یہ غزہ ہے! یہاں زمین کی نہیں، بقاء کی جنگ لڑی جارہی ہے | (حصہ دوم)

بحرِ احمر کی حکمتِ عملی

بحرِ احمر سلامتی کے لحاظ سے نیز سیاسی اور اقتصادی حوالے سے بہت سی خصوصیات کا حامل ہے، اس کی تزویراتی حکمتِ عملی کو بنانے میں ان نزاکتوں کو مدِ نظر رکھنا از بس ضروری ہے، تاکہ امتِ مسلمہ اور بقیہ دنیا دونوں کے مقاصد پورے ہوں۔دنیا کو تو بس ایک ایسی پر امن بحری گزر گاہ چاہیے جہاں تجارتی سرگرمیاں بلاتوقف جاری رہیں، جبکہ امتِ مسلمہ کے لیے سب سے پہلی ترجیح اپنے مقدسات کی حفاظت اور سلامتی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ایک صبح اٹھ کر دیکھیں تو مغرب کے بحری بیڑے اور صہیونیوں کے جنگی جہاز مسلمانوں کے قبلے، اللہ کے حرمت والے گھر اور نبی کریم ﷺ کے روضے کی سلامتی کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہوں(لاقدر اللہ)، جیسا کہ آج یہ اپنے انہی جنگی آلات سے فلسطین کا محاصرہ کرکے مسجد اقصیٰ کے انہدام (لاقدر اللہ)اور ہیکل کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کررہے ہیں۔بحر احمر میں کفار کی تجارتی (چہ جائیکہ جنگی) کشتیوں کا محض گزرنابھی ایک بھیانک نتائج کی حامل تزویراتی غلطی ہے، اگر فرزندانِ امت نے اس خطرےکے آگے بند نہ باندھا تو ہمارے بدترین اندیشے جلد حقائق کا روپ دھار لیں گے اور ہم اقصیٰ اور غصب شدہ اسلامی خطوں کی آزادی کی تحریک میں تو کیا شمولیت کریں گے، ہم (خدانخواستہ)عملاً مقدس ترین خطۂ ارضی بیت اللہ شریف کے امن وسلامتی کو بھی کھو دیں گے! خبیث سلمان اور فسق وفجور کے داعی اس کے مجرم بیٹے کے کرتوتوں کے اصل ہدف کا ہم اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ دونوں ’وہ کچھ‘ کررہے ہیں جو یہود اہلِ فلسطین کے ساتھ نہیں کرپائے، یہ خبیث حرمین کے بیٹوں کی غیرت وشرافت کا قتل کررہے ہیں، تاکہ حرم کو کوئی پاسبان نہ مل سکے۔

بحرِ احمر خالص اسلامی سمندر ہے، جس میں مسلمانوں کا کوئی ساجھے دار نہیں، اسے آٹھ اسلامی ممالک گھیرے ہوئے ہیں: شمال کی جانب سے (مصر، فلسطین اور اردن)، مشرقی طرف سے (حجاز ویمن)، مغرب کی سمت سے (مصر، سوڈان، اریٹیریا اور صومالیہ)، جنوب کے رخ سے (صومالیہ اور عدن)۔ بحرِ احمر کا مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات (حرمین شریفین) کے دفاع میں بنیادی کردار ہے، یہ مکہ ومدینہ کی سلامتی کا ضامن اور بیت اللہ شریف1 کی حفاظتی باڑھ ہے، یہاں مسلمانوں کے علاوہ کسی اور کو جہازرانی کی اجازت دینا درست نہیں۔ اور دشمن کے جنگی جہازوں کو اس میں داخل ہونے سے روکنا واجب ہے، ہم دشمن کی کشتیوں کو بھلا کیسے اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ بیت اللہ شریف سے محض ۱۰۰ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہوں؟

چونکہ تجارتی کشتیاں بھی جاسوسی کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور ہم پر لازم ہے کہ ہم انہیں بحرِ احمر میں داخلے سے روکیں، اس لیے مصر اور یمن کے ذمے اس کے دونوں دروازوں کی حفاظت ہے، عدن کی بندرگاہ اس کا جنوبی جبکہ پورٹ سعید اور نہر سوئز اس کا شمالی دروازہ ہے۔ عدن اور پورٹ سعید ان دو شہروں میں سامان اتار ا اور لادا جائے، ان دونوں شہروں کی بندرگاہوں میں جہازوں کے لیے بڑے بڑے پلیٹ فارم اور سامان رکھنے کے لیے دنیا کے سب سے بڑے تجارتی گودام ہوں، بحرِ احمر میں صرف اور صرف مسلمانوں کے جہاز حرکت کریں، تاکہ بیت اللہ شریف کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے، ایسے شاندار اقتصادی منصوبے کو عمل میں لانے کی اجازت دی جائے جو عالمی تجارت میں مسلمانوں کے حقوق کا ضامن ہو، اور بحرِ احمر پر انہیں حقیقی معنوں میں سیاسی اور عسکری برتری دلائے، اس پر سے صہیونی تسلط کا خاتمہ کرے اور ان کی کشتیوں کی وہاں موجودگی کا راستہ روکے اور امت کو اس کی عظمتِ رفتہ کا کچھ حصہ واپس دلوائے۔

عرب کے شیطان، امارات کے حکمران، بن زاید اور اس کے گھٹیا شریک بن راشد آل مکتوم اور ان دونوں جیسے ہی ایک تیسرے، ریاض کے حاکم بن سلمان 2 کو لاحق سب سے بڑا خطرہ یمن کی نشاۃ ثانیہ اور اپنے پرانے تاریخی عہد کی طرف لوٹنا ہے۔ پہلے (بن زاید)کو تو یہ غم کھائے جارہا ہے کہ عدن کی بندرگاہ ’ بندرگاہوں کے حوالے سے اس کی ساری کامیابیوں‘ پر پانی پھیر دے گی، کیونکہ مشرق و مغرب کو ملانے والی اہم ترین تزویراتی بندرگاہ کے طور پر اپنے سمندری کردار کی طرف عدن کے لوٹ آنے کا مطلب ہے دبئی کی بندرگاہ کی ضرورت وافادیت کا مستقل خاتمہ، یہی وجہ ہے کہ مُکلّا کی بندرگاہ سے القاعدہ کو نکالنے کے لیے امارات کی عسکری قوتیں پوری شدت کے ساتھ حرکت میں آگئیں، تاکہ القاعدہ کا اثر عدن تک پھیل کر اسے اس کی سمندری قیادت واپس نہ دلا دے، اور دبئی کو عالمی تجارتی سرگرمی سے ہونے والی آمدنی سے محروم نہ کردے، مکلا کے تجربے نے ان شیاطین کو اس وجہ سے بھی بطورِ خاص پریشان کیا کہ مجاہدین نے اعلیٰ اخلاق کے مظاہرے سے لوگوں کے دل و ذہن بھی جیت لیے تھے۔اس لیے اب بن زاید ملکِ شام تک ایک متوازی خشکی کا راستہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے، جو دبئی کی تجارتی اہمیت کا محافظ اور اس کی معاشی ترقی کا ضامن ہو، لیکن یہ منصوبہ گراں خرچ اور پُر خطر ہے، کیونکہ یہ راستہ ان لوگوں کے رحم وکرم پر ہوگا جو بن زاید اور اس کےحلیفوں سے نفرت کرتے ہیں۔ بن سلمان کا مسئلہ یہ ہے کہ مالدار اور طاقت ور یمن جس کی عوام بھی مسلح ہے3 کا واضح مطلب ہے جزیرۂ عرب سے آلِ سعود کی حکومت و تسلط کا خاتمہ۔اسی خوف کی وجہ سے علی عبد اللہ صالح کی حکومت کو رشوتیں دی جاتی رہیں تاکہ وہ یمنی قوم کی امنگوں کو پامال کرکے انہیں جزیرۂ عرب میں اپنا تاریخی کردار ادا کرنے سے محروم رکھے اور یمنی قوم بھی مصری قوم کی طرح خلیجی آقاؤں کے تابع رہے، لیکن جب بھی عظیم یمنی قوم نے اپنی صلاحیتوں کو دوبارہ حاصل کیا اور ’انصار الشریعہ‘ نے ان کی قیادت سنبھال لی تو اگلا پڑاؤ پھر ’ریاض‘ میں ہوگا اور تب…… دم مارنے کی بھی مجال کس میں ہوگی؟

