شہسوار!

شہادتِ شیخ اسماعیل ہنیہ رحمۃ اللہ علیہ

دلیلِ راہ بن کے جو ستارۂ سحر رہا
بجھا تو روشنی کی کائنات دل میں بھر گیا

ہر انسان بطور فرد ہی اس دنیا میں آتا ہے اور وقت آخریں تنہا ہی مٹی کی آغوش میں جاسوتا ہے اور پھر تنہا ہی اپنے رب کے یہاں اٹھایا جائے گا۔ مگر انہی افراد میں سے بعض کو اللہ رب العزت اپنے دین کی نصرت کے لیے چن لیتے ہیں اور اس ایک کا وجود خواب غفلت میں کھوئی ایک پوری قوم پر بھاری ہوتا ہے۔ یقیناً اس دنیا میں ہر ایک نے اپنے ہی حصے کا کردار ادا کرنا ہے اور پھر دنیا کی اس تماش گاہ سے اوجھل ہوجانا ہے، مگر بعض خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں کہ تختِ دنیا پر جن کا کردار کئی کرداروں کو حق کی راہ پر ساتھ لے کر چلنے والا ہوتا ہے۔ وہ حق و باطل کی تفریق کا استعارہ بن جاتےہیں، حوصلے اور ہمت کی نظیر بن جاتے ہیں اور صبر و استقامت کی دلیل ان کا کردار دنیا والوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ایسے ہی ایک شہید اسماعیل ہنیہ رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں، ان شاء اللہ۔ اللہ رب العزت ان کی شہادت قبول فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور جس بلند مقصد کی خاطر انہوں نے اپنی ، اپنی اولاد اور اپنی قوم کی جان اللہ رب العزت کے حضور پیش کی، اس مقصد کو اللہ رب العزت پورا فرمائے ۔

دشمن یہ سمجھتا ہے کہ قائدین کو جنگ کے منظر نامے سے ہٹا کر وہ کامیابی حاصل کرلے گا، مگر حقیقت یہ ہے کہ قائدین کی قربانی ان کی کھڑی کی ہوئی تحریک میں مزید جوش و جذبہ پیدا کرتی ہے، تحریک کے کارکنان کا اپنے قائدین کے اخلاص پر اعتماد پختہ تر ہوجاتا ہے اور وہ یہ جان جاتے ہیں کہ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو کارکنان کو قربانیاں دینے پر ابھارتے ہیں اور اپنے بال بچوں سمیت خود کو محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ تو وہ ہیں کہ جن کے پیارے غزہ کے محصورین کے ساتھ محصور ہیں اور جو اہل غزہ کے مثل، ان کے شانہ بشانہ قربانیاں دے رہے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ جب ملکوں ملکوں پھر کر، وفود سے ملاقات کر کے انہیں اپنے مقصد کے حق ہونے کا یقین دلاتے اور ان کے دلوں میں جذبات گرمانے کی کوشش کرتے تو انہیں پورا پورا یقین تھا کہ وہ نہ صرف دشمن کی نگاہ میں بلکہ اس کی پہنچ میں بھی ہیں۔ دشمن نے چاہا کہ ان کے بیٹوں اور پوتوں کی شہادت انہیں ان کے مقصد سے پیچھے ہٹا دے، ان کے حوصلے پسپا ہوجائیں اور وہ راہ سے بے راہ ہوجائیں مگر حلم و حوصلے کا وہ پیکر اپنے دل کے ٹکڑوں کی شہادت کی خبر سن کر بھی مسکرا کر اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے آگے بڑھ گیا۔ پس وہ جان ہتھیلی پر لیے دشمنوں کے نرغے میں یہاں سے وہاں تک القدس کی آزادی کا جھنڈا اٹھائے پھرتے رہے اور صلاح الدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وا اسلاماہ! کے نعرے لگاتے رہے یہاں تک کہ اسلام کے دشمنوں کی آنکھوں میں ان کا وجود اس قدر کھٹکنے لگا کہ دشمن نے انہیں اپنی راہ سے ہٹا دینے کا فیصلہ کیا۔ مگر کیا ایک اسماعیل ہنیہ کے راہ سے ہٹ جانے سے طوفانِ اقصیٰ تھم گیا؟ کیا مجاہدین کے حوصلے ٹوٹ گئے؟ کیا انہوں نے ہتھیار ڈال دیے؟ نہیں…… بلکہ انہوں نے وہ کیا جو انہوں نے دہائیوں میں نہیں کیا تھا۔ انہوں نے عین تل ابیب کے قلب میں فدائی حملہ کر ڈالا۔ کوئی ہے جو ان مجاہدین کے ایمان اور ولولوں کے آگے بند باندھ سکے؟ وہ جنہیں بھوک، خوف، جان و مال کے نقصان، اپنے پیاروں کی شہادتیں راہ سے نہ ہٹا سکیں، وہ کہ جن کے عوام ہمہ نوع تکالیف اور دکھ سہنے کے باوجود بھی اپنے مجاہدین کو کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں، کیا ان مجاہدین اور ان عوام کی راہ، دشمن ان کے قائدین کی میتوں کے ذریعے روک سکتا ہے؟ ہرگز نہیں!

