دوسری پیش کش
اس پیش کش میں مفسرینِ کرام نے متعدد تجاویز نقل کی ہیں:
امام المفسرین ابن جریر طبری نے ابن عباس کی روایت نقل کی ہے کہ ایک دن مکے کے مقتدر طبقے میں سے کچھ لوگ آپﷺ سے ملے اورکہنے لگے: اے محمد !ہم آپ کو اتنا مال دیتے ہیں کہ آپ مکہ کے سب سے مالدار شخص بن جائیں گے، اور عرب کی سب سے حسین عورت سے آپ کی شادی کرادیتے ہیں، یہ ہماری طرف سے تمہارے لیے ہے، اس کے بدلے آپ ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے باز آجائیے اور ان کی برائی نہ کیا کیجیے۔ اگر آپ کو یہ منظور نہیں تو پھر ایک اور بات ہماری طرف سے ہے جس میں ہمارا اورآپ کا… دونوں کا فائدہ ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: وہ کیا ہے؟ کہنے لگے: ایک سال آپ ہمارے معبودوں …لات و عزیٰ… کی عبادت کیجیے، ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں گے۔ اس پر یہ سورت (یعنی الکافرون) نازل ہوئی۔1
ابو جہل کی سیکولر پیش کش
جبکہ امام ابو اللیث سمرقندی نے اپنی تفسیر میں امام مقاتل کی روایت میں ابو جہل کی جانب سے یہ عجیب پیش کش نقل کی ہے:
ندخل معك في بعض ما تعبد وتدخل معنا في بعض ديننا أو نتبرأ من آلهتنا وتتبرأ من إلهك۔2
’’ہم آپ کے ساتھ آپ کی بعض عبادات میں شریک ہوجاتے ہیں، اور آپ ہمارے کچھ دین میں داخل ہوجایئے، یا ہم اپنے معبودوں سے برأت کرتے ہیں اور آپ اپنے معبود سے برأت کیجیے‘‘۔
اس پیش کش کا پہلا حصہ ’ہم آپ کے ساتھ آپ کی بعض عبادات میں شریک ہوجاتے ہیں، اور آپ ہمارے کچھ دین میں داخل ہوجایئے‘…… اہلِ ایمان کو یہ پیش کش ایک بار پھر آج جمہوریت کے لبادے میں موجود سیکولرز م کر رہا ہے۔ سیکولر شخص (خواہ وہ کافرِ اصلی ہو یا مسلمانوں جیسے نام رکھے سیکولر) اسلام کی عبادات و رسومات میں شامل ہونے کو تیار ہے، اپنے اپنے ملکوں میں اس کی اجازت بلکہ اس کی حمایت کے لیے بھی تیار ہے، لیکن نظام ا ور طرزِ زندگی کے بارے میں وہ ذرہ برابر پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں…… بلکہ اس بارے میں اس کا مطالبہ یہ ہے کہ نظام اور طرزِ زندگی کے بارے میں آپ کو ہمارے دین پر آنا ہوگا،جمہوریت، عالمی سودی نظام، دوستی و دشمنی کا معیار قومی ریاستیں، عورت کی آزادی، دین کے اجتماعی امور سے دستبرداری اور خواہشات کو بھاتا،نفسانیت کو لبھاتا طرزِ زندگی، یہی ’الطریقۃ المثلیٰ‘ آئیڈیل اور قابلِ تقلید طرزِ زندگی ہے۔ سو اگر کسی نے اس پر کوئی با ت کرنے کی کوشش کی تو لازم ہے کہ اس کے خلاف ہر ریاست اعلانِ جنگ کرے، اور اس وقت تک ایسے لوگوں سے جنگ جاری رہے جب تک کہ وہ اس دین میں داخل نہیں ہوجاتے۔
یہ ابو جہل کی پیش کش کا پہلا حصہ تھا۔ابو جہل وحدتِ دین کی جو بات کر رہا تھا، وہ اس بارے میں ہرگز تیار نہیں تھا کہ نظام ِ حکومت ،قانون سازی، یعنی قانونی و غیر قانونی کے اختیارات سے وہ دستبردار ہوجائے۔
