بنگلہ دیش طلبہ تحریک

پس منظر، نتائج، مستقبل کے امکانات

بنگلہ دیش میں سالوں سے جو لاوا ظلم و استبداد کی حکومت کے خلاف اندر ہی اندر پک رہا تھا بالآخر وہ پھٹ پڑا اور نتیجتاً ایک مہینے کے اندر شیخ حسینہ واجد کا تختہ الٹ گیا اور وہ بمشکل اپنی جان بچا کر بھارت فرار ہو گئی۔

اپنے حقوق کے لیے جو تحریک طلباء نے چلائی بالآخر پوری قوم اس میں شامل ہو گئی۔ شیخ حسینہ واجد نے اس تحریک کو سختی،تشدد اور نہتے طلباءکے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کچلنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس دوران سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ۳۰۰ اور غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہزار سے زیادہ جانی نقصان کے بعد معاملات ۷۶ سالہ حسینہ واجد کے ہاتھ سے نکل گئے۔

۶ اگست ۲۰۲۴ء کو شیخ حسینہ فرار ہوئی اور فوج نے کنٹرول سنبھال لیا ، پھر طلباء تحریک کے مطالبے پر فوج کو ایک عبوری حکومت تشکیل دینا پڑی ، جس نے ۸ اگست ۲۰۲۴ء کو ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں ۱۷ رکنی عبوری حکومت کی صورت میں حلف اٹھا لیا۔ جن میں طلباء تحریک کے راہنما ناہید اسلام اور آصف محمود بھی شامل ہیں۔

پس منظر

طلباء تحریک کے مقاصد سمجھنے کے لیے ہمیں بنگلہ دیش کے داخلی حالات پر سرسری نگاہ ڈالنا پڑے گی۔

اس وقت فوجی و سیاسی حکمرانوں کی سیاسی نادانی،قومیت پرستی کے زہر اور اقتدار کی ہوس نے ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کر دیا، جسے ہم سقوط ڈھاکہ اور اہلِ بنگلہ دیش جنگ آزادی کی تحریک کہتے ہیں۔

بنگلہ دیش جس کو تین طرف سے بھارت نے گھیر رکھاہے، اس کے بننے میں بھی بھارت کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔بھارت نواز مکتی باہنی نے، جس میں ہندو بھی شامل تھے، بنگلہ دیش کے قیام کی جنگ لڑی اور وہی آزادی کے ہیرو قرار پائے۔اس طرح بنگلہ دیش کے قیام کے ساتھ ہی بھارت نے وہاں اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کر دیں تاکہ یہ ملک آغاز ہی سے اس کے زیر تسلط رہے۔

اسی سلسلے میں ۱۹۷۲ء میں اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کی تقسیم کا ایک طریقہ کار وضع کیا گیا جسے کوٹہ سسٹم کہتے ہیں۔ ۵۶ فیصد ملازمتوں کو اس کوٹہ سسٹم کے تحت کر دیا گیا۔ جن میں ۱۰ فیصد ملازمتیں خواتین کے لیے، ۵ فیصد اقلیتوں1، ۱۰ فیصد مختلف ڈسٹرکٹس، ۱ فیصد معذوروں اور ۳۰ فیصد جنگِ آزادی لڑنے والوں کی اولادوں اور ان کی نسلوں کے لیے مختص کر دی گئیں۔ بقایا ۴۵ فیصد ملازمتیں میرٹ پر آنے والوں کے لیے چھوڑ دی گئیں۔ اس طرح تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں تک رسائی بہت کم ملتی۔ کوٹہ سسٹم کا یہ قانون ۴۷ سال تک نافذ العمل رہا لیکن ۲۰۱۸ء میں طلباء نے کوٹہ سسٹم کے خلاف تحریک شروع کی۔ احتجاج نے زور پکڑا تو وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے کوٹہ سسٹم وقتی طور پرمنسوخ کر دیا۔