خطے کی حکومتوں کی حالتِ زار

اسلامی معاشروں میں یہ عرف و عادت رائج رہی ہے کہ اگر کسی پڑوسی کے یہاں غم ہو اور دوسرے کی طرف خوشی کی تقریب تو غمزدہ پڑوسی کی رعایت کرتے ہوئے دوسرے پڑوسی اپنی خوشی کی تقریب کو مؤخر کردیتے ہیں یا کم ازکم علانیہ خوشی کا اظہار نہیں کرتے، لیکن ٹرمپ کے مقرر کردہ حاکم ِ ریاض، بن سلمان کے زمانے میں ایک طرف اہلِ غزہ بدترین بمباری اور قتلِ عام کا سامنا کررہے ہیں اور یہ بدبخت بے حیائی اور حرام کاری کے فروغ کے لیے پوری ڈھٹائی کے ساتھ ’ریاض فیسٹیول‘ کا انعقاد کررہا ہے، پھر خود کو ایک طاقتور حکمران ظاہر کرنے کے لیے پوری بے شرمی کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو غزہ میں جنگ بندی سے مشروط کررہا ہے، اور اس کا کوئی وقت بھی متعین نہیں کررہا، اس کو ایک مثال سے سمجھیں کہ اگر ابھی بن سلمان اپنے تئیں غیرت کا ادنیٰ مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہے کہ جب میرے دونوں خونی آقا، نیتن یاہو اور بائیڈن اپنا جرم پایۂ تکمیل کو پہنچا لیں گے تب لازماً جنگ بندی ہوجائے گی۔ لیکن اگر تب بھی انہوں نے اس کی بات کو غیر اہم سمجھ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تو یہ بن سلمان کیا کرسکے گا؟ کیا یہودی عورت کا دودھ پی کر پرورش پانے والے میں اتنی ہمت وغیرت ہے کہ وہ تب یہود سے تعلقات کی بحالی کے منصوبے سے دستبردار ہوجائے؟

بن سلمان کا سب سے خطرناک جرم یہ ہے کہ حرم کی پاسبان عوام جب بھی غزہ میں اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے یا بن سلمان کی طرف سے ان پر مسلط کی جانے والی حرام کاری کے خلاف نکلی تو ریاستی دہشت گردی کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے اسے دبا کر بالکل چپ کروادیا گیا اور فاسقوں کا ایک ٹولہ سلمان اور اس کے حرام کار بیٹے کے کرتوتوں پر خوش اور راضی ہے، یہ جزیرۂ عرب میں مسلمانوں کا حال ہے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی ایسا میدان بچا ہے جس میں مسلمانوں پر مسلط حکمرانوں نے ناکامی اور ذلت نہ اٹھائی ہو؟انہوں نے اپنے جرائم سے امتِ مسلمہ کو اپنی تاریخ کے بدترین موڑ پر لاکھڑا کردیا ہے۔

حالیہ ویٹو (۲۰فروری ۲۰۲۴ء یعنی جنگ کے ۱۳۷ویں دن) خلیجی حکام اور دیگر عرب ومسلم حکمرانوں کے سینوں میں پیوست ہونے والا کوئی نیا خنجر نہیں، بلکہ یہ تو ان کی ذلت وکم مائیگی پر لگنے والی مُہرِ تصدیق ہے، خلیجی حکام (جوکہ اپنے مغربی صہیونی اور یہودی آقاؤں کے آگے سب سے زیادہ جھکے ہوئے ہیں) اپنے آقاؤں کے پیر کے جوتے ہیں، انہیں اس جسارت کی اجازت نہیں کہ وہ موزے کے مقام تک پہنچیں، ان پر لازم ہے کہ جن آقاؤں نے انہیں آج تک اقتدار کی کرسی پر بٹھا رکھا ہے، ان کے ہاتھ چومتے رہیں، اگر انہوں نے ذرا بھی جرأت کی اور آنکھ اٹھا کر دیکھا تو وہ انہیں اس کرسی سے دھکے دے کر گرا دیں گے، یہی حال دیگر مسلم اور عرب حکام کا بھی ہے، بلکہ ہر وہ حاکم خواہ وہ کافر ہو، جس کی اپنی قوم اسے اقتدار میں نہیں لائی بلکہ مغرب انہیں اقتدار کی دہلیز تک پہنچایا ہے، قوت کے ذریعے اپنی قوموں پر مسلط یہ حکام اس طرح حکومت کرتے ہیں کہ ایک طبقے کو آسائشیں اور عیاشیاں فراہم کرتے ہیں اور بقیہ لوگوں کو غربت اور بھوک کے جال میں پھنسادیتے ہیں، یہ مغربی بادشاہ گر انہیں امداد میں ’مناسب‘ اسلحہ بھی دیتے ہیں، امریکی استعمار اور اس کے سودخور یہودی آقا کے خلاف اس اسلحے کی آواز بھی نہیں نکلتی، بلکہ یہ صرف اپنے ہی عوام کو دبانے اور سبق سکھانے میں استعمال ہوتا ہے، یا پھر اگر صہیونی ان کے راجواڑوں کے درمیان جنگ کی چنگاری بھڑکا دیں تو ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتا ہے، یا پھر انقلابات برپا کرنے اور اپنے لیے مقرر کردہ حدود سے باہر قدم رکھنے والوں کے قتل کے لیے یہ اسلحہ کام آتا ہے، یہی ان حکام کی اوقات ہے، بالخصوص وہ جو اپنے آقاؤں کی خدمت میں دوڑے دوڑے پھرتے ہیں، انہیں مال اور مدد فراہم کرتے ہیں، ان کی اندھادھند فرمانبرداری کرتے ہیں، جو یہود اور بدھ مت کے معبد، ہندوؤں کے مندر اور عیسائیوں کے گرجے تعمیر کرتے ہیں اور وحدتِ ادیان کے پرچارک ہیں (متحدہ عرب امارات)، جو اباحیت اور اخلاق باختہ تفریحات سے اپنے لوگوں کے اخلاق بھی خراب کرتے ہیں اور ان کے لیے الحاد کو بھی آسان بناتے ہیں، (سعودی عرب، تیونس، مصر، اردن، پاکستان اور بالعموم پورا ہی عالمِ اسلام)کچھ حکام فٹ بال کے مقابلوں سے اپنی عوام کو غافل بناتے ہیں اور انہیں مغرب کی عادات و رسومات کا دلدادہ بناتے ہیں (قطر) یا پھر اپنا ملک صہیونیوں کو بیچ ڈالتے ہیں اور فقر، بھوک اور لاتعداد مصیبتوں میں ڈال کر اپنے لوگوں کو بالکل ہی تباہ کردیتے ہیں (پاکستان، مصر، بنگلہ دیش، شام)، یا پھر فوج کےجرنیلوں کی جنگوں میں ڈال کر انہیں نچوڑ دیتے ہیں، تاکہ انہیں صہیونیوں کے سپرد کرنا آسان ہوجائےسوڈان، لیبیا)۔

