مدرسہ و مبارزہ | پہلی قسط

مدارس اور دینی جدوجہد کی تحریک | مولوی عبد الہادی مجاہد

زیرِ نظر تحریر افغانستان سے تعلق رکھنے والے عالم، داعی اور فکری جنگ پر دقیق نظر رکھنے والے مفکر فضیلۃ الشیخ مولوی عبد الہادی مجاہد (دامت برکاتہم)کی پشتو تصنیف ’مدرسہ او مبارزہ‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر افغانستان میں مدارس اور دینی تعلیم کے نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے ، لیکن کتاب میں بیان کی گئی امت مسلمہ کی حالت اور اس حوالے سے جو مطالبہ ایک افغان عالم ِاور مدرسے سے کیا گیا ہے وہ درحقیقت باقی عالمِ اسلام کے علماء اور مدارس سے زیادہ مطلوب ہے۔ اس لیے کہ افغانستان میں تو آج ایک شرعی و اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہے جبکہ باقی عالَمِ اسلام اس سے کہیں پیچھے ہے۔ اس کتاب کے اصل مخاطبین علماء و طلبہ ہیں جن کی تاریخ بالاکوٹ، شاملی، صادق پور اور دیوبند کے پہاڑوں، دروں، میدانوں اور مساجد و مدارس کے در و دیوار پر نوشتہ ہے! ومن اللہ التوفیق! (ادارہ)

دیباچہ

الحمد لله رب العالمين القائل: يريدون ليطفئوا نور الله بأفواهم ويأبى الله إلا أن يتم نوره ولو كره الكافرون. والصلوك والسلام على أشرف الأنبياء و إمام المرسلين القائل: من دعا إلى هدى، كان له من الأجر مثل أجور من تبعه، لا ينقص ذلك من أجورهم شيئا. وعلى آله و أصحابه الهداية المهديين الذين أناروا الدنيا بنور الدين و اليقين، ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.

اس کتاب کو لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسی اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے جو عالمی استعمار کے خلاف مجاہدین کی عسکری اور سیاسی کامیابی کا نتیجہ ہے، اس تحریک کی باگ ڈور اوّل روز تا ہنوز علمائے کرام کے ہاتھوں میں ہے، جو اب اسلامی دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ سیاست، عسکریت، ثقافت، قانون اور اجتماعی و معنوی اقدار میں واضح فرق رکھتی ہے۔

اس موجودہ اسلامی نظام کے استحکام اور دوام کے لیے علمائے کرام کی ایک ایسی نسل تیار کرنے کی ضرورت ہے، جو ایک طرف نظام چلانے ، اس کی حفاظت کرنے کے قابل اور علمی فوقیت کی حامل ہو، تو دوسری طرف اس نظام کو درپیش علاقائی و عالمی خطروں اور چیلنجز کا ادراک کر کے اس کا مقابلہ کر سکے۔

افغانستان کے اندر گزشتہ سو سال سے مغربی افکار نے فلسفیانہ طور پر لوگوں کے ذہنوں، حکومتی قوانین، تعلیمی نصاب اور ثقافتی اقدار میں جگہ بنا لی ہے۔ مغربی افکار اور نظریات کے زہریلی اثر کے نتیجے میں یہاں ایسی نسل تیار ہوئی جو بنیادی طور پر دین اور دینی اقدار سے بیزار ہوگئی یا ان کا دینی اعتقاد اس قدر کمزور ہوا کہ ہر مخالف افکار کی لہر انہیں اپنے ساتھ بہا لے گئی۔

؏ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی

اور پھر اسی فکری انحراف کے نتیجے میں ان کو سعادت اور نجات اسلام میں نہیں بلکہ دیگر چیزوں میں نظر آتی ہے، اور یوں اپنے دین اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ کے لیے مخالف کی صف میں جا کھڑے ہوتے ہیں۔

