یہ جُہدِ دائم!

رمضان المبارک اور شوال کا ہلالِ عید حسبِ سابق تیزی سے گزر گیا۔ تاہم زاویۂ نگاہ غزہ کی جنگ نے ضرور بدل کر رکھ دیا۔ برصغیر کی اپنی مخصوص روایات ان مہینوں سے وابستہ ہیں۔ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اس مرتبہ دیکھا تو زیادہ گہری نسبت غزہ کے رمضان اور عید سے نظر آئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں 9 رمضان آئے۔ 2 ہجری کا رمضان غزوۂ بدر سے جگمگاتا دیکھا۔ یوم الفرقان، حق وباطل مابین فیصلہ کن معرکہ۔ شوال 2ہجری کی عید اس فتحِ مبین کے بعد آئی۔ مسجد اقصیٰ میں دو لاکھ نمازیوں کی تکبیرات ’عیدِ آزاداں شکوہِ ملک ودین‘ کا عکس تھیں۔مدینہ کی تکبیراتِ عید کا جمال وجلال تازہ ہوگیا۔فلسطینی گولیوں اور بموں کی زد میں سہی، مگر حقیقی آزاد روحوں کا خطہ یا غزہ، قدس کا گرد ونواح ہے، یا افغانستان۔ باقی دنیا کی عید ہجوم مومنین ہے! کفر کی محکومیت میں دبی پسی روحیں! (ہمارے ہاں کاروبارِ زندگی معطل کرکے ہفتہ بھر ’کھا لے پی لے جی لے‘ کی چھٹیاں ہی چھٹیاں!)

یہ ایک الگ موضوع ہے، کہ دورِ نبویؐ کے رمضان، شوال غزوات وسرایا ہی میں گزرے۔ احد کی تیاری 3ھ کے رمضان اور غزوہ 7شوال کو ہوا۔ غزوۂ احزاب کی خندق شعبان، رمضان میں کھو دی، تیار کی گئی، شوال میں 28دن کا محاصرہ ہوا۔ دیکھ لیجیے وہاں کتنی مناسبت اس سال کی عید سے ہے جو دنیا نے قدس کے گرد ونواح میں دیکھی!

اسماعیل ہنیہ ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کے لیے گئے ہوئے تھے تو بروزِ عید تین بیٹوں اور تین پوتوں کی شہادت کی خبر انہیں سنائی گئی! اللہ کی رضا پر (پوری سکینت لیے) راضی ہونے اور بیٹوں کی عزیمت وشرف والی شہادت کو عظیم سعادت کہہ کر آگے کام پر چل دیے۔ ’اسرائیل ہمارے حوصلے توڑ نہیں سکتا!‘ اعلان تھا، جگر گوشوں کی جدائی پر! اس میں ان کا حافظ بیٹا بھی شامل تھا جس کی امامت کراتے ہوئے وڈیو موجود ہے۔ حضرت خبیبؓ کو مشرکین نے جب درخت پر لٹکاکر شہید کیا، تو اس مقتل کی طرف جاتے ہوئے وہ یہ شعر پڑھ رہے تھے:

جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے کوئی غم نہیں کہ میں کس پہلو پر اللہ کے لیے پچھاڑا جاتا ہوں۔ یہ سب اللہ کی محبت میں ہے اور اگر وہ چاہے گا تو جسم کے کٹے ٹکڑوں پر برکت نازل کر دے گا۔‘

آج فلسطینی شہداء کے کٹے ٹکڑوں کی برکت پوری دنیا میں بڑھ پھیل رہی ہے۔ مردہ روحوں کو ان کے خون نے تازگی بخش دی باذن اللہ! غزہ بھر میں ملبوں پر عید نماز پڑھی گئی۔ رفح میں نماز کے دوران ڈرون سرسراتے رہے تاکہ عدم تحفظ کا احساس مسلط رہے!

