’اگلے دن‘ سے قبل کی دنیا
صہیونیت آج انسانیت کو درپیش سب سے بڑا خطرہ ہے،یہ انسانیت کے لیے تاتاریوں،نازیوں اور ہندوؤں سے زیادہ خطرناک ہے،بلکہ انسانیت کی پوری تاریخ کا اب تک کا سب سے خطرناک فتنہ ہے۔ روئے زمین پر بستے بنی نوع انسان کی بہت بڑی تعداد کی روح ،جسم اور فکر کو فاسد کر کے انہیں اللہ کی بنائی اور قائم کی فطرت سے ہٹادیا ہے اور انہیں مسخ شدہ انسان: شیطان اور مال کا پجاری بنادیا ہے۔اسی صہیونیت نے ہی انسانیت کو بت پرستانہ مسیحیت کا ’تحفہ‘ دیا اور اس کے ذریعے انہوں نے یورپ،امریکہ،افریقہ،ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیا وغیرہ کی اقوام کو اپنا غلام بنایا،یہ صہیونی فتنہ جہاں بھی گیا وہاں اس نے اپنے بینک بھرنےکے لیے جنس و شہوت کو جنسِ بازار بنادیا،اسی نے اللہ اور اس کے بھیجے دین سے اپنی جنگ میں ہم جنس پرستی،تحریکِ نسواں اور دیگر گھٹیا افکار کو پھیلایا اور مضبوط کیا،یہ جہاں بھی گیا اس کا ہدف یہی رہا،تاکہ اہم جغرافیائی مقامات پر قبضہ کرے،وسائل لوٹے،جہالت کی ترویج کرے اور جھوٹ کی گرم بازاری سے انسان کو ایک بے مقصد [شہوت کے غلام]حیوان میں بدل دے،صرف گزشتہ صدی کے نصف سے آج تک امریکہ اور یہود جتنے انسانوں کو قتل اور شہروں کی تباہ کرچکے ہیں ،ان کی تعداد وہم وخیال سے بھی بالاتر ہے۔
اور اس لکھاری نے سچ کہا جس نے لکھا کہ :کتا(یہودی)چرواہے(امریکہ) کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے1۔ اس جملے کو الٹ دیں تو بھی ٹھیک ہی ہے،[یعنی کتا امریکہ اور چرواہا یہودی]امریکہ اپنے پروپیگنڈے کے حیرت انگیز ذرائع استعمال کرکے رائے عامہ کو کس کے فائدے کے لیے گمراہ کررہا ہے اور اصل مسئلے سے غافل کررہاہے؟ حتیٰ کہ غزہ میں اتنا سب کچھ بِیت جانے کے باوجود امریکی ان سے کسی بھلے کی امید رکھ رہے ہیں، انہیں علم نہیں کہ غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے سارے صہیونی ہی خوش ہیں ، کیونکہ یہ سب ان توراتی نصوص کے عین مطابق ہے جنہیں ان کے مذہبی پیشواؤں نے کِبر ومکر سے کام لیتے ہوئے خود گھڑا ہے،یہ پیشوا دنیا کو متکبرانہ نظر سے دیکھتے ہیں کہ یہاں سب یا آقا یا غلام ہیں،آقا تو صہیونی ہیں،جنہیں ہر طرح کی من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ ہے اور جو غلام ہیں [غیر یہود]وہ ہمیشہ غلام ہی رہیں گے،اور یہ کوئی نئی بات نہیں ،[ہمیشہ سے یہی اصول چلا آرہا ہے]۔
بقیہ دنیا (جس میں سرِ فہرست ہندو،بدھ مت کے پیروکار اور دیگر بت پرست ہیں) یہ بات جا ن لے کہ اگر صہیونی اسی طرح مسلمانوں کو کمزور کرکے عالمی سیاست کے مرکز اور فیصلوں سے انہیں دور کرتے رہے تو جنگ کا اگلادن شروع ہوتے ہی نسل کشی کے اگلے مرحلے کا ہدف وہ خود ہوں گے،ان کا جو مقابلہ ابھی ٹیکنالوجی اور اقتصادی میدانوں میں ہے وہ عسکری مقابلہ کی طرف جارہا ہے،اس عسکری مقابلے میں کامیابی کے حساب سے ہی اقتصاد کے بازار میں بھی ہر ایک کو اس کے عسکری جثے کے بقدر حصہ ملے گا،یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے نتیجے میں ہم مرکزی طور پر کمزور ایک ایسی دنیا دیکھیں جس میں طاقت کے مراکز کئی زیادہ ہوں،یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے نتیجے میں ایسا زوال آئے کہ ٹیکنالوجی کا دور ہی ختم ہوجائے،کوئی نہیں جانتا کہ ہوگا کیا؟
رہے خلیجِ عرب کے حاکم خاندان جنہوں نے اقتدار اور دولت کو اپنی ذاتی جاگیر بنا یا ہوا ہے اور خود کو اپنی قوم سے اور اپنی اپنی قوم کو دیگر عالمِ عرب اور عالمِ اسلام سے دور کررکھا ہے اور امارات کے حاکم بن زائد کی قیادت میں، صہیونیوں کی قیادت میں ان کے مورچے میں کھڑے ہیں، تو وہ اپنے اس انجام کے بہت قریب ہیں جو انجام اپنے عقیدے ،وطن اور قوم سے خیانت کرنےوالے کسی بھی خائن کا ہوتا ہے،انسانیت کی نسل کشی کی مہم میں سب سےآخر میں یہود کے پیادوں اور آلہ کاروں کی باری آئے گی یعنی امریکہ اور یورپ ۔کیونکہ اپنی مقدس ترین کتاب کی رو سے یہود کسی اور کے وجود کے روادار نہیں، ان کی حرص لامتناہی ہے،زمین اور جو کچھ اس کے اندر یا اوپر ہے وہ اس پر تسلط چاہتے ہیں اور بقیہ انسان یا تو ان کے پالتو جانور ہیں یا وحشی[لیکن ہیں جانور ہی ]،یہ یہود کی وہ موروثی ذہنیت ہے جو ان کی خودساختہ دینی کتابوں میں بکھری پڑی ہے۔یہ بقا کی جنگ ہے ، جس کی کوئی حد وانتہا نہیں۔
لیکن یہ یہود اللہ کے غضب کی شکار اور توفیق سے محروم قوم ہیں ،پس یہ ناممکن ہے کہ سارے کام ان کی منشا کے مطابق ہوں،سرزمیںِ انبیاء فلسطین اور اس میں بھی سرِ فہرست غزہ میں مسلمانوں سے ان کی جنگ بقا کی جنگ ہے ،جو زمینی طور پر جغرافیہ سے بالاتر ہے اور جنگی اعتبار سے کسی پیمانے سے ماپی نہیں جاسکتی ہے،جنگ کے دونوں فریقوں اور ان کے اہداف کے درمیان بہت واضح فرق ہے ،مسلمانوں کی طرف سے اس جنگ کا مقصد اہلِ دنیا کی ہدایت و رہنمائی ہے ،ان کے نزدیک دنیا ایک سواری ہے ،وہ اس پر سوار ہوتے اور اسے استعمال کرتے ہیں ، اس کے خادم و غلام نہیں بنتے، کیونکہ انہیں ان کے دین کی تعلیمات حرکت میں لاتی ہیں اور ان کا مقصد اللہ کی رضاکا حصول ہے،جبکہ یہود اور ان کے صہیونی ہرکاروں کی جانب سے یہ جنگ خود کو برتر سمجھنے،مفاد پرستی اور زمین واہلِ زمین کے استحصال کی جنگ ہے ،کیونکہ ان کا مقصد اپنی فطرت سے ہٹی انسانی خواہشو ں کو پورا کرنا ہے ۔ارشادِ باری ہے:
اسْـتِكْبَارًا فِي الْاَرْضِ وَمَكْرَ السَّــﮧ ۭ وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ ۭ فَهَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِيْنَ ۚ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا ڬ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَحْوِيْلًا(سورۃ الفاطر:۴۳ )
’’حق واضح ہونے کے بعد انہوں نے اس کی پیروی نہیں کی اس لیے کہ انہیں زمین میں اپنی بڑائی کا گھمنڈ تھا، اور انہوں نے (حق کی مخالفت میں) بری بری چالیں چلنی شروع کردیں۔ حالانکہ بری چالیں کسی اور کو نہیں خود اپنے چلنے والوں ہی کو گھیرے میں لے لیتی ہیں۔ اب یہ لوگ اس دستور کے سوا کس بات کے منتظر ہیں جس پر پچھلے لوگوں کے ساتھ عمل ہوتا آیا ہے ؟‘‘
