہ وزیراعظم کا امریکہ کی خوشنودی کے لیے فلسطین کے حوالے سے اپنے روایتی موقف سے انحراف کرنا ہے۔ ظاہر ہے کاکڑ صاحب نے آگے بھی حکومت میں جگہ بنانی ہے، اس کے لیے وہ اس حد تک نیچے جانے کو تیار ہیں کہ بانیِ پاکستان کے اسرائیل کے بارے میں موقف کہ ’اسرائیل کوئی سٹیٹ ہے ہی نہیں‘ کو تبدیل کرنے لگ جاتے ہیں اور مسئلۂ فلسطین پر ’دو قومی نظریہ‘ کا اطلاق کرتے ہیں۔ لا حول ولا قوۃ……
حالانکہ جناح صاحب کا اسرائیل کے بارے میں سخت موقف ان کے اس جملے سے اخذکیا جا سکتا ہے کہ:
Israel is the bastard child of Europe.
اسرائیل یورپ کی ناجائز اولاد ہے۔
تو یہ ہے اس جمہوری سسٹم کا اصل چہرہ۔ بہرحال اب تو حالات اتنے ابتر ہوچکے ہیں کہ اس سسٹم سے تو لوگ اب اپنے ذاتی مفادات بھی حاصل نہیں کرپارہے۔
طوفان الاقصیٰ نے اس جمہوری سسٹم کی ایک اور خامی واضح کی، وہ یہ کہ پوری دنیا میں، امریکہ سےلے کر عرب و پاکستان تک عوام اسرائیلی ظلم کے اور اسرائیلی نسل کشی کے سخت مخالف ہیں، جبکہ ریاستیں اس کے برعکس ہیں۔ یہاں جمہوریت کا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہوجاتا ہے کہ جمہوریت عوام کی حکمرانی یا عوام کی چاہت و امنگوں کی ترجمانی کرتی ہے۔
مسلم ممالک کی عوام ہر پلیٹ فارم پر اپنی افواج کو اہلِ غزہ کی عسکری مدد کے لیے پکار رہی ہیں لیکن وہیں پر تمام جمہوریتیں اس حوالے سے خاموش ہیں اور اپنی افواج کو کسی ادنیٰ درجے میں بھی متحرک نہیں کر سکتیں۔ اسی طرح امریکہ و یورپ میں عوام اس جنگ میں اسرائیل کی مدد کرنے کے خلاف ہے اور فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن ان کی ریاستیں اسرائیل کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر رہی ہیں۔ تو یہ ہے جمہوریت کی اصلیت۔
طوفان الاقصیٰ نے دنیا کے جمہوریتوں کے پیچھے کھڑے عالمی اداروں جیسے اقوام متحدہ یا عالمی عدالت برائے انصاف (آئی سی جی) کی حقیقت و وقعت بھی سب پر واضح کردی۔ یہود و امریکہ جو اقوام متحدہ کے قوانین و فرامین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں وہ بالکل بھی مسئلہ نہیں جبکہ دوسری طرف کوئی دوسرا غریب ملک تھوڑا بھی ریسپانس دکھائے تو فوراً پابندیوں و قیود کی بھرمار۔ اس دجالی نظام کی سب سے بڑی برائی اس کا یہی ڈبل سٹینڈرڈ ہے جو مظلوم و کمزور کے لیے الگ اور طاقتور و ظالم کےلئے الگ ہے۔
پس اے میرے پاکستان کے مسلمان بھائیو!
اگر اپنے اور امت کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں تو اس جمہوری کھیل تماشوں کو خیرباد کہہ دیں اور اسلامی نظام کے لیے اسلام کے بتائے ہوئے طریقے پر گامزن ہوجائیں۔ اسلامی طریقہ پیچیدہ نہیں بلکہ بہت واضح ہے جو ہمیں ہمارے پیارے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عملی طور پر دکھلایا کہ دعوت ، اعداد و قتال سے نظام قائم کیا اور رہتی دنیا تک ایک بے مثال مملکت و ریاست کی بنیاد رکھی۔ پس ہمیں اپنے مسائل کے حل کرنے کے لیے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے طریقے پر ہی چلنا ہوگا۔
٭٭٭٭٭