کیا وائٹ ہاؤس کی کنیز ، لنڈا گرین فیلڈ نے امریکہ کے غلام خلیجی حکام کے دل توڑ دیے؟ وہ حکمران جنہوں نے اپنی حکومتیں بننے سے پہلے ہی مغربی دنیا سے اتحا دکرلیا تھا، استعمار کے خلاف جنگوں میں یہ شریک نہیں ہوئے، بلکہ خلافتِ عثمانیہ کو گرانے میں ان کی مدد کی، اپنے آقاؤں کو جو مال اور خدمات یہ پیش کررہے ہیں اور اپنے بحرانوں پر قابو پانے کے لیے جس طرح انہیں تیل اور گیس دے رہے ہیں…… اس سب کے باوجود لنڈا گرین فیلڈ نے ان کے دل توڑ دیے؟ نہیں، اس نے ان کے دل نہیں توڑے، کیونکہ صہیونی آقا جو بھی کرتے ہیں اس پر یا تو آقا وغلام پہلے سے متفق ہوتے ہیں ورنہ غلام دل سے آقا کے فیصلوں کو قبول کرلیتے ہیں، وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ’کمزوری ودرماندگی‘ کا سبق اس طرح سیکھا ہے کہ وہ ان میں رچ بس گئی ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آقا کے بغیر ان کی زندگی کا دوام ممکن نہیں، آقا نے ہی انہیں عیاشی کا سامان اور اقتدار فراہم کیا ہے، سو ان کی آزادی و خودمختاری کی امنگ ہی ختم ہوچکی ہے۔ ان کی سب سے بڑی تمنا یہ ہے کہ صلیبی صہیونی جو جرائم کرنا چاہتے ہیں ’جلد ازجلد‘ کرلیں، کہیں ان کی قومیں بیدار اور بغاوت پر آمادہ نہ ہوجائیں۔

کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ بقیہ عرب اور اسلامی ملکوں کی حکومتیں جن کی عوام نے استعمار کے خلاف جنگیں لڑیں اور اب فقر و تنگدستی کا شکار ہیں، خلیجی ملکوں سے بہتر ہیں؟ ہر وہ فرد جس نے اپنے غزہ میں بستے بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا اور ان کی نصرت کی وہ خاموش رہنے والوں سے بہتر ہیں۔ خلیج میں بستی ہماری مخلص عوام پر لازم ہے کہ وہ صلیبی صہیونی اتحاد کے غلاموں کے آگے سرِ تسلیم خم نہ کریں، کوئی کس قدر زورآور ہی کیوں نہ ہو وہ اللہ کے طے کردہ رزق کو کسی بندے سے روک نہیں سکتا، آپ کے فلسطینی بھائی آپ کی مدد کے منتظر ہیں، عالمِ اسلام کے بیشتر مسائل میں آپ ہی مدد کے اہل تھے، سو اپنے حکمرانوں کی بات نہ مانیں، بلکہ ان پر چڑھ دوڑیں۔ ارشادِ باری ہے :

سَوَآءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَ مَنْ جَهَرَ بِهٖ وَ مَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۭ بِالَّيْلِ وَ سَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ۱۰ لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ١ؕ وَ اِذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ١ۚ وَ مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ۱۱ (سورۃ الرعد:۱۰،۱۱)

’’تم میں سے کوئی چپکے سے بات کرے یا زور سے، کوئی رات کے وقت چھپا ہوا ہو یا دن کے وقت چل پھر رہا ہو، وہ سب (اللہ کے علم کے لحاظ سے) برابر ہیں۔ ہر شخص کے آگے اور پیچھے وہ نگران (فرشتے)مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے باری باری اس کی حفاظت کرتے ہیں، یقین جانوکہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ لے آئے۔ اور جب اللہ کسی قوم پر کوئی آفت لانے کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس کا ٹالنا ممکن نہیں اور ایسے لوگوں کا سوائے اس کے اور کوئی رکھوالا نہیں۔‘‘

کہاں ہیں عرب فوجیں؟ آج ہی کے لیے تو انہیں تشکیل دیا گیا تھا۔لیکن افسوس! ہماری فوجیں تو بس اپنے عوام کو کچلنے اور آپسی جنگوں کے لیے بنی ہیں، ولاحول ولا قوۃ الا باللہ!

جنگ میں ایک اہم ترین عنصر قوم کی عزت ہوتی ہے جس کا عملی مظہر قوم کے حاکم کی عزت ہوتی ہے، پھر وہ حاکم خدا کے علاوہ کسی کے آگے نہیں جھکتا اور اپنے ہم عقیدہ لوگوں کے علاوہ کسی کے ساتھ تواضع نہیں برتتا، کیا آج مسلمانوں پر مسلط حکمرانوں میں ہمیں اس کی کوئی جھلک دِکھتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج جو حکام ہم پر مسلط ہیں ان سے زیادہ ذلیل حکمران کبھی امت نے نہیں دیکھے۔ بس یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہے ہیں اور ان کے کچھ نہ کرنے کی وجہ دشمن کا خوف نہیں بلکہ صرف یہ طمع ہے کہ بدلے میں دشمن انہیں امن سے رہنے دے اور انعامات سے نوازے، یہ حکمران تو اس باعظمت امت کی تاریخ پر کلنک کا سیاہ ترین ٹیکہ ہیں، امن اور انعام تو اللہ وحدہ لاشریک کے ہاتھ میں ہے۔ ارشادِ باری ہے :

لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍۙ۱ اٖلٰفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَآءِ وَ الصَّيْفِۚ۲ فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِۙ۳ الَّذِيْۤ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ١ۙ۬ وَّ اٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍؒ۴ (سورۃ القریش)