اور جہاد قیامت تک جاری رہے گا،رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم پر قتال کرتا رہے گا،اپنے دشمن پر غالب رہے گا،اس کی مخالفت کرنے والے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے،حتیٰ کہ قیامت تک وہ اسی حالت پر رہیں گے۔‘‘(صحیح مسلم)
یہ گروہ اسی امت کے بیٹوں کا گروہ ہوگا اور اپنی فتح کے بارے میں ہم مسلمان کسی شک وشبہہ کا شکار نہیں،کیونکہ اللہ نے واضح طور پر فیصلہ کردیا ہے :
اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ(سورۃ الغافر:۵۱ )
’’بے شک ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد دنیوی زندگی میں بھی کرتے ہیں اور (قیامت کے)اس دن بھی کریں گے جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے۔‘‘
شہداء کے قافلے درقافلے صدق ،اخلاص اور اللہ کے وعدوں پر یقین کی روشن دلیل ہیں اور مینارۂ نور بن کر شک وتردد میں مبتلا لوگوں کو راہ دکھا رہے ہیں کہ یہی کامیابی کا وہ راستہ ہے جس میں خسارے کا کوئی سوال ہی نہیں۔
اے یہودیو!تمہارا خون بہتا رہے گا، اسے کوئی امان نہیں ملے گی ،حتیٰ کہ وہ دن آجائے گا جب پتھر اور درخت بھی پکار پکار کر تمہارے خاتمے اور دنیا سے تمہارے وجود کی گندگی ختم ہونے کا اعلان کریں گےہم (مسلمان )اور تم دونوں ہی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں۔
محض لفظِ مجرم اور جرم کسی جرم کا ارتکاب کرنے والے کی نفسیات اور جرم کے حجم کو واضح نہیں کرتا،لازم ہے کہ ہر جرم کو اس کے مرتکب کے نام سے موسوم کیا جائے تاکہ پتہ چلے کہ کس نظریے کے تحت اس نے جرم کا ارتکاب کیا،حتیٰ کہ گزشتہ جرائم اور مجرموں کے ناموں کا موجودہ پر اطلاق بھی صورتحال کو پورا واضح نہیں کرتا،ہر مجرم (تاتاری چنگیز خان ،نازی ہٹلر،کمیونسٹ سٹالن،ہندو مودی،یورپی استعمار)کی اپنی ایک پست سطح ہے،اور ان سب سے پست سطح مغربی یہودی صہیونیت کی ہے،پوری تاریخ میں سب سے گھٹیا اور پست قاتل یہود اور ان کی اولاد رہی ہے (مناحم بیگن…… موشے دایان…… شارون…… نیتن یاہو اور صہیونی بائیڈن…… الخ سب بندروں اور خنزیروں کے نطفے ہیں)۔
کیا یہودی اور صہیونی کو الگ کیا جاسکتا ہے ؟بالعموم کچھ یہودی گروہوں کو اس سے مستثنیٰ کیا جاتا ہے (یعنی وہ یہودی ہیں ،صہیونی نہیں)جنہوں نے فلسطین ہجرت نہیں کی اور تحریکِ صہیونیت کا حصہ نہیں بنے۔لیکن کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ (غیر یہود ) مسلمانوں یا کسی اور سے محبت بھی کرتے ہیں؟ (انہیں انسان سمجھتے ہیں؟)اس کا جواب صرف اور صرف نفی میں ہے۔ ارشادِ باری ہے:
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰى ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَّاَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ(سورة المائدۃ:۸۲ )
’’تم یہ بات ضرور محسوس کرلو گے کہ مسلمانوں سے سب سے سخت دشمنی رکھنے والے ایک تو یہودی ہیں، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو (کھل کر) شرک کرتے ہیں۔ اور تم یہ بات بھی ضرور محسوس کرلو گے کہ (غیر مسلموں میں) مسلمانوں سے دوستی میں قریب تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو نصرانی کہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں بہت سے علم دوست عالم اور بہت سے تارک الدنیا درویش ہیں ،نیز یہ وجہ بھی ہے کہ وہ تکبر نہیں کرتے۔‘‘
لیکن ہر وہ یہودی جو مقبوضہ فلسطین میں رہتا ہے وہ ایک سرگرم صہیونی ہے ،خواہ وہ نسل پرستوں کا کتنا بڑا مخالف ہی کیوں نہ ہو اور چاہے وہ فلسطینیوں کو (ان کے ردِ عمل سے بچنے کے لیے)کچھ حقوق دینے کا کتنا حامی کیوں نہ ہو۔کیونکہ مقبوضہ زمین پر اس کا محض قیام ہی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ اس غاصب نظام کا حامی ہے۔حزبِ اختلاف تو کسی بھی سیاسی نظام کا ایک حصہ ہوتی ہے اور اس کے وجود کو قانونی جواز دیتی ہے،بلکہ میں تو آگے بڑھ کے کہتا ہوں کہ فلسطین کے یہودی سکہ بند قاتل ہیں ،اور اگر ان میں سے کوئی اس وصف کو خود سے دور کرنا چاہے تو اسے فلسطین سے کوچ کرجانا چاہیے،چونکہ فلسطین میں مقیم غاصب یہودیوں نے اپنی مرضی سے یہاں رہنے کو چنا ہے ،اس لیے انہوں نے اپنی ہلاکت کا چناؤ خود کیا ہے (کسی اور کو وہ الزام نہ دیں)اور ان کی ہلاکت بھی بلاشبہ اسی طریقے سے ہوگی جیسے وہ غزہ میں اہلِ فلسطین کو قتل کررہے ہیں۔اللہ کی قسم! جو تم آج غزہ میں کررہے ہو اللہ دنیا و آخرت میں تمہارے ساتھ ایسا کرے گا۔باللہ! تاللہ! ان شاء اللہ تمہارا بھی محاصرہ کیا جائےگا،تمہیں بھوکا رکھا جائے گا،تمہیں بے گھر کیاجائے گا اور قتل کیا جائے گا۔پس یہ تمہارا اپنا انتخاب ہے جس نے تمہیں ہلاکت میں ڈالا ہے۔ارشادِ باری ہے:
وَّقُلْنَا مِنْ بَعْدِهٖ لِبَنِيْٓ اِسْرَاءِيْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَاءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا(سورة الاسراء:۱۰۴)
’’اور اس کے بعد بنو اسرائیل سے کہا کہ : تم زمین میں بسو۔ پھر جب آخرت کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آئے گا تو ہم تم سب کو جمع کر کے حاضر کردیں گے۔‘‘
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا فَاِذَا جَاءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْا وُجُوْهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وّلِيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا (سورة الاسراء:۷)
’’اگر تم اچھے کام کرو گے تو اپنے ہی فائدے کے لیے کرو گے، اور برے کام کرو گے تو بھی وہ تمہارے لیے ہی برا ہوگا۔ چنانچہ جب دوسرے واقعے کی میعاد آئی (تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کردیا) تاکہ وہ تمہارے چہروں کو بگاڑ ڈالیں، اور تاکہ وہ مسجد میں اسی طرح داخل ہوں جیسے پہلے لوگ داخل ہوئے تھے، اور جس جس چیز پر ان کا زور چلے، اس کو تہس نہس کر کے رکھ دیں۔‘‘
غزہ میں اپنے بھائیوں سے ہم کہتے ہیں:
قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَآ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا هُوَ مَوْلٰىنَا وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ قُلْ هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ ۭ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ اَنْ يُّصِيْبَكُمُ اللّٰهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِهٖٓ اَوْ بِاَيْدِيْنَا فَتَرَبَّصُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ (سورۃ التوبۃ:۵۱–۵۲)
’’کہہ دو کہ اللہ نے ہمارے مقدر میں جو تکلیف لکھ دی ہے ہمیں اس کے سوا کوئی اور تکلیف ہرگز نہیں پہنچ سکتی۔ وہ ہمارا رکھوالا ہے، اور اللہ ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہیے۔ کہہ دو کہ : تم ہمارے لیے جس چیز کے منتظر ہو، وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ( آخر کار) دو بھلائیوں میں سے ایک نہ ایک بھلائی ہمیں ملے۔ اور ہمیں تمہارے بارے میں انتظار اس کا ہے کہ اللہ تمہیں اپنی طرف سے یا ہمارے ہاتھوں سزا دے۔ بس اب انتظار کرو، ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں۔ ‘‘
یہود سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ، یہ محض وقت کا ضیاع ہے،ان کے عہد وپیمان کی کوئی حیثیت نہیں،ان سے مذاکرات مزید تباہی کی طرف لے جائیں گے،ان کی ماضی کی تاریخ ان کے مستقبل کے عزائم کاپتہ دیتی ہے،اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام دریائے نیل کے کنارے اللہ کی خاص نگرانی میں پروان چڑھے،ان کے ہاتھ پر کئی نشانیاں اور معجزات ظاہر ہوئے،انہوں نے اپنی قوم کو فرعون سے آزادی دلائی،اپنی لاٹھی سے سمندر کو چیز ڈالا،اس سب کے باوجود گائے کی پوجا کرنے والوں نے ان کی نافرمانی کی ، ان کی جبلت کا فساد ان سے دور نہیں ہوسکتا تھا، سو انہیں وادی تیہ میں مرنا پڑا [تاکہ نئی نسل حق کے لیے قربانی دے]، یہ بنی اسرائیل کی تاریخ ہےجن پر اللہ کا غضب ہوا، اس کی پھٹکار پڑی، اور اللہ نے ان کے دلوں کو سخت کردیا۔
ارشادِ باری ہے:
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِيَةً يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰي خَاىِٕنَةٍ مِّنْهُمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ (سورۃ المائدۃ:۱۳)
’’پھر یہ ان کی عہد شکنی ہی تو تھی جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور کیا، اور ان کے دلوں کو سخت بنادیا۔ وہ باتوں کو اپنے موقع محل سے ہٹا دیتے ہیں۔ اور جس بات کی ان کو نصیحت کی گئی تھی اس کا ایک بڑا حصہ بھلا چکے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگوں کو چھوڑ کر تمہیں آئے دن ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ لہٰذا (فی الحال) انہیں معاف کردو اور درگزر سے کام لو ، بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
اور اللہ کا فرمان ہے :
يَسْــَٔــلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْٓا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْهُمُ الْبَيِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَ ۚ وَاٰتَيْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِيْنًا وَرَفَعْنَا فَوْقَھُمُ الطُّوْرَ بِمِيْثَاقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوْا فِي السَّبْتِ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِمْ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَقَتْلِهِمُ الْاَنْۢبِيَاۗءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَّقَوْلِهِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ۭ بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا وَّبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلٰي مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيْمًا وَّقَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ ۭ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَثِيْرًا وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ وَاَ كْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۭوَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا (سورۃ النساء:۱۵۳ –۱۶۱)
’’ (اے پیغمبر) اہل کتاب تم سے ( جو) مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم ان پر آسمان سے کوئی کتاب نازل کرواؤ، تو (یہ کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ) یہ لوگ تو موسیٰؑ سے اس سے بھی بڑا مطالبہ کرچکے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے (موسیٰؑ سے) کہا تھا کہ ہمیں اللہ کھلی آنکھوں دکھاؤ، چنانچہ ان کی سرکشی کی وجہ سے ان کو بجلی کے کڑکے نے آپکڑا تھا، پھر ان کے پاس جو کھلی کھلی نشانیاں آئیں، ان کے بعد بھی انہوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا تھا۔ اس پر بھی ہم نے انہیں معاف کردیا، اور ہم نے موسیٰؑ کو واضح اقتدار عطا کیا۔
اور ہم نے کوہ طور کو ان پر بلند کر کے ان سے عہد لیا تھا، اور ہم نے ان سے کہا تھا کہ (شہر کے) دروازے میں جھکے ہوئے سروں کے ساتھ داخل ہونا، اور ان سے کہا تھا کہ تم ہفتے کے دن کے بارے میں حد سے نہ گزرنا ، اور ہم نے ان سے بہت پکا عہد لیا تھا۔
پھر ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ اس لیے کہ انہوں نے اپنا عہد توڑا، اللہ کی آیتوں کا انکار کیا، انبیاء کو ناحق قتل کیا، اور یہ کہا کہ ہمارے دلوں پر غلاف چڑھا ہوا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، اس لیے وہ تھوڑی سی باتوں کے سوا کسی بات پر ایمان نہیں لاتے۔ اور اس لیے کہ انہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا، اور مریمؑ پر بڑے بھاری بہتان کی بات کہی اور یہ کہا کہ : ہم نے اللہ کے رسول مسیح ؑابن مریمؑ کو قتل کردیا تھا، حالانکہ نہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا تھا، نہ انہیں سولی دے پائے تھے، بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں، انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم حاصل نہیں ہے، اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کر پائے بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا، اور اللہ بڑا صاحب اقتدار، بڑا حکمت والا ہے ۔
اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے پہلے ضرور بالضرور عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہ لائے، اور قیامت کے دن وہ ان لوگوں کے خلاف گواہ بنیں گے۔ غرض یہودیوں کی سنگین زیادتی کی وجہ سے ہم نے ان پر وہ پاکیزہ چیزیں حرام کردیں جو پہلے ان کے لیے حلال کی گئی تھیں۔ اور اس لیے کہ وہ بکثرت لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے تھے۔ اور سود لیا کرتے تھے، حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا اور لوگوں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے تھے۔ اور ان میں سے جو لوگ کافر ہیں، ان کے لیے ہم نے ایک دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘
اور جو اس سب کے بعد بھی آنے والے وقت کی سنگینی کا ادراک نہ کرسکے اسے چاہیے کہ اپنی پشت پر صہیونی کوڑے کھانے کے لیے تیار ہوجائے۔
’آنے والے کل‘ سے پہلے ہی ہم پورے یقین سے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تباہی،کمزوری اور دنیا کی قیادت سے ان کو دور کرنے کے لیے صہیونی اور بت پرست گٹھ جوڑ اور عالمی سازش سے خود دنیا کا اپنا نقصان ہوگا ،اس کی روح اور اس کا ضمیر مرجائے گا۔
استیر2 کا افسانہ اور یہود کی جدوجہد پر اس کا اثر
تناخ3 میں مذکور ایک ایک مختصر قصہ ’استیر کاصحیفہ‘ ہے،اس قصے کی قانونی اور تاریخی حیثیت کافی متنازع ہے،لیکن یہ ہمارا موضوع نہیں،ہمارا مقصود اس سے نکلنے والے ’فوائد‘کابیان ہے،قصے کا خلاصہ یہ ہے کہ :مردخای نے اپنی حسین وجمیل چچازاد بہن کا نکاح فارس کے بادشاہ سے کردیا ،تاکہ اس سے قومِ یہود کو فائدہ ہو،بعد ازاں مردخای بادشاہ کو قتل ہونے سے بچاتا ہے،سو جب یہود کی خباثتوں کی وجہ سےبادشاہ کا وزیر انہیں تباہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو مردخای استیر کی پناہ میں آجاتا ہے اور چونکہ اس کے حسن وجمال کی وجہ سے بادشاہ اس سے بہت محبت کرتا ہے اس لیے اس کے کہنے پر یہود کو معافی مل جاتی ہے اور مردخای یہود کے دشمنوں سے انتقام لیتا ہے ،اور اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کرمردخای بادشاہ کے بعد سلطنت کا سب سے بااختیار فرد بن جاتا ہے ،یہود کی نجات کا یہ دن ان کا ایک تہوار بن گیا ،جسے عیدِ فوریم یا بوریم کہتے ہیں۔
یہود کی جدوجہد کی داستان اس قصے سے کافی ملتی جلتی ہے،یہود نے بہت جلد ہی4 اندازہ کرلیا تھا کہ فیصلوں کے مرکز سے قریب ہونا بہت اہمیت رکھتا ہے اور ان کے مطابق اسی حکمتِ عملی کے ذریعے وہ اپنا وجود اور تسلط باقی رکھ سکتے ہیں، اپنی پوری تاریخ میں یہود کی کوشش یہ رہی ہے کہ وہ ایک مناسب فاصلے کے ساتھ حاکم کے قریب رہیں،تاکہ مناسب وقت پر مدد،رشوت اور عورتیں پیش کرکے اپنا اُلّو سیدھا کرسکیں،حاکم اور سلطنت کے اعلیٰ حکام کی مالی مدد کے لیے انہوں نے کئی ادارے اور تنظیمیں بنائیں اور آخرکار دوسرے یہود کی نیابت میں یہ کام صہیونیوں کے سپرد ہوا،برطانیہ جب ایک عظیم سلطنت تھا اس وقت روتھ شیلڈ نے یہی حکمتِ عملی اختیار کی اور اس سے ’اعلانِ بالفور‘حاصل کیا،گزشتہ صدی کے نصف سے صہیونیوں نے امریکہ میں ایپک (AIPAC)5 نامی تنظیم قائم کی ہے جو رشوت دیتی ہے اور صدارت و کانگریس کے امیدواروں کو انتخابی مہم کے لیے فنڈ فراہم کرتی ہے ،یوں یہ صہیونی وائٹ ہاؤس اور کانگریس میں ہونے والے فیصلوں پر اپنی گرفت یقینی بناتے ہیں،بالخصوص ایپک (AIPAC)6 کا کوئی مخالف نظریے والا مدِ مقابل ہے ہی نہیں ،سو وہ تنِ تنہا امریکہ کے طول وعرض میں دندناتی پھرتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور مغربی یورپ بالخصوص پروٹسٹنٹ ممالک میں فیصلے صہیونیوں کے ہاتھ میں ہیں ،کوئی مسلمان اس سب کو بدلنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا (سوائے اس کے کہ اللہ کی مشیئت ہو)بالخصوص اس حالت میں کہ اکثر مسلم حکمران7 اور اقتدار کی کرسی سے چمٹے عرب حکام صہیونیوں کے غلام اور لشکری ہیں،اور ویٹو کی چھتری خونخوار یہودیوں کو قتلِ عام کی سہولت فراہم کرتی رہے گی۔
ارشادِ باری ہے:
كَيْفَ وَاِنْ يَّظْهَرُوْا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا فِيْكُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً يُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ وَتَاْبٰي قُلُوْبُهُمْ وَاَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَ (سورة التوبة: 8)
’’ان کے ساتھ معاہدہ کیسے برقرار رہ سکتا ہے جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر وہ تم پر غالب آجائیں تو تمہارے معاملے میں نہ کسی رشتے داری کا خیال کریں اور نہ کسی معاہدےکا؟! یہ تمہیں اپنی زبانی باتوں سے راضی کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ ان کے دل انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں۔‘‘
سو! ان سے انسانی ضمیر کی بابت بات کرنے کی ضرورت نہیں ، کیونکہ اسے تو یہ جانتے ہی نہیں، چہ جائے کہ انہیں اسے کھونے کاشعور ہو،اس کا راگ تو وہ محض قوموں کو غافل کرنے اور ان کے استحصال کے لیے الاپتے ہیں…… یہ صرف قوت کا حق جانتے ہیں…… طاقتور جو چاہیں لے لیں، اور ایسا نظام نافذ کرتے ہیں جو صرف ان کی اغراض کو پورا کرتا ہے اور بس۔