اس نسل کی اسلام مخالف افکار پر تربیت ہوئی اور یہ ان افکار سے اتنی متاثر ہے کہ اس کی وجہ سے اسلام پر ان کا سرے سے بھروسہ ہی نہیں کہ اسلام ہر دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ، مسلمانوں کے فکری، قانونی، تمدنی، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی، عسکری اور اقتصادی حالات کو منظم کرنے کے لیے اپنے قوانین اور تعلیمات کا حامل ہے۔ تبھی تو یہ طبقہ ہمیشہ سے اس جستجو میں ہے کہ ان تمام میدانوں میں درپیش مشکلات کے حل کے لیے مشرقی یا مغربی کفری نظاموں، افکار اور قوانین کو درآمد کرے، پھر یہ شب و روز اسی کا پرچار کرتے ہیں، اور اسلامی سرزمینوں کے سیاہ و سفید کے مالک ہونے کے بعد ان چیزوں کو بزور آتش وآہن اور بذریعۂ ظلم و استبداد تمام عوام اور ریاست پر لاگو کرتے ہیں۔

افغانستان کے اندر غیر اسلامی افکار کی ترویج کرنے والے اپنے افکار کی ترویج کے لیے تمام مواقع اور مہیا وسائل کو بروئے کار لائے، فکری حلقاتِ درس بنا ئے، کتابوں کی نشر و اشاعت کی، اسلام مخالف فکری ادبیات کو علمی حلقات میں در لائے، نشریاتی ادارے تشکیل دیے، نصاب مرتب کیے، پارٹیاں بنائیں، افکار کو سیاسی قوت ملنے کی بدولت حکومتیں قائم کیں، اور تعلیم یافتہ طبقے کو اسلامی حاکمیت یعنی اسلام کے سیاسی غلبہ کا راستہ روکنے کے لیے مختلف ناموں سے منسوب کرکے اپنے ساتھ ملا لیا۔ بغاوتوں اور غیروں سے عسکری مدد مانگنے کے نتیجے میں لاکھوں انسانوں کا قتل عام، قید و بند، معذوری اور بے سروسامانی کے حالات پیش آئے۔

افغانستان کے اندر مغربی و اشتراکی افکار کے حاملین مختلف طریقوں سے اپنے پردیسی حامیوں کے ساتھ مکمل رابطے میں رہے، انہوں نے ہر دور کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے نظریات اور منصوبوں کی تشکیل نو کی، ان کی ہمیشہ کوشش رہی کہ عوام کے ایک طبقے کو اپنے نظریات کے ساتھ ہم آہنگ کرکے ان کو الگ الگ دھڑوں کی صورت میں اپنے ساتھ مربوط رکھیں۔

افغانستان کے اندر غیر اسلامی افکار کے حاملین چاہے وہ اشتراکیت پسند ہوں، ملحد ہوں یا قوم پرست، انہوں نے ایک طرف اپنے افکار کو معقول فلسفے اور ترقی کے راز کے طور پر لوگوں میں یوں متعارف کروایا کہ جیسے ان کے افکار اور نظام لوگوں کو سعادت کی زندگی بخشتے ہیں، جبکہ دوسری جانب اسلام اور اسلامی حاکمیت کے حوالے سے لوگوں کو غلط اور تحریف شدہ فکر دی تاکہ آنے والی نسلوں کو اسلامی فکر اور نظام سے بیزار کر سکیں۔

مغربی اور اشتراکی افکار کے حاملین نے ایک جانب انسانیت کا خون کیا، تو دوسری جانب اپنے افکار کی وسعت اور ذہن سازی کے ذریعے لوگوں کی کثیر تعداد کو ہمنوا بنا کر امتِ مسلمہ کے خلاف انہیں لڑوایا، پھر یہی لوگ تھے جو عالم، منبرو محراب، مسجدومدرسے، شیخ، خانقاہ، پیر اور ہر دینی جہت کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ لوگ نہ صرف دیندار طبقے کے خلاف فکری لحاظ سے صف آرا ہوئے بلکہ انہوں نے عملی طور پر بے رحمانہ دشمنی بھی اپنائی، دینی طبقے پر بمباری، قتل و غارت، قید و بند، جلاوطنی اور بے حرمتی کے بھیانک مظالم ڈھائے ، اور جب ان سے عاجز ہوئے تو دینی طبقے کو مٹانے کے لیے غیر ملکی افواج منگوا کر اپنے عوام، دین اسلام اور عقائد اسلام کے خلاف حملہ آوروں کے ساتھ مل کر جنگی صف میں نبردآزما ہوئے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہمارے عوام کے ایک طبقے نے آخر کیوں غیر اسلامی افکار کو قبول کیا؟

یہ لوگ غیروں کی صف میں کیوں کھڑے ہوئے؟

آیا ان غیر اسلامی پردیسی افکار کو واقعی اسلام پر فوقیت حاصل تھی جس کی وجہ سے لوگوں نے اسے قبول کیا؟

