طوفان الاقصیٰ کے حوالے سے حماس کا بیانیہ

پیش لفظ

غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کے تناظر میں ، فلسطینی مسلمان خود مختاری، وقار، اور طویل ترین قبضے سے آزادی کے حصول کے لیے جو جنگ لڑ رہے ہیں اس میں انہوں نے اسرائیلی جارحیت و بربریت کے مقابلے میں بے مثال بہادری اور جوانمردی کا مظاہرہ کیا ہے۔

کچھ عرصہ قبل حماس کی جانب سے ۷ اکتوبر کو شروع ہونے والی کارروائیوں کی حقیقت، اس کے مقاصد اور اس کا فلسطینی تحریک سے تعلق واضح کرنے کے لیے اور اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی الزامات کا رد کرتے ہوئے، اصل حقائق سامنے لانے کے لیے ایک بیانیہ جاری کیا گیا (هذه روايتنا،لماذا طوفان الأقصى)۔ یہاں اس بیانیے کے دو حصے طوفان الاقصیٰ کی وجوہات اور اسرائیلی الزامات کے رد کا اردو میں خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔

طوفان الاقصیٰ آپریشن کی وجوہات

اسرائیلی حکام متعدد مواقع پر دہرا چکے ہیں کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کو قطعی طور پر مسترد کر تے ہیں۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن سے صرف ایک ماہ قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے دنیا کے سامنے نام نہاد ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کا نقشہ پیش کیا، جس میں اسرائیل کی حدود کو مغربی کنارے اور غزہ سمیت دریائے اردن سے بحیرۂ روم تک مکمل علاقے تک پھیلا دکھایا گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اس متکبرانہ تقریر کے جواب میں ساری دنیا خاموش اور فلسطینیوں کے حقوق سے لاتعلق بیٹھی رہی۔

۷۵ سالہ بے رحم قبضے اور سختیوں، فلسطینی عوام کی آزادی اور واپسی کی تمام کوششوں میں ناکامی اور نام نہاد امن عمل کے تباہ کن نتائج دیکھنے کے بعد دنیا فلسطینی عوام سےدرج ذیل کے جواب میں کیا توقع رکھتی تھی؟

اس سب کے جواب میں فلسطینی عوام سے کیا توقع کی جا رہی تھی؟ کہ وہ انتظار کریں اور بے بس اقوام متحدہ پر انحصار کیے رکھیں؟ یا فلسطینی عوام، زمین ، حقوق اور مقدسات کے دفاع کے لیے قدم بڑھائیں، یہ جانتے ہوئے کہ دفاع کرنے کا حق عالمی قوانین، روایات اور قراردادوں میں ثبت ہے۔

مندرجہ بالا امور کو دیکھتے ہوئے، ۷ اکتوبر کا آپریشن طوفان الاقصیٰ فلسطینی عوام اور ان کی تحریک کے خلاف اسرائیلی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ضروری اقدام اور فطری رد عمل تھا۔ یہ اسرائیلی قبضے سے نجات، فلسطینیوں کے حقوق کے حصول اور دنیا کے تمام دیگر لوگوں کی طرح آزادی و خودمختاری کے حصول کی خاطر ایک دفاعی اقدام تھا۔

۷ اکتوبر کے واقعات اور اسرائیلی الزامات کا رد

  1. ۷ اکتوبر کو آپریشن طوفان الاقصیٰ نے اسرائیلی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا اور دشمن کے سپاہیوں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تاکہ اسرائیلی حکام پر دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ قیدیوں کے تبادلے کے عمل کے ذریعے اسرائیلی جیلوں میں بند ہزاروں فلسطینیوں کو رہا کرے۔ اس لیے اس آپریشن میں پوری توجہ اسرائیلی فوج کے غزہ ڈویژن اور غزہ کے نواح کی اسرائیلی آبادیوں میں اسرائیلی فوجی تنصیبات کو تباہ کرنے پر مرکوز تھی۔

  2. عام شہریوں بالخصوص بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو نقصان پہنچانے سے اجتناب کرنا مجاہدین کا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ آپریشن کے دوران فلسطینی مجاہدین مکمل طور پر منظم اور دینی اقدار کے پابند رہے اور انہوں نے صرف قابض فوجیوں کو اور ان کو نشانہ بنایا جنہوں نے فلسطینیوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ اس دوران فلسطینی مجاہدین عام شہریوں کو نقصان پہنچانے سے بچنے کی پوری کوشش کر رہے تھے حالانکہ ان کے پاس اس مقصد کے لیے مناسب ہتھیار بھی نہیں تھے۔ مزید برآں اگر عام شہریوں کو نشانہ بنانے کا کوئی واقعہ ہوا بھی تو وہ حادثاتی طور پر ہوا اور قابض فوجیوں کے ساتھ تصادم کے دوران ہوا۔

۱۹۹۴ء میں مقبوضہ الخلیل کی الابراہیمی مسجد میں صہیونی مجرم بروچ گولڈ سٹین کی جانب سے فلسطینی نمازیوں کے قتل عام کے بعد، فلسطینی مجاہدین نے یک طرفہ طور پر اعلان کیا کہ تمام فریق عام شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کریں۔ لیکن اسرائیلی غاصبین نے اسے مسترد کر دیا اور اس پر کوئی تبصرہ کرنا تک گوارا نہیں کیا۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک نے بارہا اس مطالبے کا اعادہ کیا لیکن اسرائیلی غاصبین ہمیشہ اسے سنی ان سنی کرتے رہے اور انہوں نے فلسطینی عوام کو نشانہ بنانے اور انہیں شہید کرنے کا عمل جاری رکھا۔