جون ۲۰۲۴ء میں اعلیٰ عدالت کے حکم پر کوٹہ سسٹم دوبارہ بحال کر دیا گیا جس کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی اور جہانگیرنگر یونیورسٹی کے طلباء نے احتجاج شروع کر دیا جو بعد میں پورے ملک کے طلباء کی آواز بن گیا۔ حسینہ واجد نے احتجاج کرنے والے طلباء کے خلاف طاقت کا استعمال کیا ، بے شمار طلباء کا خون بہا اور ہزاروں طلباء کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

کوٹہ سسٹم کو ہر آنے والی حکومت نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے اور تمام سرکاری اداروں کو کنٹرول کرکے اپنی حکومت کو دوام دینے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔ اعلیٰ سرکاری عہدوں اوروزارتوں میں اپنی مرضی کے لوگ بٹھائے گئے جس سے کرپشن میں اضافہ ہوا اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی معمولی نوکریاں کرنے پر مجبور ہوئے۔

اسی کوٹہ سسٹم کی بدولت شیخ حسینہ واجد جنوری ۲۰۰۹ء سے ۲۰۲۴ء تک کے طویل عرصے کے دوران اقتدار کی کرسی پر براجمان رہی۔ شیخ حسینہ واجد ایک دین بیزاراور بھارت نواز ظالم حکمران رہی ہے۔ اس نے اپنے دورِ اقتدار میں دین پسند طبقے (سیاسی اور غیر سیاسی دونوں) کو چن چن کر نشانہ بنایا۔جماعت اسلامی کے امیر پروفیسر غلام اعظم ،مطیع الرحمن نظامی اور عبد القادر ملّا کو غداری کے الزام میں پھانسی دی اور سینکڑوں لوگوں کو قید کر دیا گیا۔ ’’حفاظتِ اسلام‘‘ نامی علماء و طلبائے دین کی غیر سیاسی تنظیم نے جب عوامی لیگ کی سرپرستی میں توہین رسالت کرنے والے ہندو اور سیکولر بلاگرز کے خلاف احتجاج کیا تو راتوں رات درجنوں علماء و طلباء کو شہید کروا دیا گیا۔ اسی طرح اپنے سیاسی مخالفین کو بھی ایک ایک کرکے راستے سے ہٹایا۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ خالدہ ضیاء کو بدعنوانی کے الزام میں جیل میں ڈلوا یا۔ ایسی پالیسیاں بنائیں کہ اس کی جماعت کے علاوہ کسی اور طاقت کا وجود ہی نہ ہو لیکن ایسی آمرانہ اور اشتعال انگیز سیاست ایک عرصہ ہی چل سکی۔

بنگلہ دیش کی سیاست میں طلباء تنظیموں کا کردار

بنگلہ دیش میں بنیادی طور پر تین سیاسی جماعتیں ہیں اسی طرح ا ن جماعتوں کی طلباء تنظیمیں بھی ہیں:

پہلے طلباء تنظیمیں اپنے اثرورسوخ کے اعتبار سے مختلف یونیورسٹیوں میں فعال تھیں۔ لیکن جس سیاسی جماعت کی حکومت ہوتی تعلیمی اداروں میں بھی اس کی ہی طلباء تنظیم زیادہ طاقتور ہوتی۔البتہ تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ غنڈہ گردی چھاترا لیگ نے کی۔ اغوا، تشدد ، پروفیسرز پر دباؤ ڈالنا اور اسلحہ کو تعلیمی اداروں کی حدود میں پہنچانا۔ اسی چھاترا لیگ نے موجودہ تحریک کے دوران بھی طلباء کو قتل،اغوا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔

