ہوگا قدس آزاد!

قاضی ابو احمد

موت ایک اٹل حقیقت ہے ، قزاق اجل کسی نہ کسی روز ہزارہا محاصروں، بلند و مضبوط ترین قلعوں کے در و بام کی پروا نہ کرتے ہوئے آ پہنچتے ہیں، یہی حقیقت ہے ، صدہا برس سے موت اپنی روش پر قائم ہے، اور سینکڑوں افراد اس کا لقمۂ تر بنتے رہے ہیں، لیکن عام موت مرنے والے اور راہِ خدا میں جاں کے نذرانے پیش کرنے والوں کی موت و حیات میں کافی فرق ہے، عام موت مرنے والے مردہ ہیں راہ خدا میں مرنے والے زندہ ہیں، مجاہد کی زندگی سعادت ہے اور موت شہادت ہے، یہی وہ فرق و امتیاز اور حدِ فاصل ہے جو شہید کو ممتاز بنادیتی ہے، قرآن و احادیث کی نصوص اس کی مؤید ہیں، حماس کے سربراہ صہیونی حملے کا نشانہ بنے اور ردائے شہادت اوڑھ کر خون ِ شہادت سے سج دھج کر سوئے دار القرار چل دیے۔ سعادت بھی پائی، شہادت بھی پائی، اور محرم کے مبارک ماہ میں شہیدانِ کربلا کی ہمراہی بھی پائی، واہ واہ کیا ہی سعادت مندی ہے، لیکن شیخ کی جدائی پر دل غمزدہ ہے، آنکھیں نم ہیں ، موت کا افسوس نہیں موت تو بہر صورت آکر رہے گی ، لیکن شیخ شہید جیسے ہیرے صدیوں میں خاکِ زمیں جنم دیتی ہے، بڑی مشکل سے چمن میں دیدہ ور پیدا ہوتا ہے، جس کے اخلاص و وفا کی خوشبو سے چمن مہکتے ہیں، تحریک کے گُلوں میں رنگ بھرتا ہے، کلیوں کو ذوق تبسم نصیب ہوتا ہے ، اقصیٰ کی بازیابی کے مقصد تلے اپنے مفادات کی جستجو کرنے والے مشن کے واسطے سے اپنے مقاصد کی حصولیابی کے لیے دم بھرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے، لیکن شیخ جیسے مخلص و باوفا عبقری شخص جنہوں نے اپنے خاندان کو قدس کی آزادی کے لیے راہِ خدا میں قربان کردیا، کہاں سے ملے گا ؟

بہ گلشن بسے آں کہ گردیدہ باشد
گلِ ناز کے چوں تو کم دیدہ باشد

(جو بھی گلشن میں بہت گھوما ہوگا
اس نے تجھ سا پھول کم ہی دیکھا ہوگا)

شیخ کی جدائی پر عالمِ اسلام افسردہ ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کرایے کے ٹٹو کون تھے، جنہوں نے تحریکِ حماس میں ایک خلا پیدا کردیا اور جنہوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے شیخ کو نشانہ بنوایا، لیکن تحریک تحریک ہوتی ہے، ایک نظریہ ہوتا ہے، جو افراد کے ختم ہونے سے ختم نہیں ہوتا ، یہ مزاحمت جاری رہے گی ان شاءاللہ! حماس ایک نظریہ ہے جسے شکست نہیں دی جاسکتی ، تاریخ میں بھاڑے کے ٹٹو اور لٹوؤں کی تعداد گرچہ کم نہیں رہی ہے، لیکن دین و ایمان اور خدا و رسول کے لیے جاں فدا کرنے والوں سے بھی تاریخ بھری پڑی ہے ، اور یہی فدائیت یہی جذبہ جہاد یہی جدو جہد ، پھر آزادی و خود مختاری کا ذریعہ بنتی ہے۔ آج شیخ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کا مشن بفضل تعالیٰ رواں دواں ہے اور رہے گا ، اقصی ہماری ہے، قدس ہمارا ہے ، شیخ شہید رحمہ اللہ بلکہ ہر وہ شخص جو اقصیٰ کا ہو، دل و جاں سے پیارا ہے ، اور پیاروں کے بچھڑنے پر لوگ آنسو بہایا کرتے ہیں، ہمارا دل کہہ رہا ہے:

هاهُنا بعضُ النُّجومِ انطفأتْ
كي تزيدَ الأنجمُ الأُخْرى اشتعالْ
تفقدُ الأشجارُ منْ أغصانِها
ثمَّ تزدادُ اخضراراً واخضلالْ

یہاں کچھ ستارے بجھ گئے ہیں
تاکہ دیگر ستارے اور زیادہ چمک سکیں
درخت اپنی شاخوں کو کھو دیتے ہیں
پھر اور زیادہ ہرے بھرے اور سرسبز ہو جاتے ہیں

شیخ اسماعیل ہنیہ شہید ایک معروف فلسطینی مجاہد و سیاستدان اور حماس (حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ) کے ایک اہم رہنما تھے، ان کی زندگی اور کیرئیر کی مختلف جہات ہیں جو ان کے سیاسی اثرات اور فلسطینی جدوجہد میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

