اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | چوتھی قسط

سورۃالعصر کی روشنی میں

کلمہ توحید کا تقاضا؛ تمام نظاموں (ادیان) سے برأت

معبود و عبادت کی تعریف جان لینے کے بعد جاننا چاہیے کہ کلمہ توحید کا اپنے ماننے والوں سے پہلا مطالبہ تمام معبودانِ باطلہ اور تمام نظاموں کا انکار اور ان سے برأت ہے، اس کے بعد ایمان باللہ ہے، جیسا کہ کلمہ کی ترتیب خود بتارہی ہے۔

لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ

’’کوئی معبود نہیں، کسی کی عبادت نہیں، اللہ کے سوا، محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔

اور اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں فرمایا:

﴿لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيم﴾ [البقرة:256]

’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے ، ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہوکر واضح ہوچکا، اس کے بعد جو شخص طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے گا، اس نے ایک مضبوط کڑی کو تھام لیا جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں، اور اللہ خوب سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے ‘‘۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلے غیر اللہ کے انکار کو بیان کیا، اس کے بعد اللہ پر ایمان کا ذکر کیا۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ، عَلَى أَنْ يُعْبَدَ اللَّهُ ، وَيُكْفَرَ بِمَا دُونَهُ ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ، وَحَجِّ الْبَيْتِ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ۔1

’’حضرت عبد اللہ بن عمر﷜ نے نبی کریمﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپﷺنے فرمایا: اسلام کی بنیا د پانچ چیزوں پر ہے۔

۱۔ یہ کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے علاوہ کا انکار کیا جائے،

۲۔ اور نماز قائم کرنا،

۳۔ اور زکات ادا کرنا،

۴۔ اور حج کرنا،

۵۔ اور رمضان کے روزے رکھنا‘‘۔

إلا الذین آمنوا: صرف وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لائے کہ معبود صرف وہی ہے، نماز میں بھی صرف اسی کی عبادت کی جائے گی اور تجارت و معاملات اور حکومت و عدالت میں بھی اس کے علاوہ کسی کو معبود نہیں بنایاجائے گا۔

وہی حاکم ہے اور وہی خالق ہے…

﴿أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ﴾ [الأعراف:54]

نہ اس کی صفتِ خلق میں کوئی شریک، نہ اس کی صفت ِامر و حاکمیت میں کوئی شریک…… تشریع یعنی قانون سازی صرف اسی کا حق ہے۔ اس میں کسی کی شرکت اس کے علاوہ کو معبود بنانا ہے جو کہ صریح کفر ہے……کیا آئینی (شرعی) ہے اور کیا غیر آئینی (غیر شرعی)…… کیا قانونی (حلال) ہے اور کیا غیر قانونی (حرام)…… یہ اس کی صفت ہے…… اس کا اختیار کسی اور کو نہیں…… اسی کا حکم و قانون بغیر پارلیمنٹ میں پیش کیے نافذ ہوکر عمل کیے جانے کے قابل ہے۔ اس کے علاوہ ہر آئین و نظام باطل ہے۔ سو اس کا نازل کیا قانون اس بات سے پاک ہے کہ پہلے جمہوریت کادارالندوہ (کفارِ مکہ کی پارلیمنٹ جس میں بیٹھ کر وہ قانون سازی کیا کرتے اور پھر اسے مذہبی رنگ دینے کے لیے بتوں کی جانب منسوب کردیتے) ا س پر بحث کرے…… اس پر ووٹنگ کرے کہ قرآن کا قانون ریاست کےآئین کا حصہ بننے کے قابل ہے یا نہیں (معاذ اللہ)؟ اس کو منظور کیا جائے یا پارلیمنٹ اس کو رد کردے…… پھر چاہے تو ریاست کی دیوی کا دارالندوہ اسے رد کردے اور اللہ کا نازل کردہ قانون جسے محمد ﷺ کو دے کر بھیجا گیا، (العیاذ باللہ) پارلیمنٹ سے نکال باہر کیا جائے…… پھر بھی پارلیمنٹ مقدس ٹھہرے…… اس کے تقدس کے حلف اٹھائے جائیں…… اس کی عظمت و وقار کے واسطے دیے جائیں۔