ایک ڈاکٹر کا کہنا تھا: ہمارے محلے کی مسجد تباہ کر دی گئی تھی سجدہ گزاروں سمیت۔ ہم اپنے عقائد پر ڈٹے ہوئے ہیں گہرے رنج وغم کے باوجود۔ دنیا خاموشی سے تک رہی ہے! ہم زمین کے حقیقی مالک ہیں اسے چھوڑ نہیں سکتے۔ بچوں کو عید پر دف بجاکر خوشی کے گیت سناکر، کھیل کھلاکر محظوظ کر رہے ہیں۔ فلسطینی اپنے بچوں کو ہر حال راضی بہ رضا رہنے اور غموں میں بھی مسکرانے اور جینے کا عزم دینے کا خوب اہتمام کرتے ہیں! یہی تمام تر نقصانات سہہ کر بھی حماس اور فلسطینیوں کی پرعزیمت کامیابی کی دلیل ہے جس کی گواہی دینے پر اب اسرائیلی مجبور ہوچکے۔

11اپریل کو معروف اسرائیلی اخبار ’ہیرٹز‘ میں سیاسی نامہ نگار خائم لیونسن (Chaim Levinson) نے مضمون لکھا ہے بہ عنوان: ’وہ کہہ گزرنا جو ناگفتہ بہ ہے‘: اسرائیل کو شکست ہو چکی ہے، ایک مکمل شکست!‘ جلی حروف میں لکھا ہے:

جنگ کے مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ یرغمال فوجی دباؤ سے نہیں واپس آئیں گے۔ نہ ہی سکیورٹی (تحفظ) لوٹائی جا سکے گی۔ اسرائیل کی بین الاقوامی تنہائی ختم نہ ہوگی۔ہر اسرائیلی اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ ہم جنگ ہار چکے ہیں مگر یہ قبول کرنا بہت مشکل ہے… ہم خود سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ ہم اپنا عالمی مقام کھو چکے ہیں … ہم سالہا سال ایک مضبوط، قوی قوم کا تاثر دیتے رہے۔ مضبوط فوج اور ذہین وفطین افرادِ کار کا۔ مگر اب ہم صرف ایک چھوٹا سا یہودی گاؤں بن کر رہ گئے ہیں جس کی ایک ایئرفورس ہے۔ (پورا غزہ بمباریوں سے ان بزدلوں نے نہتے معصوم عورتوں بچوں کو نشانہ بناکر تباہ کیا۔) فوج پر تنقید شجرِ ممنوعہ ہے۔ (ہر ملک ہی میں یہ اصول لاگو ہے!) سو شکست کیونکر تسلیم کریں۔ رفح بھی (فتح کرنا) ایک بہت بڑا دھوکا، مغالطہ اور خوش فہمی ہے۔ حماس کا صفایا، خاتمہ ممکن نہیں۔ زندگی 7اکتوبر سے پہلے محفوظ تر تھی۔ اب آنے والے کئی سال تک ہمیں دھچکا محسوس ہوتا رہے گا!

نیتن یاہو خود شدید مخالفت، عوامی مظاہروں کی زد میں تھا۔ اسرائیل پوری دنیا میں عدم مقبولیت کی انتہا پر بلکہ نشانۂ نفرین، لعنت وملامت بنا واقعی مغضوب ہو چکا تھا۔ ایسے میں نیتن یاہو نے ایران کو چھیڑا اور ایک تیر سے کئی شکار کر ڈالے۔ یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر حملہ کیا توجہ ہٹانے، ایران کو اکسانے کو! اسی دوران 3اپریل کو ورلڈ کچن (این جی او) قافلے پر حملہ کرکے 7امدادی کارکن مار ڈالنے پر اسرائیل اور نیتن یاہو شدید ترین تنقید کا نشانہ بنے۔ ’ورلڈ کچن‘ واقعے پر بائیڈن کا غصہ اتنا بڑھا کہ اس نے جنگ بندی کا ’ممنوعہ‘ مطالبہ دے مارا اور اس حملے کو لغو قرار دیا۔ ایسے میں نیتن یاہو ہر طرف سے گھر چکا تھا، ایران مدد کو آیا! اسرائیل پر حملے سے 72گھنٹے پہلے اس نے امریکا کو اپنے ارادے سے آگاہ کردیا۔ چنانچہ یہ مکمل باہم مربوط ومنظم طے شدہ حملہ یوں ہوا کہ 300ڈرون اور میزائل مارے گئے مگر 99فیصد راستے میں ناکارہ بنا دیے گئے مل جل کر! امریکہ، جرمنی، اردن اور باقی خود اسرائیل نے، سو دنیا تو ہل گئی!

