معرکۂ خیر و شر اور آپ کا کردار

سفید ریش ایک بوڑھے یہودی حاخام1 کی ایک ویڈیو میں اس کی گفتگو سنی، اس نے اسلام اور اہل اسلام کے خلاف عسکری میدان میں جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ، روحانی میدان میں بھی جنگ تیز کرنے پر زور دیا ہے اور بڑے واضح الفاظ میں اپنی کمزوری جبکہ امت محمدﷺ کی قوت کے راز سے پردہ اٹھایاہے۔ اصل میں صورتِ حال یہ ہے کہ اہل ِغزہ کے جہاد و ثبات نے بندگانِ ابلیس کے ہوش اڑائے ہوئےہیں، وہ اپنی تمام تر طاقت وہتھیار استعمال کرکے اور ظلم ووحشت کی انتہاؤں کو چھونے کے باوجودبھی اہلِ غزہ کا عزم نہیں توڑ سکے، اس سے ان پر یہ خوف غالب ہے کہ دو ارب کی امت مسلمہ میں سے صرف چند لاکھ نے بھی اگر ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دی تو انہیں فرار ہونے کے لیے پورے کرۂ ارض میں کہیں کوئی ٹھکانہ نہیں ملے گا، ظلم وفساد کے ان کے سارے شیطانی خواب پھرچکناچور ہوجائیں گے اور جس عالمی دجالی حکومت کامنصوبہ وہ آنکھوں میں بسائے ہوئے ہیں وہ دھرا کا دھر ا رہ جائےگا۔ یوں واشنگٹن سے تل ابیب تک کے یہ شیاطین آج سر جوڑے غور کر رہے ہیں اور اپنے ’اچھے‘خوابوں کی انتہائی بری تعبیر سے بچنے کی کوئی راہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ کوئی قرآن وحدیث کی من مانی تفسیر و تشریح کی تجویز دے رہاہے، جو کوئی نئی بات نہیں اور بعض دوسرے ایسے حربے بتارہے ہیں کہ جن سے جہاد میں قدم رکھنے سے پہلے پہلے مسلمانوں کو روکا، بٹھایا، گرایا اورپھر غلام بنایا جاسکے،اسی ضمن میں مذکورہ حاخام نے بھی دانش مندی پر مبنی ایک تجویز دی ہے،یہ الگ بات ہے کہ اس نے جو کہا یہ بھی کوئی نئی بات نہیں، یہ بھی اہل باطل کابہت قدیم حربہ رہاہے،مگر اس لحاظ سے یہ بات اہم ضرور ہے کہ یہ سننے دیکھنے کے بعد ہم ذرا جائزہ لیں کہ خود ہمارے ہاں ہماری اپنی کیا دفاعی لائن ہے،اس جنگ کے خلاف ہمارا اپنا کیا منصوبہ ہے، ہم میں سے ہر ایک بطور فرد اس جنگ میں کہا ں کھڑاہے اور اجتماعی طورپر اس کے خلاف ہم کس نوعیت کا دفاع کررہے ہیں! ہم میں سے ہر فرد کیا اہل باطل کی پیش قدمی روک رہاہے، یا بے عمل و بے حرکت کھڑا محض کمزوری اور بے بسی کا رونا رو رہاہے؟ تحریر کے آغاز میں حاخام کی یہ بات، پھر اس جنگ کی حقیقت بتائی گئی ہے اور پھر اوپر جو سوالات اٹھائے گئے ہیں، ان کے جوابات دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ کیسےایک عام فرد اس جنگ میں اپنا حصہ ڈال سکتاہے۔بسم اللہ کرتے ہیں۔یہودی عمررسیدہ حاخام کی بات کو نقل کرتے ہوئے ایک اور یہودی کہتاہے:

’’ بنو اسماعیل (یعنی مسلمان) وہ واحد دشمن ہیں جو ہمارے خلاف روحانی طاقت سے لڑرہے ہیں،یہ محض اپنی مادی وجنگی قوت لےکر مقابلے کے میدان میں نہیں اترتے،بلکہ ان میں روحانی خوبیاں بہت ہیں اور ان روحانی خوبیوں سے ہی یہ اپنی اصل طاقت اخذ کرتے ہیں۔یہ ابراہیم (علیہ السلام ) کی اولاد ہیں، ان کے پاس نماز کی طاقت ہے، یہ ختنہ کرتے ہیں اور (ختنہ کرنے کی )یہ صفت بھی ظاہر ہے کہ پیچھے ابراہیم علیہ السلام ہی کی طرف لوٹتی ہے۔ ان میں عفت و پاک بازی ہے،اور یہ وہ خوبیاں ہیں کہ جن کے باعث ان کا راستہ روکنا ممکن نہیں، ان کا مقابلہ تب ہی ہوگاجب آپ کے پاس ان کے مقابل انہی جیسی روحانی طاقت ہو اور ایسی طاقت فراہم کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں۔پھر ایسے لوگوں کو شکست دینا کبھی آسان نہیں ہوتا جو ایک مقصد کی خاطر اپنی جان تک دے دینا بھی باعث سعادت سمجھتے ہوں (جوموت سے محبت کرتے ہوں )……تم موت سے انہیں ڈراؤتو وہ بازو پھیلاکر کہتے ہیں کہ ’یہی توہم چاہتےہیں! آؤ!مارو ہمیں! مارکر دکھاؤ!‘……اب جنہیں مرنے تک کی بھی پروا نہ ہو انہیں آپ کیسے دبا سکتے ہیں؟ لہٰذا حاخام فیتام کی بات بالکل صحیح ہے کہ بنو اسماعیل (مسلمانوں) کو روایتی فوجی حربوں سے شکست نہیں دی جاسکتی بلکہ میں تو کہتاہوں کہ عام سیاسی ذرائع سے بھی انہیں شکست دینا نا ممکن ہے۔ آپ سب کچھ آزما کر دیکھ لیں مگر فائدہ کچھ نہیں ہوگا، اس لیے کہ یہ ایک علیحدہ چیز ہے، یہ ایک معمہ ہے اور اس کا حل بس صرف اور صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ایسے راستے ہم اپنائیں کہ جن سے انہیں روحانی طورپر شکست دی جاسکے اور روحانی طورپر ہم انہیں ختم کرسکیں۔ ‘‘2

یہود اور ان کے پیچھے کھڑے صلیبی نصاریٰ کی قساوت ِ قلبی، عداوتِ حق، مکاری اور شیطنت دیکھ کر سمجھ میں آجاتاہے کہ کیوں ہر نماز،بلکہ ہررکعت میں صراط ِمستقیم پر چلنے کے ساتھ ساتھ یہود و نصاریٰ کے نقشِ قدم پر قدم نہ رکھنے کی دعا بھی اللہ نے اہل ایمان کو سکھلائی ہے۔ پھرسبحان اللہ، اس دعا میں بھی پہلے یہود اور اس کے بعد نصاریٰ کا ذکر آتاہے، اول غیر المغضوب عليهم ہے، جس سے مراد یہود ہیں اور اس کے بعد ولا الضّالین ہے جو نصاریٰ کی طرف اشارہ کرتاہے۔ اللہ کی کتاب اور تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام دشمنی میں یہود پہلے نمبر پر ہیں اور اس کے بعد پھر دوسروں کی باری آتی ہے۔ پھر یہ بھی تاریخ کہتی ہے اور آج کا منظرنامہ بھی اس کی تصدیق کرتاہے کہ نصاریٰ کو گمراہ کرنے اور انہیں حق کے خلاف استعمال کرنے میں اہل کتاب ِ یہود کا کتنا ہاتھ ہے، آج بھی واضح ہے کہ امریکہ و یورپ کو تباہی کی راہ پر ڈالنے میں قوم ِ یہود کا کردار کتنابڑا ہے اور کس طرح آج امریکہ عملی طورپر خود اسرائیل ہی کی ایک صورت اختیار کر گیاہے۔پھر اللہ کی کتاب نے یہ تفصیل بھی بتائی ہے کہ یہود ’مغضوب علیہم‘کیوں بن گئے اور نصاریٰ ضالین کیوں ٹھہر ائے گئے۔ آج آپ یہودکے مذہبی پیشواؤں کی تصریحات وبیانات سنیں تو یہ حقیقت آج کے دور میں بھی اپنی جگہ قائم رہتی ہے کہ یہود حق کو حق جان کر اس کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اللہ کا دین اسلام ہے، روحانیت بنو اسماعیل( یعنی امت ِ محمد ﷺ )کے پاس ہے، مسلمان ہی اللہ کے آخری پیغام وہدایت کے حامل ہیں،مگر اس سب کے باوجود بھی یہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف برسرِپیکار ہیں اور باقاعدہ حزب الشیطان بن کر، بلکہ شیطان کی کھلی بندگی کرتے ہوئےرحمانی طاقتوں کے خلاف سر ٹکرا رہے ہیں۔