گویا جمہوریت نام ہے اللہ کے اختیار کو پارلیمنٹ کے ظالموں، اوباشوں، شرابیوں اور زانیوں کے ہاتھ میں دے دینے کا…… کہ وہ جسے چاہیں حلال (قانونی) کہیں اور جسے چاہیں حرام (غیر قانونی) قرار دیں۔

اللہ کے قرآن کو پارلیمنٹ کی منظوری کا محتاج بنانا، یہ اس کی پاک ذات کے ساتھ کھلاکفر ہے…… اس کا مذاق و استہزاء ہے…… رحمۃ للعالمینﷺ کے لائے دین کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور اس سے بڑی توہین اور کیا ہوسکتی ہے…… اس سے بڑا خسارہ اور کیا ہوگا ۔

اللہ کے محکم قانون کو پارلیمنٹ کی منظوری کا محتاج بنانے کے نظریے کے ساتھ اللہ پر ایمان کس فقیہ کے ہاں قابلِ قبول ہوسکتا ہے، سوائے ان کے جن کا علم بکتا ہے تھوڑے سے مال و متاع کے بدلے، یا جو زندگی کی سانسیں باقی رکھنے کے لیے مقتدر طبقے کی ہر بات ماننے پر مجبور ہوگئے۔

تاریخ ِ انبیاء اس بات پر گواہ ہے کہ انبیاء اور ان کے مخالفین کے مابین اصل تنازع اسی بات پر رہا کہ انبیاء اس بات کی دعوت دیتے تھے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں عبادت کو صرف ایک اللہ کے لیے خاص کیا جائے، مذہبی رسومات کے ساتھ ساتھ معاملات میں بھی دیگر معبودو ں کے بجائے ایک اللہ ہی کے احکامات کی اطاعت کی جائے۔

حضرت شعیب﷤ نے جب دین کے اس شعبے کی دعوت دی تو ان کی قوم کے مقتدر طبقے کو بڑا اچنبھا ہوا اور کہنے لگے:

﴿قَالُوْا يٰشُعَيْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاؤُنَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِيْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِيْمُ الرَّشِيْدُ﴾ [ھود: 87]

’’وہ کہنے لگے : اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہمارے باپ دادا جن کی عبادت کرتے آئے تھے ، ہم انھیں بھی چھوڑ دیں اور اپنے مال و دولت کے بارے میں جو کچھ ہم چاہیں ، وہ بھی نہ کریں؟ واقعی تم تو بڑے عقل مند ، نیک چلن آدمی ہو‘‘۔

یعنی یہ قوم بھی اس بات پر حیران تھی کہ شعیب﷤ کا دین ہمارے مالی نظام اور دنیاوی معاملات میں مداخلت کیوں کررہاہے؟

آج بھی حق و باطل کے مابین یہی لڑائی ہے۔ دہشت گردی کی عالمی جنگ ایسے ہی دیوانوں کے خلاف ہے جو مذہبی رسومات کے ساتھ ساتھ معاملات میں بھی ایک اللہ کے نازل کردہ آئین کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

صرف دینِ اسلام… مشترکہ دین قبول نہیں

الذین آمنوا: جو ایمان لائے ایک اللہ پر اور ایمان لائے اس پوری شریعت پر جو محمد ﷺ کو دے کربھیجی گئی، جو اللہ کے ساتھ کسی دورِ جدید کے بت کو معبود نہیں بناتے…… جو مسجد میں بھی ایک اللہ ہی کو معبود مانتے ہیں اور معیشت و تجارت،حکومت و عدالت اور نفع و نقصان میں بھی اللہ کے علاوہ ہر معبود کا انکار کرتے ہیں ۔