اس کی پیش کش کا دوسرا حصہ: ’ہم اپنے معبودوں سے برأت کرتے ہیں اور آپ اپنے معبود سے برأت کیجیے‘؛ یعنی کسی مذہب کو اختیار کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
اس کو پڑھ کر لگتاہے کہ ابو جہل خالص نظریاتی قسم کا سیکولر انسان تھا جو صرف اپنی خواہشات کا غلام تھا اس کے لیے مسئلہ اپنے بتوں کی عزت و وقار کا نہیں تھا صرف اپنی سرداری اور اپنی خواہشات سے پیار تھا کہ اسے بچانے کے لیے اپنے معبودوں سے بھی برأت کرنے کو تیارتھا۔
ان تمام پیش کشوں میں اگر غور کیا جائے تو سب کا خلاصہ ایک ہی ہے کہ ہم نے جو نظام بنایا ہے، اپنی پارلیمنٹ (دار الندوہ) میں منظور کرکے جو آئین بنایا ہے، اس کی برائی نہ کی جائے3۔ آپ اپنی انفرادی عبادت کرتے رہیے لیکن ہمارے دین و نظام کو کفر نہ کہیے۔ کیونکہ ہمارا دین ہی اللہ کا دین ہے۔4 یہ بات بھی نہ کیجیے کہ اللہ کے علاوہ قانون سازی کا حق کسی کو نہیں، اس حق کو ہمارے معبودوں کے لیے بھی تسلیم کیا جائے۔ خواہ کفری آئین کو اسلامی ثابت کرنے کی تاویل ہی کے ذریعہ کیوں نہ ہو۔
یہاں یہ بات قابل غورہے کہ کیا قریش کے سردار اس قدر بے وقوف تھے جو اللہ کے رسولﷺ سے ایسا مطالبہ کر رہے تھے؟ اور کیا اس میں ان کا کو ئی نقصان نہیں تھا کہ جب وہ ایک سال محمد ﷺ کے رب کی عبادت کریں گے تو سارے جزیرۃ العرب میں موجود ان کے پیرو کاروں پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے؟
اگر ہم قریش کے مقتدر طبقے کی اس پیش کش کو سطحی نظر سے دیکھیں تو ایسا ہی لگتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے وہ صرف نبی کریمﷺ کی دعوت سے تنگ آکر ایسا کہہ رہے تھے۔ لیکن جو کوئی بھی توحید اور کفر کے مزاج سے شناسائی رکھتا ہے، خصوصاً بت پرستی کے مذہب سے وہ اس پیش کش کی گہرائی کو سمجھ سکتا ہے۔5
قریش کے دانشور و جہاندیدہ جانتے تھے کہ ایک بار کوئی ان کے کسی بت کی حیثیت کو تسلیم کرلے تو پھر اس کے لیے اپنے عقیدے کا وجود باقی رکھنا ناممکن ہوجا ئے گا، بالآخر ایک دن وہ بھی بت پرستی ہی کو اختیار کربیٹھے گا۔
بت پرستی کیسا مذہب ہے، اس کا اندازہ آپ ہندوستان کے ہندو ازم کی تاریخ پڑھ کر لگاسکتے ہیں۔ ہندو مذہب کس طرح کتنی ہی تہذیبوں اورمذاہب و عقائد کو نگل گیا کہ آج ان کا وجود بھی باقی نہیں رہا۔ عیسائیت کو شرک کی دلدل میں پھنسانے والے اصل میں بت پرست ہی تھے۔
بت پرستی ایسا مذہب ہے جس کی کوئی اصل و بنیاد نہیں6، بلکہ یہ سو فیصد سیکولر یعنی خواہشات کی بنیاد پر قائم مذہب ہے۔ مقتدر طبقے (عرب میں کفارِ قریش تھے، ہند میں برہمن) کی جوخواہشات ہوئیں، اسی کو معبود کا درجہ دے دیا۔ چونکہ روکنے والی کوئی بنیاد تو ہے نہیں… بر خلاف کسی بھی آسمانی مذہب کے… اس میں جو کوئی بھی طاقتور، نفع بخش یا نقصان دہ یا عقیدت و محبت والا آجائے، یہ اسے اپنا قرار دے کر اسے اپنا حصہ بنالیتا ہے اور اسی کی پوجا شروع کردیتا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ہندو ازم کے ملأ القوم (یعنی برہمن) کااسلام قبول کرنے کا تناسب دیگر قوموں کے مقابلے بہت کم ہے، کیونکہ آپ ان کو جتنی بھی دلیلیں دیتے ہیں وہ اسے مان بھی لیں تو حق میں داخل ہونے کے بجائے اس حق کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ خود اس مذہب کابننے کے بجائے اسے اپنا بناکر اسے ہندو از م میں اس طرح ضم کرلیتے ہیں کہ اس کے وجود کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ مثلاً اگر آپ انھیں اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں دلائل سے سمجھائیں گے تو وہ اسے سمجھ تو جائیں گے لیکن اسے اس انداز میں تسلیم کریں گےکہ ایک بت آپ کے اللہ کا بھی بناکر اپنے مندر میں رکھ دیں گے…… چنانچہ یہ مشاہدہ ہے کہ اکثر برہمن حق کو قبول کرنے کے بعد بھی مسلمان نہیں ہوپاتے،الا ماشاء اللہ۔
چنانچہ قریش کے بت پرستوں کی یہ پیش کش نتائج کے اعتبار سے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی تھی۔ اس پیش کش میں کفارِ مکہ کا فائدہ ہی فائدہ تھا۔ بھلا اس کے بعد اللہ کو ایک ماننے کی دعوت کس طرح دی جاسکتی تھی۔
اس میں آج ان لوگوں کے لیے بڑی عبرت ہے جو اسلام اور ہندو ازم یا جمہوری نظام ودیگر مذاہب کے مابین اتحاد، باہمی افہام و تفہیم اور بقائے باہمی کے نام پر اسلام اور کفر کو جمع کرکے مسلمانوں کو کھلے کفر کی دعوت دے رہے ہیں۔
بر صغیر کے علمائے حق ہر دور میں مسلمانوں کو اس طرح کی کفریہ پیش کشوں سے باخبر کرتےرہے ہیں۔
علامہ ابو الحسن علی ندوی ’دینِ حق اور علمائے ربانی ‘ میں فرماتے ہیں:
’’انبیائے کرام کفر کی پوری بیخ کنی کرتے ہیں، وہ کفر کے ساتھ رواداری اور مصلحت کے روادار نہیں ہوتے، کفر کے پہچان لینے کا بھی ان کو بڑا ملکہ ہوتا ہے، اور اس بارے میں ان کی نگاہ بڑی دور رس اور باریک بیں ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ ان کو اس بارے میں پوری حکمت اور عزیمت عطافرماتا ہے، ان کی خدادادفراست اور بصیرت پر اعتماد کیے بغیر چارہ نہیں، دین کی حفاظت اس کے بغیر ممکن نہیں کہ کفر و اسلام کی جو سرحدیں انھوں نے قائم کردی ہیں، اور ان کے جو نشانات انھوں نے مقرر کردیے ہیں ان کی حفاظت کی جائے، اس میں ادنیٰ تساہل اوررواداری دین کو اتنا مسخ کرکے رکھ دیتی ہے جتنا یہودیت، عیسائیت اور ہندوستان کے مذاہب مسخ ہوگئے۔7
علمائے حق کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’انبیاء کے صحیح جانشین بھی اس بارے میں انہی کی فراست و عزیمت رکھتے ہیں، وہ کفر کا ایک ایک نشان مٹاتے ہیں، اور جاہلیت کا ایک ایک داغ دھوتے ہیں، کفر کا ادراک کرنے میں ان کی حس عوام سے بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے، کفر جس لباس میں اور جس صورت میں ظاہر ہو و ہ اس کو پہچان لیتے ہیں