اللہ کی کتاب یہود کی اس ہٹ دھرمی و بدبختی کی کیا وجوہات بتاتی ہے؟ یہ حسد، تکبر، ناشکری اور اللہ کے ساتھ دعوائے ٔمحبت کے باوجود اللہ کی رضا پر اپنی رضا، اپنی خواہش اور اپنی رائے کو ترجیح دینا،بلکہ اپنی خواہش و اپنی چاہت کو خدا کا درجہ دے دینا ہے، یہ وہ وجوہات ہیں کہ جن کے باعث یہود اللہ کے مغضوب ٹھہر گئے۔ پھر ہمیں ان کی روش سے بچنے کی تلقین کرکے اصل میں ان کی ان صفاتِ مذمومہ ہی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے، خیر و شر کے اس معرکہ میں صرف وہی فرد اہل خیر کی صف میں کھڑا ہو پائےگا جو اپنے اندر سے یہ غلیظ صفات نکالنے کی سچی کوشش کرتاہو…… لہٰذا عزم و تڑپ ہو کہ ہماری اپنی زندگی میں یہ ایمان کش اور اللہ کی دشمنی کو دعوت دینے والی خصلتیں کبھی نہ آجائیں اور ہم بہرصورت، چھوٹے بڑے امور میں، اپنے دعوتی وجہادی معاملات میں بھی، ان جرائم سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے تنبیہ کی ہے کہ یہود نے جو کچھ کیا، جو جو بری صفات انہوں نے اپنائیں، تم بھی وہی کچھ کروگے، یعنی تمہاری اکثریت بھی وہی غلط راہ اپنائےگی اور پھر تم بھی اُنہی کی طرح ذلت و مسکنت اور غلامی سے دوچار ہوں گے۔اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے، ہمیں حق کے ساتھ ساتھ، اس کی اتباع کرتے ہوئے رکھے اور کبھی ہمیں اپنے نفس کے حوالے نہ کرے۔

اگلی متعلقہ بات یہ ہےکہ حاخام نے اہل ایمان کے خلاف جس حربے کو کام میں لانے کی بات کی ہے، یہی تجویز ہزاروں سال قبل عہدِ موسیٰ علیہ السلام میں بلعم بن باعورا نامی ایک یہودی عالم نے بھی دی تھی، جب بنی اسرائیل اور جبارین آمنے سامنے تھے، اس وقت اس نے جبارین سے مال لےکر موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی قوم کے خلاف بددعا کی، جب بددعا نے الٹا اثر دکھایا توپھر جبارین کو اس نے مشورہ دیا کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم زیر کرنا ممکن نہیں، اس لیے کہ یہ حق پر ہے اور ان کے درمیان نبی موجود ہے، ہاں ان کے لشکر میں نوجوان لڑکیاں بھیجواور انہیں گناہوں میں مبتلاکرو، یہ ہوگاتواللہ کی نصرت ان سے دور ہوگی اور پھرجاکر یہ تمہارے خلاف کبھی کامیاب نہیں ہوں گے، گویااہل حق کے خلاف دشمنان دین کا ہمیشہ ہی یہ ایک بڑا حربہ رہاہے۔