مذکورہ بالا حقائق کی ’تاریکیوں ‘کے ضمن میں ہی یوکرین اور فلسطین کی بابت صہیونی تضاد بھی ہے،صہیونی یوکرین میں رنگدار[نیلی پیلی] آنکھوں اور سفید چمڑی والوں کا دفاع نہیں کررہے،یہ تو نسل پرست مغربی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کا ایک حربہ، دوسرے انسانوں کی تحقیر اور اپنی برتری کا زعم ہے،حقیقت یہ ہے کہ ان کا مفاد ہی ان کے انصاف کے پیمانے طے کرتا ہے،سو ان کا مفاد ہی ہے جو کسی بھی جدوجہد کو عادلانہ قرار دے کر اپنی جان کے دفاع کا حق دیتا ہے، گو وہ ان کے اپنے ہاتھوں سے لکھے اصولوں کے خلاف ہو،یوکرین کو قابض روس کے خلاف اپنے دفاع کا حق اس لیے ہے کہ یوکرین یورپ اور مغرب کا پہلا دفاعی خط ہے ،اگر روس نے اسے عبور کرلیا تو یورپ کے لیے روس کے آگے سرینڈر ہونے یا ایک نئی عالمی جنگ میں داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ رہا فلسطین تو یہاں قابض یہود کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں (جن کی زمینیں اس نے قبضہ کی ہوئی ہیں ) کے خلاف اپنا دفاع کرے،کیونکہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں مغرب کا ہراول دستہ یہی یہود ہیں۔ جو چیز ان کے حق میں ہو اسے یہ جائز بنادیتے ہیں اور حقائق کو پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنی من پسند شکل میں پیش کرتے ہیں اور خود اپنے بنائے معاہدوں اور عالمی قانون کی پابندی نہیں کرتے،اور اگر کوئی ان کے ساتھ بحث کرے اور انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرے تو وہ ان کے میڈیا کے طوفانِ بدتمیزی ،الزام تراشی اور بداخلاقی سے ہرگز نہ بچ سکے گا۔
تاریکی کی اس گھنگھور گھٹا تلے ہم یہ بات بھی یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ مسلم دشمن مغربی صہیونی لابی (امریکہ،برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ)غزہ کے زخم خوردہ عوام پر حصار مزید تنگ کرنے کے لیے سفاک نیتن یاہو کے محض اشارے کی منتظر ہے،سفاک نیتن یاہو نے ابھی دعویٰ ہی کیا تھا کہ ’اونروا‘8 کے بعض ملازموں نے سات اکتوبر کی کارروائی میں حصہ لیا ہے کہ ان ملکوں نے اس کے دعوے کی تحقیق کیے بغیر ہی ’اونروا‘ کے لیے اموال کی ترسیل پر پابندی لگادی ،حالانکہ ان ملکوں کو یقین تھا کہ سفاک نیتن یاہو بدترین جھوٹا ہے ،لیکن…… تاکہ غزہ میں مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرکے،ان کا گلا گھونٹ کر،بھوکامارکر اس الم ناک داستان کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے،یہود کو راضی کرنے کے لیے مغرب کے ان تیزترین اقدامات کی اس کے سوا اور کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی کہ یہ یہودی اور غیر یہودی صہیونی مل کر مسلمانوں کو ختم کرنے کا مشترکہ محاذ تشکیل دے رہے ہیں ،غزہ تو صرف آغاز ہے،دوریاستی حل کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دینے کا کوئی فائدہ نہیں ،فلسطینی قوم کو صرف زندگی گزارنے کے لیے بھی چپہ بھر زمین نہیں دی جائے گی ، کجا یہ کہ انہیں اس پر حکومت کا حق دیاجائے،منزلیں تمناؤں سے نہیں ملتیں،دنیا کو تو طاقت سے چھینا جاتا ہے۔
ان یہود کی گمراہی کی گھٹاٹوپ تاریکیوں کی رو سے میں کہتا ہوں: یہود کی تاریخ عبرت ناک واقعات اور تجربات سے بھری پڑی ہے،لیکن اس سے انہوں نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا9، ان سے انہوں نے ہدایت و توفیق کے بجائے الٹا سرکشی سیکھی،ارشادِ باری ہے:
كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰى (سورة العلق: 6-7)
’’حقیقت یہ ہے کہ انسان کھلی سرکشی کررہا ہے،کیونکہ اس نے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھ لیا ہے۔‘‘
انہیں کبھی بھی ایسا قدم اٹھانے میں کامیابی نہیں ہوئی جو انہیں اللہ یا اس کے بندوں کے قریب کردے،کیونکہ یہود وہ قوم ہے جو باطل کا ارادہ کرتی ہے ،پھر اسے کر گزرتی ہے،انہوں نے اپنے نبیوں کو قتل کیا،اللہ کے منہج کو چھوڑدیا،اللہ کے ولیوں سے جنگ کی اور اب بھی کررہے ہیں،اہلِ حق کو تکلیفیں دیتے ہیں،کسی کے ساتھ گھلتے ملتے نہیں،اپنے اندر ایسی بے بنیاد نسل پرستی پروان چڑھاتے ہیں جو انہیں بقیہ دنیا سے تنہا کردیتی ہے،یہ وہ خذلان بے توفیقی ہے جو اللہ اس پر ڈالتا ہے جس پر اس کا غضب ہو، لہٰذا انہیں کبھی بھی توفیق نہیں ہوگی کہ وہ بقیہ انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہیں،ان کا انجام قریب ہے ،اور ہر گزرتا دن انہیں ان کے یقینی انجام کے قریب ہی کررہا ہے،ہم پر لازم ہے کہ ان پر نظر رکھیں ،ان کے مستقبل کی سازشوںکا اندازہ لگائیں اور ان سے لڑیں،ہمیں یقین ہے کہ یہ شکست ہی کھائیں گے،خواہ اس میں کم وقت لگے یا زیادہ،اور جب ان کا ’نفیر ‘10 کا مرحلہ پورا ہوجائے گا تو دوبارہ ان کے وجود کا کوئی نام ونشان بھی باقی نہ رہے گا۔
یہود کی سرکشی وبے باکی کی ایک مثال نیتن یاہو اور اس کے اعصاب زدہ ٹولے کا وہ رویہ ہے جس سے وہ بائیڈن اور امریکہ کی بھی تذلیل کررہے ہیں،حتیٰ کہ امریکہ بھیاپنی ناک بچانے کے لیے اردن کی طرح ہوائی جہاز سے سامان گرا کر اہلِ غزہ تک امداد پہنچا نے پر مجبور ہے، حالانکہ مجرم بائیڈن بحری اور فضائی پل بنا کر یہود کی ساری ضروریات ان تک پہنچا رہا ہے، نیتن یاہو کے سلوک سے بائیڈن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو یا نہ ہو، وہ بہر صورت صہیونی ریاست کی مدد کرنے کا پابند ہے،خواہ نیتن یاہو یا کوئی اور اس کی کتنی تذلیل کرے،بعض کا گمان یہ ہے کہ نیتن یاہو کا بائیڈن کو ذلیل کرنا صرف دکھاوا ہے، سارے احتمال موجود ہیں، اگرچہ یہ انتخابات کا سال ہے اور کوئی بھی کمزور صدر کو منتخب نہیں کرنا چاہتا، لیکن اس ذلت آمیز سلوک میں دو باتیں ہیں، یاتو یہ کہ نیتن یاہو اس حال کو پہنچ گیا ہے کہ اس نے پورے مغرب کو مشکل میں ڈال دیا ہے یا یہ کہ یہود مغرب پر اپنے تسلط کی نمائش کرنا چاہتے ہیں،مغرب کے ساتھ وہ اپنا معاملہ طے کرچکے ہیں اور اس کا کردار بھی متعین کردیا ہے ،مغرب کا کام محض مدد فراہم کرنا ہے، نہ کہ مشورہ اور رائے دینا۔
سبھی نفاق کے فن کے ماہر ہیں،مصر،اردن،امارات اور ترکی کے حکمران خود کو بڑا جری وبہادر دکھاتے ہیں،پہلے دو ملک[مصرواردن] اہل غزہ کی امداد کے لیے تھوڑا بہت سامان جہازوں سے گراتے ہیں جو جانیں بچانے کے بجائے الٹا ان کے اتلاف کا سبب بنتا ہے درانحالیکہ ان دونوں ملکوں کی راہداری سے گزر کر ہر طرح کی اشیائے ضرورت کے قافلے کے قافلے مقبوضہ فلسطین میں یہود تک پہنچتے ہیں،تیسرے ملک [امارات]کےمسافر جہاز ان زخمیوں کو منتقل کرتے ہیں جنہیں خود ان کے ہی جنگی جہازوں نے مقبوضہ فلسطین میں یہود کی مدد کی خاطر اپنی بمباری کا نشانہ بنایا ہے،چوتھے ملک [ترکی] کا حکمران اپنی باتوں میں تو اہلِ غزہ کی نصرت کے لیے بڑی جرأت دکھاتا ہے لیکن اس کی اپنی کشتیاں مقبوضہ فلسطین میں یہود کو ان کی ضرورت کی ہر چیز پہنچاتی ہیں۔
یہ سب کس قدر پستی میں گر گئے ہیں!