بنگلہ دیشی طالبعلم ابو سعید اور دیگر طلباء کے قتل کے بعد اس تحریک نے زور پکڑااور حکومت کے سامنے نو مطالبات رکھے جن میں وزیر اعظم حسینہ واجد کی عوام سے معافی اور استعفیٰ کا مطالبہ، کوٹہ سسٹم کا خاتمہ اور ان تمام عہدیداروں کو برطرف کرنے کا مطالبہ جنہوں نے اس پورے معاملے میں طلباء مخالف کاروائیاں کیں۔ اس معاملے کا اہم موڑ ۱۴ جولائی ۲۰۲۴ء کی وزیر اعظم کی تقریر بنی جس میں حسینہ واجد نے مظاہرین کو ’’رضا کار‘‘ کہا۔

بنگلہ دیش میں ’’رضا کار‘‘ کی اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جنہوں نے مشرقی پاکستان علیحدہ ہونے سے بچانے کے لیے ۱۹۷۱ء میں پاکستان کا ساتھ دیا ۔ لہٰذا بنگلہ دیش میں رضا کار کا مطلب ’’غدار‘‘ ہےاور یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کے متعلق بنگلہ دیش کی عوام بہت حساس اور جذباتی ہے۔

شیخ حسینہ کے طلباء کو رضاکار کہنے کی غلطی اس کے طویل دورِ اقتدار کے خاتمے کا سبب بن گئی اور باقی تمام مطالبات ایک طرف، اس سے استعفیٰ کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ فوج کو جب معاملات ہاتھ سے نکلتے نظر آئے اور انہیں خدشہ لاحق ہوا کہ اسلام پسند طبقے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر خود کو مضبوط کر سکتے ہیں تو وہ بھی میدان میں اتر آئی اور اس نے طلباء تحریک کی حمایت کر دی جس کے بعد ۴۵ منٹ کے الٹی میٹم پر حسینہ واجد کو فرار ہونا پڑا۔ اس کے بعد کیا ہوا وہ ساری دنیا نے میڈیا پر دیکھا کہ کس طرح حسینہ واجد کی رہائش گاہ سے لوگ ہر چیز لوٹ کر لے جا رہے ہیں،خوشیاں منائی گئیں،سجدۂ شکر ادا کیے گئے ۔ فوج نے ٹیک اوور کیا لیکن طلباء مطمئن نہ ہوئے۔

طلباء تحریک کی قیادت ناہید اسلام کر رہے تھےجن کا تعلق ڈھاکہ یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ سے ہے۔ انہیں گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن وہ ڈٹے رہے اور اب عبوری حکومت کی کابینہ کے رکن بن گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق کسی طلباء تنظیم سے نہیں۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں بننے والا وزیر اعظم ڈاکٹر محمد یونس ایک بینکر اور نوبیل انعام یافتہ سیکولر نظریہ کا حامی فرد ہے۔

ڈاکٹر محمد یونس نے بنگلہ دیش میں غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کے لیے بینک کے ذریعے چھوٹی معاشی سطح پر غریب آدمی کو قرضہ دینے کی سکیم شروع کی جس کے لیے مائیکرو فنانس (Micro Finance) کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے جو کہ بظاہر ایک کامیاب پراجیکٹ تھا۔ غریبوں کو قرض دینے والا ڈاکٹر یونس کا ’’گرامین بینک‘‘نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہوا کیونکہ بینکنگ کی دنیا میں یہ ایک کامیاب تجربہ تھا اور اسی بنیاد پر اسے ۲۰۰۶ء میں نوبیل انعام ملا۔

بینکنگ اور معاشی دنیا کی کامیابی سے قطع نظر اس پراجیکٹ کا منفی پہلو یہ ہے کہ اس سے قبل غریب طبقہ بینک کے قرضوں کے سودی جال میں پھنسنے سے قدرے محفوظ تھا لیکن اس پراجیکٹ کی وجہ سے غریبوں کو بھی بینک سے چھوٹے سودی قرضے دلا کر اس نے غریب عوام کو بھی سود در سود کے شکنجے میں جکڑ لیا اور وہ سود جسے قرآن نے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ قرار دیا ہے اسے بنگالی مسلمانوں کے ہر ہر گھر میں داخل کر دیا ۔