آیا یہ پردیسی افکار اس حد تک معقول تھے کہ ان کی خاطر انہوں نے اسلامی اعتقادات کو چھوڑ دیا؟

اس سارے مسئلے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک صدی سے ہمارے ہاں مسجد و محراب، مدرسے اور معنوی رہنمائی کرنے والے لوگوں نے معاصر باطل ادیان و افکار کے خلاف علمی اور فکری محاذ پر مطلوبہ مقابلہ کرنے سے بے التفاتی اختیار کی ہے، ہم نے ان کے باطل ادیان و افکار کی رد میں کتابیں نہیں لکھیں، اور نہ ہی ان باطل افکار کے خلاف مؤثر انداز میں آواز اٹھائی، نہ فکری کتب مرتب کیں، نہ تربیتی حلقات کا انعقاد کیا، نہ ان کے نظریات اور فلسفے پر علمی نقد کی، اور نہ ہی ان کے عقائد اور نظریات کا بطلان لوگوں کے سامنے علمی انداز میں بیان کیا۔ جبکہ مغربی اور اشتراکی فکر کے حاملین نے ادھر اپنے نظریات، ترقی، مساوات، ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ ہم آہنگ چلنے، ظلم و غربت کے خاتمے اور ایسے بہت سارے مختلف ناموں کے ساتھ لوگوں کے سامنے روشناس کروائے، اور ہماری کوتاہی کی وجہ سے فکری خلا کو انہوں نے اپنے فکری موادسے بھر دیا۔

افغانستان میں امان اللہ خان کے دور سے لے کر آج تک مغرب پرستی اور اس کے لیے منظم کوششوں کے نتیجے میں سیاست، قوانین، نظام، بین الاقوامی تعلقات اور عسکری روابط اسلامی معیار پر نہیں بلکہ مغربی یا اشتراکی بنیادوں پر استوار کیے گئے۔

افغانستان میں نظاموں کی سیاست اس اسلوب پر چلی کہ دین اور دینی علماء نظام اور معاشرے میں کہیں بھی قیادت حاصل نہ کر سکیں۔ اس صورتحال کے نتیجے میں ایسے حالات سامنے آئے کہ دینی علماء معاشرے کی قیادت سے محروم کر دیے گئے، معاشرے کے برسرِ اقتدار افراد فکری، عقیدوی، سیاسی، عسکری اور ثقافتی لحاظ سے دینی التزام سے دور ہو کر غیروں کے پیچھے چل دیے۔

دینی علمائے کرام جو وارثانِ نبوت تھے (علی صاحبھا الصلوۃ والسلام ) یا تو ہجرت و جلاوطنی پر یا خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کر دیے گئے، یا پھر علمائے کرام نے اسلام کی ایسی تشریح و تعلیم پر اکتفا کر لیا جس کی بدولت نہ تو مسلط باطل طبقوں سے مقابلہ ممکن تھا، اور نہ ہی اس کی بدولت وہ معاشرے میں فکری یا علمی طور پر اثر انداز ہونے کے قابل تھے، اور نہ ہی اس کی بدولت کسی اسلامی انقلاب کے لیے تبدیلی کا راستہ ہموار ہو سکتا تھا۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے فکری میدان میں خلا کی وجہ سے غیر اسلامی فکر کے حاملین نے بھر پور فائدہ اٹھا کر اس خلا کو اپنی فکری ادبیات سے بھر دیا ، جس کو عوام کی ایک کثیر تعداد نے قبول کیا اور اسی کی بنیاد پر اپنی فکرسازی کی، اور پھر یہی لوگ اسلامی فکر، مدرسے اور مجاہدین کے خلاف لڑے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل مدرسہ اس میدان میں گہری فکر اور منظم فعالیت کے ساتھ علماء کی آئندہ نسلوں کو فکری مقابلے کی ادبیات خصوصیت کے ساتھ سکھائیں، اور علماء و طلباء کے اندر ایسی صلاحیتیں پیدا کریں جن کی بدولت وہ آج کے انسان کو ان کی زبان میں اسلامی مفاہیم سکھا سکیں، اور یونہی آج کے انسان کے سامنے ان شبہات کا رد پیش کیا جا سکتا ہے جو غیر اسلامی افکار کے حاملین نے ان کے دماغوں میں بٹھائے ہیں۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Exit mobile version