خطے میں اسرائیل کا ناسور کیوں بویا گیا؟
مقبوضہ فلسطین میں صہیونی وجود11 امریکہ ومغرب کا ہراول دستہ اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف صلیبیوں اور صہیونیوں کی دیرینہ عداوت کی وجہ سے ان کے باہمی اتحاد کا شاخسانہ ہے،اس صہیونی وجود سے ان کا مقصد اپنے تاریخی ،سیاسی،اقتصادی،دینی اور معاشرتی اہداف کو حاصل کرنا ہے ،مثلاً: یہود کے بادشاہ (دجال) کے ظہور کے لیے راستہ ہموار کرنا،القدس پر قبضہ کرنا اور مسیحی مقدسات کی حفاظت کرنا،قوت حاصل کرنے یا حقیقی ترقی کی کوشش سے مسلمانوں کو باز رکھنا ،اپنے آلۂ کار حکمرانوں بالخصوص مصر، اردن اور خلیجی ممالک کی حکومتوں کا تحفظ کرنا،خطے کی تاریخ میں تحریف کرکے اسے مسخ کرنا (کہ اس پر اصل حق یہود کا ہے)، مسلمانوں کے مابین داخلی اختلافات پیدا کرکے اور انہیں ہوا دے کر انہیں حقیقی دشمن12 سے غافل کرنا، خطے کو ازسرِ نو تقسیم کرکے ایسے چھوٹے چھوٹے راجواڑے بنانا جو کسی کام کے نہ ہوں اور انہیں اشاروں پر نچانا آسان ہو، وسائل پر قبضہ اور سمندر وخشکی کی تجارتی گزرگاہوں پر قابض ہونا،سرزمینِ توحید میں الحاد کی دعوت کو فروغ دینا،تفریح کے نام پر بے حیائی اور زناکاری سے خطے کے باسیوں کا دین خراب کرنا،ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کو مدد فراہم کرنا،مسخ فطرت کی حامل تحریکِ نسوانیت کی علمبرداروں کی مدد کرنا،ان مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ہراول دستوں،طیارہ بردار بحری بیڑوں اور بحری جنگی جہازوں کی ضرورت ہے،خلاصہ یہ کہ خطے میں یہودی وجود اور اس کا صہیونی رکھوالا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک مکمل جنگ کا سامان ہے، صہیونی اصل دشمن ہیں ،خواہ ان کے نام کچھ ہوں، مثلا: یہود، یورپی، امریکی، عرب حکومتیں وغیرہ۔
بنابریں نسل درنسل چلنے والے کچھ دینی اسباب بھی ہیں جنہیں پہلے صلیبی حملوں سے تعبیر کیا گیا ہے،بلاشبہ امریکہ کی مسیحی صہیونی سوچ پر اس کابھی بڑا اثر ہے ،اسی لیے وہ یہود کی غیر مشروط وغیر محدود مدد کرتا ہے ،جیساکہ خبیث امریکی سینیٹر لنڈسی گراہم اور اس کے ساتھی کررہے ہیں۔اپنے دشمنوں کی بربادی کے لیے تاریخ میں استعمال ہونے والا سب سے بڑا محرک اور جواز دینی رہا ہے اور آج بھی ہے۔
اس کے علاوہ کچھ ارض سیاسی اور اقتصادی اسباب بھی ہیں جن کا تعلق فلسطین کے تزویراتی محلِ وقوع سے ہے ،یہ مشرق ومغرب کے بیچ ایک خشکی کی گزرگاہ بھی ہے اور اس کے ساحل بقیہ شام اور مصر کے ساحلوں سے مل کر بحرِ احمر اور بحرِ متوسط کے ذریعے مشرق سے مغرب کی راہداری ہیں ،یقیناً یہ سبب بھی انہیں ابھارتا ہے کہ وہ یہاں قبضہ کرکے اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کی حفاظت یقینی بنائیں،خلیج کے تیل پر قبضے کی روسی آرزو کو ختم کریں اور عرب منڈی میں چین کے حصے کو محدود کریں اور تبدیلی کے لیے آنے والے کسی بھی داخلی انقلاب کا رخ بدلیں اور اسے ناکام بنائیں۔
سفاک نیتن یاہو اور اس کے اعصاب زدہ شرکاء کے خیال میں سات اکتوبر کی مبارک کارروائی ان کے خفقان کے علاج کا بہترین موقع ہے کہ وہ اہلِ غزہ پر تباہی مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ باقی مسلمانوں کو بھی بھڑکا کرجنگ کا دائرہ وسیع کریں اور اسے خطے کی یا ممکن ہوتو عالمی جنگ بنادیں ،وہ موجودہ صورتحال سے پورا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں کہ بقیہ لوگوں کے تیار اور ہوشیار ہونے سے پہلے ہی ایک ایک کرکے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے سارے دشمنوں کا صفایا کردیں،تاکہ خطے کی دوبارہ بندربانٹ ہو اور وہ اپنے ’اوہام کی سرزمین‘ (نیل سے فرات تک) پر قابض ہوکر ہیکل کی تعمیر کریں، یہ نیتن یاہو کا بیداری کی حالت میں سب سے حسین خواب ہے۔ اگرچہ عالمی صہیونیت جنگوں کی آگ بھڑکانے اور اسے ہوا دینے کی ماہر ہے،بالخصوص اپنے دشمنوں اور ان کی مخالف تبدیلی کی تحریکات یا کمزور حکومتوں کے درمیان،تاکہ سب جنگی نقصانات کی وجہ سے کمزور ہوجائیں،جیساکہ یوکرین میں ہورہا ہے،لیکن اب کی دفعہ نتیجہ ان کی چاہت کے مطابق ہرگز نہیں ہوگا۔
گزشتہ صدی کے کئی تجربات بالخصوص رواں صدی کے شروع میں افغانستان کے تجربے کے بعد مغرب اور امریکہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جنگ میں براہِ راست شمولیت سے اجتناب کی حکمتِ عملی اختیار کرنے میں ہی بہتری ہے،بلکہ صرف طاقت کی نمائش اور ایک فریق کی مدد اور اس کو اموال کی ترسیل پر ہی اکتفا کیا جائے اور اسی سے اس کی عسکری قوت کو نچوڑا جائے اور اس کی معیشت کو کمزور کیا جائےاور سیاسی طور پر اسے تنہا کردیا جائے ،جیسا کہ یورپ اور امریکہ کے مغربی صلیبی صہیونی ’نرم قوت‘ کے استعمال سے اپنے دشمن کے اتحاد کو دھیرے دھیرے پارہ پارہ کررہے ہیں،نظریاتی اختلاف پیدا کرکے ان کے نقطہ وحدت کو توڑ رہے ہیں، سو جب منتشر ہوکر ان کی غالب قوت ختم ہوجائے گی تو ان کا کام تمام کرنا بھی آسان ہوجائے گا،اس حکمتِ عملی سے صلیبی صہیونی مغرب بہت بڑے خسارے سے بھی بچ جائے گا سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی، امریکہ نے صرف افغانستان میں انسانی جانوں کے ناقابلِ برداشت نقصان کے علاوہ دو ٹریلین ڈالر کا خسارہ اٹھایا ہے۔
