دورۂ وحشت نے آ لیا

21ویں صدی کا ورود بڑے دھوم دھڑکے سے ہوا تھا، دجالیت اپنے تمام آلاتِ حرب وضرب، وحشیانہ مظالم بھری بے لگام جنگیں، اخلاقی سطح پر طوفان ہائے بدتمیزی، رقص و سرود، فحاشی و برہنگی، LGBTQ کی غلاظت، حکمرانوں سے لے کر نظام تعلیم تک پر سیاہ گھٹا بن کر اٹھی۔ بدترین اعمال خوبصورت رنگین اصطلاحوں اور اشتہاری دنیا کی گھن گرج میں متعارف ہوئے۔ شیطانیت اپنے ازلی وعدوں کے ساتھ مجسم ہر ہاتھ میں، ہر دیوار پر سیاہ اسکرین پر جگمگاتی موجود۔

قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَيْتَنِيْ لَاُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَۙ۳۹ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ۴۰ (سورة الحجر: ۳۹ ، ۴۰)

’’میں زمین میں ان کے لیے ضرور دل فریبیاں پیدا کروں گا اور ضرور میں ان سب کو بہکاؤں گا سوائے تیرے ان بندوں کے ان میں سے جن کو تو نے اپنے لیے خاص کر لیا۔‘‘

اللہ نے بھی اسے کھلی چھٹی دی، جبھی آج ہم وہ سب دیکھنے پر مجبور ہیں جسے رب تعالیٰ کی زمین پر ہوتے دیکھنا ایک عذاب ہے۔

وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَ اَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَ رَجِلِكَ وَ شَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْ١ؕ وَ مَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا (سورة اللإسراء: 64)

’ ’بہکالے جس کو تو بہکا سکتا ہے ان میں سے اپنی دعوت سے۔ اور چڑھا لا ان پر اپنے سوار اور پیادے۔ اور شریک بن جا ان کے مال و اولاد میں اور وعدے کرتا رہ ان سے۔ اور شیطان کے وعدے سب جھوٹے ہیں۔ ‘‘

انسانیت منہ چھپائے پھرتی تھی۔ اخلاقی بحران میں ”می ٹو“ رگیدی گئی، خواتین کے احتجاج نے دنیا بھر کے مرد سیلیبریٹوں، اداکار، رؤساء، حکمران سبھی کے مکروہ کردار بے نقاب کر دیے۔ حتی کہ امریکہ (سپر پاور) کا المیہ یہ ہے کہ ری پبلکن کو صدارتی امیدوار کے لیے ٹرمپ کے سوا کوئی نہ ملا جو اپنی بحرانی اخلاقیات کے ہاتھوں ”می ٹو“ عورت کو چپ رہنے کی قیمت (Hush Money) دینے کے باوجود مقدمے میں ڈٹ کر بلیک میل ہوا۔ امریکہ نیٹو کی عسکری قوت کا بھرم افغانستان میں حیران کن شکست نے پرزے پرزے کر دیا۔ راز ہائے درون خانہ کھلتے گئے۔ مہذب دکھائی دیتے، انسانی حقوق کے دعویداروں کی گوانتامو، ابو غریب، بگرام کے وحشت اثر ظلم کی کہانیاں سامنے آگئیں، دھیان بٹانے کو دنیا میں LGBTQ کا وہ طوفان برپا کیا کہ پناہ بخدا! مگر پھر انسانی ضمیر نے قے کر دی۔ اتنی بدبودار غلاظت کو ہضم کرنا کس کے بس میں تھا؟ دنیا تھرّا اٹھی جب انبیاء کی سرزمین سے طوفانِ اقصیٰ نے 7 اکتوبر کو تل ابیب کا قصد کیا۔ اس سے پہلے ہی فلسطین کی 75 سالہ ظلم کی داستان امریکہ اور دنیا بھر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ باشعور طبقے کی توجہ لے چکی تھی۔ 2 تہلکہ خیز خطوط علم و دانش کی دنیا میں بلند پایہ ماہرین تعلیم، مذہبی طبقہ معروف عوامی شخصیات کے 4593 دستخطوں کے ساتھ حقائق بیان کر رہے تھے۔ مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت اسرائیل نے جنگی جرائم کا جو ڈھکا چھپا کھیل مظلوم فلسطینیوں سے 75 سال سے کھیلا، وہ دو خطوط 2 اگست 2023 ء اور دسمبر2023ء میں پوری دنیا کے مکھن کا درجہ رکھنے والے طبقے نے طشت ازبام کر دیا۔