’’چونکہ قریش کے لوگ عادی ہیں، یعنی وہ سردی اور گرمی کے موسموں میں (یمن اور شام کے)سفرکرنے کے عادی ہیں۔ اس لیے انہیں چاہیےکہ وہ اس گھر کے مالک کی عبادت کریں جس نے بھوک کی حالت میں انہیں کھانے کو دیا اور بدامنی سے انہیں محفوظ رکھا۔‘‘

شاعر نے کیا سچ کہا ہے :

رب وامعتصماه انطلقت     بہت سی ’وامعتصماہ!‘ کی صدائیں
ملء أفواه الصبايا اليتم     یتیموں کے حلق سے ابھریں
لامست أسماعهم لكنها     ان حکمرانوں کے کانوں سے ٹکرائیں
لم تلامس نخوة المعتصم     لیکن کسی میں معتصم والی غیرت نہ پائی

اگر خطے کے حکمرانوں میں ذرا بھی غیرت وحمیت باقی ہے تو ان پر سب سے پہلے لازم ہے کہ غزہ کے باسیوں کو اسلحہ اور غذا فراہم کریں اور کسی اجازت کا انتظار نہ کریں ، جیسے امریکہ صہیونی وجود کے ساتھ کررہاہے۔ دوسرے نمبر پر ان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے ’پلپلے لشکروں‘ اور اپنا میزائیلوں اور جنگی جہازوں کا رخ مقبوضہ فلسطین میں قابض صہیونیوں کی طرف موڑ دیں، ان پر یہ بھی لازم ہے کہ مغرب کے ساتھ نیا منظرنامہ تشکیل دینے کے لیے غزہ کی جنگ سے پورا فائدہ اٹھائیں، خودمختاری کے لیے اپنی سنجیدگی ثابت کرنے کا ان کے پا س یہ آخری موقع ہے، اگر انہوں نے یہ موقع گنوادیا (اور لازماً اسے گنوائیں گے، کیونکہ یہ محض غلا م ہیں اور ان کے اقتدار کا سورج ڈھل چکا ہے) تو عوامی غیظ وغضب کا سیلاب انہیں خس وخاشاک کی طرح بہا لے جائے گا، سو ہماری عوام پر لازم ہے کہ ان کے خلاف بغاوت کردیں، کیونکہ دنیا کو موجودہ صورتحال میں کٹھ پتلیوں کی نہیں، حقیقی ابطال کی ضرورت ہے، اور اس شرف وعزت کا ہمارے حکمرانوں میں سے کوئی بھی دعویدار نہیں، ان سے یہ امید نہیں کہ اہلِ فلسطین کی مشکلات کا کوئی حل پیش کرسکیں۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے، اس کا مقصد صرف اور صرف بڑی طاقتوں کے منصوبوں کی سہولت کاری ہے، اپنی پیدائش سے اب تک کا اس کے کردار، بالخصوص غزہ کے بعد کی صورتحال کے بعد کسی عاقل یا مخلص کے لیے شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی، سب سے زیادہ تبدیلی کی خواہاں نوجوان نسل پر اس عالمی ادارے کا فریب واضح ہے اور ان پر حقیقی تبدیلی کا راستہ بھی واضح ہے، سیاستدان اور مغربیت کے داعی جو الفاظ کی جگالی کرتےہیں، کامل آزادی، ’جانبدار‘ انصاف، ’جعلی‘یکجہتی، یہ سب ایک مہلک سراب کے سوا کچھ نہیں، اسلامی ملکوں اور کمزور ملکوں پر لازم ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کو طلاقِ بائن دے ڈالیں، مسلمانوں کے لیے اس لیے بھی کہ یہ سب سے بڑھ کر اور سب سے پہلے شریعت کا دیا حکم ہے4۔ ارشادِ باری ہے:

وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًاؕ (سورۃ الاحزاب:۳۶ )

’’اور جب اللہ اور اس کا رسول کوئی معاملہ طے کردیں تو کسی ایمان والے مرد یا عورت کے لیے گنجائش نہیں کہ اپنے معاملے ان کا اختیار باقی رہےاور جس کسی نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ کھلی گمراہی میں پڑگیا۔‘‘

مخلص اہلِ علم پر لازم ہے کہ وہ اپنی تقاریر، دروس اور عام و خاص مجالس میں اسے بیان کریں، ورنہ ان کی خاموشی اس فریب کاری میں شمولیت سمجھی جائے گی، جس کا وبال عند اللہ ان پر ہوگا۔دنیا کے غیر مسلم مظلوموں پر بھی اس فریب کار ادارے کو طلاق دینا اس لیے ضروری ہے کہ اسی ادارے نے ان کے وسائل کی چوری، ان کے استحصال اور غلام بنانے میں عالمی طاقتوں کی سہولت کاری کی ہے، وقت آچکا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ادارے سے نکلا جائے اور اسے ختم کردیا جائے…… اس میں کوئی دورائے نہیں۔

آدھی رات کی تاریکی

ان صہیونی عرب حکمرانوں پر مجھےکوئی تعجب نہیں جو یہود کے مفاد کے لیے تدبیریں سوچتے ہیں اور انہیں نت نئی راہیں سجھاتے ہیں، مثلا: اہلِ غزہ کو صحرائے نقب منتقل کرکے وہیں چھوڑ دینا…… اہلِ غزہ سے اسلحہ چھین کر انہیں نہتا کرنا…… غزہ کے قائدین کو وہاں سے دیس نکالا دینا…… دوماہ کی جنگ بندی کے عوض قیدیوں کو رہا کروانا…… وغیرہ وغیرہ، اس سے بڑھ کر ذلت وگراوٹ کیا ہوسکتی ہے؟ ایسی تجویز وہی دے سکتے ہیں جن کی وفاداریاں صہیونیوں کے ساتھ ہوں اور صلیبی صہیونی لشکر کی پچھلی صفوں میں خاکروبی کے عادی ہوں، جیسا کہ بیس سالہ جہاد میں افغانستان کی صورتحال تھی۔ مجاہدین پر لازم ہے کہ دنیا بھر کے ممالک کی اپنے خلاف نفسیاتی جنگ میں شکست نہ کھائیں، ان کے دباؤ، بہلاوے، ڈراوے اور لالچ کا شکار نہ بنیں، اپنے طے شدہ طریقے کی مطابق اپنے منصوبوں کو عمل میں لانے کے لیے اپنے موقع کی تاک میں رہیں، اور اس بابت ہمیشہ محتاط رہیں کہ کوئی دوسرا آپ کا ترجمان بن کر بات کرے۔ عرب صہیونیوں کے بارے میں اللہ نے ہمیں پہلے سے بتادیا ہے، ارشادِ باری ہے :

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِيَآءَ١ؔۘ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ١ؕ وَ مَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ۵۱ فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰۤى اَنْ تُصِيْبَنَا دَآىِٕرَةٌ١ؕ فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰى مَاۤ اَسَرُّوْا فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَؕ (سورۃ المائدۃ:۵۱،۵۲)

