اللہ نے جب سے زمین بنائی اور اس پر انسانوں کو بسایا، انسانی تہذیب بھی اسی قدر قدیم ہے۔ ہر تہذیب میں اچھے برے اور مختلف نظریات و خیالات کے لوگوں کا وجود رہا ہے۔ زمانۂ قدیم سے ہی انسانی تہذیب میں معاشرتی اقدار وجود میں آتی گئیں اور ان میں مختلف ناپسندیدہ افعال پر مختلف سزائیں بھی دی جاتی رہیں۔ قید کو ان سزاؤں میں ہمیشہ اہمیت حاصل رہی۔
قید دراصل دو طرح کے لوگوں کو کیا جاتا ہے۔ پہلی قسم بلاشبہ ایک معیوب بات ہے کوئی بھی انسان جب کسی اخلاقی یا قانونی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے قید میں ڈالا جاتا ہے مثلاً چور، ڈاکو، قاتل اور دیگر جرائم کے مجرم۔ یقیناً اگر کسی پر جھوٹا الزام نہ ہو اور حقیقتاً اس سے ایسا کوئی جرم سرزد ہوا ہو تو یہ نہ صرف اس کے لیے باعث شرم ہوتا ہے بلکہ اس سے وابستہ لوگوں کے لیے بھی شرمندگی کا باعث بنتا ہے، جیسے عزیز و اقارب اور دوست وغیرہ۔ کیونکہ کوئی بھی شخص اپنی شناخت کے ساتھ ایسی نسبت پسند نہیں کرتا۔ اور یہ اذیت بعض دفعہ خود قید یا سزا کی اذیت سے بڑھ جاتی ہے۔
قید کی دوسری قسم کو بالعموم سیاسی قید کہا جاتا ہے۔ یہ نظریات کے تفرق کی بنیاد پر ایک گروہ کے لوگوں کی طرف سے دوسرے گروہ کے لوگوں کو سنائی جانے والی سزا ہے۔ ایک ہی ملک کے اندر بھی اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے سیاسی مخالفین کو قید میں ڈال دیا جاتا ہے اور کئی دفعہ بیرونی دشمنوں کو بھی قید میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جنگوں میں دشمن کے فوجیوں کی کثیر تعداد کا ہتھیار ڈال کر قیدی بننا بھی زمانۂ قدیم سے چلا آ رہا ہے۔ نظریات و افکار میں اختلاف پر قید ہونے والوں میں مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر قید ہونا بھی اپنی عظیم تاریخ رکھتا ہے۔ تاہم ان سیاسی و مذہبی قیدیوں کی نوعیت جرائم پیشہ قیدیوں سے ہمیشہ مختلف رہی ہے۔ ان کے لیے یہ قید اکثر اس طرح باعث شرم و عار نہیں ہوا کرتی۔ ان کے نظریات سے ہم آہنگی رکھنے والوں کی نظر میں یہ رجال و ابطال ہوتے ہیں۔ ان کے تعلق والوں میں بھی نظریاتی پختگی رکھنے والے اپنے اس تعلق کو خوش بختی اور سعادت سمجھتے ہیں۔ اگر عقائد و نظریات مبنی بر حق ہوں تو یقیناً یہ صاحبانِ عزیمت کسی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اور حق سے وابستگی کی پاداش میں قید انسان کے لیے سراسر باعث شرف و افتخار ہوتی ہے۔
مذہبی قیدیوں میں توحید سے وابستہ افراد کی قید کی ایسی ایسی داستانیں تاریخ کے اوراق میں رقم ہیں کہ ان مبارک ہستیوں کے احوال صرف پڑھنا بھی خود پڑھنے والے کو اعزاز معلوم ہوتا ہے، گویا ان کے حالات پڑھ کر ان عظیم ہستیوں سے ایک ادنیٰ سی نسبت قارئین کو بھی محسوس ہوتی ہے۔ یہ خوش بخت اور بلند ہمت لوگ ہنستے ہنستے وہ اذیتیں برداشت کر جاتے ہیں جن کا عام لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے۔