قیام بنگلہ دیش سے ہی بھارت اور اس کے حامی بنگلہ دیش میں نام نہاد ’’مذہبی شدت پسندی‘‘ کے خلاف متحرک رہے اور اسلام پسند اور دیندار طبقے کو ہمیشہ پیچھے دھکیل کر رکھا گیا۔ اب جبکہ بنگلہ دیش کی تاریخ میں ایک اہم موڑ آیا ہے تو بظاہر لوگوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والے سیکولر بینکر کو وزیر اعظم بنا کر اسلام پسندوں کو پھر سے پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔

لمحۂ فکریہ

بنگلہ دیش میں طلباء تحریک کے اختتام پر جو منظر سامنے آ رہا ہے وہ جو کچھ عرب بہار میں ہوا اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ تحریک کے اختتام پر فوج نے طلباء تحریک کا ساتھ دینے کا ڈھونگ رچاتے ہوئے حالات قابو میں کر لیے، پھر عوام کو مطمئن کرنے کے لیےایک بظاہر عوام میں جانی پہچانی اور پسندیدہ جبکہ حقیقت میں امریکی آشیرباد کی حامل شخصیت کو مسندِ اقتدار پر لا بٹھایا۔ ظلم و استبداد کے خلاف مشرقی افق سے پھوٹنے والی امید کی کرن اب صبح کاذب میں تبدیل کی جا رہی ہے۔

حسینہ واجد کے پندرہ سالہ دور حکومت میں بنگلہ دیش کے اہل دین طبقے کا بنیادی مسئلہ صرف اور صرف اپنی بقا رہا، اس دور کے اختتام تک یہ طبقہ اپنی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے مارتے اس نہج پر پہنچ گیا کہ حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف امریکی حمایت بھی انہیں نعمتِ غیر مترقبہ نظر آنے لگی۔

موجودہ حالات اور تبدیلیاں جہاں اہل دین طبقے کے لیے ایک سنگِ میل ہیں وہیں یہ لمحۂ فکریہ بھی ہے۔ انہیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ ایک علاقائی شکاری کے جال سے نکل کر بڑے عالمی شکاری کے جال میں پھنسنے تو نہیں جا رہے۔

اہل دین طبقے کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگرچہ بنگلہ دیش کی عوام کی فلاح اور تمام مسائل کاحل اسلامی نظام کے قیام میں ہے لیکن یہ نظام کبھی بھی عالمی استعمار و استبداد کے چنیدہ و پسندیدہ جمہوری نظام کی بھول بھلیوں میں پھنس کر قائم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے اہل دین کو اپنے آبا ؤ اجداد سید نثار علی تیتو میر اور حاجی شریعت اللہ کے نقش قدم پر چلنا ہو گا۔ اس کے لیے انہیں بے تحاشہ و بے دریغ قربانیوں کے لیے خود کو تیار کرنا ہو گا جس کے نتیجے میں ایک عوامی اسلامی تحریک برپا ہو ، ایک ایسی تحریک جو ملک کو عالمی و علاقائی استعمار اور ان کے مقامی آلۂ کاروں اور غلاموں سے نجات دلائے۔

اگر اہل دین طبقے نے ان حقائق کا ادراک نہ کیا اور خود کو اس طویل جدو جہد کے لیے آمادہ و تیار نہ کیا اور جمہوری نظام کے اس دشتِ بے آب میں اس وقت نظر آنے والے سراب کو منزل سمجھ بیٹھے تو امیدوں کی جو فصل ابھی کچھ سر اٹھانے لگی ہے وہ پھر سے غارت چلی جائے گی۔

٭٭٭٭٭


1 واضح رہے کہ اگرچہ قانونی طور پر اقلیتوں کا کوٹہ ۵ فیصد ہے لیکن حسینہ واجد کے دور میں ملک میں ہندوؤں کا اثر و رسوخ اس قدر بڑھ گیا کہ اعداد و شمار کے مطابق تیس فیصد سرکاری ملازمتوں پر ہندو قابض رہے ۔

Exit mobile version