برطانیہ نے فلسطین پر اپنے قبضے کے دوران جب یہودیوں کو ارض قدس میں بسانا شروع کیا تو جہاں ایک طرف عسکری قوت انہوں نے استعمال کی، وہاں ساتھ ہی دوسری طرف نوجوانوں کو ’مہذب ‘ بنانے کے لیے ان میں سینما اور ایسے سٹیج ڈرامے متعارف کروائے جن میں نوجوان عورتیں اپنے ’فن‘ کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ مسلمانانِ فلسطین اور بالخصوص علمائے کرام نے اس سب کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ ۱۹۳۶ء میں قدس کے اندراُس وقت کے مفتیٔ قدس شیخ امین حسینی رحمہ اللہ کی سرپرستی میں چھ سو علماء کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی، اس کانفرنس میں ایک اعلامیہ پڑھا گیا جو شرکائے کانفرنس کی طرف سے ایک قرارداد اور اعلان کی حیثیت رکھتا ہے اور جو آج بھی محفوظ ہے۔ اس میں ا نہوں نے جہاں برطانوی حکومت سے یہود کو مسلمانوں کی زمین پر آباد نہ کرنے کا مطالبہ کیا اور اس کے خلاف اپنی مخالفت و مزاحمت کو فرض قرار دیا وہاں چھٹے نکتے پر فلسطین میں سینما اور ڈرامہ کلچر کو فروغ دینے کی بھی بھرپور مخالفت کی اور اس کو اپنے دین و معاشرت کے لیے خطرناک قرار دیا۔

غزہ کی جنگ کے آغاز میں نیتن یاہو نے ایکس (ٹوئٹر) کے مالک کے ساتھ گفتگو کی جو میڈیا میں عام ہوئی، اس میں اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنے عزائم اور جنگ کا نقشہ بیان کیا۔کہا کہ اول کام غزہ میں حماس، دیگر ’دہشت گردوں ‘ اور ان کے معاونین کو ختم کرنا ہے، اس کے بعد (تباہ حال) غزہ کی تعمیرِ نو اور وہاں کی سیاسی قیادت تبدیل کرنا ہدف ہے۔ اس نے کہا:

’’ہمارے عرب دوستوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ہی غزہ کی دوبارہ تعمیر کا خرچہ اٹھائیں گے۔‘‘

تیسرا اہم ہدف جس پر کام ہورہاہے وہ عرب ممالک میں ثقافتی تبدیلی لا نے کا ہےکہ یہ تبدیلی آئےگی تو تب ہی کہیں جاکر شدت پسندی ختم ہوگی اور دہشت گردی کی جڑ کٹےگی۔ اس نے کہا:

’’ایسی تبدیلی ناممکن نہیں بلکہ اس کی کامیاب مثالیں یہاں عرب ہی میں ہمارے سامنے موجود ہیں، آپ اگر دبئی، ابو ظبی اور بحرین چلے جائیں تو یہ آپ کوبالکل مختلف محسوس ہوں گے، سعودیہ میں یہ تبدیلی لائی جارہی ہے اور دیگر ممالک میں بھی اس پر کام جاری ہے۔‘‘