القدس کا دشمن وہ ہے کہ جس نے جسمانی طور پر معذور و مفلوج، بے شمار بیماریوں کے شکار اس شیر شیخ احمد یاسین ﷫ کو بھی نہ چھوڑا کیونکہ ان کی زبان حق کی صدا لگاتی تھی اور وہ اللہ کے بندوں کو غلامی کی زنجیریں توڑ دینے پر ابھارتے تھے۔ پس جو شخص بھی دعوتِ حق کا پرچم اٹھائے گا وہ دشمن کی بندوق کے دہانے پر ہوگا۔ اس کا ایمان اس کی ہتھیلی پر انگارے کی مانند ہوگا اور یہی انگارہ اس کا امتحان ہوگا۔ آج پوری دنیا میں اہل حق کی زبان کو ہرجگہ دبایا جارہا ہے، فحاشی اور عریانی پھیلانے کی کھلی آزادی ہے، لادینیت کی ترویج ہر سطح پر جائز ہے، جلیل القدر انبیا علیہم السلام اور شعائر اسلام کی شان میں گستاخی آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر بسر و چشم قبول ہے ، لیکن اگر قبول نہیں ہے تو اللہ کا دین قبول نہیں ہے، اس دین کی دعوت قبول نہیں ہے، اس دین کے لیے جہاد قبول نہیں ہے۔ اسرائیل آج جو کررہا ہے اس دہشت گردی کا سر کچلنے والا کوئی نہیں لیکن جہاں کسی نے داڑھی رکھی، پنج وقتہ نماز باجماعت شروع کی اور فرائض دین کی دعوت اپنی زبان پر لایا، فوراً سے پہلے ریاستیں حرکت میں آکر اس ’دہشت گرد‘ کا سر کچلنے کو تیار ہوجاتی ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ یہ دنیا اسلام سے اور اہل اسلام سے دہشت زدہ ہے۔ یہ دنیا یہ جانتی ہے کہ اسلام میں نظام ہائے عالم کی موت ہے۔ اسلام شہوات کی اتباع کی جڑ کاٹتا ہے اور اسلام اس ظلم اور استحصال کا نام تک گوارا نہیں کرسکتا جس کی بنیاد پر آج کا یہ ریاستی نظام قائم ہے۔