دنیا سے حقائق چھپانا اب ممکن نہ تھا، امریکہ میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کے بہیمانہ قتل کے خلاف اٹھی زبردست تحریک کے ذریعے پہلے ہی امریکہ کی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب نوجوان نسل نے سامنے لا رکھے۔ میڈیا اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت کی اب دال گلنی ممکن نہ تھی۔ اسی دوران قطر میں عالمی فٹبال کے اکٹھ نے پہلی مرتبہ مسلمانوں اور اسلام کا مہذب چہرہ، مساجد، قرآن، خاندانی نظام دیکھا اور جھوٹے مغربی پراپیگنڈے کی قلعی کھلی۔ حقائق 7 اکتوبر کے بعد مزید کھلتے چلے گئے، اسرائیل کا گھناؤنا، ہلاکو و چنگیز سے بدترکردار، شہری آبادی، ہسپتال، تعلیمی ادارے، معصوم پھول سے بچے خون میں تربتر! دوسری جانب اہل غزہ کا بے مثل صبر و ثبات، ایمان، عقیدہ، فلسفۂ شہادت کی عظمت پر پوری دنیا دہل کر رہ گئی۔ اسرائیل کے لیے نفرت اور اہل غزہ سے محبت اور ان کے لیے ہمہ نوع مدد پر کمربستگی دیدنی ہے! اسرائیل کے خلاف ساری مہمات مغربی نوجوان نسل نے اٹھائیں! امریکہ، یورپی یونین، مغربی حکمران اور ان کا میڈیا بے بس ہو گیا۔ اب دنیا نوجوانوں سے مغربی استعماریت اور استحصال کی تاریخ پڑھ رہی ہے۔ استقامت کے مناظر نے اہلِ غزہ کے مشکبار لہو کی خوشبو سے دنیا معطر کر دی ہے۔ ادھر ان جذبوں کی تپش مغربی نوجوانوں کو انقلاب کی نئی راہیں سجھا رہی ہے۔ اپنے حکمرانوں کی تذلیل اور اسرائیل سے نفرت، استحصالی معیشت پر بھی زبردست ضرب پڑ رہی ہے۔ میکڈونلڈز نے اسرائیلی فوجیوں کو مفت کھانا کھلانے پر دنیا بھر میں بائیکاٹ تحریک کے ہاتھوں اربوں ڈالر کا خسارہ اٹھایا۔ صرف مسلم ممالک بشمول ایٹمی پاکستان میکڈونلڈز کو منافع فراہم فرماتے رہے! تفو برشکم پرستی!

اسلام کے لیے احترام کی فضا ابھری، بڑی تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے حتی کہ ہارورڈ لاء سکول (دنیا کا موقر ترین ادارۂ قانون) نے سورۂ نساء کی آیت 1351کو لائبریری کے دروازے پر آویزاں کیا یہ کہتے ہوئے کہ یہ آیت تاریخ میں انصاف کا بہت بڑا اظہار ہے۔اس بدلی ہوئی دنیا پر ابلیسی دجالی قوتیں بھنّا اٹھیں، انہیں یہ منظر بدلنا تھا۔ دنیا کی اسکرین سے فحش کاری کی جگہ اسرائیل و امریکہ کی مکروہ تصویر نفرت کے جوار بھاٹے اٹھا رہی تھی، سو پوری ڈھٹائی، بے حیائی سے دو اہتمام ہوئے۔ ایک کانگرس کے دونوں ایوانوں سے (غیر سرکاری سطح پر) تسلیم شدہ جنگی مجرم کا خطاب،بھرپور عزت افزائی دے کر ڈنکے کی چو ٹ پر کروایا: امریکیوں کو دورۂ وحشت نے آلیا!

مگر اسے زبردست پذیرائی دینے (انسانیت کشی کے انعام میں کھڑے ہو کر تالیاں بجانے) کے باوجود ڈرامہ قبول نہ ہوا۔ 212ڈیموکریٹس میں سے 100اور 51سینٹ ڈیموکریٹس میں سے 27نے تقریر سنی یعنی تقریباً آدھی تعداد غیر حاضر رہی۔ سخت ترین تنقیدی پیغامات جاری کرنے والے مزید تھے۔برنی سینڈرز نے نیتن یاہو کو جنگی مجرم اور جھوٹا قرار دیا، کہا کہ اسرائیلی اسے منصب سے ہٹانا چاہتے ہیں، وہ اپنی انتخابی مہم کے لیے کانگریس آیا ہے۔ نیتن یاہو کی مبنی بر کذب و افترا تقریر نے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے جھوٹ پر امریکہ، اسرائیل اورگلوبل سرداروں کو ذلت کے گڑھے میں لے جا پھینکا۔ خود امریکی نائب صدر بھی کہہ اٹھی کہ وہ غزہ کی اذیت پر خاموش نہیں رہے گی۔ نیتن یاہو سے ملاقات میں غزہ کی بدحال دگرگوں انسانی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا، ملک بھر میں امریکیوں نے نیتن یاہو یاترا سے اظہار برأت کیا۔

