اس مضمون کا ہدف بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال کا ایک مجموعی نقشہ اجمالاً پیش کرنا ہے۔ قاری کی سہولت کے پیشِ نظر، مضمون کو کئی چھوٹے حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں اختصار کے ساتھ پوری صورتحال کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
موجودہ حکومت اور بھارت کا کردار
بنگلہ دیش میں حسینہ کی موجودہ حکومت اپنا اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب رہی، اس کامیابی میں ایک بڑا ہاتھ ہمسایہ ملک بھارت کی جانب سے ملنے والی حمایت کا ہے۔ بھارت کے ساتھ یہ قرابت و اتحاد بنگلہ دیش میں نا قابلِ بیان بدبختی اور افتادگی کا سبب ہے، البتہ اس نے بلا شک و شبہ حاکم نظام کو سہارا دیا ہے اورتا حال دے رہا ہے۔
LGBT-Trans ایجنڈا اور این جی اوز کا اثر
گزشتہ چند ماہ میں بنگلہ دیش عالمیLGBTلابی کی تشویشناک اور بڑھتی ہوئی موجودگی کا شاہد رہا ہے۔ LGBTاور ٹرانس جینڈر حقوق کی ترویج کھلے عام کی جا رہی ہے۔ حکومت چند سال قبل پاکستان میں پاس ہونے والے ٹرانس جینڈرز کے حقوق پر مبنی قانون کے مماثل قانون کی تیاری میں مصروف ہے، LGBTپر مبنی تصورات حکومتی تعلیمی نصاب کی درسی کتب میں شامل کیے جا رہے ہیں۔ مزید برآں، میڈیا LGBTکے تصور کو نارملائز کرنے (قبولِ عام دینے) کی اَن تھک کوششوں میں مصروف و سرگرداں ہے۔
ان کاوشوں میں یہ اچانک تیزی ایک وسیع تر امریکی ایجنڈے سے مطابقت رکھتی ہے اوراس امکان کے حوالے سے تشویش اور شبہات عام پائے جاتے ہیں کہ حکومت کی، امریکیوں کو راضی کرنے کے لیے، جنوری کے انتخابات کے دوران امریکی مفادات کے رکھوالوں کے ساتھ کوئی ڈیل طے پا گئی تھی۔
این جی اوز، بالخصوص BRAC، جس کے تانے بانے یہودی کھرب پتی جارج سوروز سے جا ملتے ہیں، غلیظ LGBT ایجنڈا آگے بڑھانے کی جدو جہد میں صفِ اول میں کھڑی ہیں۔
تعلیمی نظام این جی اوز کے تسلط میں
بنگلہ دیش کا تعلیمی نظام کلیتاً این جی اوز اور عالمی اداروں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ روایتی تعلیمی ادارے میدان چھوڑ رہے ہیں، جس سے نصاب پر بیرونی ایجنڈوں کی اثر پذیری کے حوالے سے تشویش اور فکر بڑھ گئی ہے۔ جیسا کہ پہلے تذکرہ ہوا، LGBT اور دیگر فواحش کا تذکرہ و بحث قومی تعلیمی نصاب کی درسی کتب میں رسماً شامل کر دی گئی ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ سرزمینِ بنگال کی تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ بنگال کی زرخیز اسلامی تاریخ کو نظروں سے اوجھل کر کے درسی کتب میں مشرک حکمرانوں کے گُن گائے جا رہے ہیں۔اسی طرح یہ کتب برطانوی استعماری دور کی تعریف و تعظیم کرتی ہیں اور حاجی شریعت اللہ اور شہید تیتو میر جیسے ابطالِ زمانہ کی شروع کی ہوئی اسلامی تحریکوں کو غیر اہم اور بے وقعت بنا کر پیش کرتی ہیں۔
معاشی چیلنج اور معاشرتی اثرات