انسانی فطرت ہے کہ انسان آزادی کا طلبگار ہے اور خود پر لگنے والی ادنیٰ سی پابندی بھی اس پر گراں گزرتی ہے، لیکن اپنے رب کے یہ عاشق صدیوں سے یہ دیوانِ عشق لکھتے چلے آ رہے ہیں۔ اور یہ سلسلہ یٍونہی رواں دواں ہے۔ رب کی محبت میں اس کے تصورِ عشق میں ہر تکلیف ہیچ پڑ جاتی ہے۔ ان کا حال اپنی جگہ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ قدیم سے قید کے اصول و ضوابط مرتب کرنے کا سلسلہ بھی ارتقائی تاریخ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ قیدی بھی انسان ہوتے ہیں اور ان کے حقوق لازم ہوتے ہیں۔ اسی لیے دینِ حق میں تو قیدیوں کے حقوق کی تمام تفاصیل بتائی ہی گئی ہیں اور ان کے اہتمام کی خوب خوب تاکید بھی کر دی گئی ہے۔ لیکن دیگر قومیں جو جادۂ حق پر چلنے کی سعادت سے محروم ہیں اور دین متین سے بہرہ مند نہیں ،ان کے ہاں بھی قیدیوں کے حقوق مرتب کیے گیے ہیں۔ دنیا بھر میں اس سلسلے میں مختلف تنظیمیں اور ادارے موجود ہیں جو ان حقوق پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے کام کرتے ہیں۔
تاہم ماضی کے فرعونوں کی طرح آج کے فرعون بھی حق کی مخالفت میں ہر حد پار کرتے نظر آتے ہیں اور تمام مسلمہ اقدار کو پامال کرتے نظر آتے ہیں۔
اس دور میں بھی آج کے ظالموں اور عاقبت نا اندیش باطل پرستوں نے ایسے ایسے مظالم ڈھائے کہ انسانیت ان پر شرمندہ ہے۔ جن میں گوانتانامو کی جیل ، ابو غریب جیل وغیرہ نے عالمی سطح پر بدنامی اور ذلت سمیٹی۔ ویسے تو لاکھوں اہل حق آج بھی دنیا بھر میں سخت اذیت ناک قید سے دوچار ہیں لیکن اس وقت راقم کو پاکستان میں واقع ساہیوال جیل کا ذکر کرنا ہے۔ یہ جیل خصوصی طور پر مذہبی قیدیوں کے لیے بنائی گئی ہے اور اس کے انتظامی ذمہ دار جو اپنے تئیں دعویٰ ایمان بھی رکھتے ہیں پیغمبرِ خدا ﷺ کے احکامات اور سیرت مبارکہ سے رہنمائی لینا تو درکنار عالمی قوانین کی بھی دھجیاں بکھیرنے میں مصروف ہیں۔
حال ہی میں مفتی عید محمد شہید نے بھی اسی جیل جسے عقوبت خانہ کہنا مناسب ہو گا میں ایک عرصہ طواغیت کی فرعونیت پر صبر کیا۔ جب ایک نابینا ضعیف قیدی کو بیٹھنے کو نشست تک نہ دی جائے اور بوڑھے و بیمار قیدیوں کو آنکھوں پر پٹی، ناتواں ہاتھوں میں ہتھکڑی، سر پر سیاہ کپڑا ڈال کر جیل میں ملاقات کے لیے یا انتہائی تکلیف کی حالت میں بنیادی سہولیات سے عاری جیل کے علاج کے لیے مخصوص کمروں تک لے جایا جائے تو باقی حالات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ چاہے کوئی قیدی مر جائے، ان مخصوص کمروں تک رسائی سے آگے اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں اور ایسے واقعات ہو بھی چکے ہیں کہ قیدی علاج کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے سالہا سال تک ظلم سہتے سہتے بلآخر شہادت کی منزل سے ہم کنار ہو گئے۔ علاج کے لیے مخصوص کمروں کو ہسپتال کہنا دراصل اس لفظ کے معیار کو گرانا ہو گا۔