  1. طوفان الاقصیٰ پر عمل درآمد کے دوران اسرائیلی سکیورٹی اور فوجی نظام کی فوری ناکامی اور غزہ کی سرحد پر افراتفری مچ جانے کے نتیجے میں ممکن ہے کچھ غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہوں۔

لیکن جیسا کہ بہت سے لوگوں نے گواہی دی ہے کہ مجاہدین نے غزہ میں رکھے جانے والے تمام قیدیوں کے ساتھ مثبت اور نرمی والا رویہ رکھا اور جارحیت کے ابتدائی ایام سے ہی ان کی رہائی کے لیے کوششیں کرتے رہے اور ایک ہفتہ پر محیط انسانی بنیادوں پر کی گئی جنگ بندی کے دوران ہوا بھی یہی، جب اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی عورتوں اور بچوں کی رہائی کے بدلے ان عام شہریوں کو رہا کیا گیا۔

  1. اسرائیلی غاصبین جو الزامات کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ مجاہدین نے ۷ اکتوبر کو اسرائیلی عام شہریوں کو نشانہ بنایایہ مکمل طور پر جھوٹ اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے الزامات اسرائیلی حکام کی طرف سے لگائے جا رہے ہیں اور انہیں کسی آزاد ذرائع سے ثابت نہیں کیا جا سکا۔ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ اسرائیلی بیانیہ ہمیشہ فلسطینی مزاحمتی تحریک کو شیطانی روپ دینے اور غزہ پر اپنی وحشیانہ جارحیت کو قانونی روپ دینے کی کوشش کرتا ہے۔

درج ذیل تفاصیل اسرائیلی الزامات کا رد کرتی ہیں:

  1. یہ بھی حقیقت ہے کہ غزہ کے نواح کی بستیوں میں متعدد اسرائیلی آبادکار مسلح تھے اور ۷ اکتوبر کو ان کی فلسطینی مجاہدین سے جھڑپیں ہوئیں۔ یہ لوگ عام شہریوں کے طور پر رجسٹر ہیں حالانکہ اصل میں یہ اسرائیلی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے والے مسلح لوگ ہیں۔

  2. جب اسرائیلی شہریوں کی بات کی جاتی ہے تو یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اسرائیلی فوج میں لازمی بھرتی کا اطلاق اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے تمام اسرائیلیوں پر ہوتا ہے، جن میں مردوں کے لیے ۳۲ ماہ تک فوج میں خدمات سرانجام دینا جبکہ عورتوں کے لیے ۲۴ ماہ تک خدمات سرانجا دینا ضروری ہے، جہاں سب اسلحہ رکھ سکتے ہیں اور استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ ’’مسلح لوگوں‘‘ کے اسرائیلی سکیورٹی نظریے کے تحت ہے جس نے اسرائیل کو ایک’ فوج رکھنے والے ملک‘ کی بجائے ایک ’ملک رکھنے والی فوج‘ بنا دیا ہے۔

  3. عام شہریوں کا وحشیانہ قتل اسرائیلی ادارے کا ایک منظم طریقہ کار اور فلسطینی عوام کو ذلیل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کا قتلِ عام اس طریقہ کار کا واضح ثبوت ہے۔

  4. الجزیرہ نیوز چینل کی ایک دستاویزی فلم میں کہا گیا کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے ایک ماہ کے دوران اوسطاً ۱۳۶ فلسطینی بچے غزہ میں شہید ہو رہے تھے، جبکہ یوکرین روس جنگ کے دوران، یوکرین میں مارے جانے والے بچوں کی اوسط تعداد یومیہ ایک بچہ تھی۔

  5. جو لوگ اسرائیلی جارحیت کا دفاع کرتے ہیں وہ واقعات کو معروضی انداز میں نہیں دیکھتے بلکہ یہ کہہ کر اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے قتل عام کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حماس کے جنگجوؤں کو نشانہ بناتے وقت عام شہریوں کی ہلاکتیں ہو جاتی ہیں۔ لیکن وہ یہ مفروضہ تب استعمال نہیں کرتے جب بات ۷ اکتوبر کے طوفان الاقصیٰ کی آتی ہے۔

  6. کوئی بھی آزاد اور منصفانہ تحقیقات اس بیانیے کی سچائی کو ثابت کر دے گی اور اسرائیل کے جھوٹ اور گمراہ کن معلومات کی حقیقت بھی کھول دے گی۔ اس میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں ہسپتالوں کے حوالے سے الزام بھی شامل ہے کہ فلسطینی مجاہدین انہیں بطور کمانڈ سینٹر کے استعمال کر رہے تھے، یہ ایک ایسا الزام ہے جو ثابت نہیں ہو سکا اور جسے بہت سی مغربی پریس ایجنسیز کی رپورٹس میں بھی مسترد کیا جا چکا ہے۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version