قریباً گیارہ ماہ قبل جب طوفانِ اقصیٰ اٹھا تو پوری امت کے اہل ایمان کے دل ان کے ساتھ دھڑکنے لگے۔ مگر آہستہ آہستہ بیشتر لوگ اپنی معمول کی زندگیوں کی جانب لوٹ گئے اور طوفان اقصیٰ ہماری زندگیوں میں بس اعداد و شمار کی صورت میں باقی رہ گیا کہ اب شہداء کی تعدا داتنی ہوگئی اور اب اتنی ہوگئی۔ مگر کیا اہل غزہ بھی اپنی معمول کی زندگی کی جانب لوٹ سکے ہیں؟ ان کے لیے تو ہر آنے والا دن ایک نیا طوفان لے کر آرہا ہے، ان کے شہداء کی تعداد چالیس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور ان کے وطن کی سرزمین کا وہ حصہ جو پہلے ہی دنیا میں کھلی فضا میں قائم سب سے بڑا قید خانہ کہلاتا تھا، اب دنیا میں کا سب سے بڑا ملبے کا ڈھیر اور قبرستان بن چکا ہے۔ اہل غزہ کی زندگیوں میں دکھ،درد، خوف، بھوک، دربدری اور کرب کی وہ تاریخ رقم ہو رہی ہے جس کا کبھی انہوں نے تصور بھی نہ کیا ہوگا۔ مگر وہ ثابت قدم ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ان کے سامنے ایک اعلیٰ مقصد ہے۔ جبکہ ہم، جو بظاہر امن و امان کی فضاؤں میں چین کی بانسری بجا رہے ہیں، ہم اپنے اعلیٰ مقاصد کو بھلا بیٹھے ہیں۔ ہم نے فلسطین، کشمیر، مشرقی ترکستان، برما، یمن، شام کے مسائل کو پرایا مسئلہ جان کر اس کی طرف سے آنکھیں بند کررکھی ہیں اور ہم یہ بھلا بیٹھے ہیں کہ یہ امت جسدِ واحد ہے۔ اس کے ایک حصے میں تکلیف ہوگی تو چاہے نہ چاہے بھی باقی جسم اس تکلیف کو محسوس کرے گا اور بخار میں مبتلا ہوگا۔

وقت کی صدا یہ ہے کہ اس بخار کو نظر انداز نہ کیجیے، اس کو دبانے کی فکر نہ کیجیے بلکہ اس بخار کی وجہ بننے والی تکلیف کو دور کیجیے۔ کفر کے سر پر ہر طرح سے ضرب لگائیے۔ جس کے بس میں محض صہیونی مصنوعات کا بائیکاٹ ہے وہ اسی پر ثابت قدمی سے عمل پیرا رہے اور اس کو ہلکا نہ سمجھے، جو مال سے مدد کرسکتا ہے وہ اس میں بخل نہ کرے اور جو اپنی جان اس عظیم مقصد کے لیے قربان کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے وہ اپنے لیے راہِ حق تلاش کرے اور اس پر گامزن ہوجائے۔ گھروں میں رہنے بسنے والی خواتین، بالخصوص مائیں اور شعبہ تدریس سے منسلک خواتین جن کے ہاتھوں میں نئی نسل کی تعلیم و تربیت ہے اپنی نسلوں کو حق و باطل کی تمیز و تفریق سکھائیں۔ میڈیکل کے شعبے سے وابستہ لوگ آنے والے کڑے وقت کی تیاری کے لیے اپنے آس پاس والوں کو ابتدائی طبی امداد اور جان بچانے کے طریقوں کی تربیت دیں۔ اپنے جسموں کو ورزش کے ذریعے مضبوط کریں اور اپنے دلوں کو اللہ کے ذکر سے جلا بخشیں اور اللہ والوں کی، اہل جہاد کی تعلیمات سے اپنی فکر کی اصلاح کریں۔ آج کی یہ تیاری کل ضرور کام آئے گی۔ اپنی نیت خالص رکھیں اور دین کی اشاعت و تبلیغ اور اس پر عمل کی تحریض کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کردیں اور اس الشکور رب کے اجر کا یقین رکھیں جس کے یہاں کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں جاتا۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version