اس عقوبت خانے میں سفاکیت کا یہ عالم ہے کہ دنیا بھر میں قیدیوں کو ٹہلنے کو کھلے آسمان تلے کم از کم صبح و شام وقت مہیا کیا جاتا ہے، لیکن یہاں سخت گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں دن بارہ بجے انہیں اذیت سے دوچار کیا جاتا ہے۔ گرمی میں پینے کو ٹھنڈا پانی تک دستیاب نہیں، چوبیس گھنٹوں میں انسانی قدروں کی پامالی اور ان کا مذاق اڑاتے ہوئے چند گرام کا برف کا چھوٹا سا ٹکڑا دیا جاتا ہے جو چند منٹ بھی پانی کو ٹھنڈا رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
ساتھ والے قیدی کی دلجوئی یا ڈھارس بندھانا تو دور اگر قیدی مر بھی رہا ہو تو دوسرے قیدی جیل انتظامیہ کو مطلع تک کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ منکرینِ ختم نبوت کی مذہبی آزادی کے غم میں گھلنے والی اشرافیہ یا نام نہاد منصف اس پر کوئی بات نہیں کرتے کہ قیدی ایک دوسرے کو قرآن تک یاد کر کے نہیں سنا سکتے۔
ساری دنیا جانتی ہے یہ جنگوں میں معرکوں کے دوران گرفتار قیدی نہیں بلکہ کلمۂ لا الٰہ الااللہ سے وابستگی کی پاداش میں ان کو گھروں سے اٹھا کر ظالم اور مکار اداروں نے ان پر جھوٹے اور من گھڑت کیس درج کیے ہیں۔ کئی ایک کی ایف ائی آر تو انتہائی مضحکہ خیز کہانیوں پر مبنی معلوم ہوتی ہے جنہیں معمولی سا شعور رکھنے والا شخص بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے لیکن اس کفریہ نظام میں منصف کی کرسیوں پر بیٹھی کٹھ پتلیاں محض ایجنسیوں کے احکامات کی تعمیل میں بے گناہوں کو سزائیں سنانے میں مصروف ہیں۔
ایسے میں معیاری اور اچھی خوراک کی عدم دستیابی سے سالہا سال تک عقوبت خانوں میں بند یہ افراد اپنے نحیف جسموں میں توکل ، صبر اور ایمان کا بے مثال جذبہ لیے اپنے رب سے اجر کے امیدوار ہیں۔ کیونکہ ان پر ہونے والے مظالم پر کوئی دستاویزی فلم بنانے یا آواز اٹھانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ ان مجبور، بے کس و لا چار قیدیوں کی حالت زار عالمی اداروں کے دوہرے معیار اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے کھوکھلے دعوؤں کی قلعی بھی کھول رہی ہے۔
جب بھی کوئی ظلم ان کی ہمتوں سے ٹکراتا ہے تو انہیں جناب یوسف کی داستانِ قید ڈھارس دینے آتی ہے۔ کبھی وہ نبی آخر زماں ﷺ کی تکالیف اور شعب ابی طالب کے مشکل ایام کو سوچ کر مطمئن ہوتے ہیں کہ جب حق کی خاطر حضرات انبیائے کرام نے تکالیف برداشت کیں تو ان شاء اللہ ہماری یہ تکالیف بھی ان کی سنت کی ادائیگی تصور ہو گی۔ یہ ہیں دراصل گمنام ابطال، ان کا بھاری تنخواہوں مراعات اور پنشن کے عوض شیطانی ایجنڈے کی تکمیل کرنے والوں سے کوئی موازنہ نہیں۔
ان کی ہر تکلیف ان کے رب کے روبرو ہے اور وہ کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ ان کے مجاہد بھائی بھی ان کی تکالیف سے قطعاً لاتعلق نہیں۔ ان کی دعاؤں میں ان کے یہ مظلوم بھائی ہمیشہ سر فہرست رہتے ہیں۔ اللہ سے امید ہے ایک دن ان کو بھی قید سے خلاصی عطا فرمائے گا جیسے اس نے اپنے مومن بندوں کو سر زمین افغانستان کے مظلوموں کی داد رسی کا ذریعہ بنایا۔ یہ عقوبت خانے بھی ہمیشہ کے لیے نہیں۔
زبردست اور غالب تو بے شک صرف اللہ ہی ہے۔
٭٭٭٭٭