شیخ اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ 29 جنوری 1963ء کو غزہ کی پٹی میں واقع الشاطئ مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے دوران اپنے آبائی علاقے سے نقل مکانی کر کے یہاں آ بسا تھا۔ شیخ ہنیہ نے مقامی سکولوں میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور بعد میں اسلامی یونیورسٹی غزہ سے عربی ادب میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔

شیخ اسماعیل ہنیہ شہید کا سیاسی کیرئیر 1980ء کی دہائی میں شروع ہوا جب وہ فلسطینی طلبہ تنظیم ’’الكتلة الإسلامية‘‘ کے رکن بنے، یہ تنظیم حماس کے قیام کے بعد اس کے ساتھ منسلک ہو گئی۔ 1989ء میں جب حماس کے بہت سے رہنماؤں کو اسرائیلی حکام نے گرفتار کیا تو ہنیہ بھی ان میں شامل تھے اور انہیں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔

1992ء میں شیخ اسماعیل ہنیہ کو اسرائیلی حکام نے لبنان جلا وطن کردیا، جہاں انہوں نے حماس کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ مل کر تنظیم کو دوبارہ منظم کیا، شیخ 1993ء میں غزہ واپس آئے اور حماس کی اعلیٰ قیادت میں شامل ہو گئے۔

2006ء میں شیخ اسماعیل ہنیہ کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیراعظم مقرر کیا گیا، ان کے دور حکومت میں فتح اور حماس کے درمیان سیاسی اور عسکری تنازعات کا سلسلہ جاری رہا، جس کے نتیجے میں 2007ء میں غزہ کی پٹی میں حماس نے کنٹرول حاصل کر لیا۔

اسماعیل ہنیہ 2017ء میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ منتخب ہوئے، اس عہدے پر وہ حماس کی مجموعی پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات کی نگرانی کرتے رہے ۔

اسماعیل ہنیہ کا موقف حماس کے بنیادی نظریات سے ہم آہنگ تھا ، جس میں اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد اور فلسطینی حقوق کی بحالی شامل تھی وہ مذاکرات کی بجائے مزاحمت کے حامی تھے، شیخ کا بنیادی مقصد اقصیٰ کی آزادی اور ارض مقدس کو صہیونیوں سے پاک کرنا تھا۔ آج شیخ ہم سے بچھڑ کر جاچکے ہیں، لیکن آسمان و زمین کے رب کی قسم خونِ شہیداں رنگ لائے گا، شہداء نے جس کھیتی کو خونِ جگر سے سینچا ہے، وہ فصل پک کر رہے گی، آج لگائے گئے پودے گل و گلزار بن کر لہکیں گے، آج جو شگوفے چٹک رہے ہیں، کل ان کا شباب زوروں پر ہوگا ، چڑیاں ان پر چہکیں گی ، تتلیاں ان پر آئیں گی، کوئل ان پر نغمہ خواں ہوگی ، مسرت کے شامیانے گاڑے جائیں گے، فتح و نصرت کے نقارے کی چوٹ بہت جلد ان شاءاللہ عالم اسلام سنے گا۔

جئیں گے جو وہ دیکھیں گے بہاریں زلف جاناں کی
سنوارے جائیں گے گیسوئے دوراں ہم نہیں ہوں گے

اے ارض فلسطین! اے اہلِ فلسطین! اللہ کا وعدہ و نصرت قریب ہے، صہیونیوں کے مکانوں پر ماتم کے چراغ جلنے کو ہیں، یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا، القدس آزاد ہوگا، غزہ پھر سے آباد ہوگا، لیکن اے شیخ آپ نہیں ہوں گے، یہ آنکھیں لاکھوں کے مجمع میں آپ کو کھوجیں گی، ان ستم رسیدہ ماؤں بہنوں اور معصوم پھولوں کو دل یاد کرے گا، لیکن جانے والوں کی کمی کہاں پوری ہوا کرتی ہے، کہنے کو تو نعم البدل بڑا خوبصورت لفظ ہے جو وقتی تسلی دیتا ہے، لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ جانے والے لوٹ کر نہیں آیا کرتے ، ہاں یادیں ضرور آیا کرتی ہیں، اے شیخ آپ کی جدائی ہمارے زخمی دلوں پر انتہائی گراں ہے، ان شاءاللہ آپ کی شہادت ضائع نہیں جائے گی۔

ہمارے بعد ہی خونِ شہیداں رنگ لائے گا
یہی سرخی بنے گی زیبِ عنواں ہم نہیں ہوں گے
نہ تھا اپنی ہی قسمت میں طلوع مہر کا جلوہ
سحر ہو جائے گی شام غریباں ہم نہیں ہوں گے

