توحید کے علمبردار

The national flag of the Islamic Emirate of Afghanistan at Wazir Akbar khan Hill. this flag was adopted on 15 August 2021 with the victory of the Taliban in the 2001–2021 war.

اللہ نے امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمۃ اللہ علیہ میں بہت سے عالی صفات رکھیں تھیں۔ جن کا مشاہدہ اور اقرار اپنوں اور بیگانوں سب نے کیا، ایک انسان اپنی پوری زندگی میں جتنے بھی اعمال کرتا ہے، چاہے بڑے سے بڑا عمل ہو، عقائد و اعتقاد کو بہرحال اعمال پر فوقیت حاصل ہے۔ ایک مومن کے لیے بہت سے ایسے عقائد ہیں جن کے بغیر وہ صاحب ایمان نہیں کہلا سکتا۔ لیکن ایمان میں سب سے ضروری اور سب سے پہلا نیز بنیادی عقیدہ توحید کا ہے۔ توحید جتنی خالص ہو گی انسان اتنا ہی اعلی ایمان والا قرار پائے گا۔ غور طلب ہے کہ کلمۂ طیبہ میں خالقِ کائنات نے ترتیب یہ رکھی کہ اپنا اقرار یعنی إلا الله بعد میں رکھا جبکہ اپنے علاوہ ہر معبود کی نفی کو یعنی لا الہ کو پہلے رکھا۔ اب سوال یہ ہے توحید کب خالص ہو گی؟ لازم ہے کہ بندۂ مومن کے لیے کبھی کوئی اس کے رب کے ساتھ شریک نہ ٹھہرے، اس کے ساتھ ساتھ ان امور میں جن میں رب کے علاوہ بھی کسی کو شامل کیا جانا ممنوع نہیں مثلاً الفت و محبت، تو حق یہ ہے کہ نا صرف کسی کی محبت و الفت دل میں رب کی محبت و الفت سے ہرگز ہرگز نہ بڑھے بلکہ محبت و الفت کا معیار ہی رب کی محبت ہو۔ یعنی کسی سے محبت ہو تو وہ بھی رب کی محبت کی خاطر ہو اور عداوت ہو تو وہ بھی دراصل رب سے محبت ہی کی وجہ سے ہو۔

‏‏‏‏وعن ابي ذر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «افضل الاعمال الحب في الله والبغض في الله». (رواه ابو داود)

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی رضا کی خاطر محبت کرنا اور اللہ کی رضا کی خاطر بغض رکھنا اعمال میں سب سے افضل عمل ہے۔ “

ٹھیک اسی طرح اپنے خالق و مالک کے حکم کے سامنے توحید کا علمبردار کبھی کسی کے حکم کو خاطر میں نہیں لاتا۔

مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اَسْمَآءً سَمَّيْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ١ؕ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ١ؕ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ١ؕ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۰۰۴۰ (سورة يوسف: 40)

’’ اس کے سوا جس جس کی تم عبادت کرتے ہو، ان کی حقیقت چند ناموں سے زیادہ نہیں ہے جو تم نے اور تمہارے باپ داداؤں نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے حق میں کوئی دلیل نہیں اتاری۔ حاکمیت اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے، اسی نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ‘‘

