اسلامی جمہوریت کا ملغوبہ

پاکستان کا باسی ہونے کا تقاضا ہے کہ یہاں کے ہر شخص کو اس مملکت کا پورا نام اور دنیا کے نقشے پر اسکی کھنچی لکیروں کے ظاہر ہونے کی وجہ معلوم ہو۔ میرا خیال ہے یہ تحریر پڑھنے والوں کو تو کم از کم معلوم ہی ہوگا کہ اس ملک کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘کہتے ہیں اور دنیا کے نقشے پر اس کو جگہ ملنے کی ظاہری وجہ جو ہر کسی کو معلوم ہے وہ یہ کہ یہ پاکستان نامی ریاست مسلمانوں کو آزادی سے اپنی مذہبی زندگی جینےکے لیے ایک کھلی فضا مہیا کرے گی۔

لیکن قابل غور امر یہ ہے کہ اسلامی مملکت اور جمہوریت کا جمع ہونا ایک عجیب تناقض ہے(چاہے یہ مملکت پاکستان ہو یا کوئی اور )۔ پھر اسلام اور جمہوریت کو جمع کرکے اسے مملکت کے نام کا حصہ بنا دیا جائے تو یہ اس سے دشمن کا ایجنڈا بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ان نام نہاد آزاد لوگوں کو بھی مل کر کبھی نہیں جینے دینا (اس پر ہم آگے بات کرتے ہیں)، مگر ہم بھی اتنے بھولے ہیں کہ اس نام پر کبھی توجہ ہی نہ کی کہ اس میں کیا خرابی ہے۔ آہستہ آہستہ جب یہ نام ہمارے دماغوں میں بیٹھ گیا اور دشمن نے جمہوریت کو اسلام کا لبادہ اوڑھا کر ہمیں یہ سبق یاد کرا دیا کہ اسلام اور جمہوریت میں کوئی ٹکراؤ نہیں تو شروع میں تو ہم نے اسے کسی درجہ قبول کیا اور اس کے ذریعے یہ کوشش کی کہ اسلام کا غلبہ نہ سہی کم از کم دفاع کے لیے ہی اس نظام میں داخل ہو جائیں۔ اس نظام میں داخل ہونے کے لیے ہمارے پاس اکابر کا اس نظام کے ساتھ چلنا بھی ایک دلیل بن گیا جبکہ اُن حضرات کا اس نظام کے ساتھ چلنا ایک تجرباتی عمل تھا کہ اس نظام کی وہ شقیں جو اسلام مخالف نہیں ان کے سہارے یا اس نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں کو اپنے خطے سے نکال باہر کیا جائے اور مسلمانوں بلکہ برصغیر کے باسیوں کا خون خرابہ بھی نہ ہو۔انہوں نے ہر گز یہ نہیں کہا کہ یہی راہ اصلاح و جہاد ہے اور ہمارے پاس اس نظام کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں جس سے مقصد حاصل کیا جائے۔

پاکستان میں تو ہم نے جمہوریت کو مسلمان بنانے کے لیے آئین کے شروع میں قرار داد مقاصد کے اندر حاکمیت اعلی اللہ رب العزت کے لیے طے کی اور گویا اللہ تعالیٰ کو ان کا حق دے کر احسان کردیا۔ اس ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا کی شق درج کرنے کے بعد ہم نے مملکت کو اسلامی اصولوں کی پابند ریاست قرار دے دیا اور چونکہ کلمہ تو اس ملک نے آزادی کی تحریک کے ساتھ ہی پڑھ لیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا ’’لا الہ الا اللہ‘‘تو اس نظریہ کے بعد پاکستان کی حیثیت ہمارے دماغوں میں اس شخص کی طرح ہوگئی جو کلمہ پڑھ کر اسلام لے آیا ہو اب عمل میں کوتاہی کے باعث اگر وہ کافر نہیں ہوتا تو پاکستان(جو قرآن و سنت کو پس پشت ڈال کر بدعملی کا شکار ہو رہا ہے) کو کیونکر اسلامی نہ کہا جائے بس جس طرح وہ کلمہ گو نو مسلم اپنے عمل کی کمزوری اور گناہوں کے مرتکب کی وجہ سے فاسق ہے اور دائرۂ اسلام سے خارج نہیں تو اسی طرح ایک کلمہ گو ریاست کی بھی اتنی ہی حیثیت ہونی چاہیے۔