اوراس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں، کہیں ہندوستان جیسے ملک میں بیواؤں کے نکاحِ ثانی کو حرام سمجھنے اور اس سے شدید نفرت رکھنے میں انھیں کفر کی بو محسوس ہوتی ہے، اور وہ اس کو رواج دینے اور اس سنت کو زندہ کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں، اور بعض اوقات اسی پر جان کی بازی لگادیتے ہیں، کہیں قانونِ شریعت پر رواج کو ترجیح دینا اوربہنوں کو میراث نہ دینے پر اصرار کرنا انھیں کفر معلوم ہوتاہے اور وہ ایسے لوگوں کی مخالفت اور مقاطعہ فرض سمجھتے ہیں، کبھی اللہ اور رسول کا صاف و صریح حکم سن لینے کے بعداس کو نہ ماننا اورغیر الٰہی عدالت اور غیر الٰہی قانون کے دامن میں پناہ لینا اور غیر اسلامی قوانین و احکام نافذ کرنا، انھیں اسلام سے خروج کے مترادف معلوم ہوتاہے،اوروہ مجبوری کے عالم میں وہاں سے ہجرت کرجاتے ہیں، کبھی کسی نو مسلم کے یا کسی ایسے مسلمانوں کے جو غیر مسلموں کی صحبت میں رہتے ہوں، اور ان سے متاثر ہوں ایسا ذبیحہ استعمال کرنے سے احتراز کرنے میں اور اس سے نفرت کرنے میں جس سے ان کی ہمسایہ قوم اور ابنائے وطن سختی سے مجتنب رہتے ہیں، اوران میں اس کی نفرت اور اس سے وحشت عام ہے،انھیں ایمان کی کمزوری اور ان کے قدیم مذہب یا غیر مسلموں کی صحبت کا اثر نظر آتا ہے‘‘۔8
ہر دور میں ایسے اللہ والوں اور عزیمت کا راستہ اختیار کرنے والوں کے خلاف زبانیں چلتی رہی ہیں…… زہر آلود تیر و نشتروں سے انہی کے دل چھلنی کیے جاتے رہے ہیں، ان پر نقد و تنقید اور رد وکد کرنے کے عوض ہوس پرستوں کو اعلیٰ حکومتی مناصب یا گھٹیا دنیا کا گھٹیا مال و متاع دیاجاتارہاہے جسے حاصل کرکے وہ اپنے پیٹو ں کو جہنم کی آگ سے بھرتے رہے ہیں۔
اس بارے میں فرماتے ہیں:
’’ان کے زمانہ کے کوتاہ نظر یا رند مشرب و صلح کل جو دیر و حرم ،کعبہ و بت میں فرق کرنا ہی کفر سمجھتے ہیں، ان کی تضحیک کرتے ہیں اور تحقیر کے ساتھ انھیں فقیہِ شہر،محتسب،واعظِ تنگ نظر اور خدائی فوجدار کا لقب دیتے ہیں، لیکن وہ اپنا کام پورے اطمینان و استقلال کے ساتھ کرتے رہتے ہیں اور کوئی شبہ نہیں کہ پیغمبروں کے دین کی حفاظت، زمانے میں انھیں لوگوں نے کی ہے اور آج اسلام یہودیت و عیسائیت اور برہمنیت سے ممتاز شکل میں جو نظر آتا ہے، وہ انھیں کی ہمت و استقامت اور تفقہ کا نتیجہ ہے‘‘۔
یہاں کفر اور ہندو ازم کی طبیعت و تاثیر بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اسے سمجھ لینے کے بعدیہ سمجھنا آسان ہے کہ سیکولر نظامِ حکومت جس کا اصل چہرہ مشرقی و مغربی جمہوریت میں نظر آتا ہے، یہ بھی طبیعت و تاثیر کے اعتبار سے ہندو ازم ہی کی طرح ہے۔
جیسا کہ ہر سمجھدار انسان جانتاہے کہ سیکولر زم یا جمہوریت در اصل خواہشات پر قائم ایک دین (نظام) ہے، جس میں مقتدر طبقے کی خواہشات ہی کو اس کا دین، اس کا معبود اور اس کی شریعت (آئین) بنادیا جاتا ہے۔ حلال و حرام کا اختیار اسی طبقے کے ہاتھ میں ہوتا ہے،جس کی اتباع کرنا ہر شہری کے لیے فرض قرار دیاجاتاہے۔