روس یوکرین جنگ میں ہم براہ راست ٹکراؤ سے بچنے کی اس حکمت عملی کو اس کی مثالی شکل میں دیکھ سکتے ہیں، یوکرین کے محاذ پر مغرب ،مشرق کے خلاف اپنے دفاع کی جنگ لڑرہا ہے، یوکرینی فوج میں پھیلی کرپشن کے باوجود اس کو درکار اسلحہ اور پیسے مغرب اسے فراہم کررہا ہے، لیکن یہ جنگ سبھی کو ایک بھیانک انجام کی طرف لے جارہی ہے، قریب ہے کہ امریکہ یوکرین کو دورمار میزائل دے دے، جو کہ ایک عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے، بطورِ خاص جبکہ کہاجارہا ہے کہ روس خلا میں جنگ کے لیے تیاریاں کررہا ہے۔ خواہ کتنی احتیاط اور عقلمندی سے چالیں چلی جائیں، لیکن جب میدان میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں اور اربابِ اقتدار طاقت کے نشے میں چور ہوں تو پیشگی کہنا مشکل ہے کہ جنگ کی نوعیت کیا ہوگی! اور کہاں پہنچ کر ختم ہوگی؟! لیکن اگر جنگ کا کوئی نتیجہ سامنے آئے تو اس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ بہت بھیانک ہوگا ،لیکن جو اس جنگ میں شریک نہیں ہوں گے ان کے لیے یہ سب (عالمی طاقتوں کی تباہی)فاصلوں کو کم کرنے کی جانب ایک قدم ہوگا 13۔
ہم دیکھتے ہیں کہ فلسطین کے متعلق بھی مغربی حکمتِ عملی یہی براہ ِراست ٹکراؤ سے گریز کی ہے،خطے میں نئے نظام کے قیام کے لیے امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ میں ایک کھلی جنگ میں دھکیلنے کی نیتن یاہو 14کی پوری کوشش کے باوجود بھی امریکی اور یورپی ردِ عمل نے یوکرین والی پالیسی سے سرِ مو بھی تجاوز نہیں کیا،حالانکہ بحرِ احمر میں مغربی مفادات کو نشانہ بنایا گیا،یہودی بحری جہازوں بعدازاں برطانوی اور امریکی بحری جہازوں پر باب المندب کا راستہ بند کرنے کی کوششوں میں پوری سمندری تجارت کو خطرے میں ڈال دیا گیا،لیکن اس سب کے جواب میں مغرب نے زمینی فوج کشی کیے بغیر محض فضائی بمباری پر اکتفا کیا،اس کے بہت سے اسباب ہیں ، جن میں ایک سبب یہ ہے کہ انہیں جبوتی میں موجود اپنے عسکری اڈوں کا خوف ہے ،کیونکہ وہ یمنی قوم اور صومالی مجاہدین کی دسترس میں ہیں ،اور انہیں علم ہے کہ یمنی قوم ایک مسلح اور جنگجو قوم ہے، اگر صہیونی عرب اپنے مظالم اور بے مقصد جنگ مسلط کرکے یمن میں القاعدہ کے مجاہدین اور یمنی قبائل کی بندوق کا رخ اپنی طرف نہ موڑتے تو ہم ان ایمان و حکمت کی سرزمین کے باسیوں کی طرف سے امت کی وہ مدد دیکھتے جو دلوں کو خوشی سے بھر دیتی،اس خطے کی اقوام کے لیے یہود، صلیبی مغرب اور ان دونوں کو حرکت میں لانے والی صہیونی مشینری سے نفرت کے اسباب بہت زیادہ ہیں اور یہ اقوام کسی بھی وقت ان کے خلاف حرکت میں آسکتی ہیں۔
سابقہ ساری باتوں کا خلاصہ ڈاکٹر عبد الوہاب مسیری کے الفاظ میں کچھ یوں ہے:اسرائیل محض ایک طیارہ بردار بحری بیڑا ہے…… قابض دشمن فلسطینیوں کو کبھی بھی کوئی حق نہیں دے گا…… مزاحمت ہی اصل حل ہے…… اسرائیل کی تباہی یقینی ہے…… پیشہ ور صہیونی زیادہ خطرناک ہے۔
یہ بیان کرنا بھی اشد ضروری ہے کہ یہود کے لیے امداد لے جانے والے بحری جہازوں کو باب المندب میں نشانہ بنانے کی کارروائی نے صلیبی صہیونی مغرب کے سارے اندازوں کا بیڑہ غرق کردیا ہے، یہ کارروائیاں تو محض ایک آغاز ہیں اور ان سے خطے کی دیگر اقوام کو بھی یہ شعور ملے گا کہ اس طرح کی خفیہ کارروائیوں سے خطے میں، مغرب میں بلکہ جہاں کہیں بھی امریکی اور مغربی مفادات ہوں، انہیں ہدف بنایاجائے،اور اگر رمضان کا مہینہ شروع ہونے کے بعد بھی استقامت کے استعارے ’غزہ‘ میں مسلمانوں کا قتلِ عام اسی طرح جاری رہا تو عیاشی وحرام کاری میں مگن حکمرانوں سے مایوس خطے کی اقوام کے پاس اس کے سوا کوئی اور منطقی اقدام نہیں ہوگا۔اور بے شک آنے والا کل دیکھنے والے کے لیےقریب ہی ہے۔
بہت جلد (ان شاء اللہ)قوموں پر لازم ہوگا کہ وہ تماشائی کی جگہ چھوڑدیں،امت اور اس کے مصالح کا دفاع کریں ،اور اپنے خطوں کو آزاد کروائیں،عسکری،سیاسی اور ذہنی استعمار کی برتری کے دور کو ختم کریں ،تاکہ امت دوبارہ اٹھ کھڑی ہو اور اپنا وہ حقیقی کردار نبھائے جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے یعنی دنیا کی قیادت کرے۔
٭٭٭٭٭
1 ‘The Intercept’ نامی ویب سائٹ پر ایک مضمون میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ عام شہریوں کو قصداًنشانہ بنانے اور اس کومعمولی چیز سمجھنے کی طویل امریکی تاریخ ہی صہیونیوں کے لیے نمونۂ عمل اور دلیل ہے کہ وہ بھی کسی قسم کی تحقیقات یا نتائج کا خوف کیے بغیر اسی راستے پر چل [بلکہ دوڑ] رہے ہیں،ذیل میں اس مضمون کے کچھ اقتباسات اور اعداد وشمار ذکر کیے جارہے ہیں:
جاپان میں امریکہ نے ۶۷ شہروں پر حملہ کیا،۱۸۰ مربع میل کا علاقہ جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادیا،ساٹھ ہزار عام شہریوں کو قتل کیا،پچاسی لاکھ کے لگ بھگ لوگوں کو گھر سے بے گھر کردیا،ہیرو شیما اور ناگاساکی پر دو ایٹم بم پھینکے اور آن کی آن میں تقریبا دولاکھ دس ہزار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔کوریا میں امریکی فضائیہ کے جنرل نے فخریہ بتایا کہ انہوں نے دس لاکھ کوریائی باشندے قتل کیے اور کئی لاکھ کو بے گھر کیا۔ویت نام میں ۳۰ ارب پاؤنڈ بم گرائے،جس سے زمین میں دوکروڑ دس لاکھ گڑھے پڑگئے،کمبوڈیا میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب شہریوں کو قتل کیا،لاؤس پر بیس لاکھ ٹن سے زیادہ بارود برسایا۔(ان اعداد وشمار سے مقتولین کی حقیقی تعداد کا آپ خود اندازہ لگالیں)۔سات اسلامی خطوں(افغانستان،عراق،لیبیا،پاکستان،صومالیہ،شام اور یمن)میں اڑتالیس ہزار مسلمانوں کو قتل کیا(یہ اعداد وشمار حقیقی تعداد سے کہیں زیادہ کم ہیں)۔یہ اعداد وشمار (Airwars) کے ۲۰۲۱ء میں جاری کردہ تجزیے کے مطابق ہیں،یہ فضائی حملوں کے جائزے کا ایک گروپ ہے،جس کا دفتر برطانیہ میں ہے۔
Source: https://theintercept.com/2023/11/12/america-war-bomging-killing-civilians/
2 واقعہ کی تفصیلات استیر کے صحیفے میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
3 تناخ :یہود کی تاریخی دستاویز ہے،اس میں تورات اور اس کی پانچ کتب،بادشاہوں اور نبیوں کی تاریخ پر مشتمل ۲۱ کتب،تحریرات یا واقعات پر مشتمل ۱۳ کتب ہیں،یہ کل ۳۹ کتب ہیں،ان کے علاوہ اور بھی کتب ہیں جن کی قانونی حیثیت میں بعض یہودی فرقوں کا اختلاف ہے۔
4 بطورِ دین یہود ویہودیت کی تاریخ کا آغاز حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کوہ طور پر نبوت ملنے کے بعد فرعون کے محل واپس آنے سے ہوتا ہے۔
5 American Israel Public Affairs Committee
6 تبدیلی لانے والوں (جن میں فردی جہاد کے شیر سرِ فہرست ہیں)کے اہداف کے ضمن میں اس تنظیم کے ذمے داران اور پس پردہ ڈوریں ہلانے والے ضرور شامل ہونے چاہییں۔
7 ہماری امت کو کسی کی چاپلوسی کرنے کی ضرورت ہے بھی نہیں ،قوت وعظمت کے سارے عناصر اس میں موجود ہیں،اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے رب کی طرف لوٹے ،قوت کے اسباب اختیار کرکے سیاسی طور پر خودمختار ہواور عالمی سیاست پر اثرانداز ہو،پھر دنیا کی دوسری اقوام اس سے دوستی کی طالب ہوں گی،لیکن اس امت کے حکام نے اپنے رب کی نافرمانی کی ،اپنی خودی کھودی،اپنی امت کو ذلیل کروایا،اور اس کے دشمن کے آگے جھک گئے،آج ہماری اقوام پر جو بیت رہی ہے وہ اس خاموشی اور ظلم کو برداشت کرنے کا نتیجہ ہے۔ارشادِ باری ہے: اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ. (سورة الرعد:۱۱) ’’یقین جانو کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ لے آئے‘‘۔
8 UNRWA: United Nations Relief and Works Agency for Palestine Refugees in the Near East
9 انبیاء کی اتباع کرکے ہدایت کی راہ اختیار کرنے والے اس سے مستثنی ہیں
10 ارشادِ باری ہے: ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَجَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا (سورۃ الاسراء: ۶) ’’پھر ہم نے تمہیں موقع دیاکہ تم پلٹ کر ان پر غالب آؤ،اور تمہارے مال ودولت اور اولاد میں اضافہ کیا، اور تمہاری نفری پہلے سے زیادہ بڑھادی‘‘۔
11 بعض لوگ کہتے ہیں کہ صہیونی فکر کا آغاز سترہوویں صدی کے انگلستان میں بعض متشدد پروٹسٹنٹ حلقوں میں ہوا ،جو واپسی کے عقیدے کے قائل تھے،جس کا مطلب تھا کہ یہود واپس فلسطین لوٹیں تاکہ خلاصی ملے اور مسیح دوبارہ لوٹ آئیں،لیکن ہوا یوں کہ انگلستان کے سیکولر استعماری حلقوں نے ان نظریات کو سیکولر بنا کر اپنا لیا،پھر انیسویں صدی کے وسط میں یہ نظریات ان مفکروں کے ہاتھوں حتمی شکل کو پہنچے جو نہ صرف یہ کہ غیر یہودی تھے بلکہ یہود ویہودیت کے دشمن تھے،یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ صہیونیت دراصل اس عمل کا ردِ عمل تھا جسے یہود ’سامی عداوت‘کانام دیتے ہیں،اور اس کا مقصد براعظم یورپ میں یہود کی حالتِ زار کو بدل کر ان کی ایک ایسی قومی حکومت کا قیام تھا جو دنیا کے یہود کو ایک جگہ اکٹھا کردے۔از وکیپیڈیا
12 یہ حکومتیں کس قدر گر گئی ہیں!فٹبال کی خاطر مصر والجزائر میں دشمنی کو فروغ دیاجاتا ہے ،یہ بھلادیاجاتا ہے کہ دس رمضان کی جنگ میں مصر کی سب سے زیادہ مدد الجزائر نے کی تھی۔
13 لیکن فاصلوں کی یہ کمی کن کے درمیان ہوگی؟ اور کس بنیاد پر ہوگی؟کیا جنگ سے پہلے کے کمزوروں اور طاقتوروں کے درمیان فاصلے کم ہوں گے؟یا انسانیت اس سے سبق سیکھ کر رواداری کے ساتھ مل جل کر رہنے کا ایک ایسا نظریہ وضع کرے گی جس سے جنگ کا امکان ختم ہوجائے؟یا پھر اسلام اور مسلمان ایک بار پھر دنیا کی قیادت سنبھالیں گے؟
14 سفاک نیتن یاہو کے خیال میں یہ خطے میں یہود کے مستقبل کو درپیش کسی بھی خطرے سے نمٹنے کا بہترین موقع ہے،اس کا خیال ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سائکس پیکو کے بعد ایک بار پھر خطے کے ممالک کی بندربانٹ کی جاسکتی ہے۔لیکن کیا سفاک نتن یاہو کوئی ایسا آر یا پار والا جنگی اقدام کرسکے گا جس وہ خطے کو ایک کھلی جنگ میں دھکیل کر امریکہ اور اس کے یورپی دم چھلوں کو بھی میدان میں گھسیٹ لائے؟میرے خیال میں یہ احتمال بھی بعید نہیں،یوکرین اور فلسطین میں عالمی جنگ کا طبل پوری قوت سے پیٹا جارہاہے اور کسی معمولی واقعے سے بھی اس کے شعلے بھڑک سکتے ہیں۔