گویامشرق وسطیٰ پر قبضہ اور اسے اپنی دجالی حکومت کے لیے مرکز بنانا اہم ترین ہدف ہے اور ان کے ساتھ اس نقشے میں عرب حکومتیں اور افواج رنگ بھر رہی ہیں۔ انہیں اصل خطرہ جہاد و مجاہدین سے ہے اور اس کے لیے وہ ایک طرف مجاہدین اور ان کے انصارکو بذریعۂ جنگ ختم کر رہے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی اُس روحانی قوت کوہدف بنارہے ہیں جس کے باعث، حاخام کی زبانی،وہ اپنے دین کی خاطر لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے جزیرہ عرب کو بے حیائی و بدکاری اور فسق وفجور کے فسادِ عظیم میں غرق کرنا وہ واحد ذریعہ سمجھتے ہیں اور اسی کو وہ ثقافتی تبدیلی یا انقلاب کا نام دیتے ہیں۔ یہ وہ تبدیلی ہے کہ جس کو ابن سلمان نے وژن ۲۰۳۰ کا نام دیاہے اور اپنے ایک انٹرویو میں اس کو یہ کہنے میں بھی کوئی خوف یا حیا محسوس نہیں ہوئی کہ مستقبل کا یورپ یہی مشرق وسطی ہوگا…… یہ سارا منصوبہ اب خفیہ نہیں رہا، اسے اب سب جانتے ہیں اور یہاں اس کی تکرار ہمارا مقصود نہیں، مقصود یہاں ایک دوسری بات کی طرف توجہ دلانا ہے جوآگے ان شاء اللہ عرض کرتے ہیں۔

یہ آگ محض مشرق وسطی میں نہیں لگی، پورا عالم اسلام اس کی لپیٹ میں ہے اور یہ جنگ چند ماہ یا چند سال پہلے شروع نہیں ہوئی بلکہ ایک صدی سے زیادہ عرصہ سے جاری ہے اور نام نہاد آزادیاں ملنے کے بعد بھی یہ کبھی ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکی۔ ابھی آخر میں افغانستان کی زمین ہی کسی حد تک (نہ کہ پوری طرح )اس آگ سے محفوظ ہوسکی، جہاں اہل ایمان نے جہادفی سبیل اللہ کیا، صہیونی شیاطین اور ان کے غلاموں کو مار بھگایا اور امربالمعروف ونہی عن المنکر کا شرعی نظام قائم کیا۔ باقی برصغیر سے عالم عرب تک، پورے عالم اسلام کی کہانی ہرہر جگہ صد فی صد ایک طرح کی افسوس ناک ہے۔ہرجگہ ایک ہی طرح کی غلامی، ایک ہی طرح کے دشمن اور ان کا ایک ہی طرح کا طرزِ جنگ جاری ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے آپ کو حالت جنگ میں محسوس کیاہے؟

کیا ہم نے قبول کیاہے کہ ہماری ہی کہلانے والی افواج و حکومتیں ہماری کبھی نہیں رہی ہیں بلکہ یہ دشمن ہی کے مورچہ میں کھڑی ہمارے ہی خلاف کفر کی جنگ لڑ رہی ہیں؟

اگر نہیں تو کیا ہم نےدیکھا نہیں کہ اگر یہاں ایک طرف امریکہ و اسرائیل کے خلاف جہاد کرنے والوں کو گولیوں سے چھلنی کیا جاتاہے، شریعت ِ محمدی ﷺ کو حاکم دیکھنے والوں سے جیل اور عقوبت خانے آباد کیے جاتے ہیں، تو ساتھ ہی دوسری طرف بے دینی، بے حیائی اور فسق وفجور کو حکومت ہی کے وسائل اور طاقت سے رائج کیا جاتاہے…… ایک ہی وقت میں یہ دونوں طرح کے کام اور مہم ایک ہی جنگ کے دو ہتھیار ہیں،ایک ہی تلوار کے دو رُخ اور ایک ہی دشمن کے دو حربے ہیں اور دونوں کا مقصد فقط یہی ہے کہ ظلم وفساد غالب اور اللہ کا عدل والا دین مغلوب ہو، ہم اور ہماری نسلیں اللہ کے دین سے محروم ہوکر مریں اور جب تک زندہ ہوں توانہیں شیاطین کے غلام اور ماتحت بن کر ذلت ورسوائی والی زندگی جئیں!