سرزمین افغانستان پر ہر طرف ظلم جبر اور چور بازاری کا دور دورہ تھا انسانیت تڑپ رہی تھی سسک رہی تھی، جنگ زدہ ملک میں ناانصافی کو عروج حاصل تھا۔ کسی کے جان و مال، عزت و آبرو محفوظ نہیں تھے۔ ایسے میں ملا محمد عمر مجاہد نے توحید کا علم بلند کیا اور لوگوں کو مالک ارض و سما کے پاکیزہ قوانین کے تحت ظالمانہ اور جابرانہ دور سے نجات دلانے کی ٹھانی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ شمعِ توحید قندھار سے پھیل کر افغانستان کے طول و عرض کو روشن کرتی چلی گئی اور اس شمع توحید کے پروانے تیزی سے اس کے گرد جمع ہوتے چلے گئے۔ فقط چند ہی سال میں دنیا نے وہ نظارے دیکھے جس نے سب کو حیرت و استعجاب میں مبتلا کر دیا۔ طالبان عالی شان جہاں جاتے فتح و ظفر کے جھنڈے گاڑتے جاتے۔ اور توحید کی برکتوں سے خلقِ خدا کو مالا مال کرتے جاتے۔ جیسے جیسے مختلف شہروں اور دیہات میں طالبان کی عملداری قائم ہوتی وہاں ایسا مثالی امن دیکھنے میں آتا کہ ہر کوئی عش عش کر اٹھتا۔ یوں انتہائی قلیل وقت میں ایک مختصر سی جمعیت نے وہ کر دکھایا جو عقل پرستوں کے لیے ناقابلِ یقین تھا۔ اللہ کے دین کا مبارک نظام اپنے فیوض وبرکات ان خوش نصیب لوگوں پر لٹا رہا تھا جو اس سے پہلے سخت اضطراب کا شکار ہو کر جی رہے تھے۔ مسلمان ہوتے ہوئے بھی جاہلانہ رسوم اور ظلم تعدی کے سامنے بند باندھنے والا کوئی نظر نہ آتا تھا، عالمی امن کے ٹھیکے دار ممالک اپنی اپنی پسند کے وار لارڈز کی سرپرستی و حمایت کر کے انسانیت کی تذلیل میں مصروف تھے۔ طالبانِ عالی شان کے اخلاق ان کی دیانت وامانت ان کی پاکیزگی اور خدا پرستی نے عوام کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ افغانستان کی عوام وہ بہار دیکھ چکے تھے جس سے وہ کسی صورت دست بردار ہونے کو تیار نہ تھے۔ دوسری طرف توحید کی شمع کی روشنی سے ظلمت و گمراہی کے علمبردار پریشان ہونے لگے، ان کی آنکھیں اس روشنی سے چندھیانے لگیں۔ دیگر مسلم ممالک کے عوام میں بھی اسلام کے پاکیزہ نظام کی خواہش بیدار ہونے لگی کیونکہ انہیں بھی توحیدِ خالص کی لذت سے آشنا ہونا تھا۔ عالمی کفریہ طاقتیں جانتی تھیں کہ ٹیکنالوجی کا بت زیادہ دیر تک ان کی عوام کو امن و سکون اور عدل وانصاف کی اس دولت سے بے بہرہ نہیں رکھ سکے گا اور ان کے ممالک میں بھی اسلامی نظام کا مطالبہ اور خواہش زور پکڑنے لگے گی۔ چنانچہ وہ امارت اسلامیہ افغانستان کے انہدام کے لیے منصوبے بنانے لگے۔ پہلے پہل تو بامیان کے بتوں کے عوض اہل توحید کی قیمت لگانے کا ناکام تجربہ کیا، لیکن انہوں نے جان لیا کہ یہ وہ نہیں ہیں جن کے متعلق کفار کا خیال تھا کہ ڈالروں کے عوض اپنی ماں تک کا سودا کر دیتے ہیں۔ طالبان عالی شان نے دنیا بھر سے اربوں ڈالر کی پیشکشوں کو ذرّہ برابر لائق توجہ نہ سمجھا۔

یہ واضح ہو چکا تھا کہ امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد اور ان کے ساتھی نہ جھکنے والے ہیں اور نہ بکنے والے ہیں۔ آخری حربہ اس چراغِ ہدایت کو بجھانے کے لیے پھونکوں کا استعمال تھا، یعنی لشکر کشی کا ارادہ بنا لیا گیا۔ ایسے میں محسن امت شیخ اسامہ بن لادن ﷫نے دشمن کے حملے سے پہلے پیشگی اقدام کا فیصلہ کیا۔ ایک مرتبہ پھر دنیا لرز کر رہ گئی، آج کا فرعون، اس دور کا طاغوتِ اکبر امریکہ بلبلا اٹھا۔ اس کے سارے جادوگر پیسہ، ٹیکنالوجی ، اسلحہ ،فوجیں وغیرہ ، سب کے سب آج کے توحید کے علمبرداروں کے ہاتھوں بے بس تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب فرعونِ عصرِ حاضر غصے سے پھنکارنے لگا، اور وہ منظر جسے قرآن نے درج ذیل انداز میں بیان فرمایا ہے شروع ہو چکا تھا:

وَ لَتَعْلَمُنَّ اَيُّنَاۤ اَشَدُّ عَذَابًا وَّ اَبْقٰى ۰۰۷۱ (سورة طہ : 71)

’’ اور تمہیں یقیناً پتہ لگ جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔ ‘‘

کہیں پتھر کے دور میں بھیجنے کی دھمکیاں تھی تو کہیں نام و نشان مٹا دینے کے دعوے تھے۔ مادی وسائل پر بھروسہ کرنے والے امریکہ کے غیض و غضب سے تھر تھر کانپ رہے تھے اور طوفان کی آمد پر سر نیچے کرنے کے مشورے دے رہے تھے۔ لیکن جس وقت دنیا کفر کی طاقت کے رعب میں اس کے سامنے سجدہ ریز تھی، اس وقت سب کچھ آنکھوں کے سامنے دیکھ کر بھی توحیدِ خالص کے علمبردار طالبان عالی شان کی مومنانہ استقامت ایسی تھی کہ امت کے بڑے بڑے اکابر علماء بھی بے اختیار کہہ اٹھے یہ تو صحابہ کرام کے قافلے کے راہی لگتے ہیں جو آج کے دور میں آ نکلے ہیں۔