’’اے ایمان والو!یہود ونصاریٰ کو یار ومددگار نہ بناؤ، یہ خود ہی ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور تم میں سے جو شخص ان کی دوستی کا دم بھرے گا تو پھر وہ انہیں میں سے ہوگا۔یقیناً اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔چنانچہ جن لوگوں کے دل میں (نفاق کا )روگ ہے، تم انہیں دیکھتے ہو کہ وہ لپک لپک کر ان میں گھستے ہیں، کہتے ہیں :ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر کوئی مصیبت کا چکر آپڑ ے گا (لیکن )کچھ بعید نہیں کہ اللہ (مسلمانوں کو )فتح عطا فرمائے یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کردے اور اس وقت یہ لوگ اس بات پر پچھتائیں جو انہوں نے اپنے دل میں چھپا رکھی تھی۔‘‘

جب امارت اسلامیہ نے افغانستان میں اڑتالیس ممالک پر مشتمل صہیونی امریکی اتحاد کو شکست دی اور انہیں رات کی تاریکی میں رسوائی کے ساتھ بھاگ جانے پر مجبور کردیا تو امریکی صہیونی ٹولے نے امارت اسلامی پر ’تمام نسلوں اور مذہبوں کی نمائندہ حکومت‘ کی تشکیل کے لیے ہر طرح کا دباؤ ڈالا، جوکہ دراصل مستقبل میں ایک افغان قوم کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹ کر انتشار پھیلانے کا اوچھا ہتھکنڈا تھا، جیسا کہ لبنان میں (عیسائی، سنی اور شیعہ) اور عراق میں (سنی، شیعہ اور کردوں) کی سہ فریقی حکومتوں کا انجام سوائے داخلی انتشار کے اور کچھ نہ تھا، اور جو بھی ایسی غیر فطری تکون کو قبول کرے گا اس کابھی یہی انجام ہوگا۔ اقوامِ متحدہ اور اس کے آقاؤں کی جانب سے ایسی کسی سہ فریقی حکومت کے قیام کا مشورہ ہم کیوں نہیں سنتے جس میں یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کو نمائندگی دی جائے اور مقبوضہ فلسطین پر امریکہ اور برطانیہ کے تعاون سے قائم نسل پرست غاصب صہیونی حکومت کی جگہ یہ سہ فریقی نمائندہ حکومت لےلے؟ ناممکن…… کس میں جرأت ہے کہ وہ یہ بات کرے! اس کا تو صاف مطلب یہودی قبضے کا خاتمہ ہے، کیونکہ اپنی وحدت کی بدولت ہی صہیونی فلسطین پر قابض ہیں، لہٰذا دنیا بھر کے صہیونی (حکومتیں، ادارے اور افراد) ’دوریاستی حل‘ کے حامی ہیں، پہلی صہیونی ریاست تو خودمختار ہوگی اور دوسری فلسطینی ریاست پہلی کے محاصرے اور قبضے میں ہوگی، ہم فرزندانِ امت اس حل کو قبول نہیں کرتے، خواہ کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے ہم پورا فلسطین لے کر رہیں گے۔

عالمی عدالتِ انصاف نے غزہ کے قتلِ عام کو انتہائی ہلکے لفظوں میں بیان کیاہے، یہ عدالت چونکہ بڑی طاقتوں کی خوشامد پر سُدھائی گئی ہے اس لیے اس کے فیصلوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں اور ان سے جان چھڑانا بھی ممکن ہے، اب پہلے سے اس ادارے کی جانبداری پر یقین رکھنے والوں کا یقین بڑھ جانا چاہیے اور جو ابھی تک تردد کا شکار تھے انہیں جان لینا چاہیے یہ سب ان کے اور دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے ایک طفل تسلی کے سوا اور کچھ نہیں۔

شرمناک تجویزیں دینے والوں پر ہم سختی سے رد کرتے ہیں :

غزہ کے ابطال تو یہودی اور تمام صہیونی غلاموں امریکیوں، برطانویوں، جرمنوں، فرانسیسیوں اور انگریز وں وغیرہ اور ان کے طیارہ بردار جہازوں اور طیاروں کا سامنا کررہے ہیں، غزہ پر ان کے حملے کے پانچ ماہ گزرنے کے بعد بھی وہاں کے مجاہدین انہیں عجیب وغریب طریقوں سے نشانہ بنارہے ہیں، کسی بھی دوسری فوج سے زیادہ دشمنوں کو مردار اور زخمی کرچکے ہیں، ایسے میں خطے کے حکمران کیوں ان سے اسلحہ رکھوا کر ان کی قیادت کو جلاوطن کرنا چاہتے ہیں؟ کیونکہ یہ حکمران دشمن کے آلۂ کار، خائن اور مردانگی سے عاری ہیں، اور اس اقدام سے وہ اہلِ فلسطین کے حق میں اپنے جرائم میں اضافہ ہی کریں گے۔

راستے کے جرائم

جنگیں اپنا ہدف پورا کرکے ختم ہوتی ہیں، جنگ کی مدت دراز ہونے کا مطلب اہداف کے حصول میں اعلانیہ ناکامی ہے، اسباب کی دنیا میں طاقتور فریق فتح کے حصول میں ناکامی کا شکار ہے اور کمزور گروہ دشمن کو اپنی انگلیوں پر نچارہا ہے اور اسے ایسی بھول بھلیوں میں الجھادیا ہے جنہوں نے اسے سیاسی، اقتصادی، عسکری، سماجی اور اخلاقی طور پر نچوڑ کر رکھ دیا ہے، جن جنگوں میں طاقت کا کوئی توازن نہ ہو ان کی نوعیت ایسی ہی ہوتی ہے، پانچ ماہ جنگ جاری رہنے کا مختصر الفاظ میں یہی واضح مطلب ہے5، تمام تر قتلِ عام اور تباہی کے باوجود خونی مجرم نیتن یاہو کی حکومت جنگ کو نتیجے تک پہنچانے میں کھل کر ناکام ہوچکی ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اس جنگ سے نیتن یاہوکا مقصد امریکہ و یورپ کو مشرقی بلاک (روس، چین، ایران، شمالی کوریا) کے خلاف ایک علاقائی جنگ میں کھینچ کر اسے ایک عالمی جنگ بنانا تھا (اگرچہ تمام فریق علانیہ کہہ چکے تھے کہ وہ جنگ کا دائرہ نہیں بڑھنے دینا چاہتے ) تو امریکہ و یورپ کا اس جنگ میں براہِ راست نہ کودنا اس کی ایک اور ناکامی ہے، یہ ناکامی خونی مجرم نیتن یاہو کو مزید اکساتی ہے کہ وہ رفح پر بمباری جاری رکھے اور غزہ میں شمالاً جنوباً آتاجاتا رہے اور امریکہ کو میدانِ جنگ میں کھینچ لانے کی کوشش جاری رکھے۔