امریکی صدر جو کل تک نیتن یاہو پر گرج برس رہے تھے اب نہ صرف میزائل ناکارہ بنائے گئے، 25منٹ طویل فون پر زبردست پشت پناہی اور امداد کے وعدے کیے۔ موقع ملتے ہی پورا یورپ بلکہ پیراگوئے، کولمبو، چلی، میکسیکو، روس، چین سبھی نے اسرائیل مظلوم ٹھہراکر پیٹھ ٹھونکنا شروع کر دی۔ موسم بدل گیا یک لخت۔ غزہ پر 6ماہ میں جو تباہی مسلط ہوئی چہار جانب نگاہ ڈھونڈتی رہی کہ کوئی سردھرا، سرپھرا تو ہو جو اٹھ کر غزہ کا بدلہ چکائے۔ نیتن یاہو کو لگام دے۔ مگر نامراد پلٹ آتی! اب نیتن یاہو پھنس گیا تو یہ فکسڈ میچ کا سا محتاط طے شدہ حملہ تھا، آج کی دنیا میں سبھی کچھ!ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔ اسرائیل کا حقیقی نقصان ہوتا تو ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا۔ الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق اسرائیلی سفارت کار/ ڈائریکٹر وزارتِ خارجہ ایلون لائیل نے کہا: ’کابینہ نے ردعمل دینے کا فیصلہ نہیں دیا۔ اب ہمیں غزہ میں اپنا کام پورا کرنا ہے۔ ہم 24گھنٹے میں اصل کام پر لوٹ جائیں گے۔ اسرائیل اس حمایت کو استعمال کرکے رفح واپس جائے گا۔ رفح کے بغیر فتح مکمل نہ ہوگی۔ یرغمالیوں کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ ہمیں حماس سے نمٹنا ہے۔‘ سو یہ دیکھنا کافی ہے کہ اس حملے کا فائدہ کس کو ہوا؟ پوری دنیا یکایک غزہ کا قتل عام بھول گئی۔ خوراک، امداد کی فراہمی پسِ پشت ڈال دی گئی۔ سکیورٹی کونسل بھی ہنگامی اجلاس کے لیے چل دی۔ دنیا بھر کا میڈیا اسرائیل پر یک زبان ہوکر اظہارِ ہمدردی کی بولیاں بولنے لگا۔ دنیا بھر میں اسرائیل کی تنہائی ختم ہوگئی!

میزائلوں کی بوچھاڑ میں سے صرف 9میزائل یوں بچ بچاکر گرے کہ مکھی بھی نہ مرے۔ ایک خالی سٹور کو چھوکر گزر گئے۔ ایک C-130طیارے کو معمولی زخم آیا۔ اسرائیل (اس نوراکشتی میں) ایران کو حماس کا مددگار/ قائم مقام قرار دے کر دنیا کو چکر دینے، عالمی ہمدردی سمیٹنے اور فائدہ اٹھانے کی فکر میں ہے۔ اس حملے کے باوجود غزہ پر حملوں کا تواتر جاری ہے۔ اس دوران سیکڑوں فلسطینی شہید کر دیئے! یہ ہے غزہ کو پہنچنے والا فیض!اب اسرائیل نے اپنی ساکھ بچانے کوایران پر نہایت محدوداوربے ضررڈرون حملہ کر کے کہانی ختم کر دی!

ضعیف فلسطینی 6ماہ سے دربدر ہوتا اپنی نسلوں کو صرف اللہ کا دامن مضبوط تھامنے کی تاکید کرتا ہے۔ ہر مقام پر بم اور میزائل ہمارے منتظر ہیں مگر ہم اپنی سرزمین کبھی نہ چھوڑیں گے۔

اللہ اعلیٰ واکبر! اللہ اقویٰ واقدر! حسبنا اللہ ونعم الوکیل!

یہ جُہدِ دائم، جہادِ پیہم
یہ کیشِ محکم ہے دیں ہمار

[یہ مضمون ایک معاصر روزنامے میں شائع ہو چکا ہے۔ مستعار مضامین، مجلے کی ادارتی پالیسی کے مطابق شائع کیے جاتے ہیں۔ (ادارہ)]

٭٭٭٭٭

Exit mobile version