البتہ مقتدر طبقے کی خواہشات کو پروان چڑھانے کے لیے اسے عوامی رائے اور عوامی خواہش کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ہندو ازم کی طرح جمہوریت کی دیوی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کو ماننے والے یہودی ہیں یا عیسائی، بودھ ہیں یا مسلمان۔یہ اپنے مخاطب سے صرف ایک مطالبہ کرتی ہے کہ آپ اپنے اپنے دین پر قائم رہیے، مجھے صرف ایک اختیار چاہیے؛ وہ ہے ’امر‘ یعنی قانون سازی کا اختیار۔ آئین سازی ( عوامی شریعت بنانے) کا اختیار، انسان کے لیے نظامِ زندگی اور طرزِ زندگی لازم کرنے کا اختیار جس کے ذریعہ میں جس چیز کو چاہوں انسانوں پر فرض کردوں اور جسے چاہوں حرام(غیر قانونی)قرار دے دوں۔
چنانچہ جس طرح مکہ کے بت پرست خاتم النبیینﷺ کو یہ پیش کش کر رہے تھے کہ آپ اپنے دین پر رہیے لیکن ہمارے بعض بتوں کے حق کو تسلیم کرلیجیے، یا کچھ ہم آپ کی مان لیتے ہیں کچھ آپ ہماری مان لیجیے، جمہوریت بھی اتنا ہی مطالبہ ہر شہری سے کر رہی ہے۔
جو مان لے اس کے ساتھ کوئی جنگ نہیں وہ معزز شہری ہے، خواہ وہ یہودی ہو یا عیسائی، ہندو ہو یا مرتد و بدترین زندیق… اس دیوی کی نظر میں سب کا دین برابر ہے۔ لیکن جو نہ مانے وہ ’دہشت گرد‘ اور ’ریاست کی دیوی‘ کا ’باغی‘ ہے۔
سو ریاستِ مکہ کے مقتدر طبقے نے بھی نبی کریمﷺ کو اس طرح کی پیش کش کی۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ شریعت ناپسند کرنے والوں کو اس جواب سے مایو س کردیا، کہ کچھ اسلام اور کچھ کفر کا ملغوبہ ہرگز اسلام نہیں ہوسکتا۔ یہ چوں چوں کا مربہ کفر ہی کہلائے گا۔
علامہ ظفر احمد عثمانی ’اعلاء السنن‘ میں فرماتے ہیں:
قلت: وأما محاربۃ الرعیۃ المسلمۃ ملکها الکافر بالمقاطعۃ الجوعیۃ أو المظاهرۃ العامۃ فلیس لھا أصل فی الشرع لم یستعملھا أسلافنا المقیمون بدار الحرب مع ملکها قط، وإنما أخذھا أبناء زماننا من أوربا ویجوز استعمال ما سوی الأول بعد النبذ إلیھم علی سواء إذا کنا نرجو الشوکۃ علیھم بذلك، وکان المقصود إعلاء کلمۃ اللہ والدعا إلی الدین، دون إحرار الوطن وإقامۃ السلطنۃ الجمهوریۃ المرکبۃ من أعضاء بعضهم مسلمون وبعضهم کفرۃ مشرکون، فإن بذل الجھد لذلك لیس من الجھاد في شيء لخلوہ عن غرضہ الأصلي وھو إعلاء کلمۃ اللہ والدعا إلی الدین القویم۔ والسلطنۃ المرکبۃ من الأعضاء المسلمین والکافرین لا یکون سلطنۃ إسلامیۃ قط، وإنما ھي سلطنۃ الکفر لا سیما إذا کانت الکثرۃ لھم لا لنا، فإن المرکب من الخسیس والشریف خسیس ومن الطیب والخبیث خبیث۔9
