وہ بھی پھولوں اور پھلوں سے لدی اک وادی تھی، اس وادی میں انسان بستے تھے…… وہ انسان جو اللہ ہی کو اپنا الہ و معبود جانتے و مانتے تھے …… وہ انبیاء کی سرزمین تھی اور اس پر بسنے والے انبیاء کے وارثین تھے …… وہ وارث کہ جنہوں نے ان عظیم نبیوں کی تعلیمات کے اس پورے سلسلے کو، کہ جس کی انتہا خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی، دل و جان سے قبول کیا اور اپنایا…… پھر وہی ہوا جو ایسے فرزانوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ وقت کے فرعون کو ان کی للہیت ایک آنکھ نہ بھائی اور وہ سب کے سب مجتمع ہو کر انہیں تہس نہس کرنے کے درپے ہوگئے۔ اہل غزہ پر متواتر چھ ماہ سےآزمائشوں کی تاریک رات چھائی ہوئی ہے، جو ساتواں ماہ شروع ہونے پر بھی چھٹتی دکھائی نہیں دیتی۔ انہیں اللہ رب العزت کی ذکرکردہ ہر نوع کی آزمائش سے آزمایا گیا، خوف، بھوک، جان و مال کے نقصانات، املاک اور کھیتیوں کی تباہی حتیٰ کہ وہ زبان حال سے کہہ اٹھے:
پھولوں کی جہاں پہ بستیاں تھیں
کوندا سا ادھر لپک رہا ہے
جس شاخ پہ اپنا آشیاں تھا
اب شعلہ وہاں بھڑک رہا ہے
ٹھوکر سے جو سر کے بل گرا میں
خوش ہو کے عدو تھرک رہا ہے
انبوہ وہ امن دشمنوں کا
مستی میں بہک بہک رہا ہے
ہمہ نوع و ہمہ پہلو آزمائشوں کے بوجھ تلے ان کی حالت ایسی ہوگئی کہ انسان کی زبان اس کے بیان سے قاصر ہوجائے اور اللہ رب العزت کا کلام ہی ان حالات کی درست ترجمانی کرے:
﴿ اِذْ جَاءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا ﴾ (سورۃ الاحزاب: ۱۰)
’’ یاد کرو جب وہ تم پر تمہارے اوپر سے بھی چڑھ آئے تھے اور تمہارے نیچے سے بھی اور جب آنکھیں پتھرا گئی تھیں، اور کلیجے منہ کو آگئے تھے، اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کی باتیں سوچنے لگے تھے ۔‘‘
ایسی حالت ہوگئی کہ جس میں اہل ایمان یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ شاید اللہ رب العزت نے بھی انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے اور اب کہیں سے ان کے لیے نصرت نہ آئے گی اور مصائب کا یہ طوفان ان کی کمر توڑ ڈالے گا اور انہیں اس کے سامنے ہتھیار ڈالنے ہی پڑیں گے، مگر اللہ ان کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم تنہا نہیں آزمائے جارہے، تمہارے لیے اسوہ موجود ہے، آزمائشوں کے یہ سیلاب تم سے پہلے اہل ایمان پر بھی آئے اور ایسے وقت میں آئے جب کہ ان کے درمیان اس وقت کے اللہ کے نبی موجود تھے اور انہیں بھی یہ محسوس ہوا کہ ان کے لیے یہ بوجھ ناقابل برداشت ہوا چاہتا ہے:
﴿ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ …﴾ (سورۃ البقرۃ: ۲۱۴)
’’ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہوجاؤگے حالانکہ ابھی تک تمہارے اوپر وہ حالات و واقعات وارد نہیں ہوئے جو تم سے پہلوں پر ہوئے تھے پہنچی ان کو سختی بھوک کی اور تکلیف اور وہ ہلا مارے گئے یہاں تک کہ (وقت کا) رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان پکار اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد ؟ ‘‘
اس وقت اللہ نے انہیں اپنی مدد و نصرت کی خوش خبری دی اور فرمایا:
﴿ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ ﴾
’’ آگاہ ہوجاؤ ! یقیناً اللہ کی مدد قریب ہے ۔ ‘‘
اللہ رب العزت کی رحمت و کرم سے اہل غزہ سے بھوک اور قحط کی آزمائش کسی قدر دور ہوگئی ہے مگر ظالموں کا ظلم تاحال جاری ہے۔ یہ ظلم تھمے گا اور ضرور تھمے گا، یہ نہ سمجھو کہ ان ظالموں کی دراز رسی کبھی نہیں کھینچی جائے گی…… اللہ تو انہیں اس لیے چھوٹ دے رہے ہیں تاکہ یہ اپنے ظلم و سرکشی میں مزید آگے بڑھیں اور پھر اللہ کے یہاں یہ اپنے بچاؤ کے لیے کوئی حجت نہ پائیں۔