فلسطین کی سر زمین پر اسرائیلی ریاست کے قیام کے خواب دیکھنے والے پھر دربدر ہوں گے، افغانستان میں اپنے جھنڈے گاڑنے کی سوچنے والے سپرپاور روس و امریکہ اپنا منہ کالا کرکے چلے گئے تو اسرائیل کیا چیز ہے، اسرائیل اپنی مادیت کے بل بوتے پر روحانیت سے ٹکرانے چلا ہے، معلوم ہونا چاہیے کہ مادیت جب روحانیت سے ٹکراتی ہے تو مادیت ہار جاتی ہے روحانیت جیت جاتی ہے، وہ وقت آنے والا ہے جب لوگ نقشے پر اسرائیل ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے تو انہیں اس میں اسرائیل نامی ریاست کا کوئی وجود نہیں ملے گا۔

کتائب عز الدین قسام شہید کی جانب سے شیخ کی شہادت پر تعزیتی کلمات لائق توجہ ہیں:

’’ مجاہد قائد’ابو العبد‘ ایک بھرپور قربانی، جہاد اور عطا کی زندگی گزارنے کے بعد شہید ہوئے، جس کے دوران انہوں نے تحریک کے مختلف مراحل میں ترقی اور جہادی سفر میں اہم کردار ادا کیا، اور اپنے سفر کے دوران مسئلۂ فلسطین کے لیے بہت کچھ پیش کیا، اور مزاحمت کو مضبوط کرنے، امت کے بیٹوں کی کوششوں کو یکجا کرنے اور قبلۂ اوّل کی طرف رہنمائی کرنے میں اہم کردار ادا کیا، تاکہ ان کے لیے شہادت کا اختتام اشرف المعارک ’’معرکہ طوفان الاقصی‘‘ میں ہو جہاں ہماری عوام اور امت کے آزاد لوگ اقصیٰ اور مقدسات کے دفاع میں لڑ رہے ہیں۔

قائد ہنیہ کے خلاف تہران کے دارالحکومت میں مجرمانہ قاتلانہ حملہ ایک اہم اور خطرناک واقعہ ہے، جو معرکے کو نئی جہتوں میں لے جاتا ہے اور اس کا بڑا اثر خطے پر پڑے گا، اور دشمن نے مختلف مقامات میں مزاحمت کے قائدین کو قتل کر کے اور خطے کے ممالک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرکے غلط اندازہ لگایا ہے، اور اندھا جنونی نیتن یاہو اپنی ریاست کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے اور فلسطین کی سرزمین سے اپنے زوال کو آواز دے رہا ہے ۔

صہیونی بدمعاشی کے رکنے کا وقت آ گیا ہے، اور اس بے قابو دشمن کو لگام ڈالنے کا وقت آ گیا ہے، اور اس کا ہاتھ کاٹنا ضروری ہے جو یہاں وہاں کھیل رہا ہے تاکہ اسے اور حملوں سے روکا جا سکے۔ مختلف مقامات پر دشمن کے مسلسل جرائم خطے کی تمام ریاستوں اور عوام کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں، اور سب کو فلسطین میں مزاحمت کی حمایت اور مدد کے لیے حوصلہ افزائی کا سبب بننا چاہیے کیونکہ یہ امت کے دفاع کی پہلی لائن ہے، اسی لیے دشمن اسے توڑنے اور تسلیم کروانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ امت کے عوام اور ریاستوں پر بڑا حملہ کرنے میں آزاد ہو سکے۔

ہمارے قائد اسماعیل ہنیہ کا خون جو آج غزہ کے بچوں، عورتوں، نوجوانوں اور بوڑھوں کے خون کے ساتھ مل رہا ہے، اور ہمارے عوام اور امت کے مجاہدین کے خون کے ساتھ، یہ ثابت کرتا ہے کہ مزاحمت اور اس کے قائدین، اس جنگ میں اپنے عوام کے ساتھ شانہ بشانہ ہیں، اور یہ پاک خون جو اللہ کے نزدیک عزیز ہے، بے کار نہیں جائے گا، بلکہ یہ آزادی کی راہ میں چراغ بنے گا، اور دشمن کو اس کے حملے کی قیمت غزہ، مغربی کنارہ اور اس کی اپنی بدصورت ریاست میں اور ہر جگہ جہاں ہمارے عوام اور امت کے مجاہدین کے ہاتھ پہنچیں گے، اپنے خون سے ادا کرنی پڑے گی۔‘‘

مولانا مسعود ازہر دامت برکاتہم شیخ کی تعزیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ہم اس موقع پر……مجاہدین فلسطین کے ساتھ ان کے اس غم میں شریک ہیں…… ہم انہیں بیک وقت’’مبارکباد‘‘ اور تعزیت پیش کرتے ہیں…… اور انہیں دل سے مطلع کرتے ہیں کہ…… ہماری جانیں اسلام کے غلبے…… ختم نبوت، ناموس رسالت…… مسجد اقصیٰ کی حرمت…… فلسطین اور کشمیر کی آزادی…… اور پاکباز شہدائے کرام کے انتقام کے لیے حاضر ہیں۔‘‘

والله غالب على أمره ولكن أكثر الناس لا يعلمون

٭٭٭٭٭

Exit mobile version