اس دوران معاشی صورتحال یہ ہے کہ ملک آسمان کو چھوتی مہنگائی سے نبردآزما ہے۔ جس کے نتیجے میں مڈل کلاس ختم ہوتی چلی جا رہی ہےاور لا تعداد افراد شدید معاشی تنگی کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ غرباء و مساکین میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ان کو درپیش بے تحاشا مشکلات و مسائل کی رپورٹیں معاشی مسائل کے فوری حل کی شدید ضرورت کو نمایاں کرتی ہیں۔ بر سرِ اقتدار پارٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کئی بینک خالی کر دیے ہیں، اور اب مجرموں کا یہی ٹولہ سٹاک مارکیٹ میں سے اربوں کھربوں کی مالیت نکال لینے کا ذمہ دار ہے۔
معیشت کی موجودہ رفتار ناپائیدار ہے، اور محض معاشی کشکول آگے بڑھانے سے یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔
بھارت اور طاقت کےبدلتے ہوئے محور
حالیہ الیکشن غالباً بنگلہ دیش پر بھارت کے اثر و رسوخ کے مکمل و محکم ہونے کی علامت تھے۔ اگرچہ انتخابات سے پہلے امریکہ بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی کا پر زور حامی معلوم ہوتا تھا، لیکن آخر کار بھارتی مخالفت کے سامنے اسے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اپنے بے باک و بظاہر گرجدار بیانیے کے باوجود امریکہ کو پسپائی قبول کرنا پڑی جو بذاتِ خود امریکی تسلط کی شکست و ریخت کی علامت ہے۔ اگرچہ یہ تبدیلی بعض اعتبار سے مثبت ہے، لیکن اس کے سبب علاقائی استحکام کے حوالےسے خدشات سر اٹھانے لگتے ہیں ، کیونکہ اس کے سبب بنگلہ دیش میں بھارت کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔
بھارت کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ اور اس کے مذہبی مضمرات
وزارتِ تعلیم میں محب الحسن چودھری نوفل کا تقرر ملک میں بڑھتے ہوئے بھارتی رسوخ کو واضح اور نمایاں کرتا ہے۔ نوفل سرِ عام پوجا پاٹ کی رسوم میں شرکت کرنے کے حوالے سے مشہور و معروف ہے، اور ISKCON کے ساتھ بھی قریبی تعلقات کا حامل ہے، جو کہ بنگلہ دیش میں کئی تنازعات و مباحث کا عنوان اور موضوع رہی ہے۔
اسلام مخالف اقدامات اور کشیدگی
جیسے جیسے ملک میں بھارتی رسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے، بنگلہ دیش آئے روز بڑھتی ہوئی اسلام مخالف کارروائیوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ ان اقدامات میں افطار کی محافل پر پابندی بھی شامل ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو ہندومت ترک کر کے حلقہ بگوشِ اسلام ہو جاتے ہیں، انہیں منظّم و مربوط تفریق اور تعذیب کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
بنگلہ دیش پر حد سے بڑھے ہوئے بھارتی تسلّط سے شہہ پانے والے ہندؤوں نے بعض اوقات ان نو مسلم افراد کو اغوا بھی کیا ہے جبکہ دیگر واقعات میں انہوں نے عدلیہ کا سہارا لیا اور حکومتی نظام پر دباؤ ڈال کر اپنی بات منوائی۔
ہندوانہ تکبر کے ایک حیرت انگیز اظہار میں، ہندوؤں کا ایک ٹولہ سرِ عام یہ نعرے لگاتے ہوئے پایا گیا:
’’ایک ایک کر کے مسلم پکڑ…… پکڑ پکڑ کر ذبح کر!‘‘۔