﴿ وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ڛ اِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيْهِ الْاَبْصَارُ ﴾ (سورۃ ابراہیم: ۴۲)
’’ اور یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو کچھ یہ ظالم کر رہے ہیں، اللہ اس سے غافل ہے۔ وہ تو ان لوگوں کو اس دن تک کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی‘‘۔
یہ جو تم پر بیت رہا ہے یہ تو محض وقتی امتحان ہے، آزمائش ہے جس میں ثبات کا صلہ ایسا حسین و بہترین ہے کہ جو کسی انسان کے سان گمان میں بھی کبھی نہ آیا ہوگا۔ اللہ رب العزت کی سنت ہے کہ اہل ایمان پر گزرنے والی آزمائشوں پر جامع اور بلیغ تبصرہ فرماتے ہیں مگر ان کی تفصیل میں نہیں جاتے…… مگر ان آزمائشوں کے اختتام پر جو انعام ان کے لیے اللہ رب العزت نے تیار کررکھا ہے، جو مقام ان کے لیے مقرر فرمایا ہے، جو درجات ان کے لیے پسند فرمائے ہیں…… ان کی وضاحت خوب کھول کھول کر فرماتے ہیں تاکہ مومن کی نگاہ راستے کی کٹھنائیوں سے ہٹ کر منزل کی راحت پر مرکوز رہے اور اس کی راہ میں آنے والے پتھر روڑے اس کی راہ کھوٹی نہ کرسکیں۔ ایک طرف تو مومنین کے دل مضبوط کرنے لیے فوز عظیم، فوز کبیر، خوف و حزن سے دائمی نجات کے پروانے، اللہ رب العزت کی ناراضگی کا خوف زائل ہونے اس رب ذوالجلال کی دائمی رضا کے پروانے، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی معیت اور جنتوں کی بے بہا لا منتہا نعمتوں اور راحتوں کے تذکرے ہیں اور دوسری طرف مومنین کے دلوں کی ٹھنڈک، ان کے دلوں کی جلن و کڑھن دور کرنے کے لیے فراعین وقت اور ان کے متبعین کا بدترین انجام، ان کے چہروں کا آگ میں الٹ پلٹ کیے جانا، جہنم کا ایندھن بنائے جانا، منہ کے بل گھسیٹے جانا، زقوم و پیپ پر مشتمل ان کے طعام و شراب اور اللہ کی شدید پکڑ اور دائمی عذاب کا ذکر بھی فرماتے ہیں تاکہ مومن کا دل قرار پکڑ سکے کہ ان ظالموں میں سے ایک بھی اللہ کی پکڑ سے محفوظ ومامون نہ رہ سکے گا۔ پھر ظالموں پر اللہ کے عذاب کا وعدہ محض آخرت کے لیے نہیں ہے بلکہ دنیا میں بھی اللہ رب العزت ان پر پے در پے عذاب بھیج کر انہیں نشان عبرت بناتے رہتے ہیں۔
عدوِ دیں کا خیال تھا کہ قتل و خونریزی، قحط، جان و مال کے نقصان، خوف، دربدری، بے سکونی، غم و ھم کے ہجوم تلے یہ اہل ایمان اپنا ایمان چھوڑ بیٹھیں گے اور محض روٹی کے چند لقموں اور سر پر تنی خیمے کی چادر پر قناعت کرلیں گے…… مگر وہ جانتا نہ تھا کہ اس وادی کے ایک ایک معصوم سے لے کر ہر ہر پیر و جواں کے دل میں ایمانی غیرت کا جوالا مکھی ہے جو ذرا سی چوٹ لگنے پر ابل پڑتا ہے۔ وہ ان کے جسموں پر ظلم کرسکتے ہیں مگر ان کے دلوں میں موجود ایمانی چنگاری کو بجھا نہیں سکتے وہ ان کی نگاہیں ان کے مقصد سے ہٹا نہیں سکتے۔
اس راکھ میں اب بھی میرا ایماں
اخگر کی طرح دہک رہا ہے
اس خاکِ خراب میں بھی مقصد
موتی کی طرح دمک رہا ہے
اہل غزہ پر سلام ہو کہ اس قدر سختیوں کے بیچ بھی انہوں نے امید کا دامن نہیں چھوڑا، اللہ پر ایمان، اسی پر بھروسے اور اسی پر توکل کے سہارے انہوں نے یہ جارحیت سہی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ خواہ اہل دنیا کو محض جلی لاشیں، بھڑکتے شعلے، ملبے کے ڈھیر، خون کی ندیاں دکھائی دیتی ہوں اور وہ اہل غزہ کو مظلوم مگر نادان گردانتے ہوں مگر عند اللہ ان کے لیے اجر عظیم ہے ان شاءاللہ اور اس دنیا میں بھی ان کی یہ قربانی رائیگاں نہیں جائے گی، ان کا یہ خون، ان کے یہ زخم سوئی ہوئی امت کے لیے صبح نو کا پیغام لائیں گے ان شاء اللہ۔
اس پردۂ شب کے پیچھے دیکھو
پھر روئے سحر جھلک رہا ہے
٭٭٭٭٭