حتیٰ کہ راجیو گاندھی کی بیٹی معروف بھارتی سیاستدان پریانکا گاندھی بھی برس پڑی:

’’امریکی کانگریس اور مغربی دنیا کی طرف سے اسرائیل کے بدترین ظلم کی انتہاؤں کو غیر متزلزل حمایت اور پشت پناہی دیتے ہوئے دیکھنا پوری دنیا کے لیے شرمناک ہے۔ دنیا کی ہر حکومت کا فرض ہے کہ پوری قوت سے یہ قتل عام رکوائے۔‘‘

نیتن یاہو کی پذیرائی کانگریس میں غزہ کے قتلِ عام پر جشن منانے کے مترادف سمجھی گئی۔ امریکیوں نے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے نیتن یاہو کی جائے قیام واٹر گریٹ ہوٹل پر دنیا جہان کے کیڑے مکوڑے چھوڑ دیے،سفید سجے مہذب کھانے کے میز پر رنگین بھورے کالے پیلے کریہہ صورت کیڑے مکوڑوں کے ڈھیر تھے، سنگ مرمر کے حسین فرش بھی ایسا ہی منظر پیش کر رہے تھے۔ یہ خراج عقیدت تھا اسفل ترین قاتل کو خود گوروں کی طرف سے۔

دوسرا اہتمام دنیا کا دھیان غزہ سے ہٹا کر بد اخلاقی پر مبنی تہذیب، فحاشی سے مذہبی تصورات لتھیڑ کر فرانس اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں کیا گیا۔ یہ وار بھی اوچھا پڑا۔ ناقابل بیان LGBTQ سڑاند کو رنگین، دلفریب بنانے کی کوشش نے غزہ بھلانا چاہا تھا،اس کے لیے توہین رسالت کا بدترین مظاہر ہ سیدنا عیسی علیہ السلام کے لیے بھری اسٹیج پر پیش کیا، عیسائی دنیا بھی چلّا اٹھی۔ مغربی بدمعاش ہر سطح پر چھا جانے کی تمنا میں ملعون ترین قرار پائے بلکہ سیرت و کردار کا تضاد مزید واضح ہو گیا۔ فرنچ بشپ کانفرنس میں شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ یہ تقریب بدنصیبی سے عیسائیت کا مذاق اڑانے پر مبنی تھی، جس پر ہم گہرے رنج کا اظہار کرتے ہیں۔ مقدس ترین ہستی کی شان میں گستاخی ہم مسلمانوں کے لیے بھی سینے میں خنجر گھوپنے سے کم نہیں، بد کردار ترین یہودی جس نے یہ کرتوت کی دجالیت کا بدترین مکروہ چہرہ ہے۔ ان کا انجام بہت دور تو نہیں!

[یہ مضمون ایک معاصر روزنامے میں شائع ہو چکا ہے۔ مستعار مضامین، مجلے کی ادارتی پالیسی کے مطابق شائع کیے جاتے ہیں۔ (ادارہ)]

٭٭٭٭٭


1 يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَ الْاَقْرَبِيْنَ١ۚ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا١۫ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤى اَنْ تَعْدِلُوْا١ۚ وَ اِنْ تَلْوٗۤا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۰۰۱۳۵

’’اے ایمان والو ! انصاف قائم کرنے والے بنو، اللہ کی خاطر گواہی دینے والے، چاہے وہ گواہی تمہارے اپنے خلاف پڑتی ہو، یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔ وہ شخص (جس کے خلاف گواہی دینے کا حکم دیا جا رہا ہے) چاہے امیر ہو یا غریب، اللہ دونوں قسم کے لوگوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے، لہٰذا ایسی نفسانی خواہش کے پیچھے نہ چلنا جو تمہیں انصاف کرنے سے روکتی ہو۔ اور اگر تم توڑ مروڑ کرو گے (یعنی غلط گواہی دو گے) یا (سچی گواہی دینے سے) پہلو بچاؤ گے تو ( یاد رکھنا کہ) اللہ تمہارے کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘ (حاشیہ از ادارہ)

Exit mobile version