واضح رہے کہ کہ فرد پر عائد ہونے والے احکامات کا اجرا بعینہ ریاست پر بھی کیا جائے اس کی نظیر تاریخ اسلامی میں نظر نہیں آتی۔ ریاست کا فاسق ہونا اور صالح ہونا بھی کوئی عقیدہ ہے کہ جس کی بنیاد پر انسان تو انسان محض تصوراتی ریاستیں بھی اللہ کو راضی کریں اور اس کی رضا و عدم رضا کی بنیاد پر جنت اور جہنم میں جائیں، ایسا ہر گز نہیں ہے۔ ایسی بات تو پاکستان کو اسلامی ریاست کہنے والے اور اس میں عملی نفاذ کے نہ ہونے کے معترف بھی نہیں کہیں گے تو بس پھر جن عقائد و اعمال پر جنت و جہنم کا ثمرہ مرتب ہوتا ہو ان کا تعلق صرف انسانوں ہی سے ہے جس طرح سے جنت اور جہنم انسانوں کےلیےلیے ہے۔ تصور ریاست کا فرد کی طرح صالح و فاسق ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ صفحات کے پلندے کی چند سطروں میں لکھے تسلی بخش نظریات کو مملکت کا عقیدہ کہا جائے۔ اور اگر مان بھی لیا جائے کہ پاکستانی ریاست مسلمان مگر بے عمل ہے تو پاکستان میں صرف اپنے آئین کی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ صریح بغاوت کا علم بلند ہے۔ کون کون سے ایسے اسلام دشمن قوانین ہیں جن کو جاری نہیں کیا جا رہا؟ سود کو حلال کرنے کی درخواست علماء سے کی جارہی ہے جبکہ اس عمل کے ذریعے اعلان جنگ تو طویل عرصے سے کیا جا چکا ہے، ٹرانس جینڈر ایکٹ جیسے بے حیا اور بے شرم بل کو پاس کر کے اپنے اوپر پتھروں کی بارش کو دعوت دی جارہی ہے، حقوق نسواں بل کے ذریعے صنف نازک کی عفت و عصمت کو تار تار کیا جا رہا ہے اور بہت کچھ ہے جو بلا کسی شش و پنج کے کفر سے رضا مندی کی ظاہر و بین دلیل ہے تو کیا اب بھی ہم اس ملک کو اسلامی جمہوریہ ہی کہیں……؟؟؟

یہاں تک تو ہم نے اتنی بات کی کہ اسلامی جمہوریہ کو ہم نے کس طرح قبول کیا اور مملکت میں اسلام کے نفاذ کے نہ ہونے کے باوجود بھی ہم اس کو اسلامی ریاست کہنے پر ہی ڈٹے ہوئے ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کا بھی کوئی ملاپ ہو سکتا ہے؟ کاش ہم اس ملاوٹ کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں……!

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جو بات اہل ملت کو سمجھائی گئی ہے اس سے تو پیچھے ہٹنے کی کسی صورت میں بھی گنجائش نہیں ہے پھر خاص طور پر اس دور نازک میں جس میں ملت اسلامی پارہ پارہ ہوچکی ہے۔ قرآن پکار رہا ہے:

واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا

’’اور تم سب اللہ کی رسی کو تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘

اب بات آتی ہے کہ کیا جمہوریت چاہے وہ اللہ تعالی کی حاکمیت اعلیٰ ہونے کا اقرار کرتی ہو، اس میں اس آیت پر عمل ہونا ممکن ہے؟ اس آیت کی تعلیم پر عمل ہی ہماری قوت کی اساس ہے، اجتماعیت ہی میں ہماری اٹھان کا راز پوشیدہ ہے۔ لیکن جمہوریت کا تقاضا یہ ہے کہ بہر صورت میدان میں دو جماعتیں تو ہوں ہی جن میں اقتدار کے حصول کی رسہ کشی ہو اور دو سے زائد کی کوئی قید نہیں۔ اب یہ جمہوریت اگر کفار کی ممالک میں ہے تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں بلکہ اس میں ہمارا فائدہ ہے کہ ہم ان کی ٹوٹ پھوٹ سے فائدہ اٹھائیں گے۔اب کسی ایسے ملک جسے اسلامی کہا جا رہا ہو اور اس کی اکثریت مسلمانوں کی ہو تو وہاں پر جمہوریت مسلمانوں کو آپس کی اجتماعیت توڑنے کی تعلیم دیتی ہے۔ اجتماعیت کے ٹوٹنے کو دو صورتیں ہیں:

    1. اس ملک کے مسلمان آپس میں اسلامی اور سیکولر جماعتوں میں تقسیم ہوں گے۔
    2. یا پھر مسلمانان ملک مختلف مذہبی جماعتوں میں منتشر ہوںگے۔

پہلی والی صورت میں تو کسی بھی اسلامی مملکت کے اندر کسی بھی سیکولر فکر کو پنپنے کی گنجائش نہیں کیونکہ اس فکر کا مطلب ہی دین کو سرے سے مٹا دینا ہے۔ سیکولرزم کی تعریف اس نظریہ کے سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ سیکولرزم کی تعریف یہ ہے:

“فصل الدین عن الدول و الحیاۃ”

یعنی دین کو زندگیوں اور حکومت سے الگ کرنا۔ بالفاظ دیگر اس کا مطلب ’’لادینیت‘‘ہے۔کیمبرج ڈکشنری میں سیکولرزم کی تعریف یوں کی گئی ہے:

Secularism: The belief that religion should not be involved with the ordinary social and political activities of a country.

’’سیکولرزم: یہ نظریہ کہ مذہب کو کسی ملک کی عمومی معاشرتی اور سیاسی سرگرمیوں میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔‘‘

یہ ہے سیکولرزم اور اس نظریہ کی حامل جماعتوں کی حقیقت۔ ان کی اس دین دشمنی اور لادینیت کی بنا پر اگر سوچا جائے تو اس ملک میں توپھر کسی بھی سیکولر پارٹی کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس سوچ کو پھیلانے والوں کا خاتمہ بھی ہمارا فرض بنتا ہے۔ پاکستان کو ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کہا جاتا ہے لیکن یہاں پر تو جمہوریت کا سہارا لے کر سیکولر جماعتیں بھی کرسی پر بیٹھنے کے لیے میدان میں آتی ہیں ان کا تو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خاتمہ ضروری ہے۔ ان جماعتوں کی حریف جماعتیں عام طور پر مذہبی ہوتی ہیں گو کہ دیگر سیکولر جماعتوں سے مقابلہ بھی ہوتا ہے(اور جمہوریت کا تقاضا تو یہی ہے کہ آپس میں جماعتوں کی تقسیم برقرار رہے اور ایک دوسرے سے مسابقت کی فضا گرم رہے، چاہے مذہبی جماعتیں ہوں یا نہ ہوں)اور ان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ مذہب کو اس سیاست سے کلی طور پر بے دخل کردیا جائے۔ یہ جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد آہستہ آہستہ دین کو اپنی تعریف کے مطابق معاشرت اور سیاست سے جدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ آج تک پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں یہ جماعتیں جیتتی ہوئی آرہی ہیں اور مسلسل انہیں جماعتوں کی حکومت رہی ہے۔ مذہبی جماعتوں کو الیکشن میں آج تک ایسی کامیابی نہیں مل سکی کہ کرسی کی قوت کے ذریعے ملک میں اسلام نافذ کر سکیں۔ حکومت جب سیکولر افراد چلا رہے ہوں تو پھر پتہ نہیں ملک اسلامی رہے گا بھی کے نہیں، یہ آپ خود ہی سوچیں کیونکہ جس طرز فکر کا حکمران غالب ہوگا اور مملکت کی باگ ڈور سنبھالے گا وہی لیبل اس ملک کا حق ہونا چاہے۔ یہ تو نا انصافی ہے کہ سیکولرزم کے حامی حکومتیں بھی چلائیں اور انہیں یہ حق بھی نہ دیا جائے کہ ملک کے نام کو بدنام کریں۔ یہ مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ بھی ہے کہ حکومت ہو لادینوں کی اور اُن (مسلمانوں) کو یہ ڈھکوسلا دیا جاتا رہے کہ ان کا ملک بدستور اسلامی ہی ہے۔