فرعونِ عصر کس کا وطیرہ مسلم ممالک کے حکمرانوں سے مطلوب افراد حاصل کرنا تھا، شیخ اسامہ بن لادن ﷫کی حوالگی کا مطالبہ کرنے لگا اور دباؤ بڑھانے لگا۔ ان حالات میں بہت سے عاقبت نااندیش خیرخواہی کے پردے میں امارت بچانے کی چکنی چپڑی باتیں کر کے شیخ اسامہ ﷫کی کفار کو حوالگی کا مشورہ دینے لگے۔ ہر طرف ایسا ماحول بنا دیا گیا کہ بقاء کا فقط یہی راستہ ہے، لیکن مجال ہے جو ایک لمحہ بھی کوئی کمزور خیال امیر المومنین کے نزدیک بھی آ سکا ہو۔ آفرین ہے ان سعادت مند مشیروں کے ایمانی جذبے کو بھی جو ایسے میں ڈٹ کر امیر المومنین کے فیصلے کے ساتھ کھڑے رہے۔ وہ عظیم اور تاریخی فیصلہ یہی تھا جس کا اظہار بی بی سی کو انٹرویو میں امیر المومنین نے فرمایا کہ ایک وعدہ ہم سے بش نے کیا ہے، تباہی اور ہلاکت کا وعدہ اور ایک وعدہ ہم سے ہمارے رب نے کیا ہے، نصرت و کامیابی کا وعدہ، ہمیں یقین ہے اللہ کا سچا وعدہ پورا ہو کر رہے گا، ان شاء اللہ۔

وَ لَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۰۰۱۳۹ (سورة آل عمران: 139)

’’ ( مسلمانو ! ) تم نہ تو کمزور پڑو ، اور نہ غمگین رہو ۔ اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔‘‘

کیونکہ خالص توحید والے محبت اور نفرت کا معیار جانتے تھے!

وہ اکتوبر 2001ء تھا جب سرزمینِ افغانستان پر آتش و آہن کی بارش شروع کی گئی۔ حملہ آور لشکر تقریباً پوری دنیا کی طاقتور فوجوں پر مشتمل تھا اور جن پر حملہ کیا گیا وہ توحید کے وہ متوالے تھے جن کا ساتھ خود مسلم ممالک بھی دینے کو تیار نہیں تھے۔ بیس سال تک افغانستان میں ہر ظلم روا رکھا گیا۔ لاکھوں شہادتیں ہوئیں لیکن اہل توحید کا زور ٹوٹنے کے بجائے بڑھتا گیا اور بالآخر وہ لمحہ آ گیا جب امریکہ اور اس کے حواری ذلت کی گٹھڑی سر پر اٹھائے واپس لوٹ گئے۔ جس جہاد کو مٹانے آئے تھے وہ افریقہ سے یمن و شام اور دنیا بھر میں پھیل گیا الحمدللہ۔

15 اگست 2021ء کو جب طالبان عالی شان کی فوجیں فتح کابل کے بعد صدارتی محل کا کنٹرول سنبھال رہی تھیں تو یہ پوری دنیا میں سب سے بڑی خبر بن چکی تھی۔

تھا جن کا منشور پیش قدمی
وہ گھر کو واپس پلٹ چکے ہیں

دنیا پھر سے اہلِ توحید کی قوت کا بےمثال مشاہدہ کر رہی تھی۔ اس دوران افغان قوم پورے عزم و استقلال کے ساتھ مجاہدین کا ساتھ دیتی رہی۔ یہ طالبان عالی شان کا اخلاص تو تھا ہی لیکن اس مبارک نظام کی چاہت بھی اس میں شامل تھی جس کی جھلک پہلے طالبان دورِ حکومت میں عوام نے دیکھی تھی۔

امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد کی اعلیٰ صفات بالخصوص ان کی عقیدۂ توحید سے مضبوط وابستگی امت کے لیے مشعل راہ ہے۔

جس دن امت توحید پر مضبوطی سے کار بند ہو گئی ان شاء اللہ پوری دنیا پر شریعت کا پھریرا لہرا اٹھے گا ، ان شاء اللہ۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version