’’میں کہتا ہوں کہ ایسی مسلم عوام جن پر کافر حکمران ہوں… ان کا بھوک ہڑتال کرنا یا عوامی مظاہرے کرنا، شریعت میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ دار الحرب میں مقیم ہمارے اسلاف نے اپنے کافر حاکم کے سامنے ایسا کبھی نہیں کیا۔ ہمارے زمانے کے لوگوں نے اس کو یورپ سے لیا ہے اور …بھوک ہڑتال کے سوا… عوامی مظاہرے اس صورت میں جائز ہیں کہ کافروں سے کیا گیا معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کردیا جائے اوران مظاہروں کے ذریعہ ان کفار پر غلبے کی امید ہو، اور اس کا مقصد اللہ کے کلمے کی سربلندی اور ان کفار کو دین کی طرف دعوت ہو، نہ کہ محض وطن کی آزادی اور ایک ایسی جمہوری ریاست کا قیام ہو… جس میں بعض مسلمان اور بعض کفار اراکین شامل ہوں۔ کیونکہ اس کے لیے کوشش کرنا جہاد نہیں کہلائے گا، اس کے اصلی مقصد یعنی اعلاء کلمۃ اللہ اور دین مبین کی جانب دعوت سے خالی ہونے کی وجہ سے۔
اور ایسی حکومت جو مسلمان اراکین پارلیمان اور کافروں سے بنی ہو، کبھی بھی اسلامی حکومت نہیں ہوسکتی، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ یہ تو کفر ہی کی سلطنت ہوگی… خصوصاً جبکہ کثرت بھی کافروں کی ہی ہو، کیونکہ ذلیل و کمین اور شریف چیز کا مرکب تو کمین ہی کہلائے گا اور پاک و ناپاک کا مرکب تو ناپاک ہی ہوتا ہے‘‘۔
علامہ ابو الحسن علی ندوی ’دینِ حق اور علمائے ربانی‘ میں فرماتے ہیں:
’’شرک ایک مستقل دین اور ایک مکمل حکومت ہے، اس کا اور دین اللہ کا کسی ایک جسم یا دل و دماغ یا خطہ زمین پر ایک ساتھ قائم ہونا ناممکن ہے، یہ غیر الٰہی دین جسم و نفس،او ر جسم و نفس سے خارج اتنی ہی جگہ گھیرتا ہے جتنی دین اللہ کو کم سے کم درکار ہے‘‘۔10
اسی صفحہ پر چند سطور کے بعد فرماتے ہیں:
’’اس لیے جب تک زمین سے شرک کی تمام جڑیں اور اس کی باریک سے باریک رگیں بھی اکھاڑ نہ دی جائیں اس وقت تک دین اللہ کا پودا لگ نہیں سکتا۔اس لیے کہ یہ پودا کسی ایسی زمین میں جڑ نہیں پکڑتا جس کی مٹی میں کسی اور درخت کی کوئی جڑ ہو،یا کوئی اور تخم ہو۔ اس کی شاخیں اسی وقت آسمان سے باتیں کرتی ہیں اور یہ درخت اسی وقت پھلتا پھولتا ہے جب اس کی جڑ گہری اور مضبوط ہو‘‘۔11
اگلے صفحہ پر فرماتے ہیں:
’’پس جو لوگ دین اللہ کی فطرت اور اس کے مزاج سے واقف ہوتے ہیں وہ اس کو کسی جگہ پر قائم کرنے کے لیے زمین کو پورے طور پر صاف اورہموار کرتے ہیں، وہ شرک اور جاہلیت کی رگیں چن چن کر نکالتے ہیں اور ان کا ایک ایک بیچ بُن اکھاڑ کر پھینکتے ہیں اور مٹی کو بالکل الٹ پلٹ دیتے ہیں… چاہے انھیں اس کام میں کتنی ہی دیر لگے اور کیسی ہی زحمت اٹھانی پڑے‘‘۔12
آگے کفر کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’کفر: یعنی اللہ کے دین اور اس کی شریعت کا انکار، یہ انکار اس کی حکومت سے بغاوت،اور اس کے احکام سے سرتابی خواہ کسی طریقے اور علا مات سے ظاہر ہو۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے کسی حکم کو بھی …یہ جان لینے کے بعد کہ یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حکم ہے… نہیں مانتے، یا زبان سے انکار نہیں کرتے مگر جان بوجھ کر اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ایسے لوگ خواہ دوسرے احکام کی پابندی کرتے ہوں، اس دائرہ (کفر) سے خارج نہیں۔اللہ تعالیٰ یہودیوں کو مخاطب کرکے کہتا ہے:
﴿ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَآءُ مَنْ يَفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يُرَدُّونَ إِلٰى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ﴾ [البقرۃ:85]
’کتابِ الٰہی کے ایک حصہ کو مانتے ہو دوسرے حصے کو نہیں مانتے، تو اس کی کیا سزا ہے جو تم میں سے یہ کام کرتا ہے، سوائے دنیا کی زندگی میں رسوائی کے، اور قیامت کے دن وہ پہنچائے جائیں سخت سے سخت عذاب میں،اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں‘۔
صرف اللہ کی خداوندی اور حاکمیت کے اقرار سے طبعی طور پر خداوندی اور حاکمیت کے دعویداروں کی خداوندی اور حاکمیت کا انکار ہوجاتاہے۔لیکن جو اشخاص خداوندانِ باطل کی خداوندی اور حاکمیت کا صاف صاف انکار کرنے پر تیار نہیں ہوتے،یا دوسرے الفاظ میں انھوں نے اس قبلے کی طرف منہ تو کرلیا ہے لیکن دوسرے قبلوں کے طرف ان سے پیٹھ بھی نہیں کی جاتی،دینِ الٰہی کے مقابلے میں جو نظامِ حاکمیت قائم اور شریعت الٰہی کے مقابلے میں جو قوانین نافذ ہیں ،ان سے منحرف نہیں ہواجاتا، وہ کبھی کبھی ان پر بھی عمل کرلیتے ہیں اور بوقتِ ضرورت ان پر عمل کرلیتے ہیں، وہ درحقیقت اسلام میں داخل نہیں ہوئے،ایمان باللہ کے لیے کفر بالطاغوت ضروری ہے۔‘‘
آگے فرماتے ہیں:
’’اس لیے قرآن نے ایسے اشخاص کادعویٔ ایمان تسلیم نہیں کیا جو غیر الٰہی قوانین، ان کے نمائندوں اور ان کے مرکزوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اورانھیں اپنا حکم اور ثالث مانتے ہیں۔
﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ اٰمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطٰنُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا﴾ [النساء: 60]
’تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ،جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لائے جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتاراگیا، چاہتے ہیں کہ مقدمہ لے جائیں سرکش کی طرف حالانکہ انھیں حکم ہوچکا ہے کہ اس کا انکار کریں اور شیطان چاہتا ہے کہ انھیں بہکاکر دور لے جائے‘‘۔
مفتی مختار الدین شاہ صاحب اپنی کتاب ’اسلامی عقائد و نظریات‘ میں صفحہ۱۱ پر تحریر فرماتے ہیں:
’’مخالف قوانین اور غیر اللہ کی بندگی سے بیزاری:
اس عظیم کلمہ میں اس بات کا عہد و پیمان اور اقرار بھی موجود ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی بندگی نہیں کریں گے اور جو قانون اور جو حکم اور بات اللہ تعالیٰ کے قانون اور حکم کے خلاف ہو یا اس کے رسولﷺ کے ثابت شدہ طریقے سے متصادم ہو، اس کا انکارکریں گے‘‘۔