یہ ہے پہلی صورت اور اسلام ایسی جمہوریت کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ دوسری صورت جس میں ہم فرض کرلیتے ہیں کہ کوئی بھی لادین جماعت ملک کی جمہوری سیاست میں حصہ نہیں لے سکی، صرف مذہبی جماعتیں ہیں ملکی جمہوری سیاست کے ساتھ چلنے کی اہل ہوں گی تب بھی اسلام کی نظر میں یہ قابل قبول نہیں۔ اسلامی جمہوریت میں ہمارے ساتھ اسلام کا نام ہونے کی وجہ سے مذہبی جماعتوں میں صرف مذہبِ اسلام کی نام لیوا جماعتوں کو ہی ’’سیاسی مذہبی جمہوری‘‘ پارٹی بنانے کا اور الیکشن میں حصہ(برائے نام) لینے کا حق حاصل ہے۔ تو اب ہم نے یہ فرض کرلیا کہ اس ملک میں گویا کوئی سیکولر، لبرل اور غیر مسلم پارٹی نہیں۔ صرف اسلامی جماعتیں ہیں۔ پھر جماعتیں کیوں بنانی پڑیں؟ اس لیے کہ ملک جمہوری ہے اور جمہوریت میں دو یا دو سے زائد جماعتیں لڑ جھگڑ کر اقتدار حاصل کرتی ہیں۔ تو ہمیں جمہوری ہونے کے ناطے پارٹیاں بنانی پڑیں گی۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ یہ صورت بھی اسلام کو تسلیم نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعیت بہر صورت اس میں بھی انتشار کا شکار ہو گی۔ دو یا اس سے زائد اسلامی پارٹیاں بنانے کا جواز ہی کیوں ہو جبکہ اسلام تو ایک ہی ہے۔ حکم تو تمام مسلمانوں کو ہے اللہ تعالی کی رسی تھامنے کا۔ اللہ کی رسی(قرآن کریم) بھی ایک ہی ہے۔ قرآن کریم کی تشریح بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے، اور کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح بھی وہی معتبر ہے جو اسلاف کے فہم کی روشنی میں ہو ۔

اسلام میں کوئی جدید اور قدیم کا ماڈل نہیں ہے۔ اسلام تو صرف وہی ہے جو ساڑھے چودہ سو سال پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے اور امت بھی امت محمدیہ ہے جس کو ٹوٹ پھوٹ سے بچنے کی تعلیم اور مل جل کر رہنے کی تاکید ہے۔ تو اسلامی جماعتیں بنانے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ جماعت تو ایک ہی رہے گی جو برحق ہوگی۔ جس کو اہلِ سنت کہا جائے گا۔ جس کا راستہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین والا راستہ ہوگا۔ جس کی تعلیمات فہم سلف کے مطابق ہوں گی۔ آخر جب مسلمانوں کی ایک ہی جماعت ہو تو پھر اسلام کے دعویدار ملک میں جمہوریت کی کوئی صورت ہی نہیں نکلتی کہ جس کو اکثریت (اور جمہور بھی ایسا جس میں عالم اور جاہل، عاقل اور مجنون میں کوئی فرق نہیں ) قبول کر لے وہی برسراقتدار ہو، بلکہ قرآن و سنت اور فہم سلف کی روشنی میں (جبکہ ہم ایک ہی جماعت بن کر رہیں) تو پھر خلافت و امارت ہی کاقائم کرنا ہمارا اولین فرض بنتا ہے۔

اللہ تعالی ہمیں حق بات سمجھنے، اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور باطل و گمراہ کن نظریات افکار کی حقیقت سے واقف ہونے اور ان سے بچنے، بچانے اور براءت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭٭٭٭٭

Exit mobile version