و ہ صرف اللہ کے نازل کردہ دین پر ہی ایمان رکھتے ہیں…… اسلام کے ساتھ وہ کسی اور دین (نظام)کو نہیں مانتے اور نہ مشترکہ دین کو مانتے ہیں کہ کچھ اسلام سے لے لیا اور کچھ اس کے علاوہ سے لے کر ایک نیا دین بنالیا۔

حق و باطل کے مابین اس جھگڑے میں باطل کی طرف سے طاقت کے زور پر حق کی دعوت کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے لیے ہر قسم کا ظلم روا رکھا جاتاہے۔ ظلم و ستم اور دھونس و دھمکیوں میں ناکامی کے بعد باطل کی جانب سے مذاکرات، بقائے باہمی، مفاہمت و مصالحت اور اتحاد و ہم آہنگی کے خوشنما نعروں کے ذریعہ حق و باطل کو گڈ مڈ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

رحمۃ للعالمین ﷺ کے خلاف جزیرۃ العرب کی سب سے بڑی قوت قریش کے مقتدر طبقے نے جب یہ دیکھا کہ اسلام کو جبراً دبانے کی ہر کوشش ناکام ہوتی جارہی ہے،تو انھوں نے بھی اب صلح جوئی، مصالحت اور بقائے باہمی کے نام پر وحدتِ ادیان کے ڈول ڈالنے شروع کیے۔ ان کی جانب سے صلح کی مختلف تجاویز رحمۃ للعالمین ﷺ کے سامنے پیش کی جانے لگیں۔

صلح کی پہلی پیش کش

امام بغوی﷫ فرماتے ہیں:

ایک دن کفارِ مکہ میں سے پانچ لوگ… عبد اللہ بن امیہ مخزومی،ولید بن مغیرہ،مِكْرَز بن حَفْص، عَمْرو ابْن عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي قيس العامري اور عاص بن وائل… آپ ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ پر ایمان لائیں تو اس قرآن کے علاوہ کوئی اور قرآن لے کرآئیں۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی اس پیش کش کو یوں بیان فرمایا:

﴿وَإِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيَاتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَآءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ هٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ﴾ [یونس:15]

’’اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے، کہتے ہیں: اس قرآن کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آؤ،یا اس میں تبدیلی کر دو‘‘۔

لہٰذا ہمارے اور آپ کے درمیان صلح کی یہی ایک صورت ہے کہ نفرت آمیز اور امن و بھائی چارگی کو خراب کرنے والی باتیں بند کی جائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس قرآن کے علاوہ کوئی اور قرآن لے کرآئیے، جس میں لات و منات اور عزیٰ کی عبادت ترک کرنے کی بات نہ ہو2۔ یا اسی قرآن میں تبدیلی کیجیے…… اس سے ایسی باتیں نکال دیجیے جن میں ہمارے نظام اور معبودوں کی برائی کی گئی ہے، ہم سے ہماری پارلیمنٹ (دارالندوہ) کے منظور کیے گئے آئین و قانون اور نظام کو ترک کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، ہمارے نظام کی جن چیزوں کو اس نے حرام کہا انھیں حلال قرار دیاجائے، ہم نے جو معبود بنائے ہیں، جنھیں ہم نے بھاری اکثر یت کے ساتھ قانون سازی کا حق دیا ہے یہ قرآن انھیں حرام کہتا ہے،انھیں باطل و طاغوت کہتا ہے، چنانچہ اس میں ترمیم کی جائے اور جنھیں حلال کہا انھیں حرام کہا جائے3۔

لیکن معبودِ حقیقی نے اپنے حبیبﷺ سے فرمایا:

﴿قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَآءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحٰى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيم﴾ [يونس: 15]

’’اے نبیﷺ! انھیں بتادیجیے، میرے لیے ممکن نہیں کہ میں اس میں اپنی جانب سے تبدیلی کردوں، میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کی جاتی ہے۔ بلاشبہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں‘‘۔