چٹاگانگ کی عدالت کے سامنے دن دہاڑے وہ یہ نعرے لگاتے ہوئے پائے گئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وجہ یہ بنی کہ ایک عورت نے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا، اس کے خاندان نے اس کےشوہر کے خلاف اس کو اغوا کرنے کاالزام لگا کر مقدمہ دائر کیا۔ اس سیاق میں ہندوؤں نے کھلے عام بے باکانہ اپنی طاقت و رسوخ کا اظہار کیا۔
ساکت و جامد اور بے جان گروہ ہائے اسلامی
بدقسمتی سے اسلامی تنظیموں اور گروہوں کے پاس اس نئی صورتحال کا تدارک کرنے کے لیے کوئی حکمتِ عملی یا تدبیر نہیں ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ وہ اپنی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنے اور گاہے بگاہے کچھ کھوکھلے خطیبانہ بیانات دینے سے زیادہ کسی حکمتِ عملی کو اپنانے کے تصور سے بھی خوفزدہ اور گریزاں ہیں۔
یہاں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ سن ۲۰۲۳ء کے اکتوبر تا دسمبر، بنگلہ دیشی معاشرے کو دو موضوعات نے بے چین رکھا۔ پہلا موضوع غزہ میں جاری نسل کشی اور دوسرا موضوع ملک میں LGBTکی ترویج تھی۔ بدقسمتی سے عوامی جذبات کے بامِ عروج پر بھی یہ دینی گروہ کوئی بھی قابلِ ذکر احتجاجی مظاہرہ یا کوئی دوسری کارروائی کرنے سے قاصر رہے۔
اس انجماد کی وجوہات درجِ ذیل ہیں:
- اسرائیل اور LGBT دونوں امریکہ کے لیے اہم اور حساس موضوعات ہیں۔
- امریکہ بنگلہ دیش کی موجودہ عوامی حکومت کے خلاف ہے، فلہٰذا حسینہ کا تخت الٹانے کے لیے امریکی امداد و تعاون کی ضرورت ہے۔
- اس تناظر میں فی الوقت اسرائیل اور LGBT کے خلاف بولنے سےحسینہ کی اپوزیشن کو امریکہ کا تعاون کھو دینے کا خدشہ ہے، اور امکان ہے کہ امریکہ اپوزیشن کی حمایت کے بجائے عوامی لیگ کی حکومت کی حمایت شروع کر دے۔
اس قسم کے دلائل اور منطق استعمال کرتے ہوئے، تمام مسالک سے تعلق رکھنے والی اسلامی تنظیموں نے چپ سادھے رکھی اور ان دونوں بڑے موضوعات کے حوالے سے تقریباً بالکل بے حس اور مفلوج کردار ادا کیا۔ اس کے باوجود بھی آخری نتیجہ یہی نکلا کہ یا توامریکہ حسینہ کی حکومت گرا نہ سکا، یا اس نے اسے گرانا چاہا ہی نہیں۔
پہاڑی علاقوں میں بدامنی
تازہ حالات میں سے سب سے سنسنی خیز خبریں چٹاگانگ کی پہاڑیوں سے آئیں جو میانمار اور شمال مشرقی بھارتی ریاستوں کی سرحدوں سے ملتی ہیں۔ حالات و واقعات نے ایک ڈرامائی رخ اختیار کیا اور کُکی چِن نیشنل فرنٹ (KNF) نامی علیحدگی پسند گروہ نے حال ہی میں بنگلہ دیشی حدود کے اندر اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔ ان کی باغیانہ کارروائیوں میں ایک بینک لوٹنا اور بینک کے عہدیداروں کو تاوان کی خاطر اغوا کرنا بھی شامل ہے۔
کُکی چِن دراصل تبت اور برمی لسانی گروہ سے تعلق رکھنے والے بہت سے نسلی و علاقائی گروہوں کے اکٹھ کا نام ہے، جو بنیادی طور پر بنگلہ دیش کے سلہٹ اور چٹاگانگ کے پہاڑی سلسلے، بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں اور میانمار کی ریاست چِن میں آباد ہیں۔ بھارت میں وہ کُکی کے نام سے جانے جاتے ہیں، جبکہ میزورام میں انہیں میزو کہا جاتا ہے اور میانمار میں وہ چِن کہلاتے ہیں۔