عالمی صہیونیت کے آلۂ کار بن زاید سے مجھے سب سے زیادہ اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ علاج کی غرض سے امارات بھیجے جانے والے زخمیوں سے فائدہ اٹھائے، انہیں امارات کے مردخائی6محمد دحلان کو سونپ دے، جو انہیں مستقبل میں مسلمانوں کے خلاف اپنی گھناؤنی کارروائیوں میں استعمال کرسکتا ہے، یہ دونوں اس سے پہلے بھی (اسپیر) کے نام سے کرائے کے امریکیوں کاایک گروپ بناچکے ہیں جس نے یمن میں کئی اہم کارروائیاں اور قتل کیے، بن زاید اور اس کاتنخواہ دار دحلان دونوں شیطان ہیں اور جو کچھ یہ ظاہراً دکھا رہے ہیں اس کے پیچھے ایک ناپاک سازش ہے، یہ کیسا بہادر شہسوار ہے جس نے سات ہزار یہودیوں کو شہریت دی، ہندوؤں کو شہریت دی، یہ کفار جزیرۂ عرب میں دندناکر اس کی حرمت پامال کررہے ہیں حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے یہاں سے مشرکین کو نکال بھگانے کا حکم دیاتھا، اس کے جنگی جہاز مسلمانوں پر ہرجگہ بمباری کرنے میں صہیونی اتحاد کے ساتھ ہوتے ہیں، مسلمانوں کا خون بہا کر اس کے پائلٹ جنگی تربیت پاتے ہیں، یہی ہے اس کی بہادری اور شہسواری؟

مستقبل میں ان شاء اللہ ہماری عوام ان آلۂ کار حکمرانوں اور ان کے حاشیہ نشینوں کے فرار پر اکتفا نہیں کریں گے، بلکہ ہر جگہ ان کا پیچھا کرکے رہتی دنیا تک کے لیے انہیں نشان و نمونۂ عبرت بنادیں گے…… مستقبل کی یہ درخشاں صبح اب قریب آن لگی ہے۔

امریکی مسلمانوں کے خلاف سازش، جنگ کے ایک سو پچیس (۱۲۵) دن گزرنے کے بعد بائیڈن کو انسانیت یاد آئی ہے، وہ امریکی مسلمان ووٹر کو بہلانے پھسلانے کے لیے کہتا ہے کہ اسی نے غزہ میں امداد پہنچانے کی کوشش کی ہے اور اپنی کابینہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکی اسلحے کے خریداروں کی نگرانی کرے اور انہیں بین الاقوامی قانون کی پابندی پر مجبور کرے7، جبکہ اس سے قبل یہی بیمار نفسیات کا حامل ہمیشہ جنگ بندی کی مخالفت کرتا رہا ہے اور اب بھی اسی روش پر قائم ہے، اس نے عملی طور پر اہلِ غزہ کو محصور کررکھاہے اور انہیں بھوکوں ماررہا ہے، یہی ہے جو فلسطین میں جاری قتلِ عام کا برملا مذاق اڑاتے ہوئے ٹی وی کی اسکرینوں پر پوری ڈھٹائی کے ساتھ مظلوم فلسطینیوں کے خون سے لتھڑے مشروب پی کر مسلمانوں کو غصہ دلاتا رہا ہے۔

امریکہ میں بستے مسلمان ٹرمپ اور بائیڈن نامی دو مصیبتوں کے درمیان ہیں، جو مسلمان امریکہ کو چھوڑنا نہیں چاہتے انہیں اپنے دین ووطن کی خاطر خود کو نئے سرے سےمنظم کرنے کی ضرورت ہے، اپنے وطن کے لیے چینیوں اور یہودیوں سے زیادہ اور اپنے عقائد کے لیے (آرتھوڈوکس، کیتھولک، پروٹسٹنٹ اور مارونی عیسائیوں وغیرہ)سے زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے، صہیونیوں کی نصرت کے لیے ایپک (AIPAC) کی کوششوں سے بھی زیادہ محنت کرنا ان پر لازم ہے۔

جب کبھی کسی سیاسی وجود کا قوی ہمسایہ کسی داخلی جنگ میں الجھتا ہے تووہ سیاسی وجود اس جنگ کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے، تاکہ اس کے طاقتور پڑوسی کی قوت کم ہو اور وہ کمزور ہوجائے اور اس کے لیے خطرہ نہ بن سکے، بلکہ وہ مزید آگے کی سوچتا ہے کہ اپنے دشمن کو مستقل کمزور کرتا رہے، تاکہ آگے چل کر بھی وہ اس کے لیے کسی خطرے کا باعث نہ بنے، توکیا فلسطین کے پڑوسی حکمرانوں نےاس جنگ کو اپنے فائدے اور اپنی سلامتی کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے استعمال کیا؟ ظاہر ہے کہ نہیں، کیونکہ ان کا کردار تو یہود کی سلامتی کو یقینی بنانے والے سرحدی محافظین کی ایک چوکی تک ہی محدود ہے، یہ ہرگز اپنی عوام کو اپنے غزہ کے بھائیوں کی نصرت کے لیے نہیں جانے دیں گے، بلکہ اس سے بھی بدتر یہ کہ یہ حکمران دشمن کی خدمت اور اہلِ غزہ پر گھیرا تنگ کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جارہے ہیں، دعوے تو بڑے ہیں، لیکن غزہ کی نصرت کے لیے عمل صفر ہے، غزہ میں بستے ہمارے بھائیوں کے خلاف سازش کا حجم بہت بڑا ہے، جو صرف یہ کہتا ہے کہ عرب حکمرانوں نے اہلِ غزہ کو بے یار ومددگار چھوڑدیا ہے تو وہ ناانصافی کی بات کرتا ہے، بلکہ یہ حکمران تو مردانگی، غیرت وشرافت کے لیے ننگ وعار ہیں، ان کی خیانت کی کوئی حد نہیں۔

میونخ کانفرنس برائے امن میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے حامی جرمن چانسلر شولزسے غزہ کے حوالے سے اس کی رائے پوچھی گئی، اس کے جواب کا مجھے پہلے سے اندازہ تھا، لیکن میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ واقعات کو کس ترتیب سے بیان کرتا ہے، اس نے سب سے پہلے سات اکتوبر کی کارروائی پر مجاہدین کی خوب مذمت کی اور اس واقعے کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کیا کہ گویا یہ کارروائی سالوں جاری رہی ہو، پھر اس نے اس پر تفصیلی بات کی کہ یہود کو اپنے دفاع کا حق ہے (حالانکہ اسے معلوم تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے، کیونکہ خود ان کے اپنے دستور کی رو سے غاصب کا کوئی حق نہیں ہوتا)، آخر میں اس نے دوریاستی حل اور امداد بھیجنے کی بات کی، لیکن اس بدبخت نے مسلمانانِ غزہ کے خلاف ایک سو تیس (۱۳۰) دن سے زائدجاری جرائم پر ایک لفظ بھی نہیں کہا، گویا وہ تو محض چند گھنٹوں کی بات تھی اور رات گئی بات گئی، اس کی اور مغرب کے تمام صہیونی رہنماؤں کی یادداشت سات اکتوبر پر آکر ٹھہر جاتی ہے، یہ حکمران یہود کے انسانیت سے گرے غلاموں کا ایک نمونہ ہیں، غزہ میں جاری جرم بھی اصلاً انسانیت سے گراوٹ کا نتیجہ ہے، اس جرم پر خاموش رہنا بزدلی اور کمینگی ہے، اسے جائز کہنا فطرت کی کجی ہے، دانستہ انجان بننا اور لوگوں کو احمق بنانا انسانیت کی گراوٹ کی آخری حد ہے۔ ان شاءاللہ یہ سارے کج فطرت زمین کی پشت سے اس کے پیٹ میں جانے سے پہلے ضروربالضرور وہ سب مشکلات سہیں گے جس کا سامنا آج اہلِ غزہ کررہے ہیں۔