آج چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی نہ کفر کا مزاج ہی بدلہ نہ کفر کے باغیوں کے انداز بدلے…… ساری دنیا کا کفر…… دیسی ہو یا ولایتی، ایک اللہ کو معبود ماننے والوں سے ایسا ہی مطالبہ کر رہا ہے کہ قرآن کی ایسی باتوں کو نہ بیان کیا جائے جو کافروں کو بری لگتی ہیں، جن میں کفر کے بنائے عالمی اور مقامی معبودو ں (نظام و طرزِ ندگی اور ریاست کے آئین ) کی برائی ہوتی ہے، جمہوری نظام کو باطل کہا جاتا ہے، اور اس کفری نظام کو ختم کرکے صرف ایک اللہ کا نازل کردہ نظام نافذ کرنے کی بات کی جاتی ہے۔

لمحۂ فکریہ

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کی زبانِ مبارک سے اعلان کرادیا کہ میں اس میں کچھ تبدیلی نہیں کرسکتا، یہی قرآن ہے جو مجھ پر وحی کیا گیا ہے، ماننا ہے تو اسی کو ماننا ہوگا، مصالحت کی کوئی اور صورت ناممکن ہے۔

لیکن آج کے مذہبی مصالحت کاروں کو دیکھیے…… آئے روز مختلف نعروں کے ساتھ کس طرح کفر و اسلام کو ایک کرنے کے نام پرمیلے ٹھیلے سجائے جاتے ہیں، ان کے مابین اتحاد و یگانگت اور مصالحت و ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی قومیت کے بت کے نام پر، کبھی جمہوریت کے نام پر، تو کبھی ریاست کی دیوی کے تقدس کی خاطر، تو من شدی من تو شدم کےراگ اَلاپے جاتے ہیں۔

واللہ المستعان! عقل اس وقت حیران رہ جاتی ہے جب ان میلوں اور بازاروں میں وہ لوگ بھی نظر آتے ہیں جنھیں علمِ دین کی جانب منسوب سمجھا جاتاہے…… کفر واسلام کے مابین اتحاد و ہم آہنگی…… اللہ اور بتوں میں اتحاد و اتفاق…… جس کے بارے میں امام الانبیاءﷺ کی زبانِ مبارک سے اعلان کرادیاگیا…… قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَآءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحٰى إِلَيَّ …… لیکن ان علم فروشوں کی اللہ پر جرأت دیکھیے…… کس ڈھٹائی کے ساتھ ایسی کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہیں اور پھر تصویریں بنواکر دنیا کو بھی اپنی اس جرأت پر گواہ بناتے ہیں…… یہ علم کابوجھ لادنے والے ان میلوں میں جاتے ہی اس لیے ہیں کہ اپنی لفاظی و قلم کو بیچ کر یہ بھی دنیا کا مال و متاع خرید سکیں…… اللہ کی آیات کی بولی لگاکر اپنے پیٹوں کو جہنم کی آگ سے بھر سکیں۔

﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولٓئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ [البقرة:174]

’’حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت وصول کرلیتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ کے سوا کچھ نہیں بھر رہے ، قیامت کے دن اللہ ان سے کلام بھی نہیں کرے گا، اور نہ ان کو پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے‘‘۔

﴿أُولٓئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدٰى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ ﴾ [البقرة: 175]

’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو خرید لیا ہے ہدایت کے بدلہ میں اور عذاب کو نجات کے بدلہ میں، اور یہ لوگ جہنم کی آگ کے لیے کس طرح تیار ہیں!‘‘۔

(جاری ہے،ان شاءاللہ)

٭٭٭٭٭


1 صحيح مسلم (1/ 34) دار الجيل

2 یعنی ایسا قرآن جس میں لات و عزیٰ اور منات کی عبادت کو ترک کرنے کا مطالبہ نہ ہو۔ لَيْسَ فِيهِ تَرْكُ عِبَادَةِ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ (تفسير البغوي طيبة (4/ 125)

3 دیکھیے تفسیرِ طبری اور تفسیر بحر العلوم ابو اللیث السمرقندیؒ في تفسیر ھذہ الآیۃ

Exit mobile version