صفحہ ۱۲ پر سورۂ نساء کی آیت ۶۰ کے ترجمہ میں بین القوسین فرماتے ہیں:
’’کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانے کے لیے لازم ہے کہ طاغوت کا انکار کیاجائے اور بغیر اس کے انکار کے نہ ایمان معتبر ہے اور نہ خالص بندگی ممکن ہے لیکن یہ کمزور اورڈانواں ڈول لوگ ان دونوں کو جمع کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ یہ ایک شیطانی چال ہے۔‘‘
اس کے بعد اگلے صفحہ پر لکھتے ہیں:
’’ان آیتوں سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانے کے لیے لازمی ہے کہ طاغوت یعنی دینِ اسلام کے خلاف قوانین کا انکار کیا جائے‘‘۔
خلاصہ إلا الذین اٰمنوا
﴿إلا الذین اٰمنوا﴾ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ پر ایمان وہی معتبر ہوگا جس میں اللہ کے غیر سے برأت و انکار ہوگا، اس کے بغیر ایمان معتبر نہیں۔ چنانچہ اس خسارے سے وہ انسان بچ سکتا ہے جو اللہ کے علاوہ دورِ حاضرکے تمام معبودوں کا انکار کرے، اسلام کے علاوہ ہر دین ونظام کا انکار کرے، ان تمام قوتوں، طاقتوں اوراداروں سے برأت کرے جنھیں حرام و حلال اور تشریع (قانون سازی) کاحق دیا گیا ہےاور جو نظام محمدﷺ کو دے کر بھیجا گیا، صرف اسی پر ایمان رکھے۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 تفسیرِ طبری، سورۂ الکافرون
2 تفسیر بحر العلوم، سورۂ الکافرون
3 وكفّ عن شتم آلهتنا، فلا تذكرها بسوء یعنی ہمارے معبودوں کو برابھلا کہنے اوران کی برائی کرنے سے باز آجائیے۔ (تفسیرِ طبری)
4 افتخر المشركون بأديانهم فقال كلُّ فريقٍ: لا دين إلاَّ ديننا وهو دين الله۔ ’مشرکین اپنے ادیان پر فخر کیا کرتے تھے اور ہر فریق یہ کہتا کہ اصل دین تو ہمارادین ہے ،اور یہی اللہ کا دین ہے۔ فنزلت هذه الآية وكذَّبهم الله تعالى فقال: {إنَّ الدين عند الله الإِسلام} الذي جاء به محمد عليه السلام (تفسیر الوجيز للواحدي (ص: 202))
5 البتہ جیسا کہ مفسرین کرام نے فرمایا کہ کفارِ مکہ کو دینِ اسلام کے مزاج سے جہا لت ضرور تھی کہ وہ اسلام کے بارے میں جہالت کا شکار تھے کہ اللہ کا دین ان کی اس وحدتِ ادیان کی پیش کش کو قبول کرلےگا۔ مفسرین نے اسی کو ان کی جہالت قرار دیا ہے۔ ہند کے برہمن بھی اسلام کے بارے میں اسی جہالت کا شکار ہوئے کہ جس طرح انھوں نے ہندوستان کے دیگر مذاہب کو اپنے اندر ضم کرکے ان کا وجود مٹادیا، اسلام کے ساتھ بھی وہ اسی طرح کرلیں گے۔ اس کے لیے انھوں نے مسلمانوں کے اندر مختلف دعوتی تحریکیں چلائیں۔
6 گاندھی نے اپنی کتاب ’ہندو دھرم‘ میں بڑے فخر سے اس بات کو لکھا ہے۔
7 دینِ حق اور علمائے ربانی؛ ص ۲۸
8 دینِ حق اور علمائے ربانی؛ ص ۲۸۔۲۹
9 إعلاء السنن مع تعلیق المفتي تقي العثماني؛ باب نصب المجانیق، ص: 3944 ،إدارۃ القرآن والعلوم الإسلامیۃ، کراتشي
10 دینِ حق اور علمائے ربانی، ص ۱۶
11 ایضاً، ص ۱۶
12 ایضاً، ص ۱۷