طاقتور ممالک، بے باک ممالک اور آئندہ عالمی جنگ کے اشارات

امریکہ اور روس میں بہت بڑا فرق ہے، آپ کے لیے اتنا دیکھ لینا کافی ہے کہ سلامتی کونسل میں امریکہ کتنی جرأت سے ویٹو کا حق استعمال کرتا ہے اور روس اس کے استعمال میں بزدلی دکھاتا ہے، کئی نشستیں ہوئیں لیکن غزہ کے خلاف جنگ روکنے کی قرارداد منظور نہیں ہوئی، جبکہ بحرِ احمر میں مخالفانہ کارروائیوں کو روکنے کی قرارداد پہلی نشست میں ہی منظور ہوگئی، امریکہ روس کے مخالفین کی روس کے خلاف جنگ میں ہر ضرورت پوری کررہا ہے اور انہیں آزادی کی خاطر لڑنے والے (فریڈم فائٹرز) کا نام دیتا ہے، دوسری طرف روس میں بالکل بھی ہمت نہیں کہ وہ امریکہ کے مخالفوں کی ذرا بھی امداد کرے، سوویت افواج کے خلاف امریکہ نے افغانستان میں اپنا اسلحہ آزمایا، روس کے لیے بھی ممکن تھا کہ وہ افغانستان اور جنگ کے دیگر میدانوں میں امریکہ کے خلاف اپنا اسلحہ آزماتا، امریکہ کسی بھی میدانِ جنگ میں مشرقی اسلحے کی موجودگی کی مذمت کرتا ہے، کیونکہ یہ اس مغربی اسلحے کے خلاف ہے جو حق سچ کا ساتھ دیتا ہے، مشرقی اسلحہ یہ نہیں کرتا اور نہ اسے یہ سب کرنے کا حق ہے، شمالی کوریا کا اسلحہ قابلِ مذمت جرم ہے، بطورِ خاص جب وہ فلسطینی مجاہدین کے ہاتھ میں ہو، جبکہ فلسطین کے مسلمانوں کے قتلِ عام کے لیے یہود کے ہاتھ میں موجود تباہی کی امریکی مشینری عینِ انصاف ہے۔

روس کب اس ذلت سے نکل کر آگے بڑھے گا اور امریکہ کے تمام مخالفین کو اپنا جدید ترین اسلحہ دے گا؟ کب پیوٹن میں تھوڑی سی جرأت پیدا ہوگی اور وہ خفیہ وہ سب کچھ کرے گا جو امریکہ کے صدرعلانیہ کرتے ہیں؟ کیااس کے لیے یہ ممکن ہوگا؟ جنوبی امریکہ اور افریقہ کے بہت سے ملک امریکہ کو مارنا چاہتے ہیں، جب پیوٹن ایک جرأت مندانہ جنگ میں مغرب کا سامنا کرنے کے لیے ہوگا تو تب روس بھی طاقتور اور جرأتمند ملکوں کے نقشِ قدم پر چل پڑے گا۔

افق پر تیسری عالمی جنگ کے آثار واضح ہیں، اس کی گھٹائیں آہستہ آہستہ چھاتی جارہی ہیں، دنیا بھر میں وبائیں پھیل رہی ہیں اور لاکھوں لوگ مررہے ہیں، آسمانی آفتیں، سیلاب اور خشک سالی، مسلسل جنگیں، تجارتی جہازرانی کی بندش، اس سب نے کئی اقتصادی بحران اور عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافہ کردیا ہے۔ اس کے درجِ ذیل اسباب بھی جمع کرلیں، تاجروں کی شکم سیری اور خرچ کرنے کی عیاشی، معاشروں میں دوہی طبقات کا وجودانتہائی مالدار اور انتہائی غریب، اہلِ علم، ارکانِ پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں پر سے اعتماد کا اٹھ جانا، اخلاق باختگی اور الحاد کی ترویج کا ریاستی رجحان۔ ان سب نے مل کر دنیا کو سماجی، اخلاقی، سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے تباہی کے دہانے لاکھڑا کیا ہے۔ دنیا جنگ کی طرف جارہی ہے اور قومیں ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں گی جنہوں نے انہیں ذلت ورسوائی میں جکڑ رکھا ہے۔

ہم اس وقت تبدیلی اور جنگ کی تیاری کے مرحلے میں ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مجاہد بھائیوں پر امت کے ساتھ ہم آہنگی اور جُڑنے پر زور دیں، تیاری کے کام میں ایک ہی رہگزر پر پے درپے قدم نہیں رکھے جاتے، صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلو بہ پہلو متوازی کئی راستوں پر سفر کو آگے بڑھایا جائے۔ ہماری امت کے لحاظ سے تیاری کے جو جو راستے ہیں، ان پر چلنا لازم ہے: مسلمان کے عقیدے اور اخلاق کو مضبوط بنانا، دنیا بھر کے مظلوموں کو یہ دعوت دینے کا راستہ8 کہ وہ اٹھ کر صہیونیت کا خاتمہ کریں، تاکہ وہ اس کی مادی، اخلاقی اور نفسیاتی قید اور اس کے اثرات سے آزاد ہوسکیں۔

عسکریت کا راستہ یعنی عسکری علوم کا مطالعہ، اسلحے اور عسکری آلات ووسائل کی تربیت لینا، چھوٹا اسلحہ اور اس کی گولیاں خریدنا اور استعمال کا وقت آنے تک انہیں سنبھال کررکھنا، ٹیکنالوجی کے ساتھ فعال تعامل، دشمن کو بھگانے اور ڈرانے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنا، استعمار کے آلۂ کاروں اور ان کی کرپٹ حکومتوں کے خلاف انقلاب کی جدوجہد میں مساجد کو دوبارہ ان کے قائدانہ کردار پر لانا، ہم گلی محلے والوں کا خود کو ایسے خفیہ عوامی مجموعات کی صورت میں منظم کرنا جو ’وحدتِ صف‘ کی اہمیت سمجھتے ہوں اور دیہاتوں، شہروں اور پھر صوبوں اور ملک کی سطح پر بعدازاں امت کی سطح پر آپس میں یکجان ہونے کے لیے آمادہ ہوں، اس وقت جب انہیں ایسی قیادت میسر آئے جس کی قائدانہ صلاحیتوں کو ان کے عمل نے اجاگر کیا ہو، ایسی قیادت جو باشعور، پختہ کار، مخلص، قوی اور امین ہو، اس بابت لکھنے اور کہنے کو بہت کچھ ہے، لیکن طوالت کی بنا پر ا سے ایک مقالے میں سمیٹنا مشکل ہے، ورنہ وہ خود ایک مستقل درس بن جائے گا، اس حوالے سے بطورِ خاص انقلاب اور تبدیلی پر لکھی گئی کتب کا مطالعہ مفید ہوگا۔

اور یہ بات ابھی باقی ہے!