سن ۲۰۱۷ء میں کُکی چِن نیشنل فرنٹ (KNF)نامی تنظیم کی ایک علیحدگی پسند گروہ کی حیثیت سے بِنا ڈالی گئی، جس کا ہدف چٹا گانگ کے پہاڑی سلسلے کو بنگلہ دیش سے جدا کرنا تھا۔ ان کا نو (۹) سب ڈسٹرکٹس پر اپنا علاقہ ہونے کا دعوی ہے، جن میں بغایچری، برکل، بلائی چری، جوراچری،، روما، تھانچی، علیکدم اور بندربن میں روَنگچھری شامل ہیں۔ KNF نے اپنی ’ریاستِ کُکی چِن ‘ کا ایک نقشہ اور ایک قومی جھنڈا تک نشر کر دیا ہے۔
کے این ایف، جس کی اکثریت عیسائی ممبران پر مشتمل ہے، ایک زورآور اور مہیب طاقت بن کر سامنے آئی ہے۔بنگلہ دیش کے پڑوس میانمار کے طلاطم خیز حالات کے این ایف کو اپنی کارروائیوں کے لیے انتہائی زرخیز زمین فراہم کرتے ہیں۔میانمار میں جاری خانہ جنگی نے میانمار کو خفیہ کارروائیوں اور دور دراز واقع محفوظ ٹھکانوں کے لیے ایک بہترین پناہ گاہ بنا دیا ہے۔ اسی افرا تفری اور بدنظمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کے این ایف میانمار کی آسانی سے پار کی جانے والی سرحدات کو اسلحے کی منتقلی اور عسکری ستراتیجک تدابیر اختیار کرنے کے لیے عمدگی سے استعمال کرتی ہے۔
کے این ایف نے عسکری تربیت میانمار کے باغی گروپ ’کارین ‘سے منی پور، بھارت اور میانمار میں حاصل کی ہے۔ جس سے ان کے اس پورے علاقے میں اپنی ہم نوا فکر کے حامل افراد کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش بھارت کے میزُورام کے ساتھ ۳۱۸ کلومیٹر پر مشتمل سرحد رکھتا ہے، جبکہ چٹاگانگ کے پہاڑی علاقے کی سرحد میانمار سے ملتی ہے، جس سے اس علاقے میں امن و امان کو لاحق خطرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔
۲۰۱۷ء میں کے این ایف نے کے این وی (KNV) کے نام کے تحت مسلّح کارروائیاں کیں اور بعد ازاں کارین کے باغیوں سے تعلقات مضبوط و بہتر کیے۔ اس دوران کے این ایف نے اپنے بہت سے ممبران کو تربیت کی خاطر منی پور، کچین، اور کارین ریاستوں میں بھی بھیجا۔ ۲۰۱۹ء میں ان تربیت یافتہ کمانڈوز کی پہاڑی اضلاع میں واپسی ہوئی۔
اندازے کے مطابق کے این ایف کے پاس بھاری اسلحے سے مسلّح لگ بھگ ۲۰۰۰ ارکان موجود ہیں، ان کے پاس موجود اسلحے میں کلاشنکوفیں بھی شامل ہیں۔انہیں میانمار کی ریاست کچین سے اسلحہ کی سپلائی موصول ہوتی ہے اور وہ بھارت و میانمار، دونوں کے علیحدگی پسند عناصر سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔
امن و امان کے تجزیہ کار و ماہرین مسلسل اس خطرے کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ چٹاگانگ کے پہاڑی سلسلے پر مشتمل یہ علاقہ منشیات کی سپلائی کا ایک اہم راستہ بن سکتا ہے، کیونکہ منشیات کا کاروبار اکثر اسلحے کی خرید و فروخت اور اسلحے تک رسائی کا ایک اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ ایسی رپورٹس بھی موجود ہیں جن کے مطابق کے این ایف کی تربیت کچین انڈیپینڈینٹ آرمی کے ہاتھوں ہوئی ہے۔