آج غزہ کی تباہی دیکھ کر اور اس میں اپنی افواج و حکام کا شرمناک کردار دیکھ عالم اسلام کی سیاسی حقیقت پہلے سے کہیں زیادہ واضح نظر آنے لگی ہے اور اللہ کا فضل ہے کہ اب ہمارے عوام وخواص دونوں میں کہاجانے لگاہے کہ ہم مسلمان بطورِ امت آزاد نہیں، ہماری افواج و حکومتیں ہماری نہیں اور یہ ہمارے ہی خلاف دشمنان امت کا دفاع کررہی ہیں، اس حقیقت کو جان لینے اور تسلیم کرنے پر اللہ کا شکر ہے، دیر آید درست آید!

مگر سوال یہ ہے کہ کیایہ بات کہہ کر اورمحض احتجاج و جلوس نکال کر ہم اپنا فرض پورا کررہے ہیں؟ کیا بس اس سطح کے غم وغصہ کے اظہار سےہم اس جنگ کو اپنے حق میں تبدیل کرپائیں گے؟ جبکہ واضح ہے کہ یہ جنگ صرف غزہ میں نہیں لڑی جارہی، غزہ میں تو اس کے نتائج ہیں جو ہم بھگت رہے ہیں، یہ ہمارے ہی شہروں، گلی کوچوں، بلکہ گھر وں اور بیڈروموں تک میں لڑی جارہی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ بم اور گولوں سے شہید ہونے والے تو نظر آجاتے ہیں اور ان کا احساس بھی ایک حد تک ہوجاتاہے مگر دلوں کے اندر ایمان کا جو خون کیا جارہاہے،امت محمدﷺ کے جوانوں کو رحمان کی پارٹی سے نکال نکال کر شیطان کی پارٹی میں جو بھرتی کیا جارہاہے ا س تباہی کا کسی کو احسا س نہیں، کوئی نہیں جو جنگ کے اس محاذ پر اپنی لاشیں گن لے، ان میتوں پر آنسو بہائے اوراس جنگ کے مقابل اٹھنے اور لڑنے کی صدا لگائے! حالانکہ یہ تباہی کوئی کم خطرناک نہیں، اس لیے کہ اس کا شکار مسلمان پھر اپنے سامنے امت کی ذلت اور اس کی آخری حد تک تباہی دیکھتاہے مگر ٹس سے مس تک نہیں ہوتا،اور اسے ٹس سے مس ہونے سے روکنے والا امر یہ ہے کہ امت کی تباہی کا احساس کرنے سے پہلے ہی اس نے اپنی آخرت تباہ کرنا قبول کر لیا ہے۔

ایسی صورت حال میں مسلمانوں پر ظلم دیکھ کر، اگر کسی کا دل دکھتاہے اور وہ احتجاج کرنے نکلتاہے تویہ مذموم نہیں، محمود ہے، اس پر ہر دردِ دل رکھنے والے کو اس کا شکرادا کرنا چاہیے کہ یہ بھی اگر نہ ہوتا تو کیسے پتہ چلتا کہ یہ امت مردہ نہیں زندہ ہے اور اس میں اپنوں کے درد کا احساس ابھی باقی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ دور غزہ کے مسلمانوں کے حق میں چند باتیں کرنے اور اسرائیل وامریکہ کے خلاف غصہ نکال کر کیا ہم اپنا فرض ادا کرچکے؟ اس سے دشمنان اسلام کو کیا واقعی کوئی نقصان پہنچ پائے گا اور مظلوم اہل ایمان کواس سے کیاکچھ مل جائے گا؟

افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے اور جب معاملہ یہ ہے تو حالات کا تقاضہ ہے کہ ہماری انفرادی تگ و دو، اور اجتماعی سعی و تدبیر، جن میں اجتماعات، جلسہ و جلوس اور احتجاج بھی آتے ہیں،ضروری ہے کہ یہ سب زمین پر حق وباطل کی کشمکش میں حق کی نصرت اور باطل کے خلاف پیش قدمی میں معاون ثابت ہوں، اورایسا صرف اُس وقت ہی ہوسکتاہے جب ہم منبرو محراب، قلم وزبان اور ہر قسم کے اجتماع و احتجاج کو وقت کے اہم ترین فرض، یعنی جہاد فی سبیل اللہ کا شعور بیدار کرنے، دوست و دشمن کی پہچان عام کرنے، سبیل مجرمین کا شعور پیدا کرنے اور دشمنان دین کے خلاف جہاد و جدوجہد کرنے والوں کی تائیدونصرت پیدا کرنے کے لیے استعمال کریں،ساتھ ہی ساتھ ان سرگرمیوں کے ذریعے عوام میں ایسی معاشرتی وسماجی قوت تشکیل دینا بھی اپنا ہدف و مقصد بنائیں جو مطالبات اور منت سماجت پر تکیہ نہ کرے، بلکہ منظم قوت سے فسق و فجور اور بے حیائی وبے دینی پھیلانے والی قوتوں پر راستہ تنگ کردے اور معروف کو روکنے اور منکرات کوپھیلانے کی شیطانی جنگ میں بالآخر انہیں ناکامی کا منہ دیکھنے پر مجبور کردے،ایسا ہوگا تو ہم، عملی طور پر، زمین پر حق کی کوئی نصرت کر پائیں گے اور باطل کے خلاف کوئی پیش قدمی کرنے کے قابل ہوں گے۔

گویاضروری ہے کہ ایک ایک فرد، مرد و خاتون انفرادی طورپر، اپنے اپنے دائرۂ اثر میں، گھرو خاندان اور دکان و دفتر میں ایسا ماحول پیدا کرے کہ جہاں ایمان پلے بڑھے، اللہ کی محبت اور اس کے ساتھ تعلق جہاں پیدا ہو،شریعت پر عمل محبوب اور آسان ہو، جہادی جذبہ، اس کی فکر وغم اور میدان عمل کے مجاہدین پیدا ہوں اور ساتھ ہی ساتھ پھر معاشرے میں جہادی تعارف سے الگ اجتماعی طورپر ایسی قوت بھی تشکیل پائے کہ جن کے اجتماعات اور احتجاجات کا مقصد الیکشن میں کسی کو جتوانا اور ہرانا نہ ہو، بلکہ جو ایک آواز اور ایک قوت بن کر منکرات کے آگے بندباندھنے کاباعث بنے اور جو دستیاب عوامی قوت کے ذریعے فراعنہ عصر اور ان کے غلاموں پر زمین ایسی تنگ کردے کہ وہ ایک طرف مجاہدین ِاسلام کو اپنے خلاف لڑتےپائیں تو دوسری طرف ایسے اہل دین کا اپنے گرد محاصرہ دیکھیں جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کافرض ادا کرتے ہوں اور جو امریکہ اور اس کے غلاموں کے لیے دلوں میں نفرت و عداوت پالتے ہوں…… ایسا اگر ہوگا،اور اہل دین عوام اور مجاہدین کا اس طرح اگرایک رُخ ہوگا تو ہم واقعی کوئی مثبت پیش رفت کر پائیں گے، اس سے اپنے اور اپنی اولاد کے ایمانوں کو کسی حد تک محفوظ کرپائیں گے اور نتیجے میں ایسی ایک نسل تیار کرلیں گے جو’صہیونی ہندتوا‘ فساد کوروکنے کے لیے سرہتھیلی پر رکھ کر مقابلہ کریں گے اورجو اپنا خون پسینہ بہاکر امت مسلمہ کو آزادی دلانے والے لشکرتشکیل دیں گے۔

لیکن اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو ا، ہماری محنت وتحریک سے نہ مجاہدین امت قوی ہوتے ہوں اور نہ ہی مجرمین ِامت کا کوئی نقصان ہوتاہو،تو اللہ نہ کرے کہ ہم ان میں شامل ہوجائیں جو حرکت تو کررہے ہوں مگر سفر کٹنے کانام ہی نہیں لیتاہو،اپنے زعم میں دین پر عمل تو کر رہے ہوں مگر اس کے باوجود دین داری معاشرے سے ختم ہورہی ہو، دشمنان دین کے خلاف غصہ تو نکال رہے ہوں مگر دشمنان دین کے آگے میدان خالی چھوڑ کر انہی کو قوت، سپاہی اور راستہ فراہم کررہے ہوں۔