سالم الشریف

جنگ کے اگلے دن سے پہلے کی راتیں

٭٭٭٭٭


1 جس دن ابن سلمان کعبہ کی چھت پر چڑھا اس نے مسلمانوں اور ان کے دشمنوں کو کئی پیغامات دیے، دشمنوں کو تو اس نے یقین دلایا کہ وہ پرانے وعدوں کی پاسداری کرے گا اور ان کی رضا کے حصول کے لیے سب حدیں پار کرکے مقدسات کے ساتھ آل سعود کے کھلواڑ کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گااور مسلمانوں کے لیے اس کا پیغام اس ارشادِ خداوندی کا مصداق تھا:کیسے ’اور اگر انہیں تم پر غلبہ مل جائے تو یہ تمہاری بابت نہ ہی کسی رشتے ناطے کی پرواکریں اور نہ کسی معاہدے کی، یہ تو بس تمہیں اپنے منہ (کی باتوں)سے خوش کرتے ہیں، حالانکہ ان کے دل (ان باتوں پر عمل سے)انکاری ہیں اور ان میں سے اکثر تو ہیں ہی نافرمان (اور بدعہد)‘(سورۃ التوبۃ:۸ )

اور چونکہ یہ حرام کاری پھیلاتے اور اسے پسند کرتے ہیں اس لیے میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ انہیں اس آیت کا بھی مصداق بنائے:’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں برائی کی اشاعت ہو ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے جبکہ تم نہیں جانتے۔‘ (سورۃ النور:۱۹ )کیا یہی بدبخت بن سلمان اور اس کا دلال ترکی آلِ شیخ ہی نہیں جنہوں نے موسم الریاض میں بے حیائی اور زنا کی محفلیں منعقد کیں اور حجاز میں بحرِ احمر فیسٹیول منعقد کیا، حرم سے سو کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر جدہ میں، حرمِ مکی کا امام (سدیس) اور دوسرے بھی کئی سرکاری علماء اب بھی مسلمانوں کو اس کے شرعی حاکم ہونے کا دھوکہ دیتے ہیں اور اس کے لیے حرم کے منبر پر دعائیں کرتے ہیں۔

کیا آپ نے ملاحظہ کیا کہ سعودی ریاست کے قیام اور اس کےانہدام کے متضاد اسباب میں آل سعود اور آلِ شیخ کس طرح ایک دوسرے کے شریک ہیں؟

2 جسے ٹرمپ کی طرف سے ریاض کا حاکم مقرر کیا گیا ہے اور اس نے امریکہ جاکر بڑے فخر کے ساتھ اپنی قوم سے کہا:میں نے حکومت اپنے آدمی کو سونپی ہے۔حالانکہ ٹرمپ اور اس جیسے دوسرے امریکی صدور زیادہ سے زیادہ آٹھ سال حکومت کرپاتے ہیں، ریاض کے حاکم کے لیے عین ممکن تھا کہ اسے اور اس جیسے دوسرے صدور کو ان کے آٹھ سالہ حکومت کے دوران مناسب قیمت دے کر خرید لیتا، لیکن یہ سب تو تب ہوتا اگر یہ عرب حکمران واقعی آزاد ہوتے اور حکومت انہوں نے اپنے زورِ بازو اور شجاعت سے حاصل کی ہوتی، لیکن یہ تو وہ آلۂ کار بلکہ غلام ہیں جنہیں اپنے آقاؤں کے مفادات کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کیا گیا ہے، اور بھلا غلام اپنے آقا کو خرید سکتا ہے؟

3 ہمارے مسلح عوام ہی تھے جنہوں نے دشمنوں سے لڑ کر انہیں دھول چٹائی، جیساکہ افغانستان، صومالیہ اور مغربِ اسلامی میں ہوا، لہٰذا عالمِ اسلام اور عالمِ عرب کی حکومتوں نے قصداً اپنی عوام کے ہاتھوں سے اسلحہ چھینا ہے، تاکہ وہ ان کے ساتھ جیسا چاہیں سلوک کریں، اگر آپ کسی امریکی بچے سے بھی پوچھیں کہ تمہارے باپ نے گھر میں ایک سے زیادہ ہتھیار اور جنگی آلات کیوں ذخیرہ کر رکھے ہیں؟ تو وہ فوراً آپ کو جواب دے گا: تاکہ ہماری سیاسی حکومتیں اور ان کے پس پردہ آقا ہمیں اپنا غلام نہ بنالیں۔ سو آنے والی تباہی سے بچنے کے لیے ہماری امت کی تمام اقوام پر لازم ہے کہ وہ اسلحہ رکھیں اور اس کے استعمال میں مہارت حاصل کریں، تاکہ اللہ، اس کے دین اور امت کے ساتھ خیانت کرنے والے حکمرانوں کا راستہ روکا جاسکے۔ عسکری ذمہ داری امت کے کسی ایک گروہ میں محدود نہیں، بلکہ یہ فریضہ امت کے تمام بیٹوں پر عائد ہے۔

4 اقوامِ متحدہ کے حوالے سے شیخ ایمن الظواہری کے بیان کی طرف رجوع کرنے کا ہم مشورہ دیتے ہیں۔

5 جب یہ تحریر لکھی گئی تھی تب جنگ کو پانچ ماہ ہی گزرے تھے (ادارہ)

6 اس تاریخی یہود کردار کی تفصیل زیرِ نظر سلسلۂ مضامین کے پہلے حصے میں آچکی ہے۔ (مترجم)

7 جس وقت شیخ موصوف (دامت برکاتہم العالیۃ) کا یہ مضمون ترجمہ ہو کر زینتِ مجلّۂ ہٰذا بن رہا ہے تو بائیڈن انتخابی دور سے دستبرادر ہو چکا ہے اور اس کی نائب صدر کملا ہیرس امریکی صدارتی امید وار ہے اور وہ بھی اسی بہانے سے امریکی مسلمان ووٹر کی توجہ حاصل کرنے میں مگن ہے۔ ایک طرف کملا ہیرس اسرائیل کی بھرپور حمایت کر رہی ہے تو دوسری طرف غزہ میں ہونے والے قتلِ عام کی نیم مردہ مذمت بھی کر رہی ہے، قاتلھم اللہ! (ادارہ)

8 ۲۰۲۰ء میں نشر ہونے والے مقالے (فیصلہ کن معرکے کی جانب)کے مطالعے کی گزارش ہے۔

Exit mobile version