نتیجہ
بھارتی تعاون کے سبب اور اس کے نتیجے میں بنگلہ دیش میں مسلمانوں اور سیکولر طبقے کے درمیان مستقل جاری تقسیم کا عمل (polarization) ، غالباً آئندہ ماہ و سال میں مزید بڑھے گا۔ قوی امکان ہے کہ اپنے بھارتی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے بنگلہ دیش کی حکومت پہلے سے بڑھ کر وضاحت و صراحت کے ساتھ اسلام مخالف اقدامات ومواقف اپنائے گی۔ اسی کے ساتھ ہر سو عام معاشرتی بے چینی ، بڑھتا ہوا اور ہر آن قریب تر معاشی بحران، بدلتا ہوا عالمی نظام اور پہاڑی علاقوں میں بد امنی…… ان تمام عوامل کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ پیشنگوئی ایک منطقی سوچ و خیال کا نتیجہ ہے کہ بنگلہ دیش کا امن و امان مزید ابتری کی جانب بڑھے گا، اور حالات ٹھیک ہونے سے قبل خراب تر ہوں گے ۔
بنگلہ دیش میں بدامنی کی بنیادی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے۔بدامنی کا رجحان اوپر کی جانب ہی رہتا ہے، یعنی ملک میں بے چینی و ابتری کی صورتحال خراب سے خراب تر ہی ہوتی ہے، لیکن موجودہ حالات کے سیاق و سباق میں اکثر لوگ اس بڑھتی ہوئی بے چینی اور عدمِ امن و سکون کی بڑھتی ہوئی ابتری کی صورتحال اور اس کی شدت کا اندازہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔مگرچار و ناچار، ہم ایک چٹان کی طرف بڑھ رہے ہیں، ایک ایسی چٹان کی طرف جس کی دوسری جانب ایک اندھی کھائی ہے۔
سرد جنگ کے دور میں، بالخصوص ۱۹۵۰ء سے ۱۹۸۰ء کے اوائل تک، پوری دنیا میں بہت سے ممالک میں انقلاب، تختہ دھڑن، خانہ جنگی اور طاقت واختیار کے محاور و مراکز میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ دونوں عالمی سپر طاقتوں کی قوّت و اختیار اور ان کے حالات و وقائع سے پیدا ہونے والے طاقت کے تناسب اور حرکت سے بہت سے ممالک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوا۔سوویت یونین کے زوال کے بعدتقریباً تین دہائیوں تک ایک قسم کا استحکام موجود رہا۔ مگر یہ استحکام اب چٹختا ہوا نظر آ رہا ہے۔ شدید و انتہائی نوعیت کی تبدیلیوں کا دور ایک بار پھر آ رہا ہے، اگرچہ اس کی شکل پہلے جیسی نہ ہو گی، اور یہ مختلف شکلوں میں آئے گا۔
ہمیشہ کی طرح ضرورت ہے کہ مسلمان بالعموم، اور بنگلہ دیش کے مسلمان بالخصوص، اپنے قومی، علاقائی اور عالمی طاقت و اختیار کی حرکت و اسلوب کو مد نظر رکھیں اور صورتحال سے نمٹنے کے لیے مناسب تدابیر ، پالیسیاں اور سٹریٹیجی وضع کریں۔ کیونکہ اگر آپ کے پاس خواب دیکھنے کی صلاحیت، قوّت اور عزم و ارادہ موجود نہیں، تو چاہے کتنے اور کیسے ہی مواقع دستیاب کیوں نہ ہوں، ان سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں ۔اور اگر آپ صلاحیت کی نشو و نما نہیں کریں گے، اس کی تعمیر و ترقی کی خاطر محنت نہ کریں گے، تو یقین جانیے، آپ ہمیشہ تماشائیوں کی صف میں ہی کھڑے رہیں گے۔