سچ یہ ہے اور انسانی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ حق و باطل کی کشمکش میں سکون کبھی نہیں رہا، اگر آپ بیٹھے رہیں گے اور باطل کے سامنے کھڑے ہوکر اس کو بزور پیچھے نہیں دھکیلیں گے تو وہ آگے بڑھے گااور آپ کا محاصرہ کرکے آپ کو دبوچ لے گا، آپ کے دل و ذہن تک سے ایمان و اسلام نوچ ڈالے گا اور آپ کی مساجد و مدارس کو مسمار کرکے اپنے عبادت خانوں میں تبدیل کرے گا…لیکن اگر آپ بڑھیں گے، مقابلہ کریں گے تو وہ مکمل طورپر مٹتاہے یانہیں، آپ کی یہ کشمکش اور جہاد آپ کے اپنے دین و ایمان اور آپ کی نسلوں کے اسلام کی حفاظت کا ضامن ضرور بنے گا۔

یہ وہ اول انعام ہوتاہے جو بہرحال مزاحمت وجہاد کے نتیجے میں اللہ اہل حق کوعطا کردیتاہے، جبکہ دوسرا انعام جو دین اسلام کا غلبہ اور فتنہ و فساد کا خاتمہ ہے، اس کا بھی اللہ نے دعدہ کیا ہے اور اسے جہاد پر صبرو استقامت کے ساتھ مشروط کیاہے۔کفر و اسلام کی جنگ میں ایسا نہیں ہے کہ آپ جزیرے میں محصور ہوں گے اور آپ کا جزیرہ کبھی ڈوبے گا نہیں، طوفانوں نے بہرحال چلناہے،کفر کے طوفان کا رخ آپ اسی کے خلاف موڑیں گے تو آپ محفوظ رہ سکیں گے، ورنہ طوفانوں سے الگ اور غافل و لاتعلق جو بھی بیٹھے گا وہ ڈوبے گا، آج نہیں تو کل، کوئی قوت ایسے بے عمل اور بے حوصلہ لوگوں کو ڈوبنے سے نہیں بچاسکتی۔

اللہ ہماری امت کو توفیق دے، ہماری قوم کی رہنمائی فرمائے کہ ہم اس جنگ کو سمجھیں، اس میں اپنے آپ کو کھڑا کریں، جہاد فی سبیل اللہ اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض ادا کریں۔ ایسا کریں گے تو ہم اللہ کے ہاں سرخرو ہوں گے، اس کی پکڑ سے بچیں گے ورنہ صبح و شام امریکہ و اسرائیل کو برا بھلا کہنے اور مسلمانان غزہ ا ور ہند وکشمیرکے حق میں تقاریر کرنے،یا احتجاجی جلسہ و جلوس نکالنے سے نظر نہیں آتا کہ ہم اس رات کو دن میں تبدیل کرسکیں گے اور عصر حاضر کی سنگین اور دردناک حقیقت کو تبدیل کرنے میں کوئی ایسا کردار ادا کرپائیں گے کہ جس کے بعد ہمارا شمار امت مرحومہ کے زخموں پر مرہم رکھنے والوں میں ہو، نہ کہ اس امت پر ظلم ڈھانے والوں میں۔ اللہ ہمیں بامعنی اور پراثر عمل کرنے کی توفیق دے اور اللہ ہمیں بے عملی اور بے فائدہ عمل سے بچنے والا بنائے، نیز اللہ ہماری ہر ہر کوشش اور ہر ہر عمل کو قبولیت بخشے اور انہیں اپنی محبت کا ذریعہ ثابت فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

٭٭٭٭٭


1 یہودی پیشواؤں کا لقب

2 بحوالہ: www.twitter.com/hamedalalinew

Exit mobile version